ترکی: ناکام بغاوت کے بعد 50 ہزار کے خلاف کارروائی

ترکی میں گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی حکومت کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں ترکی کی سکیورٹی سروسز سے لے کر سول سروسز اور محکمۂ تعلیم سے لے کر میڈیا تک تمام اہم شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا ہے کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ترکی کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔پارلیمان سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن ایک دہشت گرد تنظیم کے قائد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘ ترکی امریکہ سے فتح گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترک صدر اردوغان نے منگل کو امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان سے فون پر بات کر کے انھیں گذشتہ ہفتے کی ناکام فوجی بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی ترکی حوالگی کے معاملے پر بات کی۔ ترکی کا الزام ہے کہ گولن نے گذشتہ ہفتے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی سازش تیار کی تھی، جب کہ گولن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا: ’صدر اوباما نے پرتشدد مداخلت کے خلاف ترک عوام کی جرات اور جمہوریت کے لیے ان کے عزم کو سراہا۔ ’صدر اوباما نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ بغاوت کی تحقیقات کے سلسلے میں ترک حکام کی مناسب مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ اس نے گولن کے بارے میں کچھ ’مواد‘ امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ترکی کی جانب سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی کسی بھی درخواست پر دوطرفہ معاہدے کے تحت غور کیا جائے گا۔ صدر اردوغان بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترک حکام نے بغاوت فرو کیے جانے کے بعد سے فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے 15 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹیوں کے 1577 سو سے زیادہ ڈینز کو بھی مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان سے پہلے منگل کو حکام نے وزارتِ داخلہ کے 8777 جبکہ وزارتِ خزانہ کے 1500 ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ ترک وزیرِ اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے 257 افراد کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور قریباً نو ہزار پولیس اہلکار برطرف کیے جا چکے ہیں۔زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی شہر میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.