ترکی میں ’فوجی بغاوت‘: لائیو اپ ڈیٹس

ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 700 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔سی این این ترکی کے مطابق ترکی کی فوج کے سربراہ اور ملٹری چیف آف سٹاف ہلوزی اکار کو سکیورٹی فورسز ریسکیو کر لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے ان کو انقرہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایئر بیس سے ریسکیو کیا ہے۔ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ باغی فوجیوں نے ان کو یرغمال بنا لیا ہے۔16

 باغی فوجی ہلاک خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ نیم فوجی دستوں کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی جھڑپوں میں 16 باغی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ وہاں سے 250 کو حراست میں لیا گیا ہے۔’فوجی بغاوت‘ کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات استنبول کی یونیورسٹی کے سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کے سربراہ گلنور ایبت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں تختہ الٹنے کی کوشش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے۔ سینیئر کمانڈر اس کوشش کی مذمت میں کھل کر سامنے آئے۔ عوام اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے باہر نکلے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکی کی مسلح افواج کے 754 فوجیوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں حراست میں لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ پانچ جنرلز اور 29 کرنلز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ باغی فوجیوں کے پاس چند فوجی ہیلی کاپٹر ہیں لیکن ان کے پاس کوئی جیٹ طیارہ نہیں۔ 09:45 بین الاقوامی امور کے ماہر مائیکل سٹیفنز کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش صدر طیب اردوغان کی اتھارٹی کو بڑا دھچکہ ہے۔امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین نے تردید کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور انھوں نے اس کوشش کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پانچ دہائیوں میں جو شخص خود فوجی بغاوتوں میں متاثر ہوا ہو اس کے لیے یہ بہت بے عزتی کی بات ہے کہ اس پر فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگایا جائے۔ میں ان الزامات کی تردید کرتا ہوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے حاصل کرنی چاہیے نہ کہ طاقت کے ذریعے۔‘برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس کو باغی فوجیوں کے گروہ کی جانب سے ایک بیان ای میل کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اب بھی پرعزم طریقے سے لڑ رہے ہیں‘۔ دوسری جانب اب بھی ترکی کی سڑکوں پر ٹینک موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹینک خالی ہیں اور ان کے قریب مسلح پولیس موجود ہے اور لوگ ان ٹینکوں کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہیں۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.