انڈیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اُٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں ایودھیا میں انتقال کر گئے ہیں۔
وہ ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انھیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گيا تھا۔
ان کے بیٹے اقبال انصاری نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔‘
ان کے بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ آج بدھ کے روز ہی بعد نماز مغرب ان کی تدفین تاریخی قبرستان میں کی جائے گی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبر شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔
60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔
وہ اس مقدمے کو سیاسی رنگ دیے جانے کے خلاف تھے اور ان کے مطابق اسی سبب سخت گیر ہندوؤں نے چھ دسمبر سنہ 1992 میں اس 16ویں صدی کی تاریخی مسجد کو منہدم کردیا۔ سنہ 2014 میں ہمارے نمائندے شکیل اختر نے ایودھیا میں ہاشم انصاری سے ملاقات کی تھی جب انھوں نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ ’جمہوریت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔‘ ان کے خیال میں اس کا حل نہیں ہے اور ایک بار تو انھوں نے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے مقدمے سے دست بردار ہونے کی بات کہی تھی۔ انھوں کہا کہ ’آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجیے۔ مجھے بابری مسجد نہیں چاہیے۔‘پچھلے دنوں جب ہاشم انصاری نے یہ بیان دیا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکیولر، ایماندار اور شکستہ دل کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا جہاں کبھی انھوں نے نماز پڑھی تھی۔ سنہ 2010 میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ہاشم انصاری نے کہا تھا: ’میں سنہ 1949 سے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن آج تک کسی ہندو نے ہم کو ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ہمارا ان سے بھائی چارہ ہے۔ وہ ہم کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں مع اہل و عیال دعوت پر جاتے ہیں۔‘ متنازع مقام کے دوسرے اہم دعویداروں میں نرموہی اکھاڑے کے رام کیول داس اور دگمبر اکھاڑہ کے رام چندر پرمہنس سے ہاشم کی آخر تک گہری دوستی رہی۔ پرمہنس اور ہاشم تو اکثر ایک ہی رکشے یا گاڑی میں بیٹھ کر مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت جاتے تھے اور ساتھ ہی چائے ناشتہ کرتے تھے۔ |
Labels: