Pathan Apny Bhai Se

Pathan Apny Bhai
 Se Pathan Apny Bhai Se Tum Hamari Shadi Per Kiya Khas Kaam Kero Gy. Bhai. Hawaai Firing To Sab Kerty Hen. Hum KhudKash Hamla Kary Ga. HahahahaAmazing Video

Qarz e Hasna

Qarz e Hasna
 Teacher. Qarz-e-Hasna Kisay Kehty Hen. Pathan. Jab Qarz Deny Wala Paisay Wapis Mangay Aur Qarz Leny Wala HANS De. To Usay Qarz-e-Hasna Kehty Hen. HahahahaAmazing Video

Ek Tiger Ny Pathan Ko

Ek Tiger Ny Pathan Ko
 Ek Tiger Ny Pathan Ko Chidya Ghar Me Maar Diya. Malik. Tum Ny Pathan Hi Ko Q Mara. Tiger. Us Ny Dimagh Kharab Ker Diya Tha. Kab Se Keh Raha Tha. Itna Bara Billi Hahahahatvdramahits

School Male hai Ya Female


school Male hai Ya Female Sardar
. School Male hai Ya Female. Pathan. Pata nahi Yara. Usme Ghanta bhi hota hai aur Periods bhi. Bohat Confusion hai Hahahahatvdramahits

Me Kon

Pathan knocks the door Sardar: kaun hai Pathan. Me hoon Sardar. Me kaun Pathan. O Khana Kharab Ka Bacha. Tu Khud ko hi Bhool gaya.

Ek Molvi Taqreer

 Ek Molvi Taqreer Ker Raha Tha.. "Ek Waqt Aaye Ga Jab Bhai Bhai Ka Nahi, Behan Behan Ki Nahi, Maa Beti Ki Nahi, Baap Bete Ka Nahi, Sab ko Apni Fikar Ho Gi. Wo Konsa Waqt Ho ga. Pathan. Aftaari Ka Waqt

Pathan Apna Mobile

 Pathan Apna Mobile Qabrustan Me Dafna Raha Tha. Dost: Ye Kiya Ker Rahy Ho. Pathan: Yara Dukan Wale Ny Kaha Hai K Mobile DEAD Ho Gaya Hai

Pathan AirHostess Se

Pathan AirHostess SeAirHostess. Bakwas Band Kero. Pathan.MaShaAllah Zabaan Bhi Milta Hai. HahahahaAmazaing Video

ترکی میں صدارتی محافظوں کے دستے کو ختم کرنے کا فیصلہ

ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اعلیٰ صدراتی محافظوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا ہے کہ صدارتی محافظوں کی ’اس ریجمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘ بن علی یلدرم ہبر ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’یہاں اب صدارتی محافظ نہیں ہوں گے، ان کا کوئی مقصد نہیں، کوئی ضرورت نہیں۔‘ ٭ ’ترکی میں مزید گرفتاریاں ہو سکتی ہیں‘ ٭ ہزاروں نجی سکولوں اور تنظیموں کو بند کرنے کا حکم * اردوغان کی’جوابی بغاوت‘ میں نشانے پر کون؟ صدراتی محافظوں کی تعداد 2500 کے قریب ہے لیکن ان میں سے کم از کم 283 کو ناکام فوجی بغاوت کے بعد حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے بھتیجے کو ترکی میں گرفتار کیا گیا جبکہ صدراتی حکام کے مطابق فتح اللہ گولن کے ایک اہم ساتھی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ صدر طیب اردوغان کی جانب سے ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد شروع کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 60 ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کو معطل کیا جا چکا ہے۔ گذشتہ ہفتے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت بھی نافذ کر رکھی ہے۔ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر اردوغان کو پارلیمان کو بائی پاس کرنےاور بعض شہری حقوق معطل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ تاہم انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ترک شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔

دوسری جانب ترکی کے نائب وزیراعظم نورتن کانیکلی نے کہا ہے کہ ناکام بغاوت کے بعد ملک میں ہونے والی گرفتاریاں بغاوت کرنے والے گروہ کے جلاوطن رہنما گولن کے حمایتیوں کی ملکی اداروں میں موجودگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ ترکی کے نائب وزیراعظم نے بی بی سی کو بتایا کہ بغاوت میں ملوث ہونے والے مزید افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ترک حکومت امریکہ میں مقیم مبلغ فتح االلہ گولن پر الزام عائد کرتی ہے کہ ملک میں بغاوت ان کی ایما پر کی گئی ہے تاہم وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ 40 برسوں سے دہشت گرد ننظیم ملک کے مزید حصوں میں سرایت کر گئی ہے جس میں وزارتوں سمیت تمام ادارے اور نجی سیکٹر بھی شامل ہیں۔

Ghalti

Ghalti
 Admi, Mujhy Sardar Bana Do. Doctor: Us K Liye Tumhara 50% Dimagh Nikalna Pary Ga. Admi. Nikal Do. Doctor Ny Ghalti Se 90% Dimagh Nikal Diya. Admi Hosh Me Aa Ker Bola.Oye Khocha. Ye Tum Ny Kiya Ker Diya. Hahahaha
Amazing Video

Pathan Ny Bachay Ka Naam MQM Rakha

Pathan Ny Bachay Ka Naam MQM Rakha Pathan
 Ny Bachay Ka Naam MQM Rakha. Dost: Tum Ko To MQM Se Nafrat Hai, Phir Tum Ny Apny Bete Ka Naam MQM Kiyun Rakha. Pathan: Hum Sari Duniya Ko Batana Chahta Hai K Pathan MQM Ka Baap Hai.p
Amazing Video

Tumhary Mobile me Balance Hai

Tumhary Mobile me Balance Hai Pathan
Kiya Tumhary Mobile me Balance Hai. Sardar: Haan Hai Q. Pathan: O Yara Hum Ko Apni Wife Ko I Love U Ka Msg Kerna Hai.p Hahahaha

Pathan Larki Ki Shadi Hui

Pathan Larki Ki Shadi Hui. Magar Valima 10 Din K Baad Rakha. Dulhan Ki Dost Ny Us Ki Maa Se Pucha: Valima Itny Din Baad Q Rakha?? Dulhan Ki Maa: Abhi Kiya Kare Ni, Dulha Ko "HOLE" Hi Nai Mila Tha Ni, To Valima Kese Hota.-p . Hole.Hall Hahahah

Pathan Apny Bhai Se

Pathan Apny Bhai Se: Tum Hamari Shadi Per Kiya Khas Kaam Kero Gy. Bhai: Hawaai Firing To Sab Kerty Hen,  Hum KhudKash Hamla Kary Ga. Hahahaha

Main Khelti Hun Sub Rangon Se Magar

Main Khelti Hun Sub Rangon Se Magar Tere Ishq Ka Rang Hai K Utarta Hi Nahi

Tu Uth K Roya Kary Chaand Raaton Main

Tu Uth K Roya Kary Chaand Raaton Main Khuda Kary Tera Mere Baghair Jee Na Lage...

Koi To Dard Ki Had Ho Jahan Ye Dil Thehre

Koi To Dard Ki Had Ho Jahan Ye Dil Thehre Kahin To Chaaon Ho Aisi K Dum Lia Jaye Bikhar Bikhar Si Gai Hai Tamam Hasti Hi Rafu Karen Bhi To Kya Aur Kya Siya Jaye...

Bachon Ki Tarha Chahe Mujhe Dant Le Koi

Bachon Ki Tarha Chahe Mujhe Dant Le Koi Lekin Ye Shart Hai Mere Gham Bant Le Koi...

Apna Lehja Sambhaliye Sahib

Apna Lehja Sambhaliye Sahib Har Koi Be-Zaban Nahi Hota...

اولڈ ٹریفرڈ میں انگلینڈ کا پہلے بلے بازی کا فیصلہ

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا کرکٹ میچ جمعے سے مانچسٹر میں شروع ہو گیا ہے۔ اولڈ ٹریفرڈ کے میدان میں کھیلے جانے والے میچ میں انگلینڈ نے اب سے کچھ دیر قبل تک بغیر کسی نقصان کے آٹھ رنز بنا لیے تھے۔ * میچ کا تفصیلی سکور کارڈ ٭ پاکستان چھ برس بعد انگلینڈ میں: خصوصی ضمیمہ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور الیسٹر کک اور ایلکس ہیلز نے اننگز شروع کی ہے۔ ٹاس جیتنے کے بعد الیسٹر کک کا کہنا تھا کہ ’پچ پر تھوڑی بہت گھاس ہے لیکن زیادہ نہیں۔گراؤنڈز مین نے ایک اچھی پچ تیار ہے۔ ہمارے پاس کچھ غلطیوں کو سدھارنے اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کا موقع ہے۔‘ اس موقع پر مصباح الحق کا کہنا تھا کہ چاہے آپ پہلے بلے باز کریں یا بولنگ۔بات منظم انداز میں کھیلنے کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی بولر پہلے سیشن میں وکٹ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

پاکستانی ٹیم اس میچ کے لیے کسی تبدیلی کے بغیر میدان میں اتری ہے جبکہ انگلینڈ نے اپنی ٹیم میں دو تبدیلیاں کی ہیں۔انگلش فاسٹ بولر جیمز اینڈرسن اور آل راؤنڈر بین سٹوکس یہ میچ کھیل رہے ہیں اور انھوں نے سٹیون فن اور جیک بال کی جگہ لی ہے۔ جیمز اینڈرسن اور سٹوکس کے بارے میں ٹاس جیتنے کے بعد انگش کپتان نے کہا کہ ’جمی ایک بہترین بولر ہے۔ بین سٹوکس ایک ایسا کھلاڑی ہے جسے بہت سارے اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہیں گے۔‘ چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کو ایک صفر کی برتری حاصل ہے جو اسے لارڈز میں کھیلے گئے میچ میں 75 رنز سے فتح کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان کی جیت میں یاسر شاہ کی دس وکٹوں اور کپتان مصباح الحق کی سنچری نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اولڈ ٹریفرڈ انگلینڈ کی ٹیم کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ سنہ 2001 میں پاکستان سے ٹیسٹ ہارنے کے بعد میزبان ٹیم اس میدان پر نو میں سے سات ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے اور دو ڈرا ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اولڈ ٹریفرڈ میں سات ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں سے ایک جیتا ہے ایک میں اسے شکست ہوئی ہے، جبکہ پانچ ڈرا ہوئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کو ’محفوظ‘ ملک بنانے کا وعدہ

امریکہ میں رپبلکن پارٹی کی طرف سے بطور صدارتی امیدوار نامزدگی قبول کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو لاحق خطرات دور کر دیں گے۔ اوہایو میں پارٹی کے کنونشن کے آخری مرحلے میں انھوں نے اپنے خطاب میں کہا: ’جن جرائم اور تشدد نے ہمارے ملک کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے وہ جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔‘ ٭ ڈونلڈ ٹرمپ سے بے روزگار امریکیوں کی توقعات ٭ ٹرمپ کی حمایت نہ کرنے پر ٹیڈ کروز کی تضحیک ٹرمپ نے موجودہ امریکہ کی سیاہ تصویر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی صدارت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں امریکہ اور عام آدمی کو اولیت حاصل ہوگی۔ پارٹی نے انھیں گذشتہ روز ہی صدارتی امیدوار کے لیے نامزد کیا تھا جسے انھوں نے قبول کیا اور پھر کنونشن سے خطاب کیا۔اس موقع پر امریکہ کے سابق صدور اور پارٹی کی سرکردہ شخصیات بش سینیئر اور جونیئر موجود نہیں تھے جنھوں نے ٹرمپ کی نامزدگی کی سخت مخالفت کی تھی۔ نیو یارک کے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی کہ اس خطاب سے ریپبلکن پارٹی کے اندر اختلافات رفع ہو جائیں گے اور پارٹی متحد ہوگی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی جو تصویر پیش کی اس کے مطابق امریکہ نہ صرف بکھر رہا ہے بلکہ تنزلی کی راہ پر ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ’بھولے جا چکے‘ امریکیوں کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کی آواز ہوں۔‘ ’ہم اپنے ملک کو پھر سے محفوظ، خوشحال اور پر امن بنائیں گے۔

یہ ایک فیاض اور پرجوش ملک ہو گا۔ لیکن ہم ایسا ملک ہوں گے جہاں امن و امان ہو۔‘ انھوں نے کہا: ’ہمارا عقیدہ امریکن ازم ہوگا بین الاقوامیت نہیں۔‘ اپنے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف ہلیری کلنٹن پر بار بار شدید نکتہ چینی کی اور ان کے لیے موت، تباہی اور کمزوری جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ نومبر کے انتخابات میں ہلیری کلنٹن کو شکست دیں گے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے ہم جنس پرستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایل جی بی ٹی کے حقوق کی پاسبانی کرنے کی بات کہی اور کہا کہ وہ اس برادری کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ دوسری جانب ہلیری کلنٹن کی مہم کے چیئرمین جان پوڈیستا نے ٹرمپ کی تقریر کو منقسم کرنے والی قرار دے کر ان پر نکتہ چینی کی۔انھوں نے کہا: ’ڈونلڈ ٹرمپ نے زوال پذیر امریکہ کی سیاہ ترین شبیہ پیش کی ہے اور اس سے مزید خوف، مزید تقسیم، زیادہ غصّہ اور نفرتوں کا جواب ملتا ہے، یہ ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی تھی کہ ان کا مزاج عہدہ صدارت کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔‘ گذشتہ روز رپبلکن پارٹی کے ایک سینیئر رہنما ٹیڈ کروز نے بھی اسی کنونشن سے خطاب کیا تھا لیکن انھوں نے بھی ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تھی جس کے سبب ان کی تضحیک کی گئی تھی۔ ریاست ٹیکسس سے سینیٹر ٹیڈ کروز بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہی صدارتی امیدوار کی ریس میں شامل تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس مقابلے میں دونوں ایک دوسرے کے سخت ترین حریف تھے۔

انڈین فضائیہ کا طیارہ خلیج بنگال میں لاپتہ

انڈیا کی فضائیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی شہر چنّئی سے پورٹ بلیئر کے لیے روانہ ہونے والا ایک فوجی طیارہ خلیج بنگال کے اوپر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا ہے۔ فضائیہ کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ طیارہ اے این -32 قسم کا کارگو طیارہ تھا اور اس کی تلاش جاری ہے۔ انڈین فضائیہ کے مطابق اس طیارے پر 20 سے زائد افراد سوار ہیں۔

فضائیہ کے پی آر او انوپم بینرجی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس طیارے نے جمعے کی صبح ساڑھے آٹھ بجے پرواز کی تھی اور اس نے 11:30 بجے لینڈنگ کرنا تھی۔ فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ہوائی جہاز سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے اور اس کی تلاش کا کام جاری ہے۔ بعض انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اس جہاز میں 29 افراد سوار تھے۔ انڈین فوج اور فضائیہ میں اے این -32 جہازوں کا وسیع استعمال ہوتا ہے کیونکہ ان میں سامان لانے لے جانے کی صلاحیت کافی اچھی ہوتی ہے۔

کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی واضح برتری

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن نے تمام 41 نشستوں پر ہونے والے دسویں عام انتخابات میں اب تک کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 41 میں سے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگئی ہے، جس کے ساتھ ہی اس نے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لی ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت بنانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ خیال رہے کہ سنہ 1991 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی جماعت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اتنی بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔ صحافی اورنگزیب جرال کے مطابق اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کو 31، پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے صرف دو نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کر پائی جبکہ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار ایک، ایک نشست حاصل کر پائے۔ان عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی، جمعیت علما اسلام کے علاوہ 19 جماعتوں نے حصہ لیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے 219 جبکہ 204 آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لے لیا ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن میاں نعیم اللہ کے مطابق اس مرتبہ انتخابات میں ووٹوں کا تناسب 65 فیصد سے زائد رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا: ’اگرچہ روایتی طور پر اسلام آباد میں برسرِ اقتدار جماعت ہی اے جے کے میں انتخابات جیتتی ہے، لیکن میں پھر بھی پی ایم ایل این کو جیت پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔‘ اس کے برخلاف اس خطے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سردار جاوید ایوب نے صحافی اورنگزیب جرال سے بات کرتے ہوئے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے یہ نتائج بھاری رقوم کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔ نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت مسلم لیگ ن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والے تحریک انصاف کے سربراہ اور اس خطے میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سطان محمود نے بھی اپنے مخالفین پر الیکشن کے دوران پیسوں کی تقسیم کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کےسربراہ راجہ فاروق حیدر نے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے الزامات کی سختی تردید کی ہے۔

اس خطے میں شکست سے دوچار ہونے والی جماعتوں کی عمومی روایت رہی ہے کہ انھوں نے پہلے مرحلے میں کبھی بھی نتائج تسلیم نہیں کیے۔اس خطے میں خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (سردار صغیر) نے پہلے ہی سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس خطے کے آئین اور قانون کی رو سے ایسی تنظیموں یا افراد پر انتخابی عملی میں شرکت کی ممانعت ہے جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہیں رکھتیں۔ یہاں رائج انتخابی عمل پر جہاں الحاق پاکستان کی سیا سی و مذہبی جماعتیں سوال اٹھاتی رہی ہیں، وہیں خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ پابندی کا اطلاق انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کشمیر کے اس علاقے کے انتخابی قانون کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدوار کے لیے ایک ایسے حلف نامے پر دستخط کرنا ضروری ہیں جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، متنازع کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔ اسی طرح رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف اٹھایا جائے۔ اس خطے میں عمومی وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔

بچوں سے جنسی تعلق کے جرم میں آسٹریلوی کھلاڑی کو سزا

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور رگبی کے کھلاڑی مائیکل کیوئن کو امریکی عدالت نے بچے کے ساتھ جنسی تعلقات کے مقدمے میں مجرم قرار دیا ہے۔ امریکی شہر لاس انجلس کی عدالت نے کہا کہ 33 سالہ مائیکل کیوئن نے رواں سال مئی میں امریکہ میں اپنے قیام کے دوران ایسے شخص سے رابطہ کیا جو جنسی تعلقات کے لیے بچے فراہم کرتا تھا۔ انھیں 21 مئی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب انھوں نے ایک چھ سالہ بچے کے حصول کے لیے ایک خفیہ ایجنٹ کو 250 ڈالر ادا کیے۔ اس مقدمے میں آسٹریلوی کھلاڑی کو 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ کیوئن نے عدالت کو بتایا کہ وہ اجنبی شخص سے آن لائن بات کر رہے تھے اور وہ پانچ سے دس سال کی عمر کے لڑکوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ لاس اینجلس کے مقامی ہوٹل میں انھوں نے اپنے ’ہم خیال‘ افراد کو پارٹی میں مدعو کیا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا وہ پارٹی اُن کے بارے میں تحقیقات کے لیے ایک خفیہ آپریشن کا حصہ تھی۔

امریکہ کی اٹارنی ایلین ڈیکر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حکام نے اس ’بات کو یقینی بنایا کہ اس کارروائی کے دوران کسی بچے کو نقصان نہ پہنچے اور اپنی غلطی کے لیے مسٹر کیوئن کو سنگین تنائج کا سامنا کرنا ہوگا۔‘ عدالت میں انھوں نے تسلیم کیا کہ اُن کے پاس اس کے سوا اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں ہے کہ انھوں نے خوفناک طریقے سے بچوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک قابلِ مذمت اقدام کیا ہے۔ مائیکل کیوئن رگبی کے کھلاڑی ہیں لیکن وہ میلبرن کی کلینک میں جنیٹک کے ماہر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی رگبی کی ٹیم کو مائیکل کیوئن کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اُن کی سزا رواں سال اکتوبر سے شروع ہو گی۔

روسی ایتھلیٹس کی اولمپکس میں شرکت پر پابندی برقرار

کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت نے مبینہ طور پر روسی حکومت کی سربراہی میں کھلاڑیوں کو ڈوپنگ کی ادویات فراہم کیے جانے پر روسی ایتھلیٹس کی اولمپکس میں شرکت پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ روس کی ایتھلیٹک فیڈریشن کو عالمی ایتھیلیٹکس فیڈریشن آئی اے اے ایف نے اس معاملے پر ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد معطل کر دیا تھا۔ ٭ ’روس نے سوچی اولمپکس میں ڈوپنگ کی‘ ٭ ’روسی ایتھلیٹس پر پابندی کا فیصلہ غیر منصفانہ ہے‘ روسی اولمپک کمیٹی اور 68 روسی ایتھلیٹس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی تاہم فریقین کے بیانات سننے کے بعد عدالت نے پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔ دریں اثنا عالمی اولمپک کمیٹی بھی ان مطالبات پر غور کر رہی ہے کہ روس پر پانچ اگست سے شروع ہونے والے اولمپکس کے تمام مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی جائے۔ثالثی عدالت کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ ’عدالتی پینل نے تصدیق کر دی ہے کہ روسی اولمپک کمیٹی ریو اولمپکس کے لیے اپنے ٹریک اینڈ فیلڈ کے ایتھلیٹس کو نامزد

کرنے کی حقدار نہیں کیونکہ وہ آئی اے اے ایف کے مقابلوں کے قوانین کے تحت اولمپکس میں شرکت نہیں کر سکتے۔‘ عالمی ایتھیلیٹکس فیڈریشن نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت نے اس کے موقف کی حمایت کی اور اس فیصلے کے نتیجے میں سب کھلاڑیوں کو برابر موقع ملے گا۔ خیال رہے کہ حال ہی میں عالمی انسداد ڈوپنگ ایجنسی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 2011 سے 2015 کے عرصے میں موسم سرما اور موسم گرما کی اولمپکس کے دوران روسی کھیلوں کی کمیٹی نے اپنے کھلاڑیوں کے پیشاب کے نمونوں میں ہیرا پھیری ’کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی کی۔‘ رپورٹ کے مطابق روس نے سوچی میں منعقد ہونے والے سنہ 2014 کی موسم سرما کے اولمپکس کھیلوں میں کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لیے ڈوپنگ پروگرام جاری کیا تھا۔

’شین وارن کے بعد یاسر شاہ بہترین لیگ سپنر

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر بین سٹوکس کا کہنا ہے کہ یاسر شاہ ’شین وارن کے بعد سب سے بہترین لیگ سپنر ہیں۔‘ 30 سالہ یاسر شاہ نے لارڈز ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 141 رنز کے عوض دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور اس میچ میں پاکستان نے 75 رنز سے کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ خیال رہے کہ لارڈز ٹیسٹ میں بین سٹوکس اور جیمز اینڈرسن شرکت نہیں کر سکے تھے اور جمعے کو اولڈ ٹریفورڈ میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے دونوں کو سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ بین سٹوکس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان بہت اچھی ٹیم ہے لیکن ہم یہ ٹیسٹ یہ جانتے ہوئے کھیلیں گے کہ وہ کیسے بولنگ کرواتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا توڑ ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ یاسر شاہ 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور ٹیسٹ بولنگ رینکنگ میں 11 سال بعد شین وارن کے بعد کسی لیگ سپنر نے اول پوزیشن حاصل کی ہے۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے شین وارن سنہ 2007 میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے تھے اور انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 145 میچ کھیل کر 708 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 25 سالہ بین سٹوکس مئی میں سری لنکا کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں گھٹنے کی انجری کا شکار ہوگئے تھے۔ گذشتہ دنوں اپنی کاؤنٹی ڈرہم کی طرف سے کھیلتے ہوئے انھوں نے لنکاشائر کے خلاف ایک میچ کی دوسری اننگز میں 19 اووز کروائے اور تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نیٹس میں بولنگ کرواتا رہا تھا لیکن میچ کے دوران بولنگ کروانے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔اس سے میرے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ‘ جب ان سے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شکست ہوئی ہے۔ ہم اس کو تین میچوں کی سیریز کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہم یہ جیت سکتے ہیں۔‘

کسٹم انسپکٹر کا قتل، ایان علی کے وارنٹ جاری

راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی ملزم ایان علی کے کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کے مقدمے میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ مقتول کی بیوہ عاصمہ چوہدری کی طرف اپنے خاوند کے قتل کے مقدمے میں عدالت اور متعقلہ پولیس کو دیے گئے بیان میں ملزمہ ایان علی کو نامزد کیا گیا ہے۔ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کا نام ملزمہ ایان علی سے غیر ملکی کرنسی برآمد ہونے کے مقدمے میں گواہ کی حثیت سے شامل ہے اور ملزمہ سے کرنسی برآمد ہونے کے دوماہ کے بعد اُنھیں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ مقامی پولیس نے پہلے یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا تاہم مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کے بیان کے بعد ایان علی کو اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی۔ راولپنڈی کی پولیس نے اس مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے متعدد بار نوٹس بھیجے لیکن ایان علی تفیش کے سلسلے میں پولیس میں پیش نہیں ہوئیں۔

اس پر متعلقہ تھانے کی پولیس نے مقامی عدالت میں ملزمہ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست دی جسے سول جج گلفام لطیف بٹ نے ایان علی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق ملزمہ ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے اگلے ایک دو روز میں پولیس کی ٹیم کراچی روانہ کردی جائے گی۔ مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کی درخواست پر پنجاب حکومت نے آیان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جسے منظور کرلیا گیا جبکہ اس سے پہلے وزارت داخلہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکال چکی تھی۔ ایان علی کو گذشتہ برس پانچ لاکھ امریکی ڈالر دوبئی لےکر جانے کی کوشش میں بےنظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے قانون میں دس ہزار امریکی ڈالر بیرون ملک لے کر جانے کی اجازت ہے۔ ملزمہ ایان علی کی غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی پیروی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ کر رہے ہیں۔

’کیا نوٹس سے ججوں کی عزت و وقار بحال ہو جائےگا‘

پاکستان کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب ججز کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی تو ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھ کر کیسے تبصرے کیے جاسکتے ہیں؟ اگر کسی کو ججز پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا آئینی راستہ موجود ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں بدامنی کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا میں کوتاہی کے بارے میں سماعت کے موقعے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم پیش ہوئے۔ ٭ پاکستانی فوج کے زیر انتظام ریڈیو پر پیمرا سے جواب طلب ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ابصار عالم نے بتایا کہ تین ٹیلیویژن چینلز پر پروگرام کیے گئے تھے جن کا پیمرا نے نوٹس لیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس سے کیا ججوں کی عزت وہ وقار بحال ہو جائےگا؟ ان چینلز کا لائسنس کیوں نہیں منسوخ کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق آپ یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ابصار عالم نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک دم انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں تو عدالتیں ناراض ہوتی ہیں اس وجہ سے مرحلے وار کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے پیمرا کی کارروائی اور نوٹس کا جائزہ لیا اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی عدم حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی، جسٹس مشیر عالم، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 28 جولائی کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ

وہ آ کر عدالت کو بتائیں کہ سوشل میڈیا پر جـجز کے خلاف مہم کی روک تھام کے لیے انھوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ سماعت کے دوران رینجرز کی موجودگی اور اس کو حاصل پولیس کے اختیارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت پوری ہوگئی ہے، عدالت کو اس پر ہدایت کرنی چاہیے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے واضح کیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو انتظامی طور پر ہی حل کیا جائے عدالت اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو نادرا ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسگ کی جدید سہولت دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اویس شاہ سمیت دیگر مقدمات میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے پاس ٹو جی مانیٹرینگ نظام ہے اس لیے اس کو تھری جی ڈیٹا نہیں مل سکتا۔ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کی کئی ڈیوائسز دستیاب ہیں اور کئی شہروں میں تھری جی اور فور جی کی سہولیات موجود ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان اس کا فائدہ اٹھا کر واٹس اپ اور دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے انٹرنیٹ کالز کرتے ہیں جن تک رسائی کی ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں، پولیس کو اس کی اجازت دی جائے۔‘ جسٹس خلجی عارف حسین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی اور سندھ میں امن کا قیام چاہتی ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر انداز میں کارروائی کرسکیں۔ انھوں نے وفاقی سیکریٹری اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ پولیس کے شکایتی مرکز 15 کا ریکارڈر دو ہفتوں میں بحال کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی حکومت بتائے کہ اویس شاہ کے اغوا میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

’نواز شریف کے خلاف مقدمہ انڈیا کی پوائنٹ سکورنگ‘

وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے انڈیا کی عدالت میں درخواست دینا انڈیا کی طرف سے پوائنٹ سکورنگ ہے۔ جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میں پاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ ’پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ سرتاج عزیز نے کہا کہ ’تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن انڈیا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ اس لیے مذاکرات کی میز پر نہیں آ رہا۔‘ واضح رہے کہ انڈیا کے شہر انبالہ کی ایک عدالت میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف اینٹی ٹیررسٹ فرنٹ انڈیا نامی تنظیم کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں ’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے حزب المجاہدین کے شدت پسند برہان وانی کو شہید قرار دینا اور پاکستان میں اس سلسلے میں یومِ سیاہ منانا انڈیا کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے۔‘ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا کے زیر انتظام کمشیر میں نہتے کشمریوں پر انڈین افواج کے مظالم کا معاملہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے لے کر جائےگا۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ انڈیا کی افواج کو چھرے والی گن کے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے انڈیا کی حکومت پر دباؤ ڈالے جس کے استعمال سے ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف اور انڈین وزیر اعظم کے درمیان تعلقات پر تنقید کے بارے میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں وزراء اعظم کے درمیان تعلقات ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ ریاستی سطح کے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نریندر مودی دن میں کتنی مرتبہ میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کرتے ہیں پاکستان کو تو اس بات سے مطلب ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کتنی سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں پاکستان سے مذاکرات کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان خلاف ورزیوں پر انڈیا کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔

’دباؤ میں ہوں گے تو توجہ سے کھیلیں گے ‘

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم کو خود پر زیادہ دباؤ لینے کی ضرورت ہے۔ مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گرؤنڈ میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ’بطور ٹیم ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم تھوڑا دباؤ لیں، کیونکہ دباؤ لیں گے تو اگلا میچ زیادہ توجہ کے ساتھ کھیلیں گے۔‘ ٭ لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح ٭ 20 سال بعد لارڈز میں پاکستان کی شاندار جیت مصباح الحق نے کہا کہ تمام کھلاڑیوں کے درمیان یہی بات ہوئی ہے کہ انگلینڈ اب زیادہ جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ ’ان کی ٹیم میں لیگ سپنر، آل راؤنڈر اور ایک فاسٹ بولر کی واپسی ہوئی ہے جس کے بعد وہ مزید مضبوط ٹیم بن گئی ہے اس لیے ہمیں اور زیادہ محنت کرنا ہوگی۔‘ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ جمعے سے اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا جائے گا۔ ایک صحافی نے مصباح سے سوال کیا کہ کیا پاکستان اسی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے گا جس کے ساتھ اس نے لارڈز میں فتح حاصل کی تھی؟ اس پر مصباح الحق نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ مجھے انگلینڈ ٹیم کی طرف سے لگ رہے ہیں۔

ٹیم کے بارے میں آپ کو کل ہی پتہ لگے گا۔‘ پاکستانی ٹیم لارڈز کرکٹ گراؤنڈ جیسے جشن کا سلسلہ آئندہ میچوں میں بھی جاری رکھی گی یا نہیں؟ اس پر مصباح الحق نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف ٹرینرز کی محنت پر انھیں داد دینے کے لیے تھا اور یہ پیغام ہم نے دے دیا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ ہر میچ میں ایسا جشن منایا جائے۔‘ وہاں موجود صحافی نے سوال کیا کہ دو سال قبل انڈیا کی ٹیم نے بھی لارڈز ہی کے میدان پر انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی تھی اور کچھ ایسا ہی جشن منایا تھا، لیکن بعد میں وہ تین ایک سے سیریز ہار گئے۔ تو آپ کیسے اس طرح کی سوچ سے لڑکوں کو دور رکھیں گے؟ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ مخالف ٹیم کو آسان نہیں لے سکتے اور ہم مخالف ٹیم کی قوت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارے جشن کا انڈیا کی ٹیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہمیں آئندہ تینوں میچوں میں سخت محنت کرنا ہوگی۔‘ اولڈ ٹریفرڈ کی پچ کے بارے میں قومی ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا: ’پچ اچھی اور سخت لگ رہی ہے اس پر سپن اور باؤنس بھی ہوگا اس لیے میرے خیال میں فاسٹ بولرز کو مدد ملے گی۔‘ یاسر شاہ کے حوالے سے مصباح الحق نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔’انھیں معمولی سے چوٹ آئی تھی جس کے بعد وہ اب ٹھیک ہیں۔‘ یاد رہے کہ لارڈز کے تاریخی میدان پر کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو 75 رنز سے شکست دی تھی۔

’پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘

انڈیا کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میںپاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان میں یومِ سیاہ ٭ ’ٹی وی چینل کشمیر کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتے‘ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو لوک سبھا میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے بار بار پاکستان کا نام لیا اور کہا کہ ’آج کشمیر کی صورت حال کو بگاڑنے میں اگر کسی کا اہم کردار ہے تو وہ ہمارے پڑوسی کا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پڑوسی انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر انڈیا میں کوئی بھی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ اپنے حالات بہتر کرنے کے بجائے وہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘انھوں نے کشمیر کے تعلق سے پاکستان کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو پاکستان میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ ’ہمارا پڑوسی ناپاک حرکتیں کر رہا ہے۔‘ پارلیمان میں کشمیر کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور حکومت اسے بہتر کرنے کی کوشش کرےگی۔

راج ناتھ سنگھ نے کہا: ’ہمیں کشمیر میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کشمیری شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کا دفاع کیا اور کہا کہ ’انھوں نے صبر سے کام لیا ہے اور وہ خود بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ کشمیر میں چھرّے والی بندوقوں کا استعمال پہلی بار ہوا ہو اور اس کی شروعات تو 2010 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا: ’ہم ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں کے استعمال کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے اور وہ دو ماہ کے اندر ہی اس بارے میں اپنی رپورٹ دے گي۔‘ ان کے بقول اس کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئي فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتے قبل نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں اب تک 42 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔زخمیوں میں سے بڑی تعداد لوہے کے تیز دھار اور نوکیلے چھرّے لگنے سے زخمی ہوئی ہے اور ان کی وجہ سے درجنوں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ احتجاجی لہر کے آغاز کے بعد سے وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور مواصلات کی دیگر سہولیات بھی بند کر دی گئی ہیں۔ کشمیر میں چند دن قبل اخبارات کی اشاعت اور نیوز چینلز پر بھی عارضی طور پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اب اٹھا لیا گیا ہے۔

فوج کو کوئی ریڈیو لائسنس جاری نہیں کیا: پیمرا

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پیمرا کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی فوج کو کبھی کوئی ریڈیو لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔ اسلام آباد میں جمعرات کو پاکستانی میڈیا ریگولیشن سے متعلق ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے پیمرا کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ پاکستان فوج کا تعلقات عامہ کا شعبہ آئی ایس پی آر ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایف ایم چینلز چلا رہا ہے۔ ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ’ریڈیو پاکستان سمیت تمام سرکاری میڈیا پیمرا کے دائر اختیار میں نہیں آتا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان کی سروسز بڑھا رہے ہیں۔‘ بدھ کو ہی سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیرِانتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی اس درخواست میں عاصمہ جہانگیر نے ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر اخراجات اور آمدن کے ذرائع بھی مانگے ہیں۔ پیمرا اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں تمام مذہبی ٹی وی چینلز لائسنس کے بغیر چل رہے ہیں۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ ابھی تک مذہبی چینلز سے متعلق کوئی پالیسی مرتب نہیں کی گئی ہے۔ ’کیو ٹی وی جیسے کئی چینل بغیر لائسنس کے عدالتوں کے حکم امتناعی کی بنیاد پر نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت پیمرا سے لائسنس یافتہ 203 ایف ایم ریڈیو چینل چل رہے ہیں جن میں سے 160 کمرشل ہیں۔ انھوں نے پاکستانی میڈیا سے متعلق ادارے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں کہا کہ ’پاکستانی میڈیا بےلگام آزادی چاہتا ہے اور چینل ریٹنگ کی دوڑ میں جعلی خبریں چلاتے ہیں۔‘ عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمیٰ سے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ پیمرا کے حکام امتیازی رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ برطانوی میڈیا ریگولیٹری ادارے ’آف کام‘ کی ماریہ ڈونڈ نے اس موقع پر بتایا کہ ان کا ادارہ 800 عملے کے ساتھ برطانیہ کے تمام میڈیا کی نگرانی کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پیمرا کے اہلکار کے مطابق ان کے عملے کی تعداد چھ سو ہے۔ ڈاکٹر مختار کا عملے کی تعداد کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں پیمرا کا دفتر نہ ہو تو لوگ قانون اور ضابطے کو نہیں مانتے۔

’قندیل ہی ہمارا سہارا تھی، بیٹے کو معاف نہیں کریں گے‘

ملتان میں اپنے بھائی کے ہاتھوں ’غیرت کے نام پر‘ قتل ہونے والی سوشل میڈیا کی مقبول پاکستانی شخصیت قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بی بی سی اردو کی صبا اعتزاز سے خصوصی بات چیت میں محمد عظیم اور انور بی بی کا کہنا تھا کہ قندیل کے قتل پر ان کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور اسے بےقصور مارا گیا۔ ٭ قندیل بلوچ کا قتل: کب کیا ہوا؟ ٭ ’کہتی تھی میرا ٹائم آ گیا ہے۔۔۔‘ ٭قندیل کے مقدمۂ قتل میں غیرت کے قتل کی دفعہ شامل قندیل بلوچ کو 15 جون کی شب ان کے بھائی وسیم نے قتل کر دیا تھا اور پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد انھوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔ قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ وسیم نے قندیل کو قتل کر کے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ محمد عظیم، والد قندیل بلوچ ’سزا ملنی چاہیے، اس کی غلطی ہے، اس نے ناجائز قتل کیا۔ایسا کیوں کیا اس نے؟ میں نہیں معاف کروں گی بیٹے کو۔ میری لائق بچی، مردوں کی طرح بہادر لڑکی تھی، کیا قصور کیا تھا اس نے؟‘ قندیل کی والدہ نے واردات کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم وسیم نے جمعے کی شام ان کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا لیکن اس نے اپنے رویے سے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ ’بھائی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا ہے۔ اس نے ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ قندیل کا برا چاہ رہا ہے۔ میرے دل میں کوئی شک نہیں پڑا کہ میرا بیٹا میری بیٹی کے ساتھ یہ کرے گا۔‘ انور بی بی نے کہا کہ وسیم نے انھیں اور ان کے شوہر کو دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے کہ قندیل کے قتل کے وقت کیا ہوا۔ ’میرا شوہر اور میں سو گئے۔ دودھ ہم پی چکے تھے جس میں نشہ ملا کے دیا ہمیں۔ صبح قندیل کو آواز دی کہ بیٹا ناشتہ کر لو ۔ پہلے وقت پر اٹھ جاتی تھی پر وہ نہیں اٹھی۔ میں نے سوچا جا کر دیکھوں ، یہ کس طرح کی نیند آئی ہوئی ہے اس کو، سفید چادر اوڑھ کر پڑی ہوئی ہے۔‘ انور بی بی نے بتایا کہ جب انھوں نے قندیل کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ان کے سارے چہرے پر نشان تھے جبکہ زبان اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ وسیم نے اپنے دوستوں میں قندیل کو جانی نقصان پہچانے کی بات بھی کی اور جب قندیل کو معلوم ہوا تو اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔ ’جیسے آج کل حالات چل رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ وسیم قندیل کو مارنے لگا ہے۔ جب قندیل کو پتہ لگا اس نے کہا بڑا آیا مجھے مارنے والا! پھر میں نے اور اس کے باپ نے اسے (وسیم کو) ملامت کی کہ اس لیے بڑے ہوئے ہو کہ بہن کی جان لے لو۔‘ اس سوال پر کہ قندیل بلوچ تو ایک عرصے سے شوبزنس میں تھیں تو ان کے بھائیوں کو اب اس پر اعتراض کیوں ہوا، انور بی بی نے بتایا کہ قندیل کے بھائیوں کو ان کے شوبزنس میں جانا شروع سے ہی پسند نہیں تھا تاہم حالیہ واقعات کے بعد ان کا ’ذہن خراب ہوا۔‘ ’پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔‘ قندیل کی والدہ کے مطابق وہ صرف ان کی بیٹی ہی نہیں دوست بھی تھیں اور اپنے کریئر کے بارے میں بھی ان سے بات کرتی رہتی تھیں۔ ’ماں بیٹیاں دکھ سکھ بانٹتی ہیں ، دل کے راز بتاتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی تھی کہ تیری بیٹی نے بہت محنت کی ہے اور بہت اوپر چلی گئی ہے۔ اس دفعہ آئی تو کہہ رہی تھی تیری بیٹی کے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔ کہہ رہی تھی میرا ٹائم آ گیا ہےترقی کا۔‘ان کا کہنا تھا کہ بیٹوں کے برعکس قندیل ہی ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ ’ہم پیچھے سے بہت غریب ہیں ،

ہمیں بیٹی سہارا دیتی تھی۔ بیٹے شادی شدہ ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہیں وہ ہمارا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمیں پیار کرتی تھی۔گاؤں سے یہاں لے کر آئی تھی کہ آپ کا خرچہ اٹھا سکتی ہوں۔‘ انور بی بی کا کہنا تھا کہ انھیں قندیل کے کام پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کی ترقی پر خوش تھے۔ ’ہم تو خوش تھے، اس کے ماں باپ تو خوش تھے باقی جو جل رہے تھے انھوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ محنت کر کے آگے چلی گئی، ہم تو خوش تھے اس کے ساتھ۔‘ قندیل کے والد محمد عظیم کا بھی کہنا ہے قندیل ان کے لیے کسی بھی اچھے بیٹے سے بڑھ کر تھی۔ ’بیٹی بھی تھی، دوست بھی تھی جگری، بیٹا بھی، ایک اچھے سے اچھے بیٹے سے اچھی، میں کیا بتاؤں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ بیٹی کے قتل پر بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔ انور بی بی ’سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔‘ اس سوال پر کہ انھوں نے اپنے دوسرے بیٹے جو فوج میں ملازم ہے،کا نام ایف آئی آر میں کیوں درج کرایا، محمد عظیم نے کہا ’ایک جنونی بیٹا تھا، فوج میں ہے، کہتا تھا کہ شادی کر لو نہیں تو میری بہن نہیں ہو۔ میں نشے میں تھا۔ ان کی ناراضگی کی وجہ سے میں نے ناجائز اس غریب کا نام لے لیا ، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، وہ ملوث نہیں تھا۔‘ جب قندیل کے والد سے پوچھا گیا کہ آیا بیٹی کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو انھوں نے کہا کہ ’جب سے عبدالقوی والی بات ہوئی، تب سے لوگ شکایتیں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’انھوں نے بھڑکایا کہ اس کا پہلے شوہر ہے ، وہ تو خود ہی مان گئی تھی کہ طلاق یافتہ ہے لیکن وہ اسے کو میڈیا پر لے کر آئے اور اسے کہا کہ گلے کرے ، شکایتیں کرے۔‘ ’مفتی عبدالقوی کے نام پر یہ جھگڑا اٹھا پاکستان میں۔ اس جھگڑے میں سارا کچھ ہو گیا۔ وہ ڈری ہوئی تھی، کئی بار کہتی تھی کہ اگر کوئی گھر کے باہر میرا پوچھتا ہے تو اسے پوچھو کون ہے؟‘

اردوغان کی’جوابی بغاوت‘ میں نشانے پر کون؟

ترکی میں گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ہزاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں فوجیوں، ججوں اور اساتذہ کو برخاست کیا جا چکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی میں نو ہزار افراد زیر حراست ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک معاشرے سے تطہیر کے عمل میں 58 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ترک شہریوں کو خوف لاحق ہے کہ آنے والے دن بری خبریں لانے والے ہیں۔ کس کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہےجوں ہی یہ واضح ہوگیا کہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے تو ترکی میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ پہلے اس کا نشانہ سکیورٹی ادارے بنے پھر ’صفائی‘ کا یہ عمل ترکی کے تمام سویلین ڈھانچے تک پھیل گیا۔ ایک ترک کالم نگار کے بقول ترکی میں ’جوابی بغاوت‘ جاری ہے اور بغاوت کے انداز میں ہی اداروں کی ’صفائی‘ کا عمل جاری ہے۔ بظاہر طیب اردوغان ریاستی اداروں میں قائم متوازی نظام کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو امریکہ میں مقیم ان کے سابق حلیف اور موجودہ دشمن فتح اللہ گولن نے قائم کر رکھا ہے۔ ترک صدر کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ فتح اللہ گولن کی تحریک کتنی وسیع ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ گولن کو ماننے والے صدر اردوغان کے قریبی پوسٹوں تک پہنچ چکے تھے اور ایسے افراد میں صدر اردوغان کے فوجی مشیر علی یازیچی اور ایئرفورس کے مشیر ارکان کیورک بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ فتح اللہ گولن کا گروہ اس بغاوت کے پیچھے تھا اور وہ صدر تک پہنچنے میں صرف دس سے 15 منٹ دور رہ گئے تھے۔کہاں کہاں صفائی ہو رہی ہے؟ سرکاری اداروں کی صفائی اتنی وسیع ہے کہ بہت کم لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ اس ’صفائی‘ کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ کس کس محکمے کےکتنے لوگ زیر حراست ہیں یا ملازمتیں کھو چکے ہیں: ٭ 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجی زیر حراست ہیں ٭ آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭1481 ججوں سمیت عدلیہ سے تین ہزار عہدیداروں کو ہٹایا جا چکا ہے ٭ محکمہ تعلیم سے 15 ہزار دو سو ٹیچروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ پرائیوٹ سکولوں سے تعلق رکھنے والے 21 ہزاروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ 1577 یونیورسٹی ڈینز کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں ٭ وزارت خزانہ سے 1500 لوگوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭ 492 کلرک، مبلغ اور مذہبی استادوں کو بھی ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے ٭سوشل پالیسی منسٹری 393 افراد کے عملے کو برخاست کر دیا گیا ہے ٭ وزیر اعظم کے دفتر سے257 افراد کو نکال دیا گیا ہے ٭ خفیہ اداروں کے ایک سو اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے تعلیمی نشانے پر کیوں؟ صدر رجب طیب اردوغان نے سنہ 2002 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ رجب طیب اردوغان کے دور حکومت میں مذہبی سکولوں جنھیں ترک زبان میں ’امام ہطپ‘ کہا جاتا ہے میں رجسٹریشن میں 90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

طیب اردوغان ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نیک نسل کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ طیب اردوغان نے سنہ 1997 میں آنے والے فوجی انقلاب کے بعد بند کیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ان سکولوں کو بند کر کے ترکی کے قلب کی شریان کو بند کر دیا گیا تھا۔ طیب اردوغان نے مبلغ فتح اللہ گولن کو ماننے والوں کے زیر انتظام ملک سے باہر چلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی بند کرانے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کی حکومت نے رومانیہ میں 11گولینسٹ تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ان اداروں کو بند کردیں۔ گولینسٹ اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ وہ رومانیہ کے قانون کے تحت چلتے ہیں نہ کہ ترکی کے۔ جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے ڈینز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے ک جن کو مستعفیٰ ہونے کا کہا گیا ہے وہ شاید فتح اللہ گولن کے ماننے والے’گولینسٹ‘ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی کی تین سو یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے ماہرین تعلیم کی بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے اور ایسے ماہرین تعلیم جو پہلے ملک سے باہر ہیں انھیں کہا گیا ہے کہ وہ وطن واپس پہنچ جائیں۔ اتنے زیادہ سرکاری اہلکار نشانے پر کیوں؟سنہ 2010 میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 3227 افراد نے نقل کے ذریعے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکومت کا خدشہ تھا کہ سارے لوگ فتح اللہ گولن کے ماننےوالے ہیں۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد شاید اردوغان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ سول سروس کو فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کر دیں۔ ایک اور خدشہ یہ ہے کہ ترکی کی حکومت علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حکومت سے نکال رہی ہے۔ ترکی میں علوی لوگوں کی تعداد 15 ملین ہے۔ ترکی کی اے کے حامیوں کی تعداد زیادہ سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ علوی شیعہ اور سنی اسلام کی ایک مشترکہ شکل سمجھی جاتی ہے۔ اردوغان اب کیا کریں گے؟ امید کی جا رہی ہے کہ صدر اردوغان بدھ کے روز ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ صدر اردوغان جو کچھ کر رہے ہیں اس کا موازنہ 12 ستمبر 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کا بہت کم امکان ہے کہ ترکی میں مارشل لاء لگا دیا جائے کیونکہ ناکام بغاوت کی بعد فوج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہنگامی اقدامات کیےجانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، جن میں بغیر کسی الزام کے لوگوں کو حراست میں رکھنا اور پارلیمانی منظوری کے بغیر ہی سرکاری اہلکاروں کو برخاست کرنے کے اختیارات میں توسیع ہو سکتی ہے۔ ترکی میں 12 برس پہلے پھانسی کی سزا ختم کر دی گئی تھی۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ عوامی مطالبے پر پھانسی کی سزا کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔صدر اردوغان ملک کو مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کرنے کا عہد دہراتے رہتے ہیں۔ فتح اللہ گولن جو ماضی میں صدر طیب اردوغان کے سیاسی حلیف تھےسنہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے بہت لوگوں کو اپنا دشمن بنایا ہے لیکن ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ فتح اللہ گولن کے ماننے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدن کا 20 فیصد عبداللہ گولن کی تنظیم کو دیتے ہیں اور وہ ترکی کے ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان میں بعض نے بغاوت میں شریک ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ فتح اللہ گولن کے ایک ماننے والے کے مطابق بغاوت کا حکم ایک نجی تعلیمی ادارے کے استاد جسے بگ برادر بھی کہا جاتا ہے، سے آیا تھا۔ ترکی میں گولینسٹ کون ہے اس کے بارے میں واضح طور اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جب سنہ 2013 میں صدر اردوغان کے بیٹے اور ان کے کئی وزیروں پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے اس وقت بھی ترک صدر نے اس کا الزام فتح اللہ گولن کی دہلیز پر دھرا تھا۔

’پاکستان آنے پر غیرملکی کھلاڑیوں کو اضافی رقم ملے گی‘

پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدھ کو لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا کہ پی ایس ایل کے آئندہ ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں دعوت دی گئی ہے۔ ٭ سپر لیگ: بورڈ کو منافع، فرنچائزز کو نقصان ٭ پی ایس ایل کتنی کامیاب؟ نجم سیٹھی نے کہا کہ ’پاکستان آ کر کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو اضافی پیسے دیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ان کی اس حوالے سے بات ہو گئی ہے اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کے دورہ کراچی کے دوران ان کی ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر سے ملاقات ہوئی جس میں انھیں پی ایس ایل کراچی میں کروانے کے صورت میں سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔‘

’میں نے شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ تیار نہیں ہیں تو ہم کراچی میں کروا لیتے ہیں جس پر انھوں نے کہا کہ پی سی بی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے تو یہیں ہونا چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے الگ پیکیج تیار کیاگیا ہے جس کے تحت ان سے کہا جا رہا ہے کہ آخری میچ لاہور میں کھیلنے کی صورت میں انھیں اضافی پیسے دیے جائیں گے۔ نجم سیٹھی نے بتایا کہ لاہور میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں 14 کمرے تیار کروائے جا رہے ہیں۔ ’اگر لاہور میں فائنل کروانے کی بات بن جاتی ہے تو کھلاڑیوں کو این سی اے میں ہی ٹھہرایا جائے گا کیونکہ ہوٹل سے آنے جانے میں مسئلہ ہوتا ہے۔‘ اس کے علاوہ پی ایس ایل کے آئندہ سیزن میں نئی ٹیم کو شامل کرنے کے حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ٹیمیں پانچ ہی رہیں گی کیونکہ دیگر پانچوں فرنچائزز اس پر نہیں مانیں ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان سپر لیگ کا آغاز رواں سال کے آغاز میں متحدہ عرب امارات میں ہوا تھا جس کا فائنل اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم نے جیتا تھا۔

کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان میں یومِ سیاہ

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 42 افراد کی ہلاکت کے خلاف پاکستان بھر میں سرکاری سطح پر’یوم سیاہ ‘منایا جا رہا ہے۔ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ ’عالمی برادری کو پاکستان کے حوالے سے یہ بات بطور خاص پیشِ نظر رکھنی ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو فریق مانا ہے۔ اب اگر کشمیر میں انسانوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے تو پاکستان ان واقعات سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔‘ ٭ کشمیر میں اخبارات اور ٹی وی پر بھی قدغن ٭برہان کے بعد کشمیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر سفارتی، سیاسی اورانسانی حقوق کے محاذ پر ان کا مقدمہ لڑا جائے گا۔‘انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔تیرہ روز سے جاری ان واقعات میں اب تک 42 کشمیری شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد میں’کشمیر ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ’ہندوستان جو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،

اُس جمہوریت میں بھی کشمیر کی آواز کو کُچلا جا رہا ہے۔ کشمیر کی آواز کو بند کرنے کے لیے کے لوگوں کو زندگیوں سے محروم کیا جارہا ہے۔‘ پرویز رشید نے کہا کہ’ہم یومِ سیاہ منا کر دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں۔انھیں انصاف دلانا چاہتے ہیں اور دنیا کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔‘ واضح رہے کہ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیےتمام سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ اسلام پریس کلب پر سیاہ پرچم لہرایا گیا ہے جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سےمختلف مقامات پر خصوصی تقریبات، مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب مذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہحافظ سیعد کی سربراہی میں لاہور سے اسلام آباد تک ’کمشیر کاروان‘ نکالا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان شریک ہیں۔ کاروان میں شریک افراد کا مؤقف تھا کہ ’کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہو رہا ہے جسے پاکستانی میڈیا میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’آج وہ کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سخت گرمی میں بھی سڑکوں پر نکلے ہیں تاکہ حکومت پہ دباؤ ڈال سکیں کہ وہ کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پہ اٹھائے۔‘

پاکستانی فوج کے زیر انتظام ریڈیو پر پیمرا سے جواب طلب

سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی ایک متفرق درخواست پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیمرا کے حکام سے جواب طلب کیا ہے۔ ٭ فوج ہر سطح پر احتساب کی حمایت کرے گی‘ ٭ شیر کا احتساب کون کرے گا؟ اس متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت اور پیمرا کو حکم دے کہ وہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور اس پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرے۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا آئی ایس پی آر کو ریگولیٹ کرنے سے قاصر ہے۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس پی آر کے حکام سے میڈیا مہم پر عوامی پیسہ خرچ ہونے کے بارے میں پوچھا جائے، جس پر بینچ میں موجود جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پیمرا کے حکام سے جواب طلب کر لیتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر جتنے بھی اخراجات ہوتے ہیں اُن کی آمدن کے ذرائع بھی بتائے جائیں۔ درخواست گزار عاصمہ جہانگیر نے الزام عائد کیا ہے کہ آئی ایس پی آر نے متعدد سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں جو مختلف افراد کو بدنام کرنے کے لیے اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔

اس متفرق درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا سیل اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اداروں پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات معلوم کر سکے۔اُنھوں نے کہا کہ پیمرا کے حکام اس بارے میں امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے تین مراکز ہیں جو میڈیا اور دوسری معلومات کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حکومت کے زیر انتظام میڈیا ہے جس میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جبکہ دوسرا مرکز پیمرا کا ادارہ ہے جو تمام نجی میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں مراکز کے برعکس فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو سٹیشنز تمام پابندیوں سے آزاد ہیں۔ ان کے مطابق ایف ایم چینل 96:00 اور ایف ایم 89:04 پچپن سے زیادہ شہروں میں سنا جاتا ہے جو کہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیمرا ان ایف ایم سٹیشنز کی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر عوامی پیغامات نشر کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام چینلز سے کہا ہے کہ وہ اپنی 24گھنٹے کی نشریات میں سے دس فیصد عوامی پیغامات کے لیے مختص کریں۔ ان درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

ترکی میں ہزاروں برطرف، 99 جرنیلوں پر فردِ جرم عائد

ترک حکام نے گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جرنیوں پر فردِ جرم کا فیصلہ صدر رجب طیب اردوغان کے ان فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا جو بغاوت کے دوران ان کے وفادار رہے تھے۔ ٭ترکی میں ہزاروں برطرف، دانشوروں کے ملک چھوڑنے پر پابندی ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی امید ہے کہ وہ جلد ہی اہم اعلانات کریں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔

انقرہ میں بی بی سی کے نک تھارپ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ناکام بغاوت کے بعد صدر کے لیے پہلا موقع ہوگا کہ وہ اپنی حکومت اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے بیٹھ کر بات کر سکیں۔ جرنیلوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری عملے کی چھانٹی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکی میں گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمۂتعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد، دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً نو ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد ہیں۔ ان افراد پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔

رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر کشیدگی

Image copyrightAFP حکومت سندھ اور رینجرز میں ایک بار پھر اختیارات میں توسیع کا معاملہ کشیدگی کا باعث بن گیا ہے۔ رینجرز کو پولیس اختیارات اور صوبے میں موجودگی کی مدت کی معیاد پوری ہو چکی ہے، تاہم ان کی خواہش ہے کہ انھیں پورے صوبے میں کارروائی کے اختیارات دیے جائیں جبکہ صوبائی حکومت نے ان اختیارات کو کراچی تک محدود رکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ رینجرز کو سنگین نوعیت کے چار جرائم دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کے لیے جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف کراچی تک محدود ہیں باقی سندھ کے لیے نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق یہ اختیارات 120 روز کے لیے ہوتے ہیں جن میں توسیع کی جاتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ رینجرز کے قیام کی مدت میں بھی سالانہ توسیع ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اہم معاملات میں پارٹی قیادت سے مشورہ کیا جاتا ہے، اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ بقول ان کے ’پولیس ہو یا رینجرز، کسی کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، قانون اور آئین کے دائرے کے اندر سب کو کام کرنا ہے، ہر کسی کو اپنے فرائض کا پتہ ہونا چاہیے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔‘ سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی اور رینجرز میں کشیدگی کا سبب بنی تھی، منگل کو اس مقدمے میں ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کے رہنما کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ سویلین لباس میں کارروائی کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔ اسد کھرل کی گرفتاری کے لیے رینجرز نے لاڑکانہ میں کئی مقامات پرچھاپے مار کر ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور اس کے دوران سہیل انور سیال کے گھر کا بھی محاصرہ کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسد کھرل صوبائی وزیر داخلہ کے بھائی طارق سیال کے دوست ہیں۔ اس کارروائی کے بعد رینجرز کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل سمیت اپوزیشن جماعتیں اس کا مطالبہ کرتی رہی تھیں۔

وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے لاڑکانہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسد کھرل کے معاملے پر حکومت سندھ اور رینجرز میں کوئی اختلافات نہیں ہیں، پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اس سے صوبائی وزیر داخلہ یا ان کے بھائی کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان میں بھی رابطہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جب حکومت سندھ نے رینجرز کے پولیس اختیارات صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کیے تھے تو وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت دو ماہ کے لیے یہ اختیارات دے دیے، تاہم بعد میں سندھ حکومت نے ان کو جاری رکھا۔

’سیلاب زدگان موت کا انتظار نہیں کر سکتے‘

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحد کے قریب واقع وادی اورسون چند دن پہلے تک قدرتی حسن کا شاہکار تھی لیکن رواں ماہ جولائی میں آنے والے تباہ کن سیلاب نےاس گاؤں کا سارا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جہاں اب لوگوں کے لیے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ چترال شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی اورسون کے لیے دو جولائی کی رات موت کا پیغام لے کر آئی۔گاؤں کے بیشتر مرد عشا کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں تھے کہ اچانک سیلاب نے سارے علاقے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا جس سے درجنوں مکانات، مسجد، دینی مدرسہ اور واحد سکیورٹی چیک پوسٹ پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے باعث علاقے کے کئی سرسبز باغات اور کھیت بھی کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ پانی اتنی تیزی سے اوپر چڑھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ ’یقینًا وہ قیامت کے منظر جیسا تھا جس میں بڑے بڑے پتھروں کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں تھیں۔‘ سیلاب کی وجہ سے علاقے کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے گاؤں کے تمام راستے اور گزرگاہوں کے نام و نشان مٹ گئے ہیں جہاں اب گاڑیوں کی آمد و رفت ناممکن ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کی زمین کی سطح بھی ناہموار ہو کر بلند ہو گئی ہے اور مقامی آبادی نیچے رہ گئی ہے جس سے مقامی باشندوں کے مطابق مزید سیلاب کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔وادی کے وسط میں ایک دیوہیکل چٹان بھی نظر آئی جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ پانی اتنا بڑا پتھر بھی بہہ کر لا سکتا ہے۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم کے مطابق ’یہ علاقہ اب ہمارے لیے غیر محفوظ ہو گیا ہے کیونکہ آبادی نیچے رہ گئی ہے اور اب یہاں معمولی سی بارش سے بھی سیلاب کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔‘ ان کے مطابق سیلاب اپنے ساتھ جو ملبہ لے کر آیا ہے اس کو ہٹانا کسی کی بس کی بات نہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اب فوری طور پر اس آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے ورنہ مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہے لیکن اب تک اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

گاندھی کو کس نے مارا؟

انڈیا میں کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کے سامنے ایک لمحۂ فکریہ ہے: یا تو وہ یہ ثابت کریں کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا یا پھر آر ایس ایس سے معافی مانگیں۔ مہاتاما گاندھی کو آزادی کے صرف پانچ مہینے بعد 30 جنوری 1948 کو قتل کیا گیا تھا اور ان کے قتل کے جرم میں ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی تھی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے تھا اور مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر عارضی پابندی بھی عائد کی تھی۔ ٭ گاندھی کی زندگی کے آخری دس برس راہل گاندھی نے دو برس قبل پارلیمانی انتخابات کے دوران کہا تھا کہ ’آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کو مارا تھا۔۔۔ اور اب وہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو کی بات کرتے ہیں۔‘ آر ایس ایس نے اس بیان کے بعد راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ مقدمہ خارج کرانے کے لیے راہل گاندھی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن عدالت نے کہا کہ یا تو اپنا الزام ثابت کیجیے یا معافی مانگیے، ورنہ مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ ’آپ پوری تنظیم کو ایک ہی رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔‘

مقدمے کی سماعت کے دوران گوڈسے نے بنیادی طور پر یہ کہا تھا کہ گاندھی قیام پاکستان کے لیے ذمہ دار تھے اور مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ گوڈسے نے عدالت میں دعوی کیا کہ ’میں نے اس شخص پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے لاکھوں ہندوؤں کو بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔‘ اس مقدمے میں سخت گیر ہندو مہاسبھا کے سابق صدر ونایک ساورکر کو بھی ملزم بنایا گیا تھا لیکن ان پر جرم ثابت نہیں ہو سکا حالانکہ مورخ اے جی نورانی کے مطابق سردار پٹیل نے وزیر اعظم نہرو کو لکھا تھا کہ قتل کی سازش جن لوگوں نے تیار کی تھی ان کی براہ راست سربراہی ساورکر ہی نے کی تھی۔ انڈیا میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا سے تھا۔لیکن سپریم کورٹ کے اس حکم سے ایک نئی سیاسی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ راہل گاندھی اپنا بیان واپس لیں گے، یا معافی مانگیں گے۔ ان کے وکیل نے جرح کے دوران کہا کہ جو کچھ راہل گاندھی نے کہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے، اور حکومت کے ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ لیکن اس دلیل سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی۔ اگر راہل گاندھی پر یہ مقدمہ چلتا ہے تو آزاد ہندوستان کے پہلے سیاسی قتل کی تمام پرتیں اور باریکیاں دوبارہ سے قانون کی کسوٹی پر پرکھی جا سکتی ہیں۔

چینی سب کچھ کیوں کھاتے ہیں؟

بیجنگ پہنچنے کے پہلے ہی دن میں اور میرا کیمرا مین ہوٹل کے آس پاس کے علاقے کی سیر کے لیے نکلے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے ہوٹل سے قریب ریان نامی پارک ہے، جس میں 16ویں صدی میں تعمیر کردہ سورج معبد ہے۔ یہاں منگ خاندان کے شہنشاہ سورج دیوتا کو بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ نیلی چھت اور سنگی مجسموں سے مزین یہ عمارت چینی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس میں جنگلی جانوروں کی ان گنت تصاویر بھی ہیں جن کا مقصد اس جگہ کو بدروحوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ ٭ چین میں کتوں کا گوشت کھلانے کے میلے کا آغاز شہر کے دوسری طرح چاند معبد ہے، جہاں چاند اور ستاروں کے نام پر نذرانے گزارے جاتے تھے۔ پارک کے باہر خوانچہ فروش آئس کریم، کھلونے اور غبارے بیچ رہے تھے۔ سورج ڈھلنے کو تھا اور پارک میں خاصی بھیڑ تھی۔ ایک کونے سے آپیرا کی موسیقی کی آواز آ رہی رہی تھی۔ چین میں آپیرا دو ہزار سال قدیم صنف ہے اور یہ آج بھی خاصی مقبول ہے۔ آپ کو چین کے ہر پارک کے کسی کونے کھدرے میں کوئی گلوکار مائیک تھامے آپیرا گاتا مل جائے گا۔ پارک کا ایک چکر لگانے کے بعد بھوک چمک اٹھی اور ہمیں رات کا کھانا کھانے کی سوجھی۔ معبد کے سامنے کئی ریستوران کھلے تھے جن میں ایک کے باہر کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم وہیں جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ چینی کھانے بہت عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ میں لندن میں کئی بار چینی کھانے کھا چکا تھا لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ چین میں ملنے والا کھانا مختلف ہوتا ہے۔اس ریستوران میں ایک ڈش کا نام ہاٹ پاٹ تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ چین میں خاصی مقبول ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی سوس ڈالی جاتی ہے اور پھر مختلف قسموں کے گوشت اور سبزیاں شامل کی جاتی ہیں۔ میز کے بیچوں بیچ ایک شعلہ روشن تھا، جہاں ہاٹ پاٹ لا کر رکھا جانا تھا۔

جب وہ ابلنا شروع کرے تو آپ اس میں حسبِ منشا گوشت اور سبزیاں ڈال سکتے ہیں۔ گوشت کی کئی اقسام دستیاب تھیں، جن میں پورک کے کان سے لے کر بھیڑ کا معدہ، دنبہ، مچھلی، جھینگا اور مرغی کا گوشت شامل تھا۔ میرے ساتھی اینڈریو نے پورک کا آرڈر دیا اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھیڑ کا معدہ کھانا پسند کروں گا؟ میں گوشت زیادہ رغبت سے نہیں کھاتا لیکن اس موقعے پر میں نے ہاں کر دی۔ سوس میں اس قدر مرچیں تھیں کہ اس نے میرے ہونٹ اور زبان کو مکمل طور پر سُن کر کے رکھ دیا۔ ہم نے اس میں گوشت اور سبزیاں ڈالیں اور کھانا شروع کر دیا۔ میں نے اب تک وہ عجیب و غریب خوراک نہیں دیکھی تھی جس کے بارے میں مجھے چین آنے سے پہلے خبردار کیا گیا تھا۔ بھیڑ کا گوشت کھانا بطور ایرانی میرے لیے کچھ زیادہ نرالی بات نہیں تھی۔ کھانا خاصا لذیذ تھا۔ ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ بل دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ اس قدر عمدہ کھانا اور ڈرنکس اور صرف دس ڈالر میں؟ لندن میں تو اتنے پیسوں کا مشکل سے ایک برگر آتا ہے۔ اگلے کئی دنوں میں مجھے مزید چینی کھانے کا موقع ملتا رہا۔ یورپ میں جو چینی خوراک ملتی ہے اس کے مقابلے پر اصل چینی کھانے کہیں سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں سادہ سے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کے بنانے کا طریقہ بھی انڈین یا ایرانی کھانوں کی طرح کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا۔ چینی کھانوں کا بنیادی جزو انڈا ہے۔ میری پسندیدہ ڈش سویا سوس میں ابلا ہوا انڈا بن گئی۔ اس طرح انڈے کی جلد گہری بھوری ہو جاتی ہے اور چائے کے ساتھ سویا کی نمکینی کچھ اور ہی لطف دیتی ہے۔ ایک دن ہم لوگ بیجنگ کے باہر شوٹنگ کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے۔ ایک جگہ تو حالات یہاں تک پہنچے کہ پورا ایک گھنٹہ گاڑی اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہیں ہوئی۔ رات کے دس بج چکے تھے اور ہماری تھکاوٹ اور بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اتنے میں ایک سروس سٹیشن آ گیا۔ وہاں کھانے کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے تھے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے بڑے جوش سے بتایا کہ وہاں گدھے کے گوشت کے برگر بکتے ہیں! ہمارے طویل قامت چینی ڈرائیور نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بھوک کا اظہار کیا لیکن میں سیدھا انڈوں والے کھوکھے کی طرف چلا گیا اور اپنے پسندیدہ انڈے خرید لیے۔ البتہ میرے کیمرا مین اور ڈرائیور نے گدھے کے برگر کھائے اور بظاہر یہ انھیں خاصے پسند بھی آئے۔ چین بڑا ملک ہے۔ اس کے وسیع رقبے کی وجہ سے وہاں کے کھانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ بڑی آبادی، غربت، اور ماضی میں چینی بخار کی وبا جیسے عناصر چینی خوراک پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ڈیزی نے مجھے بتایا کہ ان کا خاندان ایک زمانے میں گوشت خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے لیے پروٹین کا بڑا ذریعہ کیڑے مکوڑے تھے۔ ڈیزی کی عمر 34 برس ہے اور اس کا تعلق جنوبی چین سے ہے۔ میں چین میں 11 دن رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت نے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں پر مختصر وقت میں ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔ متوسط طبقے تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے چینی کھانوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔ تاہم اب چینی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے، جس کا اثر اس کے معاشرے پر بھی پڑے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے چین کا سیاسی نظام بھی بدل جائے گا، اور ممکن ہے کہ چینی سیاست دان اپنے یک جماعتی نظام پر بھی نظرِ ثانی کریں۔ سست رو معیشت سے افراطِ زر اور بےروزگاری پھیلنا لازمی امر ہے اور وہی متوسط طبقہ جو آسائشوں کا عادی ہوتا جا رہا ہے، اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا اور نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا شروع کر دے گا۔ نپولین نے چین کو ایشیا کا اژدہا کہا تھا، اور کہا تھا کہ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ یہ اژدہا آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا ہے اور نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھ ساری دنیا کو بدل رہا ہے۔

بابری مسجد کے بزرگ ترین مدعی ہاشم انصاری نہیں رہے

انڈیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اُٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں ایودھیا میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انھیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گيا تھا۔ ان کے بیٹے اقبال انصاری نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔‘ ان کے بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ آج بدھ کے روز ہی بعد نماز مغرب ان کی تدفین تاریخی قبرستان میں کی جائے گی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبر شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔ 60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔

وہ اس مقدمے کو سیاسی رنگ دیے جانے کے خلاف تھے اور ان کے مطابق اسی سبب سخت گیر ہندوؤں نے چھ دسمبر سنہ 1992 میں اس 16ویں صدی کی تاریخی مسجد کو منہدم کردیا۔ سنہ 2014 میں ہمارے نمائندے شکیل اختر نے ایودھیا میں ہاشم انصاری سے ملاقات کی تھی جب انھوں نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ ’جمہوریت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔‘ ان کے خیال میں اس کا حل نہیں ہے اور ایک بار تو انھوں نے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے مقدمے سے دست بردار ہونے کی بات کہی تھی۔ انھوں کہا کہ ’آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجیے۔ مجھے بابری مسجد نہیں چاہیے۔‘پچھلے دنوں جب ہاشم انصاری نے یہ بیان دیا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکیولر، ایماندار اور شکستہ دل کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا جہاں کبھی انھوں نے نماز پڑھی تھی۔ سنہ 2010 میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ہاشم انصاری نے کہا تھا: ’میں سنہ 1949 سے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن آج تک کسی ہندو نے ہم کو ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ہمارا ان سے بھائی چارہ ہے۔ وہ ہم کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں مع اہل و عیال دعوت پر جاتے ہیں۔‘ متنازع مقام کے دوسرے اہم دعویداروں میں نرموہی اکھاڑے کے رام کیول داس اور دگمبر اکھاڑہ کے رام چندر پرمہنس سے ہاشم کی آخر تک گہری دوستی رہی۔ پرمہنس اور ہاشم تو اکثر ایک ہی رکشے یا گاڑی میں بیٹھ کر مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت جاتے تھے اور ساتھ ہی چائے ناشتہ کرتے تھے۔

فوج کے حق میں بینرز لگانے والی جماعت کے سربراہ گرفتار

پاکستان میں قانون نافد کرنے والے اداروں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حق میں مختلف شہروں میں بینرز لگانے کے الزام میں ایک غیر معروف سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان‘ کے سربراہ میاں کامران کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم کے خلاف موجودہ حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت پراکسانے کا مقدمہ درج ہے جس کی قانون میں سزا عمر قید ہے۔ ٭ فوج کے حق میں بینرز لگانے والوں کے خلاف مقدمہ درج ٭ ’شاید نواز شریف طوفان گزر جانے کا انتظار کر رہے ہیں‘ اس جماعت کی جانب سے مختلف شہروں میں لگائے گئے ان بینرز پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ ’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کے لیے اب تو آجاؤ۔‘ موو آن پاکستان کے سربراہ میاں کامران کو اسلام آباد کے علاقے آبپارہ سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں پر وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔

ملزم کامران اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔ اسلام آباد میں یہ مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جبکہ دیگر شہروں میں ملزمان کے خلاف مقدمات ریاست اور عام شہریوں کی طرف سے درج کروائے گئے ہیں۔ تھانہ سیکرٹریٹ کے انچارج حاکم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کامران کو لاہور سے آئی ہوئی پولیس کی ٹیم نے گرفتار کیا ہے جبکہ اسلام آباد میں درج ہونے والے مقدمے میں ملزم نے 22 جولائی تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی۔ اس مقدمے میں میاں کامران کے علاوہ دیگر نو افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ملزمان کا تعلق پنجاب کے وسطی شہر فیصل آباد سے ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے آرمی چیف کے حق میں بینز لگانے کا الزام حکومت پر عائد کیا تھا کہ جو اُن کے بقول پاناما لیکس اور دیگر معاملات سے سیاسی جماعتوں اور عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت اور پاکستانی فوج نے ایسے بینرز لگانے سے لا تعلقی کیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ فوج یا اس کے کسی بھی ادارے کا ایسے بینرز لگانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد مختلف شہروں میں لگائے گئے بینرز اتار دیے گئے ہیں۔

ٹرمپ رپبلکن پارٹی کے باضابطہ صدارتی امیدوار منتخب

امریکہ کے ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپبلکن پارٹی نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے باضابطہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں جاری رپبلکن کنونشن میں ووٹنگ کے دوران ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ریاست نیویارک کی جانب سے اپنے والد کی حمایت کا اعلان کیا، جس کے بعد انھیں صدارتی نامزدگی کے لیے درکار 1237 سے زیادہ مندوبین کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد ایوانِ نمائندگان کے سپیکر پال رائن نے رپبلکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کے حامی کل مندوبین کی تعداد 1725 رہی، جب کہ ان کے قریب ترین حریف ٹیڈ کروز صرف 475 مندوبین کی حمایت ہی حاصل کر پائے۔ سابق امریکہ صدر بش کے بھائی جیب بش صرف تین مندوبین کی حمایت بٹور سکے۔ٹرمپ نے ٹویٹ کی: ’یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں سخت محنت کروں گا اور آپ کو مایوس نہیں ہونے دوں گا۔ سب سے پہلے امریکہ!!!‘ ٹرمپ جونیئر نے کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’یہ میری زندگی کا عجیب ترین دن ہے۔ یہ حقیقی لمحہ ہے۔ وہ حقیقی شخصیت ہیں جنھوں نے کام کر کے دکھایا ہے، وہ اس ملک کے لیے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘

 ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹ پارٹی کی ہلیری کلنٹن سے ہو گا، جنھوں نے اس خبر پر فوری ردِعمل دکھاتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’ڈونلڈ ٹرمپ ابھی ابھی رپبلکن امیدوار بن گئے ہیں۔ ابھی ہمارے ساتھ شامل ہو کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کبھی بھی (وائٹ ہاؤس کے) اوول آفس میں قدم نہ رکھ پائیں۔‘ رپبلکن کنونشن کے موقعے پر ٹرمپ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والے نائب صدر کے امیدوار مائیک پینس کی بھی باقاعدہ نامزدگی کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن خود رپبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے مخالفوں کی کمی نہیں۔ گذشتہ روز ان کے مخالفین نے ان کی نامزدگی کا راستہ روکنے کے لیے رائے شماری کروانے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ اس کے علاوہ ان کی اہلیہ میلانیا کی تقریر پر سرقے کا الزام عائد کیا گیا، جب کہ کئی اہم رپبلکن رہنماؤں نے اس اہم کنونشن میں شرکت کرنے پر گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ ان میں بش سینیئر، بش جونیئر اور مٹ رامنی جیسے اہم رپبلکن شامل ہیں۔ کنونشن سے کئی لوگوں نے خطاب کیا جنھوں نے ہلیری کلنٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا الزام تھا کہ سابق خاتونِ اول عام امریکیوں کے مسائل سے نابلد ہیں اور صدر اوباما کی ’جابرانہ‘ روایت کا تسلسل ہیں۔ توقع ہے کہ 68 سالہ ہلیری کلنٹن کی باضابطہ صدارتی نامزدگی کا اعلان اگلے ہفتے فلیڈیلفیا میں ہونے والے ڈیموکریٹک کنونشن میں کیا جائے گا۔

ترکی: ناکام بغاوت کے بعد 50 ہزار کے خلاف کارروائی

ترکی میں گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی حکومت کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں ترکی کی سکیورٹی سروسز سے لے کر سول سروسز اور محکمۂ تعلیم سے لے کر میڈیا تک تمام اہم شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا ہے کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ترکی کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔پارلیمان سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن ایک دہشت گرد تنظیم کے قائد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘ ترکی امریکہ سے فتح گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترک صدر اردوغان نے منگل کو امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان سے فون پر بات کر کے انھیں گذشتہ ہفتے کی ناکام فوجی بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی ترکی حوالگی کے معاملے پر بات کی۔ ترکی کا الزام ہے کہ گولن نے گذشتہ ہفتے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی سازش تیار کی تھی، جب کہ گولن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا: ’صدر اوباما نے پرتشدد مداخلت کے خلاف ترک عوام کی جرات اور جمہوریت کے لیے ان کے عزم کو سراہا۔ ’صدر اوباما نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ بغاوت کی تحقیقات کے سلسلے میں ترک حکام کی مناسب مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ اس نے گولن کے بارے میں کچھ ’مواد‘ امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ترکی کی جانب سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی کسی بھی درخواست پر دوطرفہ معاہدے کے تحت غور کیا جائے گا۔ صدر اردوغان بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترک حکام نے بغاوت فرو کیے جانے کے بعد سے فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے 15 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹیوں کے 1577 سو سے زیادہ ڈینز کو بھی مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان سے پہلے منگل کو حکام نے وزارتِ داخلہ کے 8777 جبکہ وزارتِ خزانہ کے 1500 ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ ترک وزیرِ اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے 257 افراد کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور قریباً نو ہزار پولیس اہلکار برطرف کیے جا چکے ہیں۔زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی شہر میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔

’مذہبی کنوارے‘ اور انتہا پسندی

گذشتہ ہفتے فرانس کے ساحلی شہر نیس میں ایک حملے میں 84 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاسی الزام تراشیاں ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہ پریشان کن سوال دُہرایا جا رہا ہے کہ آخر فرانس میں لوگوں کو جہاد کی جانب راغب ہونے سے کیسے روکا جائے۔ فرانس کے قومی دن پر جب محمد لحوايج بوہلال نے ٹرک ایک ہجوم پر چڑ ھا دیا، تو ہو سکتا ہے کہ وہاں پر موجود عام لوگوں کو اس حملے پر شدید حیرت ہوئی ہو، لیکن جہاں تک شہر کے سرکاری افسران کا تعلق ہے تو آپ انھیں یہ الزام نہیں دے سکتے کہ دہشتگردی کے خطرے سے بےخبر تھے اور اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ اس حملے سے بہت پہلے جب جنوری سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں نے پوری فرانسیسی قوم کو جگا دیا تھا تو سرکاری حکام نے ملک میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔ جہاں تک نیس کا تعلق ہے تو یہاں بھی سنہ 2000 کے پہلے عشرے میں ہی دیگر فکرمند حلقوں کے علاوہ مقامی ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اس بات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی تھی کہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے وہاں لوگ فرانس کی تہذیب اور اس کی اقدار کو رد کر رہے ہیں۔ ٭ نیس میں حملہ کرنے والا کون تھا؟ ٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘ شہر کی ایک کونسلر اور اس کے پسماندہ علاقے میں 35 سال سے سکول میں پڑھانے والی کیتھرین لکوننی کہتی ہیں کہ ایک عرصے سے ان کا مشاہدہ یہی ہے کہ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ زیادہ کٹر خیالات کو اپنا رہے ہیں۔ ان کے بقول ’ پرانے وقتوں میں میرے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں ماڈرن ہوتی تھیں۔ یہ خواتین کبھی بھی حجاب نہیں لیتی تھیں، لیکن اب بچیاں بھی حجاب لیتی ہیں اور ان کی مائیں بھی۔ بچوں کی مائیں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے انھیں کہتے ہیں کہ وہ پردہ کیا کریں۔‘ احساسِ محرومی ماہرین کے مقامی گروپ سے منسلک برجٹ اربیبو کا کہنا ہے کہ گذشتہ عرصے میں لوگوں میں اپنی الگ شناخت کا احساس بہت عام ہو گیا اور اس کی بنیاد ان لوگوں کی شکایات ہیں۔ ’سنہ 2012 سے ان لوگ کو شکوہ ہے کہ ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ امریکیوں اور یہودیوں کا اتحاد ان کے خلاف ہے۔ یہ لوگ کھلے عام یہودیوں اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع ہوگئے تھے۔ اور پھر آنے والے دو برسوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نیس اور اس کے نواح کا علاقہ فرانس میں سب سے زیادہ جہادی فراہم کرنے والا علاقے بن گیا ہے۔ مثلاً وہ لوگ جو فرانس سے جہاد کے لیے شام گئے ان میں سے دس فیصد کا تعلق یہاں سے تھا۔ نیس شہر اور ایپلس میریٹائم کے صوبائی حکام اس نئے رجحان کا جائزہ لے رہے تھے، اور پھر جنوری 2015 میں پیرس حملوں میں 17 افراد کی ہلاکت کے بعد ان حکام نے مقامی حالات پر زیادہ کڑی نظر رکھنا شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے علاقائی سطح پر ’انسدادِ انتہاد پسندی‘ کا ایک یونٹ بھی قائم کیا گیا جس میں اساتذہ، سوشل ورکروں اور سکیورٹی کے ماہرین کو جمع کیا گیا۔ یہ ماہرین ہر ہفتے ملتے ہیں اور اگر کسی خطرے کی علامات نظر آئیں تو اس کی تفتیش بھی کرتے ہیں۔نیس کے میئر نے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جہاں کسی بھی وقت کال کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن ان گھرانوں کے لیے قائم کی گئی ہے جن کو خطرہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ افراد اور گھرانوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد فرام کرنے کے لیے شہر کے کونسلروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ اِس سال کے شروع میں جب حکام کو بتایا گیا کہ نیس کے کچھ فٹبال کلبوں میں باجماعت نماز کا انتظام کیا جاتا ہے تو میئر نے خبردار کیا کہ وہ کلب جو یہاں کے ’سیکولر دستور‘ کا احترام نہیں کرتے ان کی مالی مدد بند کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں استادوں، ماہرین تعلیم اور مقامی تنظیموں کے اہلکاروں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ’

بڑا بھائی‘ فرانس کے اِس علاقے میں شدت پسندی کے خلاف کام کرنے والوں میں سب سے بڑے مقرر عبداللہ مراہ ہیں ۔ عبداللہ مراہ دراصل محمد مراہ کے بڑے بھائی ہیں۔ تلوز کا رہائشی محمد مراہ وہ شخص تھا جس نے مارچ سنہ 2012 میں فوجیوں اور یہودی سکول کے بچوں پر حملہ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ محمد مراہ فرانس کا وہ پہلا مقامی جہادی تھا جس نے فرانس کی سرزمین پر دہشتگردی کی تھی اور اسے اب بھی ملک کے انتہاپسند حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد کے برعکس اس کے 39 سالہ بڑے بھائی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ انسدادِ انتہاپسندی کے ماہرین کے ساتھ کام کر کے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں جو ان کے بھائی نے لگایا تھا، بلکہ دیگر نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔عبدالغنی مراہ کے بقول ’میں کچھ نوجوانوں میں مشہور محمد مراہ کی اس شبیہہ کو توڑ دینا چاہتا ہوں کہ محمد ایک بہت بڑا ہیرو اور اسلام کا سپاہی تھا۔ عبدالغنی کا پیغام یہ ہے کہ فرانس ایسا ملک نہیں جہاں مقامی لوگ مسلمانوں کو دبانے پر تلے بیٹھے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ’فرانس ایک خوبصورت اقدار کی سرزمین ہے۔‘ ’مذہبی کنوارا پن‘ نیس اور اس کے گر د ونواح میں انتہاپسندی کے خلاف سرگرم لوگوں میں مذہبی رہنما بھی بہت اہم کراد ر ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک ابوبکر بکری ہیں جو سرکاری فلیٹوں سے منسلک ایک مسجد کے امام ہیں اور مسلم کونسل کے علاقائی نائب صدر بھی۔ سنہ 2012 میں جب محمد مراہ والا معاملہ چل رہا تھا تو ابوبکر بکری نے بھی شہر کے اس پسماندہ علاقے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو محسوس کیا۔ اس وقت سے وہ مسلسل اس رجحان کو روکنے کی کوشش میں رہے ہیں، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ دو ایسے نوجوانوں سے بات کر رہے تھے جن کی والدہ انھیں ان کے ہاں لائی تھیں۔ ’میں نے انھیں بتایا کہ انتہاپسندی اسلام کے خلاف ہے، لیکن بدقسمتی سے میری اس حکمت عملی نے کام نہیں کیا، کیونکہ دو ماہ بعد وہ دونوں لڑکے شام جانے کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ پولیس نے انھیں فرانس سے نکلنے سے پہلے پکڑ لیا تھا۔‘ابوبکر بکری کہتے ہیں کہ پریشانی میں مبتلا ان نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ نوجوان ’مذہبی طور پر کنوراے‘ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بڑی آسانی سے قائل کر لیا جاتا ہے اگر وہ کافروں سے کوئی چیز چرایں گے تو وہ دراصل خدائی کام کر رہے ہوں گے۔ اور کسی بھی نوجوان کے لیے انتہا پسند بننا اس لیے بھی پرکشش ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے خیالات سے لڑکیوں میں بھی زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یعنی آپ پرنس چارمنگ بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کو انتہاپسندی کے جانب جو چیز راغب کرتی ہے وہ اس کا عسکری یا جنگجوئی پہلو ہے، جبکہ لڑکیاں اس جانب رومانوی خیالات اور امدادی کام کے جذبے کی وجہ سے آتی ہیں۔ برین واشنگ مندرجہ بالا باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ فرانس میں صرف تارکین وطن گھرانوں کے نوجوان ہی انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ مِس اربیو کہتی ہیں کہ ’انتہاپسندوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ یہ نوجون مختلف سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔‘ مثلاً نیس کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والی ایک ماڈرن خاتون کی 13 سالہ بیٹی کیرل کی کہانی کو ہی لے لیجیے جو ایک دن اچانک بدل گئی۔کیرل کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی ایک خاموش اور فرض شناس لڑکی ہوا کرتی تھی اور بہترین طالبہ بھی۔ پھر اس نے سکول میں ان بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا جن کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو یہاں خوش نہیں تھے۔‘ کیرل نے اپنے والدین سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر وہ خنزیر کھائیں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کیرل نے انھیں ایک پروپیگنڈا وڈیو دکھائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ جنت کیسی ہوگی اور جہنم کا منظر کیا ہوگا۔ کیرل کی والدین کے بقول ’یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی آپ کا بچہ چرا کر لے جائے اور پھر برین واشنگ کر کے اس کا ذہن ہی بدل دے۔ کیرل کی باتیں سن کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہمارے ساتھ یہ ہوگا۔‘ ماہرین نفسیات کی مدد سے کیرل کو انتہاس پسندی سے بال بال بچا لیاگیا۔ اب وہ سولہ سال کی ہو گئی ہے اور اس نے اس اسلام کو قبول کر لیا ہے جس پر فرانس کے زیادہ تر مسلمان عمل کرتے ہیں۔ لیکن کیرل کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی بیٹی خطرے سے مکمل باہر نہیں آئی۔ ’اسی لیے ہم پوری طرح چوکس رہتے ہیں کہ کہیں ہماری بیٹی پھر سے انتہا پسند نہ بن جائے۔

کشمیر میں چھرّوں کے استعمال پر شدید تشویش

انڈیا کے زیر انتظام جنوبی کشمیر کی رہائشی چودہ سالہ انشا مشتاق اس وقت سرینگر کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بستر پر شدید تکلیف میں ہیں اور ان کی والدہ رضیہ بیگم بے یار و مددگار ان کے پاس بیٹھی ہیں۔ انشا مشتاق کا چہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں انشا فاطمہ کو بڑی تعداد میں چھرے لگے تھے۔ ان کے والد مشتاق احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انشا دیگر خاندان والوں کے ساتھ اپنے گھر کی پہلی منزل پر تھیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’میں نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ انشا نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر جھانکا تو سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکار نے انتہائی قریب سے ان پر چھرے فائر کیے۔‘امراضِ چشم کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر طارق قریشی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انشا مشتاق کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اب دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پائیں گی۔‘ ڈاکٹر طارق قریشی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسے تقریباً 117 کیسز آئے ہیں۔ ان میں سے سات لوگ چھروں کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھے ہیں جبکہ دیگر 40 افراد کو آنکھوں پر معمولی زخم آئے جنھیں طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔‘

چھروں والی بندوق (پیلیٹ گن) ایک شاٹ گن ہوتی ہے جسے عام طور پر جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال سنہ 2010 میں کیا گیا تھا۔ اس بندوق سے ایک وقت میں بڑی تعداد میں گول چھرے فائر کیے جاتے ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ نکلتے ہیں۔ پیلیٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔عام گولی کی نسبت یہ کم مہلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی شدید زخم آ سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ چھرے آنکھ میں لگیں۔ کشمیر میں چھروں سے آنے والے زخموں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ’بے ڈھنگے اور نوکیلے چھرے دیکھے ہیں جن سے اس مرتبہ زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔‘ انڈیا کی سکیورٹی فورسز کو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت کارروائی کرنی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ صورتحال میں ٹانگوں کا نشانہ بنایا جائے۔ تاہم 90 فیصد زخم وہ جسم کے اوپر کے حصوں پر آئے ہیں۔ کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیشور یادو کا اس بات پر اسرار ہے کہ اہلکاروں نے ’مظاہرین سے نمٹنے میں کافی حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک خصوصی کارتوس کا استعمال کیا جو کم اثر اور غیر مہلک ہے۔‘ لیکن بہت سے لوگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری فورسز نے جان بوجھ کر سینے اور سروں کو نشانہ بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ہلاک کرنے کے لیے نشانہ بنایا۔‘سرینگر ہسپتال جہاں انشا مشتاق زیر علاج ہیں ایسی دردناک اور کرب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ 17 سالہ شبیر احمد ڈار کو نرس طبی امداد فراہم کر رہی ہیں اور ڈاکٹروں کو ڈر ہے کہ شبیر اپنی دائیں آنکھ کی بینائی کھو بیٹھیں گے۔ ان کے بیڈ کے قریب ہی موجود 16 سالہ عامر فیاض غنی نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا کہ کوئی چیز میری آنکھ پر زور سے آکر لگی۔‘ ڈاکٹروں کے خیال میں فیاض غنی خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کی آنکھ بچائی جا سکتی ہے۔ ایسے زخمی اگر بچ بھی جائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مالی مشکلات اور ٹراما کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ 15 سالہ عابد میر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ عابد میر کے گھر والوں کو اب ان کا علاج کروانے کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے، وہ انھیں ریاست پنجاب میں امرتسر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے بتایا کہ ’عابد کے علاج پر دو لاکھ روپے خرچ آیا ہے۔‘

’دھاندلی ہوئی تو حکومت کو دھرنا بھُلا دیں گے‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اُنھیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے دوران دھاندلی اور خونریزی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہوا تو پھر مسلم لیگ ن کو 2014 کا دھرنا بھُلا دیا جائےگا۔‘ بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’نریندر مودی کس طرح اٹل بہاری واجپائی، راجیو گاندھی یا کسی اور انڈین وزیرِ اعظم کی طرح ہو سکتے ہیں۔ ہر کوئی امن چاہتا ہے لیکن آپ کس طرح اِس بربریت کو دیکھ سکتے ہیں، سارے معاملے سے علیحدہ رہ کر لوگوں کو مرتے دیکھ سکتے ہیں۔؟‘ اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان یہ ثابت کرے گی کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تشدد کے معاملے پر درست موقف کا ساتھ دے رہے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چاہے پیپلز پارٹی کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات میں فتح حاصل ہو یا نہ ہو وہ کبھی ظالم کا ساتھ نہیں دے گی۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ’میں اِس بات پر عمران خان سے اتفاق کرتا ہوں کہ فی الحال جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ میاں محمد نواز شریف کے طرزِ حکومت سے ہے، لیکن میں عمران خان کی اِس بات سے اختلاف کرتا ہوں جو اُنھوں نے کسی غیر آئینی قدم کے جواب میں عوامی ردِ عمل کے بارے میں کہی ہے۔‘ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت جانتی ہے کہ اُس نے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا کیسے مقابلہ کیا تھا اور اب بھی وہ متحد ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ سرمایہ دار نہیں بلکہ اجارہ دار ہیں کیونکہ ’اگر مُرغی کا کاروبار ہے تو انڈے بھی خود ہی بیچتے ہیں اگر سٹیل کا کاروبار ہے تو سٹیل ملیں بھی اپنی، اور پھر ملک کا وزیرِ خزانہ اُس کی تشہیر کرتا ہے کہ اگر دالیں مہنگی ہیں تو مُرغی کھاؤ۔‘

ہزاروں پاکستانی خاندانوں کو واپس لانے کی کوشش

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ خاندان افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔ اب انھیں واپس پاکستان لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک ماہ میں صرف اڑھائی ہزار خاندانوں نے ہی آمادگی ظاہر کی ہے۔ افغانستان نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں کو اب دوسری مرتبہ یکم اگست تک کی حتمی تاریخ دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رجسٹریشن فارم مکمل کر کے غلام خان میں قائم رجسٹریشن مرکز میں جمع کروا دیں۔ شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جو متاثرین رجسٹریشن نہیں کرا سکے ان کے بارے میں اعلی سطح پر منعقد ہونے والے آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جا ئےگا۔ اس سے پہلے یکم جولائی کی تاریخ دی گئی تھی لیکن اس وقت تک کم ہی لوگ رجسٹریشن فارم جمع کرا پائے تھے۔ افغانستان کے صوبے خوست اور دیگر علاقوں میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی خاندان متاثرین کے کیمپوں، رشتہ داروں اور کرائے کے مکانوں میں مقیم ہیں۔کامران آفریدی نے بتایا کہ یہ قبائلی رہنماؤں کا مطالبہ تھا اور اس کے لیے انھوں نے افغانستان ایک نمائندہ وفد بھیجا تھا تاکہ وہاں مقیم متاثرین کو اطلاع دے دیں کہ وہ واپس اپنے وطن آنے کے لیے اپنی رجسٹریشن کرا لیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد ایک تو ان لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ہے اور دوسرا انھیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے دستیاب وسائل کا جائزہ لینا ہے۔ افغانستان میں مقیم پاکستانی متاثرین کی واپسی کے عمل کے لیے پہلے غلام خان چیک پوسٹ پر ان کی رجسٹریشن ہوگی اور پھر انھیں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں کے قریب قائم بکاخیل کیمپ لایا جائےگا۔ بکا خیل کیمپ میں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن مکمل

ہوگی جہاں انھیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور پھر دیگر متاثرین کے ہمراہ ان کی اپنے وطن کو واپسی کی جائے گی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر متاثرین رجسٹریشن نہیں کراتے تو پھر ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند روز میں ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوگا جس میں ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائےگا۔‘یہاں ایسی اطلاعات ہیں کہ ان فیصلوں میں ایک یہ فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان متاثرین کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو جس طرف جانے کا موقع ملا وہ اسی جانب روانہ ہوگئے تھے ان میں وہ لوگ جو افغانستان کی سرحد کے قریب رہائش پذیر تھے وہ افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔ کامران آفریدی کے مطابق افغانستان جانے والے متاثرین میں چند ایک کرم ایجنسی کے راستے واپس پاکستان آگئے تھے۔ ادھر خیبر پختونحوا کے مختلف علاقوں میں مقیم شمالی وزیرستان ایجنسی کے متاثرین کی واپسی میں کچھ عرصے سے تیزی آئی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ ان متاثرین کی واپسی کا یہ عمل اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں قریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ افراد ان دنوں ضلع بنوں میں مقیم ہیں۔

ترکی میں محکمۂ تعلیم کے 15 ہزار ملازمین معطل

ترک حکام نے امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ایک دن پہلے پیر کو حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پرگذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا تھا۔ ترکی کی حکومت نے امریکہ میں مقتم فتح اللہ گولن پر الزام عائد کیا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا جبکہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویرمحکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار دو سو ملازمین کو معطل کرنے کے فیصلے سے قبل ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ وہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ وزارتِ تعلیم نے ملازمین کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معطل کیے جانے والے ملازمین میں کون کون شامل ہیں۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹوں کے 1500 سو سے زیادہ ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔

یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔
Powered by Blogger.