لوگ افسردہ ہیں لیکن زندگی چل رہی ہے‘

فرانس کے شہر نیس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کو 24 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب جمعہ کی صبح لندن سے نیس روانگی کی تیاری شروع کی تو خیال یہی تھا کہ ایک افراتفری کا ماحول میرا منتظر ہو گا۔ بحیرۂ روم کے خوبصورت ساحل پر واقع اور سیاحوں میں مقبول فرانس کے اس جنوبی شہر میں لوگ نیس سے دور اور صحافی نیس کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ لیکن معلوم ہوا کہ صحافی تو نیس جا ہی رہے ہیں بظاہر سیاحوں کے جذبے میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ نیس جانے والی پرواز مکمل طور پر بھری ہوئی تھی۔ میرے برابر والی نشست پر بیٹھے ایک انگریز مسافر نے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پہلی بات یہی کہی کہ ’یہ جہاز تو بھرا ہوا ہے۔ کوئی کینسلیشن نہیں۔‘میں نے ان سے پوچھا کہ نیس میں آپ کا گھر ہے تو کیا کبھی خیال آیا تھا کہ ایسا واقعہ ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نیس میں ایسا کوئی ماحول نہیں تھا، لیکن جو کچھ پیرس، برسلز اور اس سے پہلے لندن میں ہو چکا ہے اس کے بعد اب انھیں اس واقعے سے حیرت نہیں ہوئی۔ نیس پہنچا تو ہوٹل میں بھی سیاحوں کی کمی نہیں تھی۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل آتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ شہر میں لوگ افسردہ ہیں لیکن زندگی چل رہی ہے۔ ہوٹل میں سامان چھوڑ کر میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس جگہ کو دیکھوں جہاں صرف 24گھنٹے قبل درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔تقریباً 20 منٹ پیدل کے اس فاصلے میں ایک پولیس کی گاڑی نظر آئی۔ ساحل سمندر پر پغومناد دیزانگلیز پہنچا تو سڑک کی ایک طرف فٹ پاتھ کے ساتھ دور تک رکاٹ لگائی گئی تھی جس پر جگہ جگہ پھولوں کےگلدستے آویزاں تھے۔

کہیں کہیں فٹ پاتھ پر موم بتیاں اور چراغ بھی جل رہے تھے۔ کہیں فرانسیسی، انگریزی تو کہیں عربی میں عبارات لکھ کر وہاں جگہ جگہ لگائی گئی تھیں۔ ایک جگہ مہاتما بدھ کی تصویر بھی چراغوں اور اگربتیوں کے بیچ میں نظر آئی۔آدھی رات کے بعد کا وقت ہونے کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں وہاں سے گزر رہی تھیں اور یہ شاید وہاں گرمیوں کی شاموں میں ایک معمول بھی ہے۔ کوئی خاموشی سے گزر رہا تھا اور کہیں لوگوں کی ٹولیاں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ ایک شخص سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا اس واقعے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور قریب ہی دیر رات کو ہوٹلوں سے نکل کر باہر آنے والے لوگوں کی قہقہے لگاتی ہوئی ٹولیاں بھی تھیں۔ کہیں سے پولیس کے سائرن کی آواز آئی لیکن وہ کسی گاڑی میں زور سے بجنے والی موسیقی کی آواز میں دب گئی۔ایک فٹ پاتھ پر نیکر اور بنیان میں ایک شخص اپنا سر ہاتھوں میں دیے گلدستوں کے ڈھیر کے پاس بیٹھا تھا اور اس کے قریب ہی ہوٹل میں شاید کسی پارٹی سے فارغ ہو کر نکلنے والے لوگ ہنسی مذاق میں مشغول تھے۔ کسی پر غم منانے کی پابندی نہیں تھی۔ سڑک کی دوسری جانب سطح سمندر آدھے چاند کی روشنی میں چمک رہی تھی اور اس اندھیرے میں بھی سمندر کا خوبصورت نیلا رنگ اپنی جھلک دکھا رہا تھا۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.