ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب تک تقریباً چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے جو’وائرس‘ تھے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے گا۔
بغاوت کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے ایک شخص کے جنازے میں شرکت کے موقعے پر ترک صدر نے کہا ہے کہ ’یہ بغاوت خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمیں فوج میں صفائی کا موقع ملے گا۔‘
صدر اردغان نے مزید کہا ہے کہ ’ میری عظیم قوم نے بغاوت کرنے والوں کو بہترین جواب دیا ہے۔‘
٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی
٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر
٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت
صدر اردغان نے کہا کہ ’تمام ریاستی اداروں سے اس وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا کیونکہ یہ وائرس اب پھیل چکا ہے۔ بدقسمتی سے کینسر کی طرح یہ وائرس ریاست میں پھوٹ چکا ہے۔‘
صدر طیب اردوغان نے سنیچر کو کہا تھا کہ اس سازش میں ملوث افراد کو بھاری قیمت ادا کرنے پڑے گی۔اس سے قبل ملک کے وزیر برائے انصاف نے کہا تھا کہ اب تک بغاوت کی سازش میں ملوث چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کا امکان ہے۔
ترکی میں جمہوری حکومت نے حالاتِ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تک فوج کے کئی اعلیٰ افسران اور 2700 ججوں کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح ملک کے جنوبی صوبے میں بریگیڈ کمانڈر اور 50 سے زائد فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر انصاف نے ان افراد کی گرفتاری کے عمل کو ’صفائی کا عمل‘ قرار دیا۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ ملک کی پارلیمان سزائے موت کو متعارف کروانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گولین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے ترکی کو تنبیہہ کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش میں امریکہ کے کردار کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہو جانے کے بعد صدر رجب طیب اردوغان کی کہنے پر عوام نے مختلف شہروں میں جمہوریت کی حمایت میں ریلیاں نکالی ہیں۔ سنیچر کی شام نکالی جانے والی ان ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک تھے جنھوں نے ہاتھوں میں بینرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ |
Labels: