اگر آپ نے میرا کل کا کالم پڑھا ہو تو شاید آپ کو یاد ہو کہ اس میں محمد عامر نامی کسی شخص کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ عجیب لگا ہو، کیونکہ جمعے کو میڈیا اور خاص طور پر برطانوی میڈیا کی پوری توجہ محمد عامر کی ’جائے واردات‘ پر واپسی پر ہی تھی۔
لیکن دل لگتی بات یہ ہے کہ آج کی پاکستانی ٹیم ایک بہت اچھی ٹیسٹ ٹیم ہے اور لارڈز ٹیسٹ کی کہانی میں عامر کی واپسی کے علاوہ بھی دلچسپی کا سامان بہت ہے۔
’انگلینڈ نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا‘
* ’انگلینڈ فیورٹ نہیں ہے‘
* بیالیس سالہ ’نوجوان‘ مصباح الحق کی لارڈز میں سنچری
* پاکستان بمقابلہ انگلینڈ، تصاویر
مثلاّ یاسر شاہ کو ہی لے لیجیے۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے اس سپنر نے دوسرے دن کے کھیل میں پانچ وکٹیں لیکر اپنے کپتان کی طرح اپنا نام بھی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے’آنرز بورڈ‘ پر لکھوا لیا ہے۔ یاسر کی انتہائی نپی تلی بالنگ نے آج انگلینڈ کی بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ دیے۔انگلینڈ کی وکٹوں پر ٹیسٹ میچ کے ابتدائی دنوں میں سپنرز عموماً کچھ نہیں کر پاتے، لیکن آج اسی انگلینڈ کے ایک میدان میں میچ کے دوسرے دن یاسر کو اتنی عمدہ بالنگ کراتے دیکھنا کسی بھی تماشائی کو مسحور کرنے کے لیے کافی تھا۔
لگتا ہے کہ یاسر کو بھی اپنی باقی ٹیم کی طرح آج یہ ِخواہش گھیرے ہوئے تھی کہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ صرف پاکستانی وکٹوں پر اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے بلکہ بیرون ملک بھی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بات خواہشات اور تمناؤں کی ہو تو عامر کی کہانی کا ذکر کیسے نہ ہو۔
اگرچہ آج صبح کھیل کے آغاز میں ہی پاکستانی
اننگز ختم ہوگئی لیکن اننگز ختم ہونے سے پہلے محمد عامر نے یاسر کے ساتھ شراکت میں قیمتی رنز کا اضافہ کر دیا تھا، لیکن ساری دنیا جس چیز کا انتظار کر رہی تھی وہ عامر کی بیٹنگ نہیں تھی بلکہ ہر کوئی انھیں بولنگ ایکشن میں دیکھنا چاہتا تھا اور جب ان کی بولنگ کی ابتدا میں وہ خاص جھلک دکھائی نہیں دی تو ہر کوئی حیران ہوا کہ عامر کو کیا ہو گیا ہے۔ دراصل عامر کے ٹیلنٹ اور ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے حوالے سے اتنا کچھ کہا جا رہا تھا کہ ہر کوئی یہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا کہ پانچ سال بین الاقوامی کرکٹ سے باہر رہنے کے ان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے۔ اور پھر جب عامر اپنی پرانی فارم میں واپس آئے اور جلد ہی نپی تلی بالنگ کرانا شروع کر دی تو ان کا پالا ایک ایسی چیز سے پڑا جو واقعی گذشتہ پانچ سالوں میں نہیں بدلی تھی، یعنی پاکستانی فیلڈروں کی کیچ نہ پکڑنے کی اہلیت۔ ایک نہیں، دو مرتبہ عامر انگلینڈ کی سب سے قیمتی وکٹ نہ لے سکے کیونکہ الیسٹر کُک کے دو آسان کیچ چھوڑ دیے گئے۔ آخر کار عامر کو وہی کرنا پڑا جو پاکستان کے تمام عظیم بالر کرتے آئے ہیں، یعنی فیلڈرز پر بھروسہ نہ کرو اور خود ہی بلے باز کو بولڈ کر دو۔ چانچہ انھوں نے وہی کیا اور الیسٹر کُک کو بولڈ کر دیا۔ آؤٹ ہونے سے پہلے کُک نے سارا دن جو اننگز کھیلی وہ ان کی ماضی کی اننگز سے بالکل مختلف تھی۔ وہ آج بالکل بھی جم کر نہیں کھیل پائے اور زیادہ تر رنز بھی اچھی شارٹس کی بجائے ان گیندوں پر بنائے جب گیند ان کے بلے کے کنارے کو چُھو کر گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آج انھیں کریز سے ہٹانا آسان نہیں تھا۔ انھوں نے جو روٹ کے ساتھ مل کر انگلینڈ کی اننگز کو اس وقت سہارا دیا جب ایلکس ہیلز جلد ہی آؤٹ ہو چکے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایلسٹر کُک اور جو روٹ نے سکور میں تیزی سے اضافہ کیا۔اِن دونوں بلے بازوں کو اس بات سے بھی فائدہ ہوا کہ پاکستانی بالروں کو لارڈز کی وکٹ پر اپنی لائن اور لینگتھ پکڑے میں بھی وقت لگا۔ اور اگر ہم ’کرِک وِز‘ کے آج کے اعداد و شمار دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آج وہاب ریاض کے علاوہ ہر پاکستانی بولر کو ہوا میں بال گھمانے میں مدد ملی اور وہ گینذ کو ’مُوو‘ کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً جب راحت علی نے ایک شاندار اوور کراتے ہوئے ہیلز کی وکٹ لی تو اس وقت ان کی گیند میں عامر سے زیادہ موومنٹ نظر آ رہی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ آج گیند پر راحت علی کا کنٹرول ایسا نہیں تھا جیسا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کی بیٹنگ میں گہرائی پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اتنے پر اعتماد کیوں ہیں۔ کرِس ووکس کو ہی لیں لے۔ پاکستان کے خلاف چھ وکٹیں لینے کے بعد آج جب وہ چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے تو وہ انتہائی پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے لیکن پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس نے معین علی اور بیئرسٹو کو جلد ہی واپس پولین بھیج دیا، کیونکہ عموماً یہ دونوں آخر میں دھواں دھار بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی فیلڈنگ اتنی بڑی نہیں ہوتی تو دوسرے دن کے اختتام پر انگلینڈ کہیں زیاد ہ مشکلات کا شکار ہو چکا ہوتا۔ دوسرے دن کے اختتام پر دونوں ٹیموں کا پلہ برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلینڈ کو دھچکا لگا ہے، لیکن ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ میچ میں واپس آ سکتے ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی صرف گھر کے شیر نہیں ہیں۔ |
Labels: