گذشتہ ہفتے فرانس کے ساحلی شہر نیس میں ایک حملے میں 84 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاسی الزام تراشیاں ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہ پریشان کن سوال دُہرایا جا رہا ہے کہ آخر فرانس میں لوگوں کو جہاد کی جانب راغب ہونے سے کیسے روکا جائے۔
فرانس کے قومی دن پر جب محمد لحوايج بوہلال نے ٹرک ایک ہجوم پر چڑ ھا دیا، تو ہو سکتا ہے کہ وہاں پر موجود عام لوگوں کو اس حملے پر شدید حیرت ہوئی ہو، لیکن جہاں تک شہر کے سرکاری افسران کا تعلق ہے تو آپ انھیں یہ الزام نہیں دے سکتے کہ دہشتگردی کے خطرے سے بےخبر تھے اور اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے تھے۔
بلکہ اس حملے سے بہت پہلے جب جنوری سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں نے پوری فرانسیسی قوم کو جگا دیا تھا تو سرکاری حکام نے ملک میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔
جہاں تک نیس کا تعلق ہے تو یہاں بھی سنہ 2000 کے پہلے عشرے میں ہی دیگر فکرمند حلقوں کے علاوہ مقامی ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اس بات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی تھی کہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے وہاں لوگ فرانس کی تہذیب اور اس کی اقدار کو رد کر رہے ہیں۔
٭ نیس میں حملہ کرنے والا کون تھا؟
٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘
شہر کی ایک کونسلر اور اس کے پسماندہ علاقے میں 35 سال سے سکول میں پڑھانے والی کیتھرین لکوننی کہتی ہیں کہ ایک عرصے سے ان کا مشاہدہ یہی ہے کہ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ زیادہ کٹر خیالات کو اپنا رہے ہیں۔
ان کے بقول ’ پرانے وقتوں میں میرے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں ماڈرن ہوتی تھیں۔ یہ خواتین کبھی بھی حجاب نہیں لیتی تھیں، لیکن اب بچیاں بھی حجاب لیتی ہیں اور ان کی مائیں بھی۔ بچوں کی مائیں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے انھیں کہتے ہیں کہ وہ پردہ کیا کریں۔‘
احساسِ محرومی
ماہرین کے مقامی گروپ سے منسلک برجٹ اربیبو کا کہنا ہے کہ گذشتہ عرصے میں لوگوں میں اپنی الگ شناخت کا احساس بہت عام ہو گیا اور اس کی بنیاد ان لوگوں کی شکایات ہیں۔
’سنہ 2012 سے ان لوگ کو شکوہ ہے کہ ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ امریکیوں اور یہودیوں کا اتحاد ان کے خلاف ہے۔ یہ لوگ کھلے عام یہودیوں اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع ہوگئے تھے۔
اور پھر آنے والے دو برسوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نیس اور اس کے نواح کا علاقہ فرانس میں سب سے زیادہ جہادی فراہم کرنے والا علاقے بن گیا ہے۔ مثلاً وہ لوگ جو فرانس سے جہاد کے لیے شام گئے ان میں سے دس فیصد کا تعلق یہاں سے تھا۔
نیس شہر اور ایپلس میریٹائم کے صوبائی حکام اس نئے رجحان کا جائزہ لے رہے تھے، اور پھر جنوری 2015 میں پیرس حملوں میں 17 افراد کی ہلاکت کے بعد ان حکام نے مقامی حالات پر زیادہ کڑی نظر رکھنا شروع کر دی۔
اس مقصد کے لیے علاقائی سطح پر ’انسدادِ انتہاد پسندی‘ کا ایک یونٹ بھی قائم کیا گیا جس میں اساتذہ، سوشل ورکروں اور سکیورٹی کے ماہرین کو جمع کیا گیا۔ یہ ماہرین ہر ہفتے ملتے ہیں اور اگر کسی خطرے کی علامات نظر آئیں تو اس کی تفتیش بھی کرتے ہیں۔نیس کے میئر نے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جہاں کسی بھی وقت کال کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن ان گھرانوں کے لیے قائم کی گئی ہے جن کو خطرہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ افراد اور گھرانوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد فرام کرنے کے لیے شہر کے کونسلروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔
اِس سال کے شروع میں جب حکام کو بتایا گیا کہ نیس کے کچھ فٹبال کلبوں میں باجماعت نماز کا انتظام کیا جاتا ہے تو میئر نے خبردار کیا کہ وہ کلب جو یہاں کے ’سیکولر دستور‘ کا احترام نہیں کرتے ان کی مالی مدد بند کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں استادوں، ماہرین تعلیم اور مقامی تنظیموں کے اہلکاروں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
’
بڑا بھائی‘ فرانس کے اِس علاقے میں شدت پسندی کے خلاف کام کرنے والوں میں سب سے بڑے مقرر عبداللہ مراہ ہیں ۔ عبداللہ مراہ دراصل محمد مراہ کے بڑے بھائی ہیں۔ تلوز کا رہائشی محمد مراہ وہ شخص تھا جس نے مارچ سنہ 2012 میں فوجیوں اور یہودی سکول کے بچوں پر حملہ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ محمد مراہ فرانس کا وہ پہلا مقامی جہادی تھا جس نے فرانس کی سرزمین پر دہشتگردی کی تھی اور اسے اب بھی ملک کے انتہاپسند حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد کے برعکس اس کے 39 سالہ بڑے بھائی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ انسدادِ انتہاپسندی کے ماہرین کے ساتھ کام کر کے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں جو ان کے بھائی نے لگایا تھا، بلکہ دیگر نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔عبدالغنی مراہ کے بقول ’میں کچھ نوجوانوں میں مشہور محمد مراہ کی اس شبیہہ کو توڑ دینا چاہتا ہوں کہ محمد ایک بہت بڑا ہیرو اور اسلام کا سپاہی تھا۔ عبدالغنی کا پیغام یہ ہے کہ فرانس ایسا ملک نہیں جہاں مقامی لوگ مسلمانوں کو دبانے پر تلے بیٹھے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ’فرانس ایک خوبصورت اقدار کی سرزمین ہے۔‘ ’مذہبی کنوارا پن‘ نیس اور اس کے گر د ونواح میں انتہاپسندی کے خلاف سرگرم لوگوں میں مذہبی رہنما بھی بہت اہم کراد ر ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک ابوبکر بکری ہیں جو سرکاری فلیٹوں سے منسلک ایک مسجد کے امام ہیں اور مسلم کونسل کے علاقائی نائب صدر بھی۔ سنہ 2012 میں جب محمد مراہ والا معاملہ چل رہا تھا تو ابوبکر بکری نے بھی شہر کے اس پسماندہ علاقے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو محسوس کیا۔ اس وقت سے وہ مسلسل اس رجحان کو روکنے کی کوشش میں رہے ہیں، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ دو ایسے نوجوانوں سے بات کر رہے تھے جن کی والدہ انھیں ان کے ہاں لائی تھیں۔ ’میں نے انھیں بتایا کہ انتہاپسندی اسلام کے خلاف ہے، لیکن بدقسمتی سے میری اس حکمت عملی نے کام نہیں کیا، کیونکہ دو ماہ بعد وہ دونوں لڑکے شام جانے کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ پولیس نے انھیں فرانس سے نکلنے سے پہلے پکڑ لیا تھا۔‘ابوبکر بکری کہتے ہیں کہ پریشانی میں مبتلا ان نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ نوجوان ’مذہبی طور پر کنوراے‘ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بڑی آسانی سے قائل کر لیا جاتا ہے اگر وہ کافروں سے کوئی چیز چرایں گے تو وہ دراصل خدائی کام کر رہے ہوں گے۔ اور کسی بھی نوجوان کے لیے انتہا پسند بننا اس لیے بھی پرکشش ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے خیالات سے لڑکیوں میں بھی زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یعنی آپ پرنس چارمنگ بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کو انتہاپسندی کے جانب جو چیز راغب کرتی ہے وہ اس کا عسکری یا جنگجوئی پہلو ہے، جبکہ لڑکیاں اس جانب رومانوی خیالات اور امدادی کام کے جذبے کی وجہ سے آتی ہیں۔ برین واشنگ مندرجہ بالا باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ فرانس میں صرف تارکین وطن گھرانوں کے نوجوان ہی انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ مِس اربیو کہتی ہیں کہ ’انتہاپسندوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ یہ نوجون مختلف سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔‘ مثلاً نیس کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والی ایک ماڈرن خاتون کی 13 سالہ بیٹی کیرل کی کہانی کو ہی لے لیجیے جو ایک دن اچانک بدل گئی۔کیرل کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی ایک خاموش اور فرض شناس لڑکی ہوا کرتی تھی اور بہترین طالبہ بھی۔ پھر اس نے سکول میں ان بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا جن کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو یہاں خوش نہیں تھے۔‘ کیرل نے اپنے والدین سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر وہ خنزیر کھائیں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کیرل نے انھیں ایک پروپیگنڈا وڈیو دکھائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ جنت کیسی ہوگی اور جہنم کا منظر کیا ہوگا۔ کیرل کی والدین کے بقول ’یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی آپ کا بچہ چرا کر لے جائے اور پھر برین واشنگ کر کے اس کا ذہن ہی بدل دے۔ کیرل کی باتیں سن کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہمارے ساتھ یہ ہوگا۔‘ ماہرین نفسیات کی مدد سے کیرل کو انتہاس پسندی سے بال بال بچا لیاگیا۔ اب وہ سولہ سال کی ہو گئی ہے اور اس نے اس اسلام کو قبول کر لیا ہے جس پر فرانس کے زیادہ تر مسلمان عمل کرتے ہیں۔ لیکن کیرل کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی بیٹی خطرے سے مکمل باہر نہیں آئی۔ ’اسی لیے ہم پوری طرح چوکس رہتے ہیں کہ کہیں ہماری بیٹی پھر سے انتہا پسند نہ بن جائے۔ |
Labels: