انڈیا کے زیر انتظام جنوبی کشمیر کی رہائشی چودہ سالہ انشا مشتاق اس وقت سرینگر کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بستر پر شدید تکلیف میں ہیں اور ان کی والدہ رضیہ بیگم بے یار و مددگار ان کے پاس بیٹھی ہیں۔
انشا مشتاق کا چہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں انشا فاطمہ کو بڑی تعداد میں چھرے لگے تھے۔
ان کے والد مشتاق احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انشا دیگر خاندان والوں کے ساتھ اپنے گھر کی پہلی منزل پر تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ انشا نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر جھانکا تو سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکار نے انتہائی قریب سے ان پر چھرے فائر کیے۔‘امراضِ چشم کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر طارق قریشی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انشا مشتاق کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اب دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پائیں گی۔‘
ڈاکٹر طارق قریشی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسے تقریباً 117 کیسز آئے ہیں۔ ان میں سے سات لوگ چھروں کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھے ہیں جبکہ دیگر 40 افراد کو آنکھوں پر معمولی زخم آئے جنھیں طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔‘
چھروں والی بندوق (پیلیٹ گن) ایک شاٹ گن ہوتی ہے جسے عام طور پر جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال سنہ 2010 میں کیا گیا تھا۔ اس بندوق سے ایک وقت میں بڑی تعداد میں گول چھرے فائر کیے جاتے ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ نکلتے ہیں۔ پیلیٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔عام گولی کی نسبت یہ کم مہلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی شدید زخم آ سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ چھرے آنکھ میں لگیں۔ کشمیر میں چھروں سے آنے والے زخموں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ’بے ڈھنگے اور نوکیلے چھرے دیکھے ہیں جن سے اس مرتبہ زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔‘ انڈیا کی سکیورٹی فورسز کو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت کارروائی کرنی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ صورتحال میں ٹانگوں کا نشانہ بنایا جائے۔ تاہم 90 فیصد زخم وہ جسم کے اوپر کے حصوں پر آئے ہیں۔ کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیشور یادو کا اس بات پر اسرار ہے کہ اہلکاروں نے ’مظاہرین سے نمٹنے میں کافی حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک خصوصی کارتوس کا استعمال کیا جو کم اثر اور غیر مہلک ہے۔‘ لیکن بہت سے لوگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری فورسز نے جان بوجھ کر سینے اور سروں کو نشانہ بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ہلاک کرنے کے لیے نشانہ بنایا۔‘سرینگر ہسپتال جہاں انشا مشتاق زیر علاج ہیں ایسی دردناک اور کرب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ 17 سالہ شبیر احمد ڈار کو نرس طبی امداد فراہم کر رہی ہیں اور ڈاکٹروں کو ڈر ہے کہ شبیر اپنی دائیں آنکھ کی بینائی کھو بیٹھیں گے۔ ان کے بیڈ کے قریب ہی موجود 16 سالہ عامر فیاض غنی نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا کہ کوئی چیز میری آنکھ پر زور سے آکر لگی۔‘ ڈاکٹروں کے خیال میں فیاض غنی خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کی آنکھ بچائی جا سکتی ہے۔ ایسے زخمی اگر بچ بھی جائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مالی مشکلات اور ٹراما کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ 15 سالہ عابد میر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ عابد میر کے گھر والوں کو اب ان کا علاج کروانے کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے، وہ انھیں ریاست پنجاب میں امرتسر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے بتایا کہ ’عابد کے علاج پر دو لاکھ روپے خرچ آیا ہے۔‘ |
Labels: