پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پارلیمانی انتخابات 21 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں جن میں 26 سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان انتخابات میں 26,74,584 افراد بالغ رائے دہی کے تحت اپنے ووٹ کاحق استعمال کریں گے جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی 12 نشستوں کے لیے ووٹرز کی کل تعداد 4,38,884 ہے۔ ٭ کشمیری سیاست دانوں کی بدلتی وفاداریاں ٭’عوام کا کام کریں تو سیاسی پس منظر ضروری نہیں‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابات اسمبلی کی کل نشستیں: 49 براہ راست انتخاب کی نشستیں: 29 پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستیں: 12 مخصوص نشستیں: 8 (5 خواتین، 1 علما مشائح، 1 اوورسیز) بی بی سی کی نامہ نگار تابندہ کوکب گیلانی کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 41 نشستوں کے انتخابات کے لیے 423 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں سے 324 امیدوار پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی 29 نشستوں جبکہ 99 امیدوار پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی بارہ نشستوں کے لیے مدمقابل ہیں۔ انتخابات کے لیے کل 5427 پولنگ سٹیشن جبکہ 8046 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ان انتخابی پولنگ سٹیشنوں میں دس کو حساس ترین جبکہ لگ بھگ ایک ہزار کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابات پاکستانی فوجی کی نگرانی میں منعقد ہوں گے۔ اس سے قبل 2011 میں منعقد ہونے والے انتخابات اس خطے کی پولیس کی نگرانی میں کروائے گے تھے ۔ مظفر آباد سے صحافی اورنگزیب جرال کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری میاں نعیم اللہ کا کہنا ہے کہ انتخابات میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے 29 ہزار سے زائد فوجی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار پولنگ مراکز کے اندر اور باہر تعینات کیے جائیں گے۔

ان اہلکاروں میں سے 17 ہزار سے زائد فوجی، ایف سی کے دس ہزار جوان اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔ نعیم اللہ کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کے سات ہزار کے قریب اہلکار بھی ان انتخابات میں اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس اور پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام بھی حصہ لے رہی ہے۔ ان جماعتوں میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جبکہ مسلم کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے زیرِ انتظام آنے کے بعد کشمیر کے اس حصے میں طویل عرصے تک صدارتی نظام حکومت رہا اور سنہ 1975 میں پارلیمانی نظام متعارف کروائے جانے کے بعد یہاں سیاسی جماعتوں کے لیے میدان بنا۔ سیاسی جماعتیں برادریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتیں اگر وہ چاہیں کہ ہمارے آدمی کو ٹکٹ ملے تو ہی ووٹ دیں گے تو پارٹی کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔جہاں قبیلہ، برادری اور پیسہ اہم ہو جاتا ہے وہاں نظریات اپنی گرفت قائم نہیں کر سکتے اور سیاسی جماعتیں اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی سفید پوش کو ٹکٹ دے بھی دیں گی تو اس کی پذیرائی نہیں ہوگی۔ زاہد امین، تجزیہ کار ابتدائی طور پر یہاں قابلِ ذکر سیاسی جماعت کی حیثیت سے سنہ 1932 میں قائم سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ہی پہچان بنا سکی تاہم پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہاں اپنی جگہ بنا لی۔ یہاں کئی علیحدگی پسند جماعتیں بھی ہیں لیکن آئین کی شق کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت کو الحاق پاکستان کے حلف نامہ پر دستخط کرنا ضروری ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم حکومت کا اثر یہاں ہونے والے انتخابات پر واضح نظر آتا ہے اور اس خطے کے انتخابات میں عموما وہی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے جسے پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ جب جب پاکستان میں مارشل لا رہا کشمیر کے اس حصے میں مسلم کانفرنس کو انتخابات میں برتری رہی تاہم اس کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ نامہ نگار تابندہ کوکب کے مطابق حالیہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کا منشور اب تک غیر واضح ہے۔ صحافی اور تجزیہ کار حکیم کشمیری کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں کا منشور محض ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنی جماعتوں کے رہنماؤں کی تعریفیں کرنا ہی رہ گیا ہے۔ یہاں کوئی بےروزگاری کے خاتمے کی بات نہیں کرتا۔ کوئی آزادئِ کشمیر کی بات نہیں کرتا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ گو کہ کشمیریوں میں بالخصوص نوجوانوں میں سیاسی شعور بڑھا ہے لیکن تبدیلی کے نعرے لگانے والی سیاسی جماعتیں بھی انھی چہروں کو آگے لائی ہیں جو کئی بار سیاسی جماعتیں بدل بدل کر آ چکے ہیں۔ انتخابی اعدادوشمار انتخابات میں حصہ لینے والے کل جماعتیں: 26 امیدواروں کی کل تعداد: 423 رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد:26,74,586 مرد ووٹرز: 14,83,743 خواتین ووٹرز: 11,90,839 ’کوئی جماعت نئی سوچ اور جذبہ نہیں لے کر آئی حتیٰ کہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک خالی خانہ بھی بیلٹ بکس پر رکھا جائے تاکہ جو لوگ اِن میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے وہ وہاں مہر لگا کر احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ اب حال یہ ہے کہ لوگوں کو چھوٹی برائی یا بڑی برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔‘ تاہم تجزیہ کار زاہد امین کہتے ہیں کہ جماعتوں کے منشور کی اہمیت اس خطے میں ثانوی ہے کیونکہ یہاں برادریوں اور کنبوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ ’سیاسی جماعتیں برادریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتیں اگر وہ چاہیں کہ ہمارے آدمی کو ٹکٹ ملے تو ہی ووٹ دیں گے تو پارٹی کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’جہاں قبیلہ، برادری اور پیسہ اہم ہو جاتا ہے وہاں نظریات اپنی گرفت قائم نہیں کر سکتے اور سیاسی جماعتیں اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی سفید پوش کو ٹکٹ دے بھی دیں گی تو اس کی پذیرائی نہیں ہوگی۔‘ زاہد امین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوجوان بہتر حالات چاہتے ہیں لیکن حالات ایسے بن نہیں پا رہے۔ ’جب سنہ 2009 میں مسلم لیگ ن آئی تو اس نے مسلم کانفرنس کے ہی پرانے لوگوں کو شامل کیا۔ سنہ 2015 میں جب پاکستان تحریکِ انصاف آئی جس کا نعرہ ہی تبدیلی تھا مگر اس نے بھی انھی لوگوں کو شامل کیا جو سنہ 1975 سے ہر انتخاب کا حصہ رہے۔ لہذا نئی نسل کی جگہ نہیں بن پا رہی۔‘ زاہد امین کے مطابق اب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنی اصولی موقف کو بھول کر پاکستان کی مرکزی جماعتوں کے نعرے دہرانے لگی ہیں۔ ’اس کے ذمہ دار یہاں کے سیاستدان خود ہیں جو اس پارلیمان کو آزادی کا بیس کیمپ سمجھنے کے بجائے اب محض عہدوں کی سیاست میں مشغول ہو گئے ہیں۔‘
آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔ آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔ دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔ مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔

اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔ ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔ یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔ چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
انڈیا کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں جادو، ٹونے ٹوٹکے اور ڈائن و کاہن کے شک میں ہونے والے قتل کو روکنے کے لیے قانونی کارروائی کی ایک عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم ان میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایسے معاملات میں حکومت سے مؤثر اقدام اٹھانے کے لیے کہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں دائر مفاد عامہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے صورتحال پر رپورٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صحافی نیرج سنہا کے مطابق ستمبر سنہ 2015 سے رواں سال مئی تک یعنی نو مہینوں میں جادو اور ڈائن کے نام پر تشدد کے 524 کیسز درج کیے گئے ہیں جبکہ 35 افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ساڑھے پانچ سال کے دوران ڈائن کے شبے میں تشدد کے 3300 کیسز پولیس فائلوں میں درج ہیں اور قبائلی ایسے واقعات کے زیادہ شکار ہیں۔پولیس ریکارڈ کے مطابق سنہ 2011 میں 36 افراد کو جادو ٹونے کے شک میں ہلاک کر دیا گيا جبکہ سنہ 2012 میں33 ہلاک ہوئے، سنہ 2013 میں47 افراد، سنہ 2014 میں 38 افراد اور سنہ 2015 میں 47 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ حال ہی میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وریندر سنگھ نے بذات خود قبائلی اکثریتی علاقے کے دور دراز گاؤں کا دورہ کیا اور ڈائن کے متعلق سرکاری پروگرام میں شریک ہوئے۔ مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:

’ڈائن کے نام پر قتل و تششد صوبے کے لیے سنگین مسئلہ ہے اور اس کا مناسب حل بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔ روک تھام کے لیے اس کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔‘ اس سلسلے میں فلم بنانے کے مقصد سے معروف فلم ساز اور ہدایتکار پرکاش جھا بھی جھارکھنڈ کے دورے پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں بیداری کے لیے وہ چھوٹی فلمیں اور ڈاکومینٹریز تیار کريں گے تاکہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ’سماج میں توہمات کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے لیے عدالت سے انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘ گملا ضلعے کے گھاگھرا میں پرکاش جھا کی یونٹ نے شوٹنگ بھی شروع کر دی ہے۔ اس شوٹنگ میں اس بچی کو شامل کیا گیا ہے، جن کے ماں باپ کو مبینہ طور پر ڈائن کے شبے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حال ہی میں لوہردگا کے گڑي ٹھیكاٹولي گاؤں میں جادو کے شبے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے اور پھر گملا کے گھاگھرا میں ڈائن کے شبے میں ایک بیٹے کے ہاتھوں اپنی ماں کے قتل کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ رانچی ضلع کے مانڈر میں بھی ایک ساتھ پانچ قبائلی خواتین کا قتل کر دیا گيا تھا۔ آئی جی (منظم جرائم) سمپت مینا بتاتی ہیں کہ ’ڈیٹا بیس کے ذریعے ان اضلاع اور تھانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں رانچی، لوہردگا، کھونٹی، گملا، سمڈیگا، چائی باسا، سرائے کیلا، لاتیہار، گڑھوا، جمشید پور جیسے اضلاع شامل ہیں۔‘انھوں نے اضلاع کے پولیس افسران کو زیر التوا معاملات کو نمٹانے اور مکمل کارروائی کرنے کے لیے کہا ہے۔ ڈائن کے خلاف تشدد کے خاتمے کے متعلق پروگرام چلانے والے غیر سرکاری ادارے ’آشا‘ کی پونم ٹوپو کہتی ہیں: ’ان معاملات میں سرکاری کوششیں ابھی تک ناکافی ہیں۔ بیداری مہم والوں کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ گاؤں بھیجا گیا لیکن یہ مہم مسلسل نہیں چلائی جا رہی ہے۔‘ اسی تنظیم کے سربراہ اجے بھگت کا خیال ہے کہ ’دیہات میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں ٹھوس کام کیے بغیر توہمات پر لگام لگانا مشکل ہے۔‘جبکہ لوہردگا کے ایس پی کارتک ایس بتاتے ہیں کہ ’دیہات میں اوجھا اور جھاڑ پھونک کرنے والوں شناخت کرنے کی کارروائی شروع کی گئی ہے، تاکہ وہ بھولے بھالے دیہاتیوں کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔‘ گڑاٹھوكي ٹولے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’رات میں کئی دیہات کے لوگ گھنٹیاں بجاتے آ گئے۔ انھیں وہم تھا کہ اس گھر کے لوگ بچوں کی قربانی دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ امیر و کبیر ہو رہے ہیں۔ جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔‘
جس کو نہ دے مولا - اس کو دے آصف الدولہ نواب آصف الدولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دم پخت کہتے ہیں۔ آج انھیں کے ایجاد کردہ اس کھانے کے فن پر ہزاروں کی کمائی ٹکی ہوئی ہے۔ ٭ ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے‘ ٭ اسلامی دسترخوان کا ارتقا ٭ مغل دسترخوان نفاست اور غذائیت کا امتزاج ٭ دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے نوابوں کی سرزمین نے باورچیوں کی قدردانی کی اور ایسے ایسے ماہرین فن کو جنم دیا جن کی نسلیں پشت در پشت اس فن کی ماہر سمجھی جاتی رہیں اور آج بھی کسی باورچی کا لکھنؤ سے تعلق رکھنا ہی اس کی مہارت کی سب سے بڑی سند اور دلیل ہے۔آج غذاؤں کے سلسلے میں جب ہماری نگاہیں اٹھتی ہیں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہمارے بزرگوں کے باورچی خانے سرد ہو چکے ہیں ان کے دسترخوان بڑھ چکے ہیں اور نہ وہ کھانے والے رہے اور نہ پکانے والے۔ آخری دور میں واجد علی شاہ کے دسترخوان پر ایک ظرف میں رکھے مربے پر نواب سلیمان قدر کو قورمے کا دھوکہ ہو گیا تھا۔ نواب موصوف صاحب ذوق تھے ان کے یہاں بھی بہترین اور ہنرمند باورچی ملازم تھے۔ انھوں نے واجد علی شاہ کو خصوصی طور پر کھانے کی دعوت دی۔ وہ بھی تیار ہو کر گئے کہ دھوکہ نہ ہو لیکن پھر بھی دھوکہ کھا گئے۔ دسترخوان پر چنے جانے والے تمام خوان شیریں تھے یہاں تک کہ دسترخوان، ظروف اور طشتریاں تک شکر سے تیار کی گئی تھیں۔ ایسے ہی باورچیوں کے جانشین بیسویں صدی کے اوائل تک بقید حیات تھے۔ اس صدی کی دوسری دہائی میں مرزا محمد صادق علی خاں کے باورچی نے چند گھنٹوں میں 23 قسم کی کھچڑی، 32 طرز کی چٹنیاں دسترخوان پر حاضر کر دی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا بدلا کہ نہ وہ رئیس رہے اور نہ وہ ہنرمند باورچی۔ اردو کے معروف مصنف عبدالحلیم شرر کا بیان ہے کہ لکھنؤ کے بعض رکابدار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بھاپ تک نہیں لگی ہے اور بالکل ہرے اور کچے دسترخوان پر لا کر رکھے ہیں کاٹ کر کھائیے تو لذیذ اور بامزہ۔ سنا ہے جب واجد علی شاہ کلکتہ کے مٹیا برج میں مقیم تھے تو ایک انگریز کے گھر مدعو ہوئے اور انھیں انگریزی کھانے کھلائے گئے اور ہندوستانی کھانوں پر طنز کیا گيا۔ ان کا ایک رکاب دار یہ گفتگو سن رہا تھا۔ وہ مصر ہوا کہ انگریز کی دعوت کی جائے اور واجد علی شاہ بادل ناخواستہ راضی ہوئے۔ حب انگریز آیا تو رکابدار نے دسترخوان پر صرف ایک بڑا سا کدو لا کر رکھ دیا۔ انگریز کو غصہ آیا کہ اس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔واجد علی شاہ نے انگریزکے ہاتھ میں چھری دی۔ جب اس نے کدو کاٹا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ کدو کے اندر طرح طرح کے ہندوستانی کھانے سجے تھے۔ کسی نواب نے اپنے دوست کے گھر خوان بھیجا۔ جب خوان کھولا گیا تو ایک طشتری میں ایک کچا کدو رکھا تھا۔ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو گئی۔

نوکر سے کہا۔ لے جاؤ کل پکا لینا۔ خوان لانے والا ہنس کر بولا، حضور اسے پکانے کی ضرورت نہیں یہ پکا پکایا ہے۔ واجد علی شاہ کا ایک رکابدار نوابی دور کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوا اور ان کے لیے مسور کی دال پکائی۔ وہ دسترخوان پر رکھے سارے کھانے کو چھوڑ کر دال کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔ انھوں نے رکابدار سے دال پکانے کی ترکیب پوچھی، رکاب دار نے اجزا اور ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی۔ دال صرف تین پیسے کی اور ديگر اجزا 36 روپے کےتھے۔ رئیس چلا اٹھے۔ کہا نامعقول تین پیسے کی دال پر اتنا خرچ؟ رکابدار یہ سن کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا یہ منھ اور مسور کی دال۔ بعض رکابدار گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بناتے اور اس قدر احتیاط سے پکاتے کہ ان کی صورت بگڑنے نہیں پاتی تھی۔ یہ چڑیاں پلاؤ پر اس طرح سجائی جاتیں گویا پلیٹ میں بیٹھی دانا چگ رہی ہوں۔اچھے کھانوں کی طلب ان قصوں کو تازہ کر دیتی ہیں اور پھر ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقدور بھر اپنے بزرگوں کی تقلید کرنی چاہیے تاکہ پھر ایک بار کھانوں پر بہار آ جائے اور ہمارے آج کے قصے آئندہ نسل کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ (سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں جس کی یہ پانچویں کڑی ہے۔)
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی ایک تنگ گلی میں واقع چھوٹے سے مکان میں 15 سالہ مسکان فیاض عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ریلیز ہونے والی پشتو فلم کے لیے گانے کی ریہرسل کر رہی ہیں۔ محلہ ملوک آباد کی رہائشی مسکان ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں اور وہ اپنی خالہ غزالہ جاوید کی گائیکی سے بےحد متاثر ہیں۔ غزالہ جاوید پشتو زبان کی معروف گلوکارہ تھیں جنھیں ان کے شوہر نے پشاور میں گھریلو ناچاقی پر گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔ مسکان فیاض نے صحافی انور شاہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ’میں نے سات سال کی عمر میں گلوکاری کے فن میں قدم رکھا کیونکہ میں اپنی خالہ کی گائیکی کو بے حد پسند کرتی تھی اور ان سے متاثر تھی۔ میں انھی کی طرح پشتو کی ایک عظیم گلوکارہ بننا چاہتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس فن کو اپنانے کی ایک اور وجہ خاندانی طور پر بھی اس سے وابستگی ہے۔ ہمارے خاندان کی زیادہ تر لڑکیاں اس فن سے منسلک ہیں۔‘

 مسکان اب پشتو فلموں کے لیے بھی گانے گا رہی ہیں اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی پشتو فلموں ’باز او شہباز‘ اور ’خیر دے یار نشہ کے دے‘ کے لیے بھی انھوں نےگیت گائے ہیں۔ ان کے بقول وہ عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی ایک پشتو فلم کے لیے بھی گیت گائیں گی۔مسکان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہارمونیم بھی خود بجاتی ہیں۔ مسکان کے والد فیاض کا کہنا ہے کہ ’عام بول چال میں مسکان کی زبان میں لکنت ہے لیکن یہ میری بیٹی کی خوش قسمتی ہے کہ گانے کے دوران ان کی زبان میں لکنت نہیں رہتی۔ انھیں اس حوالے سے کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن میری خواہش ہے کہ ان کی بیٹی مزید پڑھے۔‘ مسکان اپنے فنی سفر کے حوالےسے مطمئن ہیں اور وہ ایک بڑی گلوکارہ بننے کا عزم رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھیں گی۔ سوات کے فنکاروں کا کہنا ہے کہ مسکان کے گائے ہوئے گیت نہ صرف مقامی سطح پر پسند کیے جا رہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں مقیم پشتون بھی اسے بےحد پسند کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ سوات میں طالبان کی شکست اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد موسیقی اس علاقے میں پھر سے جگہ بنانے لگی ہے۔ مینگورہ میں رقاصوں کا محلہ کہلانے والے بنڑ کی رونقیں بھی بحال ہو گئی ہیں اور موسیقی کی گونج نے اس خوف کو شکست دی ہے جس کے باعث اس محلے کے مکین اپنے گھر بار چھوڑ گئے تھے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکام نے اخباروں پر پابندی لگا دی ہے تاکہ معروف علیحدگی پسند جنگجو برہان وانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔ اخبار ’رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری اخباروں کی اشاعت پر پابندی سے حیران نہیں اور یہاں ان کے خیالات دیے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے سنیچر کی صبح فون کیا، اسے تشویش تھی کہ ہمارے اخبار کے ساتھ سب ٹھیک تو ہے۔ ٭ کشمیر میں کرفیو اور اخباروں پر پابندی برقرار ٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ اس نے پوچھا: ’کیا تمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے؟‘ میں نے اس سے کہا کہ مجھے پتہ چلانے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ دوسرے اخبار اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان کے پریس پر چھاپہ مارا گیا ہے۔ ہم نے بہت سوچا کہ کیا مظاہرے کے بعد سے ہم نے کوئی ’اشتعال انگیز‘ چیز تو شائع نہیں کی لیکن بہت سوچنے پر بھی کچھ یاد نہیں آیا۔ لیکن جب میں نے اپنے دفتر فون کیا تو دفتر کے ایک ملازم نے بتایا کہ ہمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے سٹاف کو پکڑلیا گیا ہے اور اخبار کو ضبط کر لیا گيا ہے۔ مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ حکام نے پہلے بھی سنہ 2008 اور 2010 میں انڈیا کے خلاف مظاہروں کے دوران ہمیں اپنی اشاعت روکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب کشمیری علیحدگی پسند افضل گورو کو بھارتی پارلیمان پر سنہ 2001 میں حملے کی پاداش میں سنہ 2013 میں پھانسی دی گئی تھی تو پریس اور سٹینڈ سے ہمارے اخبار کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا اخبار چار دنوں تک بند رہا تھا جبکہ سنہ 2010 کے مظاہروں کے دوران دس دنوں تک بند رہا تھا۔ اس بار معروف جنگجو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پرتشدد واقعات میں ابھی تک 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 1800 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کرفیو نافذ ہے اور موبائل اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن ہے۔ اس سے قبل بھی معلومات پر روک حکومت کی ’حکمت عملی‘ تھی اور وہی منظر پھر آنکھوں کے سامنے ہے۔ حکومت کے ٹیلیفون سروس کے علاوہ تمام ٹیلیفون سرو‎سز کو بند کر دیا گيا ہے، کیبل ٹی وی بند ہے، انگریزی، اردو اور کشمیری میں شائع ہونے والے تقریباً 70 اخبارات کو سرکاری طور پر چند دنوں کے لیے اشاعت بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ صرف چند براڈ بینڈ کنکشن کے سبب ہم دنیا کے باقی حصوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہمارے لیے یہ پابندیاں نئی نہیں ہیں۔ سنہ 1990 کے اوائل میں مسلح بغاوت کے پھیلنے کے بعد سے علاقے میں میڈیا کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑا ہے اور یہ یہ علاقہ عملی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ فوج والا علاقہ ہے۔اس وقت سے اب تک 13 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور مقامی صحافیوں کے لیے جان کا خطرہ، دھمکیاں، زدو کوب، گرفتاریاں، پابندیاں زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ صحافیوں کو سکیورٹی فورسز اور جنگجو دونوں جانب سے برابر نشانہ بنایا گيا ہے۔ یہاں شائع ہونے والے اخبارات کو حکومت کے اشتہار نہیں دیے گئے جو کہ چھوٹے اخباروں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔ جب کوئی مقامی صحافی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی رپورٹ کرتا ہے تو اسے ’ملک مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر وہ جنگجوؤں یا علیحدگی پسندوں کی خرابی کو اجاگر کرتا ہے تو اسے ’تحریک مخالف‘ یا ’حکومت نواز‘ کہا جاتا ہے۔ کشمیر کے وزیر تعلیم نعیم اختر نے کہا ہے کہ میڈیا پر پابندی کا ’فیصلہ بہت ہچکچاتے ہوئے کیاگیا۔‘ انھوں نے اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے عارضی طریقہ کار ہے۔۔۔ ہمارے خیال میں بہت سے جذباتی اورنوجوان ہے جو میڈیا کے بعض رخ سے بہت بھر جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سانحے بڑھ جاتے ہیں۔‘ حکومت جو حالات کو معمول پر لانے کے لیے بے تاب ہے اس نے اخباروں پر پابندی لگا کر افواہوں کے پھیلنے کا راستہ کھول دیا ہے جس سے پہلے سے ہی کشیدہ ماحول مزید خراب ہو سکتا ہے۔ کسی جمہوری نظام میں میڈیا کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ میڈیا کا گھونٹنے سے جمہوریت کو طاقت نہیں ملے گی جو کہ کشمیر میں ایک عرصے سے خطرے سے دو چار ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں اور وادی کے تمام دس اضلاع میں کرفیو اب بھی جاری ہے۔ حکومت کے ترجمان نعیم اختر کے مطابق اخبارات، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندی برقرار ہے۔ ٭ ’اخبارات پر پابندی سے افواہوں کی راہ کھل گئی‘ ٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ مقامی عسکریت پسند برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں موت کے بعد سے وادی میں حالات کشیدہ ہیں۔ کئی دنوں تک کشمیر وادی کے کئی شہروں میں لوگ سڑکوں پر مظاہرہ کرتے رہے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ محبوبہ مفتی حکومت کے ترجمان اور وزیر تعلیم نعیم اختر نے اتوار کی شب کشمیر کے حالیہ پرتشدد واقعات پر پہلی بار اعداد و شمار جاری کیے۔انھوں نے بتایا: ’مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والے پر تشدد واقعات کے متعلق میڈیا میں ہلاکتوں کی تعداد جو بھی بتائی جا رہی ہو، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 34 لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ 1664 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔‘

نعیم اختر نے یہ بھی بتایا کہ ’آٹھ جولائی سے جاری مظاہروں میں اب تک 1900 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 1700 کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ شدید زخمی 300 افراد کی سرجری بھی کی گئی ہے۔دس دنوں سے جاری پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر ریاست میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو 24 جولائی تک بند رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ حریت کانفرنس کی جانب سے ہڑتال کی کال کا آج پیر کو تیسرا دن ہے جبکہ اتوار کو باندي پورہ میں مظاہرے ہوئے تھے۔ریاست کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز سے سی آر پی ایف کے 2000 مزید جوانوں کو جموں و کشمیر کے لیے روانہ کیا گیا ہے جبکہ پہلے 800 جوان بھیجے گئے تھے۔ احتیاط کے طور پر تمام اہم سرکاری عمارتوں، سیاسی جماعتوں کے دفاتر، حساس مقامات کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گيا ہے۔
Powered by Blogger.