فرانس کے شہر نیس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کو 24 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب جمعہ کی صبح لندن سے نیس روانگی کی تیاری شروع کی تو خیال یہی تھا کہ ایک افراتفری کا ماحول میرا منتظر ہو گا۔ بحیرۂ روم کے خوبصورت ساحل پر واقع اور سیاحوں میں مقبول فرانس کے اس جنوبی شہر میں لوگ نیس سے دور اور صحافی نیس کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ لیکن معلوم ہوا کہ صحافی تو نیس جا ہی رہے ہیں بظاہر سیاحوں کے جذبے میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ نیس جانے والی پرواز مکمل طور پر بھری ہوئی تھی۔ میرے برابر والی نشست پر بیٹھے ایک انگریز مسافر نے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پہلی بات یہی کہی کہ ’یہ جہاز تو بھرا ہوا ہے۔ کوئی کینسلیشن نہیں۔‘میں نے ان سے پوچھا کہ نیس میں آپ کا گھر ہے تو کیا کبھی خیال آیا تھا کہ ایسا واقعہ ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نیس میں ایسا کوئی ماحول نہیں تھا، لیکن جو کچھ پیرس، برسلز اور اس سے پہلے لندن میں ہو چکا ہے اس کے بعد اب انھیں اس واقعے سے حیرت نہیں ہوئی۔ نیس پہنچا تو ہوٹل میں بھی سیاحوں کی کمی نہیں تھی۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل آتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ شہر میں لوگ افسردہ ہیں لیکن زندگی چل رہی ہے۔ ہوٹل میں سامان چھوڑ کر میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس جگہ کو دیکھوں جہاں صرف 24گھنٹے قبل درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔تقریباً 20 منٹ پیدل کے اس فاصلے میں ایک پولیس کی گاڑی نظر آئی۔ ساحل سمندر پر پغومناد دیزانگلیز پہنچا تو سڑک کی ایک طرف فٹ پاتھ کے ساتھ دور تک رکاٹ لگائی گئی تھی جس پر جگہ جگہ پھولوں کےگلدستے آویزاں تھے۔

کہیں کہیں فٹ پاتھ پر موم بتیاں اور چراغ بھی جل رہے تھے۔ کہیں فرانسیسی، انگریزی تو کہیں عربی میں عبارات لکھ کر وہاں جگہ جگہ لگائی گئی تھیں۔ ایک جگہ مہاتما بدھ کی تصویر بھی چراغوں اور اگربتیوں کے بیچ میں نظر آئی۔آدھی رات کے بعد کا وقت ہونے کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں وہاں سے گزر رہی تھیں اور یہ شاید وہاں گرمیوں کی شاموں میں ایک معمول بھی ہے۔ کوئی خاموشی سے گزر رہا تھا اور کہیں لوگوں کی ٹولیاں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ ایک شخص سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا اس واقعے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور قریب ہی دیر رات کو ہوٹلوں سے نکل کر باہر آنے والے لوگوں کی قہقہے لگاتی ہوئی ٹولیاں بھی تھیں۔ کہیں سے پولیس کے سائرن کی آواز آئی لیکن وہ کسی گاڑی میں زور سے بجنے والی موسیقی کی آواز میں دب گئی۔ایک فٹ پاتھ پر نیکر اور بنیان میں ایک شخص اپنا سر ہاتھوں میں دیے گلدستوں کے ڈھیر کے پاس بیٹھا تھا اور اس کے قریب ہی ہوٹل میں شاید کسی پارٹی سے فارغ ہو کر نکلنے والے لوگ ہنسی مذاق میں مشغول تھے۔ کسی پر غم منانے کی پابندی نہیں تھی۔ سڑک کی دوسری جانب سطح سمندر آدھے چاند کی روشنی میں چمک رہی تھی اور اس اندھیرے میں بھی سمندر کا خوبصورت نیلا رنگ اپنی جھلک دکھا رہا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کےمسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ ایک ہفتے میں مظاہروں اور احتجاج کے دوران 40 سے زیادہ کشمیری نوجوان سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ مظاہروں کےدوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حالت ان لوگوں کی ہے جن کی آنکھوں اور چہرے پر لوہے کے چھرے لگے ہیں جبکہ ہسپتال زخمی مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کےہاتھوں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت پر ہندوستان میں خاموشی ہے۔ بعض اخبارات میں کچھ تجزیےاور مضامین ضرور شائع ہوئے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا کچھ ذکر کیا گیا ہے۔ کشمیر کے سلسلے میں بیشتر ٹی وی چینل جارحانہ قوم پرستی کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ان کے بحث ومباحثے میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت اہم خبر نہیں ہوتی بلکہ ان کی توجہ اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے سبھی نوجوان ایک دہشتگرد کی حمایت میں باہر آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں جن میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کوجائز قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل کشمیر ایک ایسے مرحلے میں ہے جب انڈیا کی حکومت اور کشمیر وادی کےعوام کےدرمیان تعلق پوری طرح منقطع ہے۔ کشمیر میں مظاہرے، جلسے جلوس، میٹنگیں کرنے اور مخالفت اور مزاحمت کے ہر جمہوری طریقے پر پابندی عائد ہے۔کشمیری علیحدگی پسندوں کی تمام سرگرمیوں پر موثر طریقے سےروک لگی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن کی بہتر نگہبانی اور پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کےسبب شدت پسند سرگرمیوں اور مسلح جد وجہد کے راستے کافی حد تک بند ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ ان سے پہلے منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران بھی یہی صورتحال تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ کسی نے بھی کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن مودی حکومت نے ایک بات ضرور واضح کی ہے اور وہ یہ کہ حکومت علیحدگی پسندوں سے ہرگز بات نہیں کرے گی۔مرکز میں بی جے پی کی ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ کشمیر میں بھی بی جے پی کا اقتدار ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کشمیر مسئلے کا حل پاکستان سےتعلقات بہتر کرنے میں پنہاں ہے لیکن دس برس تک منموہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ گذشتہ دو برس میں جو کچھ تعلقات باقی بچے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔ پچھلے پندرہ بیس برس یوں ہی ضائع کیے گئے۔ اس مدت میں کشمیر میں ایک نئی نسل نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ مایوسی اور بےبسی ان کی نفسیات کا حصہ ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے گزرے ہوئے برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ وہ ان پر ذرہ بھر بھی اعتبار کر سکیں۔گذشتہ 70 برس میں وادی کے عوام انڈیا سےکبھی بھی اتنا بدظن اور متنفر نہیں ہوئے جتنا تاریخ کی اس منزل پر ہیں۔ انڈیا میں کشمیریوں کے لیےکسی طرح کے ہمدردی کےجذبات نہیں ہیں۔ انڈیا کی نئی قوم پرست نسل کی نفسیات میں کشمیری، دہشت گرد، علیحدگی پسند، پاکستان نواز اور ملک دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کے مرنے، اندھے اور اپاہج ہونے سے یہاں ہمدردی کے جزبات نہیں پیدا ہوتے بلکہ مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل تعطل کی صورتحال ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لیے جذبات کے اظہار کے راستے بند ہیں۔ دونوں جانب باہمی نفرتیں اپنی انتہا پر ہیں۔ برہان وانی اسی بے بسی اور گھٹن کا عکاس تھا۔ اس کے جنازے میں لاکھوں نوجوانوں کی شرکت بھی اسی گھٹن اور بے بسی کا اظہار تھی۔
ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 700 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔سی این این ترکی کے مطابق ترکی کی فوج کے سربراہ اور ملٹری چیف آف سٹاف ہلوزی اکار کو سکیورٹی فورسز ریسکیو کر لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے ان کو انقرہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایئر بیس سے ریسکیو کیا ہے۔ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ باغی فوجیوں نے ان کو یرغمال بنا لیا ہے۔16

 باغی فوجی ہلاک خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ نیم فوجی دستوں کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی جھڑپوں میں 16 باغی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ وہاں سے 250 کو حراست میں لیا گیا ہے۔’فوجی بغاوت‘ کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات استنبول کی یونیورسٹی کے سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کے سربراہ گلنور ایبت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں تختہ الٹنے کی کوشش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے۔ سینیئر کمانڈر اس کوشش کی مذمت میں کھل کر سامنے آئے۔ عوام اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے باہر نکلے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکی کی مسلح افواج کے 754 فوجیوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں حراست میں لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ پانچ جنرلز اور 29 کرنلز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ باغی فوجیوں کے پاس چند فوجی ہیلی کاپٹر ہیں لیکن ان کے پاس کوئی جیٹ طیارہ نہیں۔ 09:45 بین الاقوامی امور کے ماہر مائیکل سٹیفنز کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش صدر طیب اردوغان کی اتھارٹی کو بڑا دھچکہ ہے۔امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین نے تردید کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور انھوں نے اس کوشش کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پانچ دہائیوں میں جو شخص خود فوجی بغاوتوں میں متاثر ہوا ہو اس کے لیے یہ بہت بے عزتی کی بات ہے کہ اس پر فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگایا جائے۔ میں ان الزامات کی تردید کرتا ہوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے حاصل کرنی چاہیے نہ کہ طاقت کے ذریعے۔‘برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس کو باغی فوجیوں کے گروہ کی جانب سے ایک بیان ای میل کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اب بھی پرعزم طریقے سے لڑ رہے ہیں‘۔ دوسری جانب اب بھی ترکی کی سڑکوں پر ٹینک موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹینک خالی ہیں اور ان کے قریب مسلح پولیس موجود ہے اور لوگ ان ٹینکوں کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہیں۔
فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب ایک ٹرک پر سوار حملہ آور نے 80 سے زیادہ افراد کو کچل کر مار ڈالا۔ اس واقعے کے وقت موقع پر موجود افراد کی یادداشتوں کے بارے میں بی بی سی اردو کے کلک ایبل نقشے کی مدد سے مزید جانیے۔ 1. آغاز پیڈی ملن، عینی شاہد ’یہ ٹرک ہمارے سامنے سڑک کی دوسری جانب فٹ پاتھ پر چڑھا اور پھر پر طرف صرف ٹکرانے، چیخنے اور چلّانے کی آوازیں تھیں‘’وہ آڑا ترچھا ہو کر چلتا رہا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میری بیوی مجھ سے ایک میٹر دور تھی اور ماری گئی‘۔ 3. ڈرائیور کو ہلاک کر دیا گیا’میں اسے دیکھ کر چیختا رہا اور ہاتھ ہلاتا رہا تاکہ وہ رک جائے۔۔۔

اس نے اپنی پستول نکالی اور پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔‘ 4. ساحل کی جانب سے فرار رائے کیلی, بی بی سی نامہ نگار ’جب میں واپس جا رہا تھا تو مجھے اچانک چیخیں سنائی دیں۔۔۔ اگلا منظر یہ تھا کہ لوگ دیوانہ وار واپس بھاگ رہے تھے اور پولیس اہلکار جائے وقوعہ کی جانب بھاگ رہے تھے۔‘ 5. بھاگتے ہوئے لوگ’ہم تو نیس کے قدیم علاقے میں باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سینکڑوں افراد بھاگتے ہوئے ہماری طرف آنے لگے جن کے چہرے سے خوف عیاں تھا۔‘
فرانسیسی حکام نے جنوبی شہر نیس میں حملے کے بعد پورے ملک میں خون کے عطیے کی اپیل کی ہے جبکہ حملے کے دوران کھو جانے والا ایک آٹھ ماہ کا بچہ فیس بک پر اپیل کے بعد والدین کو واپس مل گیا۔ نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا تھا۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ اس حملے میں کم از کم 84 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ہسپتال میں موجود زخمیوں میں سے 18 کی حالت نازک ہے۔

 ابھی بھی کئی لوگ اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس جوڑے کو جن کا بچہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں کھو گیا تھا فیس بک پر اپیل کے بعد دوبارہ واپس مل گیا ہے۔ جب ٹرک آنے کے بعد ہجوم میں بھگڈر مچ گئی اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے تو اس آٹھ ماہ کے بچے کی پش چیئر بھی ماں باپ کے ہاتھوں سے پھسل کر ہجوم میں گم ہو گئی۔ کچھ اجنبیوں نے اس بچے کی پش چیئر کو تنہا کھڑے دیکھا تو بچے کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ بعد میں انھوں نے فیس بک پر اس کے متعلق اپیل دیکھ کر اس کے والدین کو یہ بچہ لوٹا دیا۔
فرانس میں پولیس نے جنوبی شہر نیس میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک کے ذریعے سینکڑوں افراد کو کچلنے والے ڈرائیور کی شناخت کی تصدیق کر دی ہے۔ حکام کے مطابق یہ ایک 31 سالہ شخص تھا جس کے بارے میں پولیس جانتی تو تھی لیکن وہ کسی جہادی گروہ کے ساتھ منسلک نہیں تھا۔ اس کا نام محمد لحوايج بوہلال تھا۔ ٭ فرانس میں ہجوم پر حملہ: لائیو اپ ڈیٹس ٭ نیس سوگوار، حملے کے بعد نیا دن طلوع ٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘ تیونس میں سکیورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی کو بتایا ہے کہ محمد لحوايج بوہلال کا تعلق تیونس کے شمالی قصبے مساکن سے تھا اور وہ اکثر تیونس آتا رہتا تھا۔ سکیورٹی ذرائع محمد لحوايج بوہلال شادی شدہ تھا اور اس کے تین بچے تھے تاہم وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ رہا تھا۔ ادھر فرانسیسی پولیس نے ٹرک کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس میں سے انھیں کچھ کاغذات ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے تیونسی شہری تھا جو نیس میں قیام پذیر تھا۔ ماضی میں وہ معمولی جرائم میں ملوث رہا تھا تاہم وہ شدت پسندی کی جانب مائل نوجوانوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ فرانس میں ’فشے ایس‘ کی فہرست میں شامل افراد کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ جنوری 2015 سے فرانس میں ہونے والے بیشتر حملوں میں ملوث افراد ’فشے ایس‘ میں شامل تھے، اور ان کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے تھا۔اگرچہ عینی شاہدین کا شروع میں خیال تھا کہ حملہ آور ٹرک کو قابو رکھنے میں ناکام رہا ہے لیکن جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ وہ ایسا جان بوجھ کر رہا تھا۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں ڈرائیور کا چہرہ دیکھ سکوں۔ وہ باریش تھا اور بظاہر لطف اندوز ہورہا تھا۔‘

 ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرک سے ملنے کاغذات میں گاڑی کرائے پر لیے جانے والے کاغذات بھی شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے دو دن قبل نیس کے مغرب میں واقع قصبے سینٹ لوراں ڈو وار سے ایک کمپنی سے ٹرک کرائے پر لیا تھا۔ فرانسیسی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور کا ڈرائیونگ لائسنس، کریڈٹ کارڈ اور موبائل فون ٹرک سے تحویل میں لے لیا گیا ہے اور جمعے کی صبح پولیس نے نیس کے ریلوے سٹیشن کے قریب واقع ابٹوئرس کے علاقے میں اس کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ اگرچہ حملہ آور کے پاس پستول تھی لیکن ٹرک سے ملنے والے دیگر ہتھیار جعلی نکلے، جس سے اس کو جہادی گروہوں سے ملنے والے مدد کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ایک ماہ قبل پیرس کے مغرب میں ایک پولیس جوڑے کو ان کے گھر پر چاقو کے وار سے قتل کیا تھا۔ ان پر حملہ کرنے والے لاروسی ابالا کو پولیس پاکستان میں لڑنے کے لیے جہادیوں کو تیار کرنے کے حوالے سے اچھی طرح جانتی تھی۔ بہت سارے افراد حالیہ حملے کو دولت اسلامیہ کے ترجمان محمد العدنانی کے 2014 کے اس آڈیو بیان سے منسلک کر رہے ہیں جس میں انھوں نے چھوٹے پیمانے پر حملوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’اگر آپ بم نہیں پھاڑ سکتے یا فائر نہیں کر سکتے تو خود ہی کچھ کیجیے۔۔۔ ان پر کار دوڑا دیں۔‘ خیال رہے کہ فرانس میں بہت سارے جہادی حملہ آور نے شدت پسندی کی جانب اپنے سفر کا آغاز معمولی جرائم سے کیا تھا، جس کا آغاز سنہ 2012 میں ٹولوز میں حملہ کرنے والے محمد میراح سے ہوتا ہے۔ نیس میں حملہ کرنے والے نے بھی شاید یہی راستہ اختیار کیا ہو۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز کھیل کی تصویری جھلکیاں۔


Powered by Blogger.