سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو ملتان میں قتل کر دیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے بی بی سی اردو کے رضا ہمدانی کو بتایا کہ قندیل کو ان کے بھائی نے ہلاک کیا ہے۔
٭ قندیل بلوچ جو کرتی ہیں دل سے کرتی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ فورینزک ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں اور پنجاب پولیس کے سربراہ نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
آر پی اور ملتان سلطان اعظم تیموری نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ قندیل کی موت دم گھٹنے سے ہوئی اور انھیں گلا دبا کر ہلاک کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم ڈیرہ غازی خان میں موبائل فونز کی دکان چلاتا ہے اور گذشتہ شب ہی اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان آیا تھا۔
تاحال اس قتل کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے تاہم سلطان اعظم تیموری کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد ڈیرہ غازی خان میں ملزم وسیم کو لوگ طعنے دیتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ملزم اس واقعے کے بعد سے مفرور ہے اور اسے تلاش کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ قندیل بلوچ کی جانب سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔
تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر سٹار سمجھا جاتا تھا اور جہاں فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے وہیں ان کا شمار پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ہوتا تھا۔ حال ہی میں ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اپنی پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں تھیں۔ اس سے قبل ماہِ رمضان میں ان کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ ’سیلفیز‘ بھی منظرِ عام پر آئی تھیں جن کی وجہ سے مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں قندیل نے کہا تھا کہ انھوں نے ابتدا میں شو بزنس میں جانے کی کوشش کی لیکن وہاں لڑکیوں کے استحصال کے واقعات کی وجہ سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ’میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ اس کا میں نے ناجائز استعمال کیا، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں۔‘ |
Labels: