انڈیا: جھارکھنڈ میں ڈائن کے نام پر ہلاکتیں جاری

انڈیا کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں جادو، ٹونے ٹوٹکے اور ڈائن و کاہن کے شک میں ہونے والے قتل کو روکنے کے لیے قانونی کارروائی کی ایک عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم ان میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایسے معاملات میں حکومت سے مؤثر اقدام اٹھانے کے لیے کہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں دائر مفاد عامہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے صورتحال پر رپورٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صحافی نیرج سنہا کے مطابق ستمبر سنہ 2015 سے رواں سال مئی تک یعنی نو مہینوں میں جادو اور ڈائن کے نام پر تشدد کے 524 کیسز درج کیے گئے ہیں جبکہ 35 افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ساڑھے پانچ سال کے دوران ڈائن کے شبے میں تشدد کے 3300 کیسز پولیس فائلوں میں درج ہیں اور قبائلی ایسے واقعات کے زیادہ شکار ہیں۔پولیس ریکارڈ کے مطابق سنہ 2011 میں 36 افراد کو جادو ٹونے کے شک میں ہلاک کر دیا گيا جبکہ سنہ 2012 میں33 ہلاک ہوئے، سنہ 2013 میں47 افراد، سنہ 2014 میں 38 افراد اور سنہ 2015 میں 47 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ حال ہی میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وریندر سنگھ نے بذات خود قبائلی اکثریتی علاقے کے دور دراز گاؤں کا دورہ کیا اور ڈائن کے متعلق سرکاری پروگرام میں شریک ہوئے۔ مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:

’ڈائن کے نام پر قتل و تششد صوبے کے لیے سنگین مسئلہ ہے اور اس کا مناسب حل بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔ روک تھام کے لیے اس کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔‘ اس سلسلے میں فلم بنانے کے مقصد سے معروف فلم ساز اور ہدایتکار پرکاش جھا بھی جھارکھنڈ کے دورے پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں بیداری کے لیے وہ چھوٹی فلمیں اور ڈاکومینٹریز تیار کريں گے تاکہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ’سماج میں توہمات کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے لیے عدالت سے انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘ گملا ضلعے کے گھاگھرا میں پرکاش جھا کی یونٹ نے شوٹنگ بھی شروع کر دی ہے۔ اس شوٹنگ میں اس بچی کو شامل کیا گیا ہے، جن کے ماں باپ کو مبینہ طور پر ڈائن کے شبے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حال ہی میں لوہردگا کے گڑي ٹھیكاٹولي گاؤں میں جادو کے شبے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے اور پھر گملا کے گھاگھرا میں ڈائن کے شبے میں ایک بیٹے کے ہاتھوں اپنی ماں کے قتل کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ رانچی ضلع کے مانڈر میں بھی ایک ساتھ پانچ قبائلی خواتین کا قتل کر دیا گيا تھا۔ آئی جی (منظم جرائم) سمپت مینا بتاتی ہیں کہ ’ڈیٹا بیس کے ذریعے ان اضلاع اور تھانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں رانچی، لوہردگا، کھونٹی، گملا، سمڈیگا، چائی باسا، سرائے کیلا، لاتیہار، گڑھوا، جمشید پور جیسے اضلاع شامل ہیں۔‘انھوں نے اضلاع کے پولیس افسران کو زیر التوا معاملات کو نمٹانے اور مکمل کارروائی کرنے کے لیے کہا ہے۔ ڈائن کے خلاف تشدد کے خاتمے کے متعلق پروگرام چلانے والے غیر سرکاری ادارے ’آشا‘ کی پونم ٹوپو کہتی ہیں: ’ان معاملات میں سرکاری کوششیں ابھی تک ناکافی ہیں۔ بیداری مہم والوں کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ گاؤں بھیجا گیا لیکن یہ مہم مسلسل نہیں چلائی جا رہی ہے۔‘ اسی تنظیم کے سربراہ اجے بھگت کا خیال ہے کہ ’دیہات میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں ٹھوس کام کیے بغیر توہمات پر لگام لگانا مشکل ہے۔‘جبکہ لوہردگا کے ایس پی کارتک ایس بتاتے ہیں کہ ’دیہات میں اوجھا اور جھاڑ پھونک کرنے والوں شناخت کرنے کی کارروائی شروع کی گئی ہے، تاکہ وہ بھولے بھالے دیہاتیوں کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔‘ گڑاٹھوكي ٹولے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’رات میں کئی دیہات کے لوگ گھنٹیاں بجاتے آ گئے۔ انھیں وہم تھا کہ اس گھر کے لوگ بچوں کی قربانی دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ امیر و کبیر ہو رہے ہیں۔ جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔‘

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.