’کیا نوٹس سے ججوں کی عزت و وقار بحال ہو جائےگا‘

پاکستان کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب ججز کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی تو ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھ کر کیسے تبصرے کیے جاسکتے ہیں؟ اگر کسی کو ججز پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا آئینی راستہ موجود ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں بدامنی کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا میں کوتاہی کے بارے میں سماعت کے موقعے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم پیش ہوئے۔ ٭ پاکستانی فوج کے زیر انتظام ریڈیو پر پیمرا سے جواب طلب ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ابصار عالم نے بتایا کہ تین ٹیلیویژن چینلز پر پروگرام کیے گئے تھے جن کا پیمرا نے نوٹس لیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس سے کیا ججوں کی عزت وہ وقار بحال ہو جائےگا؟ ان چینلز کا لائسنس کیوں نہیں منسوخ کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق آپ یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ابصار عالم نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک دم انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں تو عدالتیں ناراض ہوتی ہیں اس وجہ سے مرحلے وار کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے پیمرا کی کارروائی اور نوٹس کا جائزہ لیا اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی عدم حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی، جسٹس مشیر عالم، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 28 جولائی کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ

وہ آ کر عدالت کو بتائیں کہ سوشل میڈیا پر جـجز کے خلاف مہم کی روک تھام کے لیے انھوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ سماعت کے دوران رینجرز کی موجودگی اور اس کو حاصل پولیس کے اختیارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت پوری ہوگئی ہے، عدالت کو اس پر ہدایت کرنی چاہیے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے واضح کیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو انتظامی طور پر ہی حل کیا جائے عدالت اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو نادرا ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسگ کی جدید سہولت دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اویس شاہ سمیت دیگر مقدمات میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے پاس ٹو جی مانیٹرینگ نظام ہے اس لیے اس کو تھری جی ڈیٹا نہیں مل سکتا۔ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کی کئی ڈیوائسز دستیاب ہیں اور کئی شہروں میں تھری جی اور فور جی کی سہولیات موجود ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان اس کا فائدہ اٹھا کر واٹس اپ اور دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے انٹرنیٹ کالز کرتے ہیں جن تک رسائی کی ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں، پولیس کو اس کی اجازت دی جائے۔‘ جسٹس خلجی عارف حسین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی اور سندھ میں امن کا قیام چاہتی ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر انداز میں کارروائی کرسکیں۔ انھوں نے وفاقی سیکریٹری اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ پولیس کے شکایتی مرکز 15 کا ریکارڈر دو ہفتوں میں بحال کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی حکومت بتائے کہ اویس شاہ کے اغوا میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.