آٹھ ہزار ترک پولیس اہلکار معطل، سپیشل فورسز تعینات

ترک حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے جبکہ پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان استنبول میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایتاس سے قبل ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کا کہنا تھا کہ حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان کو استنبول میں تعینات کر دیا ہے۔ سپیشل فورسز کے یہ دستے استنبول میں گشت کر رہے ہیں اور انھیں حکم دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ہیلی کاپٹر نظر آئے اسے مار گرایا جائے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حمایتیوں کی جانب سے موت کی سزا بحال کرنے کے مطالبے کا احترام کریں گے۔ صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے جو’وائرس‘ تھا اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے گا۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہو گئی ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سازش میں حصہ لینے والے بہت سے زیرِ حراست لوگوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ترک حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ استنبول کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے فائرنگ کی گئی اور اس کے علاوہ قونیہ صوبے میں فوجی اڈے پر بھی فائرنگ کی گئی۔ 6000 گرفتاریاں اس سے قبل ملک کے وزیر برائے انصاف نے کہا تھا کہ اب تک بغاوت کی سازش میں ملوث چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کا امکان ہے۔ ترکی میں جمہوری حکومت نے حالاتِ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تک فوج کے کئی اعلیٰ افسران اور 2700 ججوں کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح ملک کے جنوبی صوبے میں بریگیڈ کمانڈر اور 50 سے زائد فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گولن نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے ترکی کو تنبیہہ کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش میں امریکہ کے کردار کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ کہانی کو شیئر کریں ش

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.