MUZAFFARABAD: Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) Chairman Imran Khan on Sunday stated the people of Pakistan will celebrate and distribute sweets if the army takes over in the country. "Democracy in Pakistan is threatened by Nawaz's monarchy and the people will celebrate and distribute sweets if the army takes over," said Imran while addressing a public rally in Azad Kashmir. The PTI chief added the people of Turkey supported Erdogan as he serves the people, while Nawaz has burdened the people with debt. "In three years

, Nawaz Sharif has burdened the people with billions in debt." Imran also questioned the premier's continued silence over the Panama Papers controversy. Forces loyal to the Turkish government fought on Saturday to crush the military coup attempt which crumbled after crowds answered President Tayyip Erdogan's call to take to the streets and dozens of rebel soldiers abandoned their tanks. More than 194 people — including 41 police, 47 civilians, two military officers and 104 described as “coup plotters” — were killed in clashes that erupted after a faction of the armed forces attempted to seize power using tanks and attack helicopters, some strafing the headquarters of Turkish intelligence and parliament in Ankara, others seizing a major bridge in Istanbul.
میں جب منٹو وغیرہ کے سینتالیس کے تناظر میں لکھے افسانے پڑھتی تھی تو یہ سوچتی تھی کہ یہ دانشورانہ غیر ذمہ داری ہے۔ ایک دانشور کو صورتحال کا منطقی جائزہ لینا چاہیے اور اس پہ مدلل بات کرنی چاہیے۔ اگر افسانہ یا ناول لکھا تو ایسے کیوں لکھا جیسے بین ہو۔ یہ وہ دور تھا جب سقوطِ ڈھاکہ کا زخم چھپا لیا گیا تھا، ہم کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے اور بقول شخصے باس کے خاص آدمی بنے ہوئے تھے۔اس وقت کے ادیب بین نہیں کرتے تھے، بڑی معصوم باتیں کرتے تھے، مزاح اور تصوف سے بھر پور۔ مان لینے والے لوگ تھے اور رونے دھونے، سوال کرنے، بین ڈالنے والے لوگوں سے یقیناً بہتر تھے۔ برہان وانی کو مار دیا گیا، احتجاج کرنے والوں کو بھی مار دیا گیا۔ بہت سوں کو اندھا کر دیا گیا اور پھر ہم لو گوں نے کان سے قلم اتارے، کھنکھارے، آنکھیں ملیں اور اپنے کافوری سروں پہ ہاتھ پھیر کر منطقی تجزیے شروع کر دیے۔ کیا اس قتل و غارت گری سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا برہان کا جنازہ جانے دیا جاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا؟ اگر یہ چھرے والی بندوقیں نہ چلائی جاتیں اور کسی طرح کا ’ہلکا پھلکا تشدد‘ کر لیا جاتا تو یہ لوگ نہ مرتے اور بی جے پی سرکار کی بھد نہ اڑتی، ہندوستانی فوج کو اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ہم بین کرنے والی نسل نہیں۔ ہم بہت منطقی ہیں اور ہر بات میں دو جمع دو چار نکال لیتے ہیں ہم کوئی منٹو ہیں جو تقسیم کا نوحہ لکھیں گے؟

کشمیر میں 1931 سے جاری یہ تحریک ہمیں نظر نہیں آتی شاید کوئی چھرا اڑ کر سینکڑوں ہزاروں میل کا فا صلہ طے کر کے ہماری آنکھ میں بھی گر گیا ہے۔ خیر اگلی بار ان کو سمجھا دیا جائے گا، وہ ہلکا پھلکا تشدد ہی کریں گے۔ وہ تو جب سمجھیں گے تب سمجھیں گے، ہم اب ’جان کانڑیاں‘ بن چکے ہیں اور ساری دنیا کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، بھگت سنگھ، منگل پانڈے، سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد، جھانسی کی رانی، لینن، جارج واشنگٹن وغیرہ وغیرہ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ایک کھلا خط ایک مردہ دہشت گرد کے نام لکھا گیا جس میں اسے صاف سمجھا دیا گیا کہ بیٹا تم ڈاکٹر، انجینیئر کچھ بھی بن سکتے تھے اگر تم آزادی کے لیے آواز نہ اٹھاتے۔ جو فوجی ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں، بننے کو تو وہ بھی ڈاکٹر، انجینیئر سائنسدان بن سکتے تھے لیکن بھئی بات دلیل سے کرو، ان کو بندوق اٹھانی تھی، مادرِ وطن کی حفاظت کی خاطر۔ آخر کو کشمیر کسی کے باپ کا تو ہے نہیں اور حکومت چلانا، اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا کوئی خالہ جی کا واڑہ تو ہے نہیں ۔بات اتنی سی ہے کہ یہ جو ہنگامہ مچا اس کو دبا دو، چپ کرا دو ورنہ بات بہت بڑھ جائے گی ۔ ایک وعدہ تھا، رائے شماری کا تو جناب، ہم نے تو کیا نہیں تھا، جو کر گئے وہ مر چکے ہیں اب مردوں کے عہد و پیماں وہی جانیں۔ آزادی کی جہاں تک بات ہے تو ہندوستان کو دیکھو، پاکستان کو دیکھو۔ آزاد ہو کر کون سے لڈو پیڑے مل گئے۔ جو کام انگریز کر گیا اسی کو بیٹھے چاٹ رہے ہیں۔ ماری غلطیوں سے سبق سیکھو اور چپکے بیٹھے رہو۔ پڑھو لکھو ڈاکٹر بنو، انجینیئر بنو۔اگر آتے جاتے تمہاری تلاشی ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں، پاکستان کے ساتھ شا مل ہو کر آخر مل کیا جائے گا؟ وہاں تو جو ہیں وہ بھی روتے رہتے ہیں رونا ہی ہے نا؟ یہاں رو لو۔ کشمیر ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ہے ، تمھارا تو نہیں۔ تم بلا وجہ کیوں ہمارے غضب کو للکارتے ہو؟ہمارے لہجے سے یہ نہ سمجھنا کہ اس میں رعونت ہے۔ ہم تو دلیل کی بات کر رہے ہیں، تم جذباتی ہو، نادان ہو، کم عمر ہو۔ لوگوں کی باتوں میں آ گئے ہو۔ جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے، جو ہم سب کے رائے ہے اس کا احترام کیا جائے اور ہماری رائے سنہ 47 ہی سے یہ تھی۔ فیروز پور، گورداس پور وغیرہ کے جذباتی لوگوں نے ہماری رائے کا احترام نہ کیا۔ خواہ مخواہ امرتا پریتم کو بلھے شاہ کی روح کو تکلیف دینا پڑی اور چناب کے خون سے بھرنے کے بارے میں انٹ شنٹ لکھنا پڑا، خیر وہ تو تھے ہی نوحے لکھنے والے لوگ۔ وادی کی صورتحال کا ایسا منطقی تجزیہ میرے بہت سے دوستوں نے کیا اور یہ سب وہ ہیں جو میرے ساتھ گھنٹوں اعلیٰ انسانی اقدار پہ بات کرتے ہیں۔ امن، محبت، بھائی چارے کے خواب دکھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ لیکن آج جب وادی میں بین گونج رہے ہیں تو یہ سب اپنی اپنی آستینوں سے نچڑتے لہو سے بے خبر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے مجھے امن کے سندیسے بھیج رہے ہیں۔ کاش میں منٹو کی موذیل ہوتی اور یہ سندیسے ان کے منہ پہ مارتی اور ان سے کہتی کہ لے جاؤ اپنے اس امن کو اور دوستی کو۔ مجھے بین کرنے ہیں ان سب جواں مرگوں کے جو آزادی کی چاہ میں مارے گئے۔ مجھے منٹو اور امرتا پریتم کی طرح صرف بین کرنے ہیں ، عبداللہ حسین کی طرح ’اداس نسلیں‘ لکھنی ہے۔ رونا ہے اور رلانا ہے۔ آج کی دنیاکا قلم کار صرف یہ ہی کر سکتا ہے، مارنے والوں کے پاس ہمیں پڑھنے کا وقت کہاں اور جو پڑھ رہے ہیں ان کی آواز نہیں اور جو آواز اٹھاتا ہے اسے بھون دیا جاتا۔ اس لیے میں بھی صرف بین کر سکتی ہوں۔ آئیے ان سب لاشوں پہ رو لیں جو خون آشام انسانوں نے کشمیر سے لے کر فرانس تک گرائی ہیں اور جانے کس ڈر سے وہ انہیں کھا نہیں سکتے تو صرف ہونٹوں پہ زبان پھیر کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے، پوری دنیا کے مرنے والوں کے آنسو برہان کا نام لے کر بہا دیں۔ اتنا روئیں، اتنا روئیں کہ ساری وادی میں بین ہی بین گونج کر رہ جائیں۔ ان لوگوں کو بین کرنے والوں سے کوئی پرخاش نہیں۔ بس یاد رکھنا سبکیوں، سسکیوں میں کوئی سوال نہ منہ سے پھسل جائے، ورنہ ہم دشت گردوں کے ساتھی بن جائیں گے۔ بس روتے رہیں اور اگلی لاشیں اٹھانے کی ہمت جمع کرتے رہیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین لارڈز کےمیدان پر جاری پہلے ٹیسٹ کےچوتھے روز پاکستان نے انگلینڈ کو جیتنے کے لیے 283 کا ہدف دیا ہے۔ 283 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ نے ایک کھلاڑی کے نقصان پر 19 رنز بنائے ہیں۔ اس وقت کریز پررروٹ اور ہیلز موجود ہیں۔ ٭ تفصیلی سکور کارڈ کے لیے کلک کریں ٭ لارڈز میں صبر کا امتحان آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان کک تھے جو آٹھ رنز بنا کر محمد عامر کے گیند پر سرفراز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ تیسرے روز کھیل کے اختتام تک پاکستان نے آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 214 رنز بنائے تھے اور اس طرح اس کی مجموعی برتری281 رنز ہو چکی ہے تاہم چوتھے روز صرف ایک رنز کے اضافے کے ساتھ پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ یاسر شاہ 30 اور محمد عامر ایک رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ دونوں کھلاڑیوں کو کرس براڈ نے آؤٹ کیا۔ اس میچ میں کرس ووکس نے گیارہ وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والوں کھلاڑیوں میں سرفراز احمد 45، اسد شفیق 49، یونس خان 29، مصباح الحق 0، اظہر علی 23، محمد حفیظ 0 اور شان مسعود 24 شامل ہیں۔

مصباح الحق آف سپنر معین علی کو چھکا لگانے کی کوشش میں باونڈری پر کیچ آؤٹ ہوگئے ۔ وہاب ریاض بغیر کوئی رنز بنائے کرس ووکس کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ دوسری اننگز میں ووکس نے چھ، براڈ نے تین اور بال نے ایک وکٹ حاصل کی۔ اس سے پہلے پاکستان کی پہلی اننگز میں 339 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں 272 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی اس طرح پاکستان کو 67 رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔ فاسٹ بولر وہاب ریاض اور سپنر یاسر شاہ کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ انگلینڈ کے ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے۔ پہلی اننگز میں پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ سب سے کامیاب بولر رہے۔ یاسر شاہ نے 29 اووروں میں صرف 70 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ یاسر شاہ نے کی عمدہ بولنگ نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔ یاسر شاہ پہلے لیگ سپنر ہیں جنھوں نےگذشتہ 20 برسوں میں لارڈز کے میدان میں پہلی بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ پچھلی بار پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد نے لارڈز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
پاکستان کے ضلع ملتان کی پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا اور اس معاملے کے مرکزی ملزم اور قندیل کے بھائی وسیم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ قندیل بلوچ کی تدفین ان کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان میں اتوار کی صبح کی گئی۔ ٭ قندیل بلوچ جو کرتی ہیں دل سے کرتی ہیں ٭ ’قندیل مردوں اور مولویوں کے لیے خطرہ تھیں‘ ٭ قندیل بلوچ ملتان میں قتل اس سے قبل ملتان کے سی پی او اظہر اکرام نے سنیچر کو رات گئے ایک پریس کانفرنس میں ملزم کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ انھوں نے بتایا ہے کہ مرکزی ملزم وسیم نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم قتل کے بعد اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان چلا گیا تھا جہاں سے اسے حراست میں لیا گیا۔ ملزم وسیم ڈیرہ غازی خان میں موبائل فونز کی دکان چلاتا ہے اور گذشتہ شب ہی اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان آیا تھا۔ سی پی او کا کہنا تھا کہ قندیل بلوچ کی میت کو پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان کی تدفین اتوار کو ان کے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان میں کی جائے گی۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ قندیل بلوچ کی ناک اور منہ بند کر کے ان کا سانس روکا گیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا انھیں ہلاک کرنے سے قبل کوئی نشہ آور شے دی گئی تھی یا نہیں۔ پولیس حکام نے ملزم وسیم کو بھی پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سامنے پیش کیا جہاں اس نے ان سوالات کے جواب بھی دیے۔

ملزم کا کہنا تھا کہ قندیل کو جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ساڑھے 11 بجے قتل کیا گیا۔ سکیورٹی کی درخواست قندیل بلوچ نے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ قندیل کی وجہ سے ان کے خاندان کی بےعزتی ہو رہی تھی اور سوشل میڈیا پر قندیل کی جو ویڈیوز آئی تھیں ان پر لوگ انھیں طعنے دیتے تھے جو ان سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ قندیل کے مقدمۂ قتل کی ایف آئی آر میں ان کے والد نے وسیم کے علاوہ اپنے ایک اور بیٹے اسلم شاہین کو بھی نامزد کیا ہے جو فوج میں نائب صوبیدار ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ قندیل کو وسیم نے اپنے بڑے بھائی اسلم شاہین کے کہنے پر قتل کیا۔قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے سربراہ ایس پی سیف اللہ خٹک نے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ اسلم شاہین ہے اس وقت کراچی میں تعینات ہے اور ملزم کو اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کے لیے ضابطے کی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ قندیل بلوچ نے اپنی ہلاکت سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔ تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر سٹار سمجھا جاتا تھا اور جہاں فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے وہیں ان کا شمار پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ہوتا تھا۔ حال ہی میں ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اپنی پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں تھیں۔ کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں قندیل نے کہا تھا کہ انھوں نے ابتدا میں شو بزنس میں جانے کی کوشش کی لیکن وہاں لڑکیوں کے استحصال کے واقعات کی وجہ سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
فرانس میں ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے حملے کے حوالے سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حملوں کے سلسلے میں ایک مرد اور ایک عورت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس حملے کے حوالے سے گرفتار کیے گئے افراد کی کُل تعداد سات ہو گئی ہے۔ اس سے قبل فرانس میں پولیس کے 12000 اضافی اہلکاروں کو فرائص سونپے گئے ہیں۔ پیرس میں پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق 84 افراد کو ہلاک کرنے والے شخص سے تعلق رکھنے کے شبہے میں پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ بتایا گیا کہ تین افراد کو سنیچر جبکہ دو کو جمعے کو گرفتار کیا گیا ان میں حملہ آور کی سابقہ بیوی بھی شامل ہیں۔ دولت اسلامیہ کی جانب سے استعمال کی جانے والی خبر رساں ایجنسی میں کہا گیا ہے کہ نیس کا حملہ اس نے کیا ہے۔شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس اعلان کے بعد کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان ممالک کو نشانہ بنایا جائے جو عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہیں۔

فرانس میں گذشتہ روز نیس حملوں کے تین روزہ سوگ کا آغاز ہوا تھا۔ ملک بھر میں پہلے ہی ایک لاکھ 20 ہزار پولیس اور فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ 12000 اضافی نفری میں 9000 ملٹری پولیس افسران شامل ہیں جبکہ آگے چل کر مزید 3000 پولیس افسران بھی شامل کیے جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے 84 افراد میں 10 بچے شامل تھے۔ سنیچر کو محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ زخمی ہونے والے 303 افراد میں سے 121 اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں 30 بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 26 کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔ نیس حملے کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی ہے اور عالمی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لڑنے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط کوششیں کی جانی چاہییں۔ نیس میں ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والوں میں فرانس کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ تاحال جن افراد کی شناخت ظاہر کی گئی ہے ان میں امریکہ اور آرمینیا کے دو، دو جبکہ فرانس، سوئٹزرلینڈ اور روس کا ایک ایک شہری شامل ہیں۔ حملہ آور 31 سالہ احمد لحوائج بوہلال نیس کے ہی رہائشی ہیں اور پولیس نے ان کی فلیٹ کی تلاشی بھی لی ہے۔
امریکہ نے ترکی کو تنبیہہ کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش میں امریکہ کے کردار کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ بات ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت کی جانب سے دیے گئے بیان کے بعد کہی۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گولین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ اس سے قبل ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہو جانے کے بعد صدر رجب طیب اردوغان کی کہنے پر عوام نے مختلف شہروں میں جمہوریت کی حمایت میں ریلیاں نکالی ہیں۔ سنیچر کی شام نکالی جانے والی ان ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک تھے جنھوں نے ہاتھوں میں بینرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔ سنیچر کی شام ترکی کے صدر کے دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مرنے والے 265 افراد میں سازش کی منصوبہ کرنے والے 104 افراد اور 161 عام شہری شامل ہیں۔ ان عام شہریوں میں سے 20 افراد ایسے تھے جنہوں نے سازش میں معاونت کی تھی۔اس سے قبل وزیر اعظم یلدرم کا کہنا تھا کہ تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
ترکی میں ایک فوجی گروپ کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی گئی جس کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ ’جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا ساتھ دیں۔‘ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ترکی کی سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں اور تشدد اور خونریزی سے بچیں۔ ادھر روس کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ترکی کے وزیرِ خارجہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ترکی کی منتخب حکومت اور جمہوری اداروں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔روس کے وزیرِ خارجہ سرگے لاروف کا کہنا ہے کہ ترکی کے مسائل کو اس کے آئین کےمطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ روس کو ترکی سے آنے والی اطلاعات پر ’شدید تشویش‘ ہے۔ ترجمان کے مطابق روس کی اولین ترجیع ترکی میں موجود اس کے شہریوں اور اداروں کی حفاظت ہے۔ دیمتری پیسکووکے مطابق ترکی ایک اہم علاقائی طاقت ہے اور ترکی کا استحکام یقیناً خطے کے لیے بہت ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان کے مطابق ادارے کے سربراہ نے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ ترجمان کے مطابق بان کی مون ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور انھیں ایک فوجی گروپ کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بارے میں علم ہے۔جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی میں ’جمہوری عمل کی تکریم کی جانی چاہیے۔‘ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ترک سفارتخانے نے برطانوی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ ادھر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے ترکی میں رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنے کو کہا ہے۔ خلیجی مالک میں ترکی کے اہم اتحادی ملک قطر کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے بھی ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہے ترکی کا استحکام، جمہوریت اور ترک عوام کا تحفظ بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اتحاد اور دوراندیشی لازمی ہے۔‘
Powered by Blogger.