شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ خاندان افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔ اب انھیں واپس پاکستان لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک ماہ میں صرف اڑھائی ہزار خاندانوں نے ہی آمادگی ظاہر کی ہے۔
افغانستان نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں کو اب دوسری مرتبہ یکم اگست تک کی حتمی تاریخ دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رجسٹریشن فارم مکمل کر کے غلام خان میں قائم رجسٹریشن مرکز میں جمع کروا دیں۔
شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جو متاثرین رجسٹریشن نہیں کرا سکے ان کے بارے میں اعلی سطح پر منعقد ہونے والے آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جا ئےگا۔
اس سے پہلے یکم جولائی کی تاریخ دی گئی تھی لیکن اس وقت تک کم ہی لوگ رجسٹریشن فارم جمع کرا پائے تھے۔
افغانستان کے صوبے خوست اور دیگر علاقوں میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی خاندان متاثرین کے کیمپوں، رشتہ داروں اور کرائے کے مکانوں میں مقیم ہیں۔کامران آفریدی نے بتایا کہ یہ قبائلی رہنماؤں کا مطالبہ تھا اور اس کے لیے انھوں نے افغانستان ایک نمائندہ وفد بھیجا تھا تاکہ وہاں مقیم متاثرین کو اطلاع دے دیں کہ وہ واپس اپنے وطن آنے کے لیے اپنی رجسٹریشن کرا لیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد ایک تو ان لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ہے اور دوسرا انھیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے دستیاب وسائل کا جائزہ لینا ہے۔
افغانستان میں مقیم پاکستانی متاثرین کی واپسی کے عمل کے لیے پہلے غلام خان چیک پوسٹ پر ان کی رجسٹریشن ہوگی اور پھر انھیں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں کے قریب قائم بکاخیل کیمپ لایا جائےگا۔
بکا خیل کیمپ میں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن مکمل
ہوگی جہاں انھیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور پھر دیگر متاثرین کے ہمراہ ان کی اپنے وطن کو واپسی کی جائے گی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر متاثرین رجسٹریشن نہیں کراتے تو پھر ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند روز میں ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوگا جس میں ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائےگا۔‘یہاں ایسی اطلاعات ہیں کہ ان فیصلوں میں ایک یہ فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان متاثرین کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو جس طرف جانے کا موقع ملا وہ اسی جانب روانہ ہوگئے تھے ان میں وہ لوگ جو افغانستان کی سرحد کے قریب رہائش پذیر تھے وہ افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔ کامران آفریدی کے مطابق افغانستان جانے والے متاثرین میں چند ایک کرم ایجنسی کے راستے واپس پاکستان آگئے تھے۔ ادھر خیبر پختونحوا کے مختلف علاقوں میں مقیم شمالی وزیرستان ایجنسی کے متاثرین کی واپسی میں کچھ عرصے سے تیزی آئی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ ان متاثرین کی واپسی کا یہ عمل اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں قریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ افراد ان دنوں ضلع بنوں میں مقیم ہیں۔ |
Labels: