’اخبارات پر پابندی سے افواہوں کی راہ کھل گئی‘

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکام نے اخباروں پر پابندی لگا دی ہے تاکہ معروف علیحدگی پسند جنگجو برہان وانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔ اخبار ’رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری اخباروں کی اشاعت پر پابندی سے حیران نہیں اور یہاں ان کے خیالات دیے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے سنیچر کی صبح فون کیا، اسے تشویش تھی کہ ہمارے اخبار کے ساتھ سب ٹھیک تو ہے۔ ٭ کشمیر میں کرفیو اور اخباروں پر پابندی برقرار ٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ اس نے پوچھا: ’کیا تمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے؟‘ میں نے اس سے کہا کہ مجھے پتہ چلانے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ دوسرے اخبار اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان کے پریس پر چھاپہ مارا گیا ہے۔ ہم نے بہت سوچا کہ کیا مظاہرے کے بعد سے ہم نے کوئی ’اشتعال انگیز‘ چیز تو شائع نہیں کی لیکن بہت سوچنے پر بھی کچھ یاد نہیں آیا۔ لیکن جب میں نے اپنے دفتر فون کیا تو دفتر کے ایک ملازم نے بتایا کہ ہمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے سٹاف کو پکڑلیا گیا ہے اور اخبار کو ضبط کر لیا گيا ہے۔ مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ حکام نے پہلے بھی سنہ 2008 اور 2010 میں انڈیا کے خلاف مظاہروں کے دوران ہمیں اپنی اشاعت روکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب کشمیری علیحدگی پسند افضل گورو کو بھارتی پارلیمان پر سنہ 2001 میں حملے کی پاداش میں سنہ 2013 میں پھانسی دی گئی تھی تو پریس اور سٹینڈ سے ہمارے اخبار کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا اخبار چار دنوں تک بند رہا تھا جبکہ سنہ 2010 کے مظاہروں کے دوران دس دنوں تک بند رہا تھا۔ اس بار معروف جنگجو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پرتشدد واقعات میں ابھی تک 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 1800 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کرفیو نافذ ہے اور موبائل اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن ہے۔ اس سے قبل بھی معلومات پر روک حکومت کی ’حکمت عملی‘ تھی اور وہی منظر پھر آنکھوں کے سامنے ہے۔ حکومت کے ٹیلیفون سروس کے علاوہ تمام ٹیلیفون سرو‎سز کو بند کر دیا گيا ہے، کیبل ٹی وی بند ہے، انگریزی، اردو اور کشمیری میں شائع ہونے والے تقریباً 70 اخبارات کو سرکاری طور پر چند دنوں کے لیے اشاعت بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ صرف چند براڈ بینڈ کنکشن کے سبب ہم دنیا کے باقی حصوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہمارے لیے یہ پابندیاں نئی نہیں ہیں۔ سنہ 1990 کے اوائل میں مسلح بغاوت کے پھیلنے کے بعد سے علاقے میں میڈیا کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑا ہے اور یہ یہ علاقہ عملی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ فوج والا علاقہ ہے۔اس وقت سے اب تک 13 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور مقامی صحافیوں کے لیے جان کا خطرہ، دھمکیاں، زدو کوب، گرفتاریاں، پابندیاں زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ صحافیوں کو سکیورٹی فورسز اور جنگجو دونوں جانب سے برابر نشانہ بنایا گيا ہے۔ یہاں شائع ہونے والے اخبارات کو حکومت کے اشتہار نہیں دیے گئے جو کہ چھوٹے اخباروں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔ جب کوئی مقامی صحافی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی رپورٹ کرتا ہے تو اسے ’ملک مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر وہ جنگجوؤں یا علیحدگی پسندوں کی خرابی کو اجاگر کرتا ہے تو اسے ’تحریک مخالف‘ یا ’حکومت نواز‘ کہا جاتا ہے۔ کشمیر کے وزیر تعلیم نعیم اختر نے کہا ہے کہ میڈیا پر پابندی کا ’فیصلہ بہت ہچکچاتے ہوئے کیاگیا۔‘ انھوں نے اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے عارضی طریقہ کار ہے۔۔۔ ہمارے خیال میں بہت سے جذباتی اورنوجوان ہے جو میڈیا کے بعض رخ سے بہت بھر جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سانحے بڑھ جاتے ہیں۔‘ حکومت جو حالات کو معمول پر لانے کے لیے بے تاب ہے اس نے اخباروں پر پابندی لگا کر افواہوں کے پھیلنے کا راستہ کھول دیا ہے جس سے پہلے سے ہی کشیدہ ماحول مزید خراب ہو سکتا ہے۔ کسی جمہوری نظام میں میڈیا کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ میڈیا کا گھونٹنے سے جمہوریت کو طاقت نہیں ملے گی جو کہ کشمیر میں ایک عرصے سے خطرے سے دو چار ہے۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.