فرانسیسی حکام نے جنوبی شہر نیس میں حملے کے بعد پورے ملک میں خون کے عطیے کی اپیل کی ہے جبکہ حملے کے دوران کھو جانے والا ایک آٹھ ماہ کا بچہ فیس بک پر اپیل کے بعد والدین کو واپس مل گیا۔ نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا تھا۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ اس حملے میں کم از کم 84 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ہسپتال میں موجود زخمیوں میں سے 18 کی حالت نازک ہے۔

 ابھی بھی کئی لوگ اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس جوڑے کو جن کا بچہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں کھو گیا تھا فیس بک پر اپیل کے بعد دوبارہ واپس مل گیا ہے۔ جب ٹرک آنے کے بعد ہجوم میں بھگڈر مچ گئی اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے تو اس آٹھ ماہ کے بچے کی پش چیئر بھی ماں باپ کے ہاتھوں سے پھسل کر ہجوم میں گم ہو گئی۔ کچھ اجنبیوں نے اس بچے کی پش چیئر کو تنہا کھڑے دیکھا تو بچے کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ بعد میں انھوں نے فیس بک پر اس کے متعلق اپیل دیکھ کر اس کے والدین کو یہ بچہ لوٹا دیا۔
فرانس میں پولیس نے جنوبی شہر نیس میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک کے ذریعے سینکڑوں افراد کو کچلنے والے ڈرائیور کی شناخت کی تصدیق کر دی ہے۔ حکام کے مطابق یہ ایک 31 سالہ شخص تھا جس کے بارے میں پولیس جانتی تو تھی لیکن وہ کسی جہادی گروہ کے ساتھ منسلک نہیں تھا۔ اس کا نام محمد لحوايج بوہلال تھا۔ ٭ فرانس میں ہجوم پر حملہ: لائیو اپ ڈیٹس ٭ نیس سوگوار، حملے کے بعد نیا دن طلوع ٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘ تیونس میں سکیورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی کو بتایا ہے کہ محمد لحوايج بوہلال کا تعلق تیونس کے شمالی قصبے مساکن سے تھا اور وہ اکثر تیونس آتا رہتا تھا۔ سکیورٹی ذرائع محمد لحوايج بوہلال شادی شدہ تھا اور اس کے تین بچے تھے تاہم وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ رہا تھا۔ ادھر فرانسیسی پولیس نے ٹرک کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس میں سے انھیں کچھ کاغذات ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے تیونسی شہری تھا جو نیس میں قیام پذیر تھا۔ ماضی میں وہ معمولی جرائم میں ملوث رہا تھا تاہم وہ شدت پسندی کی جانب مائل نوجوانوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ فرانس میں ’فشے ایس‘ کی فہرست میں شامل افراد کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ جنوری 2015 سے فرانس میں ہونے والے بیشتر حملوں میں ملوث افراد ’فشے ایس‘ میں شامل تھے، اور ان کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے تھا۔اگرچہ عینی شاہدین کا شروع میں خیال تھا کہ حملہ آور ٹرک کو قابو رکھنے میں ناکام رہا ہے لیکن جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ وہ ایسا جان بوجھ کر رہا تھا۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں ڈرائیور کا چہرہ دیکھ سکوں۔ وہ باریش تھا اور بظاہر لطف اندوز ہورہا تھا۔‘

 ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرک سے ملنے کاغذات میں گاڑی کرائے پر لیے جانے والے کاغذات بھی شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے دو دن قبل نیس کے مغرب میں واقع قصبے سینٹ لوراں ڈو وار سے ایک کمپنی سے ٹرک کرائے پر لیا تھا۔ فرانسیسی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور کا ڈرائیونگ لائسنس، کریڈٹ کارڈ اور موبائل فون ٹرک سے تحویل میں لے لیا گیا ہے اور جمعے کی صبح پولیس نے نیس کے ریلوے سٹیشن کے قریب واقع ابٹوئرس کے علاقے میں اس کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ اگرچہ حملہ آور کے پاس پستول تھی لیکن ٹرک سے ملنے والے دیگر ہتھیار جعلی نکلے، جس سے اس کو جہادی گروہوں سے ملنے والے مدد کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ایک ماہ قبل پیرس کے مغرب میں ایک پولیس جوڑے کو ان کے گھر پر چاقو کے وار سے قتل کیا تھا۔ ان پر حملہ کرنے والے لاروسی ابالا کو پولیس پاکستان میں لڑنے کے لیے جہادیوں کو تیار کرنے کے حوالے سے اچھی طرح جانتی تھی۔ بہت سارے افراد حالیہ حملے کو دولت اسلامیہ کے ترجمان محمد العدنانی کے 2014 کے اس آڈیو بیان سے منسلک کر رہے ہیں جس میں انھوں نے چھوٹے پیمانے پر حملوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’اگر آپ بم نہیں پھاڑ سکتے یا فائر نہیں کر سکتے تو خود ہی کچھ کیجیے۔۔۔ ان پر کار دوڑا دیں۔‘ خیال رہے کہ فرانس میں بہت سارے جہادی حملہ آور نے شدت پسندی کی جانب اپنے سفر کا آغاز معمولی جرائم سے کیا تھا، جس کا آغاز سنہ 2012 میں ٹولوز میں حملہ کرنے والے محمد میراح سے ہوتا ہے۔ نیس میں حملہ کرنے والے نے بھی شاید یہی راستہ اختیار کیا ہو۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز کھیل کی تصویری جھلکیاں۔


فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری تاحال کسی فرد یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ شدت پسند دولت اسلامیہ نے اپنے روزانہ نشر کیے جانے والے ریڈیو بلیٹن میں فرانس کے شہر نیس میں حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ ماضی میں شدت پسند تنظیم کے البیان ریڈیو کے ذریعے عام طور پر مغربی ممالک میں کیے جانے والے کچھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی تھی تاہم اسی شدت پسند تنظیم سے منسلک ’خبر رساں ادارے‘ عماق کے ذریعے عموما حملوں کی ذمہ داری سب سے پہلے قبول کی جاتی رہی ہے۔ بی بی سی مانیٹرنگ ٹیم کا کہنا ہے البیان ریڈیو کی جانب سے نیس حملے کا ذکر نہ کرنے سے یہ نہیں سمجھا جا سکتا


ہے کہ اس حملے میں دولت اسلامیہ ملوث نہیں ہے۔ دوسری جانب اس حملے سے قبل عماق نے جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق رات آٹھ بج کر 52 منٹ کے بعد کوئی بیان شائع نہیں کیا۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رات 11 بجے ہونے والے حملے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ فرانس کے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والے ٹرک کا ڈرائیور ایک مقامی شخص محمد لحوائج بوہلال تھا۔ گذشتہ سال ستمبر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حملوں میں130 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سنہ 1975 سے قائم پارلیمانی نظام میں شروع سے ہی خواتین کی نمائندگی رہی ہے لیکن براہ راست انتخابات میں حصہ لینے سے نہ صرف خواتین خود کتراتی تھیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی انھیں ٹکٹ دینے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے والی خواتین کی تعداد اب بھی بہت کم ہے تاہم خواتین میں یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ سیاسی طور پر باشعور ہو کر ہی وہ اپنے حقوق کے لیے قانون سازی کروا سکتی ہیں۔ اب ان خواتین نے مخصوص نشستوں سے اسمبلی تک پہنچنے کا راستہ ترک کر کے براہِ راست انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں جا کر بھی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پارٹی اسے ٹکٹ دیتی ہے کہ جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ چونکہ اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ یہ کام مردوں کا ہے وہی کرتے ہیں تو ایسا تاثر ہے۔ لیکن اب ہم خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں تو دوسروں کے لیے راہ بنے گی۔ فرزانہ یعقوب انھی میں سے ایک پیپلز پارٹی کی رہنما فرزانہ یعقوب ہیں جو کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے پہلے بھی ضمنی انتخاب میں اپنے والد کی نشت پر کامیابی حاصل کر چکی ہیں لیکن اس علاقے میں وہ عام انتخابات میں براہِ راست حصہ لینے والی پہلی خاتون ہیں۔ فرزانہ کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے خاندان میں سیاست میں پہلے قدم رکھنے والی میری والدہ تھیں جنھوں نے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کے بعد والد آئے اور اب میں بھی اس کا حصہ ہوں۔‘ فرزانہ یعقوب کے بقول کشمیر میں خواتین پر انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی تو نہیں لیکن یہ کام وہ فردِ واحد کے طور پر نہیں کر سکتیں۔’کشمیر میں خواتین کے کسی بھی شعبے میں حتیٰ کہ سیاست میں حصہ لینے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ اتنا مشکل کام ہے کہ خاندان اور کسی مضبوط سہارے کے بغیر آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔‘ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی نورین عارف کا تعلق بھی ایک سیاسی خاندان سے ہی ہے۔ان کا 30 برس سے زیادہ کا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی انتخابات سے شروع ہوا اور 1985 میں وہ مسلم کانفرنس کی جانب سے مخصوص نشست پر پہلی بار اسمبلی کی رکن بنیں۔ چار مرتبہ مخصوص نشست پر اسمبلی میں آنے کے بعد سنہ 2006 میں پارٹی اختلافات نے ان کے راستے الگ کر دیے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پارٹی نے جب ٹکٹ نہیں دیا تو میں نے اپنے والد کے آبائی علاقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔‘ نورین عارف ان چند رہنماؤں میں شامل تھیں جنھوں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس میں اخِتلافات کے باعث الگ دھڑا بنایا اور بعد ازاں یہاں مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی۔ نورین کا کہنا ہے کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ سیاسی پس منظر سے کہیں اہم عوام کے کام کرنا ہے۔ ’اگر آپ اپنے حلقے میں جا کر کام کریں گے تو آپ کو سیاسی پس منظر کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ وہ ان کی خدمت کرےگا۔‘سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ہچکچاہٹ اب بھی قائم ہے۔ اس بارے میں فرزانہ یعقوب کا موقف تھا سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح حکومت بنانا ہوتا ہے اور ’پارٹی اسے ٹکٹ دیتی ہے کہ جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ چونکہ اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ یہ کام مردوں کا ہے، وہی کرتے ہیں تو ایسا تاثر ہے۔ لیکن اب ہم خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں تو دوسروں کے لیے راہ بنے گی۔‘ تو کیا خواتین کے لیے مخصوص نشستیں نسبتاً آسان راستہ نہیں؟ اس پر فرازنہ کا کہنا تھا درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ براہ راست انتخاب میں محض اپنے حلقے کی ذمہ داری ہوتی ہیں جبکہ مخصوص نشست کے لیے پورے خطے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ نسبتاً زیادہ محنت طلب اور مشکل کام ہے۔ نورین عارف کے لیے براہ راست انتخاب کا مطلب ووٹرز سے قربت ہے۔ برسوں مخصوص نشستوں پر اسمبلی کا حصہ رہنے کے بعد اب انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو خوشی اور لوگوں کا پیار انھیں براہِ راست انتخاب میں حصہ لے کر ملا ہے وہ مخصوص نشستوں پر نہیں ملتا۔ اس سے وہ لوگوں کے مسائل زیادہ حل کر پاتی ہیں۔ پہلی مرتبہ عملی سیاست میں قدم رکھنے والی سمیعہ ساجد کو اگرچہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے باعث انتخابات سے عین پہلے اپنی نشست چھوڑنا پڑی لیکن وہ بھی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ’براہِ راست انتخابات کا معیار ہی الگ ہوتا ہے۔ہار جیت کی پروا کرنے والوں کو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے۔‘


 کشمیر کے شہری علاقوں میں تو خواتین نسبتاً سماجی سرگرمیوں کا حصہ دکھائی دیتی ہیں لیکن دیہاتوں اور دور دراز پہاڑی علاقوں میں ایسا نہیں۔ فرزانہ کا حلقہ ایسے ہی دیہات پر مشتمل ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’میں بمشکل دو چار خواتین کو ساتھ لے کر مہم پر نکل پاتی ہوں۔‘ اگر آپ اپنے حلقے میں جا کر کام کریں گے تو آپ کو سیاسی پس منظر کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ وہ ان کی خدمت کرےگا۔ نورین عارف کیا کشمیر میں کسی خاتون کو وزیراعظم یا صدر جیسا بڑا عہدہ مل سکے گا؟ اس سوال پر نورین عارف کہتی ہیں کہ ابھی وقت لگے گا۔ ’میں نے پوری عمر سیاسی جدوجہد میں گزاری ہے لیکن اگر آج بھی میں کسی بڑے عہدے کی امیدوار بنوں تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ انتخاب لڑ کر میں نے ایک راستہ پیدا کیا ہے تو کل کسی کی قسمت میں ہوا تو وہ صدر یا وزیرِ اعظم بھی بن جائے گا۔‘ سمیعہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں حاکمیت کے تصور میں تبدیلی ہی عورت کے لیے بڑے عہدے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ ’جس دن یہ جنگ ختم ہو گئی کہ مرد عورت کو آگے آنے نہیں دیتا اس دن یہاں بھی عورت وزیرِ اعظم بن جائے گئی۔‘ تاہم فرزانہ یعقوب اس سلسلے میں پرامید ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ’چونکہ خواتین ابھی اس عمل میں نئی ہیں اور وزیرِ اعظم بننے کے لیے براہ راست انتخاب جیتنا ضروری ہے۔ ہمیں بھی تھوڑا وقت لگے گا۔ پاکستان میں بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کوئی خاتون وزیرِ اعظم ہوگی لیکن جب بنیں تو لوگوں نے انھیں قبول کیا۔ تو جب یہاں بھی خاتون وزیرِ اعظم ہوں گی تو لوگ انھیں بھی اپنائیں گے۔‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین میں تعلیم اور سیاسی آگہی نے جہاں ان خواتین میں یہ حوصلہ پیدا کیا ہے کہ وہ عملی سیاست جیسا مشکل تصور کیا جانے والا کام کریں وہیں خواتین ووٹرز کو بھی امید دلائی ہے کہ اب نہ صرف ان کے حقوق کے تحفط کے لیے قانون سازی ہوگی بلکہ ان کی آواز انھی کی صنف کے باعث باآسانی ایوانوں میں بھی گونجے گی۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین لارڈز کے میدان پر جاری پہلے ٹیسٹ کےدوسرے روز کھیل کے اختتام پر انگلینڈ نے253 بنائے ہیں اور اس کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہیں۔ انگلینڈ ابھی پاکستان کے سکور سے 86 رنز پیچھے ہے اور اس کی تین وکٹیں باقی ہیں۔ کرس ووکس31 رنز اور سٹیو براڈ رنز بنا کر کریز پر موجود ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کی پوری ٹیم 339 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ ٭دوسرے روز کھیل کی تصویری جھلکیاں ٭ تفصیلی سکور کارڈ کے لیے کلک کریں پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ سب سے کامیاب بولر رہے۔ یاسر شاہ نے 25 اووروں میں صرف 64 رنز دے پانچ وکٹیں حاصل کی ہے۔ یاسر شاہ نے کی عمدہ بولنگ نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ اس موقع پر انگلینڈ 118 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا لیکن یاسر شاہ نے مسلسل بولنگ کرتے ہوئے نہ صرف رنز روکے بلکہ وقفے وقفے سے وکٹیں لیتے رہے۔یاسر شاہ پہلے لیگ سپنر ہیں جنھوں نےگذشتہ بیس برسوں میں لارڈز کے میدان میں پہلی بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ پچھلی بار پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد نے لارڈز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ جب انگلینڈ نے اپنی اننگز کا آغاز کیا تو کپتان مصباح الحق نے پہلے اوور کےلیےگیند محمد عامر کی طرف اچھال دی۔ محمد عامر کے پہلے اوور میں ایلکس ہیلز نے ایک چوکا لگایا لیکن وہ زیادہ دیر تک کریز پر نہ ٹہر سکے اور راحت علی کے پہلے اوور میں سلپ میں اظہر علی کو کیچ تمھا گئے۔محتاط اندازمیں بیٹنگ کی شہرت رکھنے والے ایلسٹر کک کے چند عمدہ سٹروک کھیلے۔ جب کک کا انفرادی سکور صرف 22 رنز تھا تو محمد حفیظ نے ان کا ایک آسان کیچ ڈراپ کر دیا۔ ایلسٹر کک کو اس وقت دوسری زندگی ملی جب وکٹ کیپر سرفراحمد نے ایک آسان کیچ ڈراپ کردیا۔ دنوں بار بدقسمت بولر محمد عامر تھے۔ محمد عامر بالاخر ایلسٹر کک کو بولڈ کر میچ میں پہلی وکٹ حاصل کی۔ پاکستان جو صرف چار ریگولر بولروں کے ساتھ میدان میں اترا ہے اسے انیسویں اووروں میں ہی لیگ سپنر یاسر شاہ کو بولنگ کے لیے لانا پڑا لیکن یاسر شاہ نے نہ صرف ایک طرف سے رنز روکے بلکہ اوپر تلے پانچ وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کا میچ میں پلہ بھاری کر دیا۔ یاسر شاہ نے


انگلینڈ کے سب سے قابل اعتماد نوجوان بیٹسمین جو روٹ، جیمز ونس، گیری بیلنس، جانی بیرسٹو اور معین علی کو آؤٹ ک۔ سرفراز احمد نے جارحانہ انداز میں اننگز کا آغاز کیا محمد عامر جب بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو تماشیائیوں نے گرم جوشی سے ان کا اسی میدان میں استقبال کیا جہاں وہ پچھلی بار سپاٹ فکسنگ کے جرم میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس سے قبل جب پاکستان نےاپنی دوسرے روز 292 چھ کھلاڑی آؤٹ سے اپنی اننگز دوبارہ شروع کی تو وکٹ کیپر سرفراز نے جارجانہ انداز اپنایا۔ پاکستان نے مزید کسی نقصان 300 مکمل کر لیے۔ اس مرحلے پر سرفراز احمد جو انگلش فاسٹ بولروں کو آگے بڑھ کر چوکے لگا رہے تھے، کرس ووکس کی گیند پرکیچ آؤٹ ہو گئے۔ سرفراز احمد کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کی اننگز بھکر کر رہ گئی۔ اگلےآنے والے بیٹسمین وہاب ریاض دوسرے گیند پر سٹیو براڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ وہاب ریاض کے بعد مصباح الحق بھی اپنے سکور میں صرف چار رنز کا اضافہ کرنے کے بعد سٹیو براڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ محمد عامراور یاسر شاہ نے آخری وکٹ کی شراکت میں 23 رنز بنائے۔ آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی محمد عامر تھے جنھوں نے 12 رنز بنائے۔
سوشلستان پر گذشتہ ایک ہفتہ ایدھی کا انتقال اور ان کا سوگ رہا اور جمعہ کی صبح سے ہی فرانس کے شہر نیس میں دہشت گردی کا واقعہ چھایا رہا جس میں آخری خبریں آنے تک 84 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ مگر سوشلستان میں اس ہفتے ہم بات کریں گے کہ کیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کا محاورہ اب پرانا ہو گیا ہے۔ نیکی کا پرچار جھوٹ کی بنیاد پربرطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی وہ تصویریں جن میں وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ نمبر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے اپنا سامان ڈھوتے دکھائی دیے ہیں کئی لوگوں نے جذبے اور جوش کے ساتھ شیئر کی ہوں گی جن کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کی شان میں بھی دو دو لائنیں لازمی بنتی تھی ورنہ حق ادا نہ ہوتا۔ مگر اکثریت کو یہ نہیں پتا تھا کہ جو تصاویر شیئر کی گئیں وہ 2007 کی ہیں جب ڈیوڈ کیمرون جنوبی لندن میں ایک نئے گھر میں منتقل ہو رہے تھے۔ مگر تاریخ کون دیکھتا ہے جب مدعا یہی ہو کہ ایک تصویر کی بنیاد پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے؟ افشاں مصعب نے لکھا کہ یہ سب ’گمراہ کُن ہونے کے علاوہ اخلاقی جرم بھی ہے۔ جس بات کی بنیاد ہی جھوٹ ہو اور ملاوٹ سے ہو اس کے خالص اور جائز ہونے پر کیسے یقین کیا جائے؟‘ مان لیا کہ مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ دیکھو ایک رکنِ پارلیمان اپنا سامان ڈھو رہا ہے مگر تصویر اصل کیوں نہیں دکھائی جاتی اور جو دکھائی جاتی ہے وہ مکمل کیوں نہیں دکھائی جاتی؟اور مکمل تصویر میں مزدور سامان اٹھا رہے ہیں جن کی مدد کو رکنِ پارلیمان ڈیوڈ کیمرون موجود ہیں اور ایک کیمرہ مین بھی ٹہلتا ٹہلتا یہ تصویر لے لیتا اور اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔


ایسی پبلسٹی کس سیاستدان کو نہیں چاہیے؟ اور اگر سینئر صحافی بھی بغیر تصدیق کے ایسی چیزیں آگے چلائیں گے تو باقی عام سوشل میڈیا کے صارفین پر کوئی کیا تبصرہ کرے؟ کیا دکھ کا اظہار کافی ہے؟دہشت گردی کا واقعہ، بریکنگ نیوز، مزید تفصیلات، بچ جانے والوں کی تلاش، دہشت گرد مل گیا یا نہیں ملا، سرچ آپریشن جاری، سوشل میڈیا کھنگالنے کا عمل، ہیش ٹیگز، ٹرینڈز، اس دوران مذمت، شدید مذمت۔ جگہ کی مناسبت سے فیس بُک کی خصوصی سہولیات اور اگلے واقعے تک سب نارمل اور پھر یہی سب دوبارہ دہرائے جانے کا عمل۔فرانس میں ہونے والے واقعے کے بعد نیوز روم میں اور سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے یہ بات کی کہ یہ گھناؤنا چکر کب ختم ہو گا؟ مصنف پاؤلو کوئلو نے ہم سب کے مشترکہ پریشانی پر ہی ٹویٹ کی کہ ’کیا دعا کافی ہے؟ مجھے نہیں پتا مگر میرے پاس کرنے کے لیے اس کے علاوہ کیا ہے؟ خدایا تو ہمیں ہمت دے۔‘ ریاض منٹی نے لکھا کہ دنیا کے موجودہ سٹیٹس (فیس بُک کا سٹیٹس) کی حالت کچھ یوں ہے۔ #_____________#دعاکریں_____ کسے فالو کریں اس ہفتے ٹوئٹر کی دنیا کے ایک نوجوان عبداللہ سعد سے آپ کا تعارف کرواتے ہیں جو کرسڈ کے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں۔ عبداللہ دفاعی امور خصوصاً اس کی تکنیکی سائیڈ کے حوالے سے نہ صرف معلومات رکھتے ہیں بلکہ انھیں سب کے ساتھ گاہے بگاہے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور ایئروسپیس کے حوالے سے اُن کی ٹویٹس بہت معلوماتی اور دلچسپی سے بھرپور ہوتی ہیں۔
Powered by Blogger.