ترکی: فوجی بغاوت ’ناکام‘، کنٹرول اردوغان حکومت کے ہاتھ میں

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 192 افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 104 باغی فوجی، 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری شامل ہیں۔ بغاوت کا حصہ بننے والے 1500 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیترکی کا یونان سے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ ترکی کی وزراتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یونان ترکی پہچنے والے آٹھ فوجیوں کو واپس کرے۔ یہ فوجی ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر یونان پہنچے ہیں جہاں وہ سیاسی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم کے خطاب کے اہم نکات وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔

فوجی میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘ ترکی کے وزیراعظم نے صدر کے پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام میں پارلیمانی اجلاس طلب کیا ہے۔باغی گروہ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں تھا ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو منظر عام پر آئیں ہیں۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر نہیں کچلا جا سکا۔ انقرہ میں واقع ملٹری ہیڈ کوارٹرز کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوارٹرز کے ارد گرد کے علاقے کو کلییر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قائم مقام آرمی چیف نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی فوجیوں نے کئی فوجی کمانڈرز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ترک صدر طیب اردوغان کے دفتر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام کو سڑکوں پر نکلیں۔ صدر کے دفتر سے کیے گئے ٹویٹ میں کہا گیا ہے ’اس بات سے قطع نظر کہ بغاوت کس مرحلے پر ہے ہمیں آج شام کو سڑکوں نکلنا ہو گا۔ نئی بغاوت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔‘ترکی کے قائم مقام آرمی چیف کا کہنا ہے کہ باغیوں کے 104 رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ترکی کے حکام نے کہا تھا کہ باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 90 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ قائم مقام آرمی چیف کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان 90 افراد میں پولیس اہلکار اور عام شہری ہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری ہلاک ہوئے۔رکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ حکومت کی حمایت کریں۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.