اردوغان کو پاکستان میں ماڈل بنانے کی کوشش

ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے پر پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ترک صدر رجب طیب اردوغان کو مبارک باد دی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اس کا مظاہرہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر بھی کیا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر جماعت اسلامی کی جانب سے ترک عوام اور صدر اردوغان کے ساتھ اظہار یکہجتی کے لیے سرخ بینر لگائے گئے ہیں اور ترکی کے قومی پرچم نما بینروں پر تحریر ہے کہ ترک عوام نے اسلام دشمن لبرل امریکی لابی کو شکست دے دی ہے۔ ٭ترکی: ناکام بغاوت کے بعد پولیس میں ’صفائی‘ جاری ٭ ’فوج آئے تو مٹھائیاں بنٹیں گی، لوگ جشن منائیں گے‘ ان بینروں سے قبل کراچی اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں میں اردوغان حکومت محفوظ رہنے کی خوشی میں جماعت اسلامی کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی اور ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے اتنی بڑی قربانی شاید ہی کسی ملک نے دی ہے جو ترکی میں دی گئی۔ ’

جہاں فوج اقتدار پر قابض ہوگئی ہو، سڑکوں پر ٹینک موجود ہوں، نئی کابینہ کا اعلان ہو چکا ہو وہاں سیاسی قیادت واپس پہنچ گئی اور عوام نے اپنی تاریخی مزاحمت سے اس پوری بغاوت کو کچل دیا، یہ جمہوریت کی بڑی فتح ہے۔‘ اس سے قبل جماعت کی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دینے کے خلاف اور کشمیر میں مسلمانوں پر مبینہ مظالم کے خلاف مہم جاری تھی۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ اردوغان نے 12 سال عوام کی خدمت کی، اس سے قبل ترکی میں بھی بدعنوانی عام تھی اس دور سے پہلے نجم الدین اربکان نکلا اور ا س کے بعد طیب اردوغان آگے آئے اور ملک کو کرپشن سے پاک کیا اور ترقی کی۔ ’ہم ایک ایسے آدمی اور ایسی قوم کو جس کی ایک تاریخ ہے، اس نے اپنی جمہوریت کے لیے اتنا بڑا کام کیا ہے، اس سے کیوں نہ اظہار یکجہتی کریں اور اس کو رول ماڈل بنائیں، تاکہ عوام بدعنوانی سے پاک ملکی ترقی اور جو انسانی قدریں ہیں ان کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں اور قربانیاں دیں۔‘ نوجوان تجزیہ نگار سرتاج خان کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی اور اردوغان میں اخوان مسلمین کا نظریاتی تعلق ہے، جس میں اردوغان کے علاوہ پاکستان، انڈیا، افغانستان، مصر، بنگلہ دیش شامل ہیں۔ فی زمانہ بنگلہ دیش اور مصر میں اس پر برا وقت آیا ہوا ہے اور وہاں اس کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔‘ جامعہ کراچی کے پاکستان سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا ترکی سے نظریاتی تعلق ہے۔ طیب اردوغان کے سیاسی سرپرست اربکان جماعت اسلامی کے ہم خیال تھے اور ان کے آپس میں بہت زیادہ روابط بھی رہے اور جب سے اردوغان اقتدار میں ہیں، جماعت اسلامی بحثیت مجموعی ان کے پالیسیوں کی حمایت کرتی آئی ہے کیونکہ اردوغان اور ان کے جماعت کا بھی دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کا ترک عوام کے ساتھ پرانا تعلق رہا ہے، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف یہاں اسلامی جماعتوں نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی جس کو مہاتما گاندھی کی بھی حمایت حاصل رہی۔ جماعت اسلامی پر پاکستان میں فوج کی حمایت اور سیاسی معاونت کے بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ بنیاد پرست جماعتوں کا فوج کے حوالے سے کوئی اصولی موقف نہیں ہے بلکہ ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ فوج کی سربراہی کرنے والا جرنیل ان کا بندہ ہے کہ نہیں۔ انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں جماعت کا جو لٹریچر شائع ہوتا تھا اس میں کہا جا رہا تھا کہ اسلامی نظام لانے کے لیے جمہوریت ایک طریقہ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقے بھی ہو سکتے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہمارا ہم خیال جرنیل اقتدار میں آگیا ہے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.