پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت صوبہ بھر میں 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
حکومت پنجاب کے محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس’ان سیشن‘ نہ ہونے کے باعث گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 128 کی شق 1 کے تحت آرڈیننس جاری کیا جو فوری طور پر پورے صوبہ میں نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔
٭ ’دنیا میں ساڑھے چار کروڑ جدید غلام موجود‘
٭ پاکستان کے’غیر محفوظ‘ بچے
آرڈیننس میں صوبہ کے تمام سرکاری اور نجی اداروں اور آجروں کو 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت نہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ 15 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو خطرناک پیشوں میں ملازمت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
صحافی عبدالناصر کے مطابق آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے کام لیتے وقت ان کے تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے اوقات کا خیال رکھا جائے تاکہ ان میں کوئی حرج نہ آئے۔
آجروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے مسلسل صرف تین گھنٹے کام لیا جائے اور اگلے تین گھنٹوں کی مشقت سے قبل انھیں آرام کے لیے ایک گھنٹہ کا وقفہ دیا جائے لیکن ایک دن میں وقفے سمیت سات گھنٹوں سے زیادہ یا شام 7 سات بجے سے صبح 8 بجے تک کام لینا جرم تصور کیا جائے گا۔
آرڈینس میں آجروں کو بالغ افراد کو ہفتہ میں ایک چھٹی دینے کا بھی پابند بنایا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر کم از کم سات روز اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید اور دس ہزار سے 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے
گی۔ اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی کے قانون کو دوسری بار توڑنے پر تین ماہ سے پانچ سال تک کی سزا دی جا سکے گی۔ آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمی، جسم فروشی، منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لیے غلام بنانے پر 2 سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 3 سے 7 سال تک کی قید کی سزا ہوگی۔ آجروں کو 15 سال سے 18 سال کے بالغ ملازمین کی عمر اور ملازمت کا مکمل ریکارڈ مرتب کرنے کا بھی پابند بنایا گیا اور عمر کے تعین کے لیے نادرا کے فارم ’ب‘ کی شرط رکھی گئی ہے۔ کسی بچے کو ملازم رکھنے یا 18 سال تک کے بالغ افراد سے آرڈیننس کے منافی مشقت لینے کی صورت میں کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ جس سے وہ وابستہ ہوں اسے بند کیا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس میں خطرناک پیشوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق سامان یا مسافروں کی منتقلی، ریلوے سٹیشن پر کیٹرنگ، ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم یا ایک ٹرین سے دوسری ٹرین میں منتقلی شامل ہے۔ وزن اٹھانا، چمڑے کی رنگائی، سکھائی، زرعی ادویات کی مینوفیکچرنگ و سپرے، دھماکہ خیز مواد، کیمیکل، کاٹنے والی مشینری اور 50 وولٹ سے زیادہ بجلی کے تاروں کا کام بھی خطرناک پیشوں میں شمار کیا گیا ہے۔ آرڈیننس میں بالغ افراد کو سیمنٹ انڈسٹری، کان کنی، پتھروں کی پسائی، شیشہ مینوفیکچرنگ، قالین بافی، سگریٹ، بیڑی اور نسوار سازی، ایل پی جی اور سی این جی ریفیلنگ انڈسٹریز اور سینیماز میں ملازمت دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔ |
Labels: