ترکی میں صدارتی محافظوں کے دستے کو ختم کرنے کا فیصلہ

ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد اعلیٰ صدراتی محافظوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا ہے کہ صدارتی محافظوں کی ’اس ریجمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘ بن علی یلدرم ہبر ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’یہاں اب صدارتی محافظ نہیں ہوں گے، ان کا کوئی مقصد نہیں، کوئی ضرورت نہیں۔‘ ٭ ’ترکی میں مزید گرفتاریاں ہو سکتی ہیں‘ ٭ ہزاروں نجی سکولوں اور تنظیموں کو بند کرنے کا حکم * اردوغان کی’جوابی بغاوت‘ میں نشانے پر کون؟ صدراتی محافظوں کی تعداد 2500 کے قریب ہے لیکن ان میں سے کم از کم 283 کو ناکام فوجی بغاوت کے بعد حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے بھتیجے کو ترکی میں گرفتار کیا گیا جبکہ صدراتی حکام کے مطابق فتح اللہ گولن کے ایک اہم ساتھی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ صدر طیب اردوغان کی جانب سے ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد شروع کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم 60 ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کو معطل کیا جا چکا ہے۔ گذشتہ ہفتے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت بھی نافذ کر رکھی ہے۔ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر اردوغان کو پارلیمان کو بائی پاس کرنےاور بعض شہری حقوق معطل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ تاہم انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ترک شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔

دوسری جانب ترکی کے نائب وزیراعظم نورتن کانیکلی نے کہا ہے کہ ناکام بغاوت کے بعد ملک میں ہونے والی گرفتاریاں بغاوت کرنے والے گروہ کے جلاوطن رہنما گولن کے حمایتیوں کی ملکی اداروں میں موجودگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ ترکی کے نائب وزیراعظم نے بی بی سی کو بتایا کہ بغاوت میں ملوث ہونے والے مزید افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ترک حکومت امریکہ میں مقیم مبلغ فتح االلہ گولن پر الزام عائد کرتی ہے کہ ملک میں بغاوت ان کی ایما پر کی گئی ہے تاہم وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ 40 برسوں سے دہشت گرد ننظیم ملک کے مزید حصوں میں سرایت کر گئی ہے جس میں وزارتوں سمیت تمام ادارے اور نجی سیکٹر بھی شامل ہیں۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.