میں جب منٹو وغیرہ کے سینتالیس کے تناظر میں لکھے افسانے پڑھتی تھی تو یہ سوچتی تھی کہ یہ دانشورانہ غیر ذمہ داری ہے۔ ایک دانشور کو صورتحال کا منطقی جائزہ لینا چاہیے اور اس پہ مدلل بات کرنی چاہیے۔ اگر افسانہ یا ناول لکھا تو ایسے کیوں لکھا جیسے بین ہو۔
یہ وہ دور تھا جب سقوطِ ڈھاکہ کا زخم چھپا لیا گیا تھا، ہم کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے اور بقول شخصے باس کے خاص آدمی بنے ہوئے تھے۔اس وقت کے ادیب بین نہیں کرتے تھے، بڑی معصوم باتیں کرتے تھے، مزاح اور تصوف سے بھر پور۔ مان لینے والے لوگ تھے اور رونے دھونے، سوال کرنے، بین ڈالنے والے لوگوں سے یقیناً بہتر تھے۔
برہان وانی کو مار دیا گیا، احتجاج کرنے والوں کو بھی مار دیا گیا۔ بہت سوں کو اندھا کر دیا گیا اور پھر ہم لو گوں نے کان سے قلم اتارے، کھنکھارے، آنکھیں ملیں اور اپنے کافوری سروں پہ ہاتھ پھیر کر منطقی تجزیے شروع کر دیے۔ کیا اس قتل و غارت گری سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا برہان کا جنازہ جانے دیا جاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا؟ اگر یہ چھرے والی بندوقیں نہ چلائی جاتیں اور کسی طرح کا ’ہلکا پھلکا تشدد‘ کر لیا جاتا تو یہ لوگ نہ مرتے اور بی جے پی سرکار کی بھد نہ اڑتی، ہندوستانی فوج کو اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ہم بین کرنے والی نسل نہیں۔ ہم بہت منطقی ہیں اور ہر بات میں دو جمع دو چار نکال لیتے ہیں ہم کوئی منٹو ہیں جو تقسیم کا نوحہ لکھیں گے؟
کشمیر میں 1931 سے جاری یہ تحریک ہمیں نظر نہیں آتی شاید کوئی چھرا اڑ کر سینکڑوں ہزاروں میل کا فا صلہ طے کر کے ہماری آنکھ میں بھی گر گیا ہے۔ خیر اگلی بار ان کو سمجھا دیا جائے گا، وہ ہلکا پھلکا تشدد ہی کریں گے۔ وہ تو جب سمجھیں گے تب سمجھیں گے، ہم اب ’جان کانڑیاں‘ بن چکے ہیں اور ساری دنیا کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، بھگت سنگھ، منگل پانڈے، سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد، جھانسی کی رانی، لینن، جارج واشنگٹن وغیرہ وغیرہ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ایک کھلا خط ایک مردہ دہشت گرد کے نام لکھا گیا جس میں اسے صاف سمجھا دیا گیا کہ بیٹا تم ڈاکٹر، انجینیئر کچھ بھی بن سکتے تھے اگر تم آزادی کے لیے آواز نہ اٹھاتے۔ جو فوجی ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں، بننے کو تو وہ بھی ڈاکٹر، انجینیئر سائنسدان بن سکتے تھے لیکن بھئی بات دلیل سے کرو، ان کو بندوق اٹھانی تھی، مادرِ وطن کی حفاظت کی خاطر۔ آخر کو کشمیر کسی کے باپ کا تو ہے نہیں اور حکومت چلانا، اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا کوئی خالہ جی کا واڑہ تو ہے نہیں ۔بات اتنی سی ہے کہ یہ جو ہنگامہ مچا اس کو دبا دو، چپ کرا دو ورنہ بات بہت بڑھ جائے گی ۔ ایک وعدہ تھا، رائے شماری کا تو جناب، ہم نے تو کیا نہیں تھا، جو کر گئے وہ مر چکے ہیں اب مردوں کے عہد و پیماں وہی جانیں۔ آزادی کی جہاں تک بات ہے تو ہندوستان کو دیکھو، پاکستان کو دیکھو۔ آزاد ہو کر کون سے لڈو پیڑے مل گئے۔ جو کام انگریز کر گیا اسی کو بیٹھے چاٹ رہے ہیں۔ ماری غلطیوں سے سبق سیکھو اور چپکے بیٹھے رہو۔ پڑھو لکھو ڈاکٹر بنو، انجینیئر بنو۔اگر آتے جاتے تمہاری تلاشی ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں، پاکستان کے ساتھ شا مل ہو کر آخر مل کیا جائے گا؟ وہاں تو جو ہیں وہ بھی روتے رہتے ہیں رونا ہی ہے نا؟ یہاں رو لو۔ کشمیر ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ہے ، تمھارا تو نہیں۔ تم بلا وجہ کیوں ہمارے غضب کو للکارتے ہو؟ہمارے لہجے سے یہ نہ سمجھنا کہ اس میں رعونت ہے۔ ہم تو دلیل کی بات کر رہے ہیں، تم جذباتی ہو، نادان ہو، کم عمر ہو۔ لوگوں کی باتوں میں آ گئے ہو۔ جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے، جو ہم سب کے رائے ہے اس کا احترام کیا جائے اور ہماری رائے سنہ 47 ہی سے یہ تھی۔ فیروز پور، گورداس پور وغیرہ کے جذباتی لوگوں نے ہماری رائے کا احترام نہ کیا۔ خواہ مخواہ امرتا پریتم کو بلھے شاہ کی روح کو تکلیف دینا پڑی اور چناب کے خون سے بھرنے کے بارے میں انٹ شنٹ لکھنا پڑا، خیر وہ تو تھے ہی نوحے لکھنے والے لوگ۔ وادی کی صورتحال کا ایسا منطقی تجزیہ میرے بہت سے دوستوں نے کیا اور یہ سب وہ ہیں جو میرے ساتھ گھنٹوں اعلیٰ انسانی اقدار پہ بات کرتے ہیں۔ امن، محبت، بھائی چارے کے خواب دکھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ لیکن آج جب وادی میں بین گونج رہے ہیں تو یہ سب اپنی اپنی آستینوں سے نچڑتے لہو سے بے خبر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے مجھے امن کے سندیسے بھیج رہے ہیں۔ کاش میں منٹو کی موذیل ہوتی اور یہ سندیسے ان کے منہ پہ مارتی اور ان سے کہتی کہ لے جاؤ اپنے اس امن کو اور دوستی کو۔ مجھے بین کرنے ہیں ان سب جواں مرگوں کے جو آزادی کی چاہ میں مارے گئے۔ مجھے منٹو اور امرتا پریتم کی طرح صرف بین کرنے ہیں ، عبداللہ حسین کی طرح ’اداس نسلیں‘ لکھنی ہے۔ رونا ہے اور رلانا ہے۔ آج کی دنیاکا قلم کار صرف یہ ہی کر سکتا ہے، مارنے والوں کے پاس ہمیں پڑھنے کا وقت کہاں اور جو پڑھ رہے ہیں ان کی آواز نہیں اور جو آواز اٹھاتا ہے اسے بھون دیا جاتا۔ اس لیے میں بھی صرف بین کر سکتی ہوں۔ آئیے ان سب لاشوں پہ رو لیں جو خون آشام انسانوں نے کشمیر سے لے کر فرانس تک گرائی ہیں اور جانے کس ڈر سے وہ انہیں کھا نہیں سکتے تو صرف ہونٹوں پہ زبان پھیر کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے، پوری دنیا کے مرنے والوں کے آنسو برہان کا نام لے کر بہا دیں۔ اتنا روئیں، اتنا روئیں کہ ساری وادی میں بین ہی بین گونج کر رہ جائیں۔ ان لوگوں کو بین کرنے والوں سے کوئی پرخاش نہیں۔ بس یاد رکھنا سبکیوں، سسکیوں میں کوئی سوال نہ منہ سے پھسل جائے، ورنہ ہم دشت گردوں کے ساتھی بن جائیں گے۔ بس روتے رہیں اور اگلی لاشیں اٹھانے کی ہمت جمع کرتے رہیں۔ |
Labels: