پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت صوبہ بھر میں 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب کے محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس’ان سیشن‘ نہ ہونے کے باعث گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 128 کی شق 1 کے تحت آرڈیننس جاری کیا جو فوری طور پر پورے صوبہ میں نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔ ٭ ’دنیا میں ساڑھے چار کروڑ جدید غلام موجود‘ ٭ پاکستان کے’غیر محفوظ‘ بچے آرڈیننس میں صوبہ کے تمام سرکاری اور نجی اداروں اور آجروں کو 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت نہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ 15 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو خطرناک پیشوں میں ملازمت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ صحافی عبدالناصر کے مطابق آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے کام لیتے وقت ان کے تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے اوقات کا خیال رکھا جائے تاکہ ان میں کوئی حرج نہ آئے۔ آجروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے مسلسل صرف تین گھنٹے کام لیا جائے اور اگلے تین گھنٹوں کی مشقت سے قبل انھیں آرام کے لیے ایک گھنٹہ کا وقفہ دیا جائے لیکن ایک دن میں وقفے سمیت سات گھنٹوں سے زیادہ یا شام 7 سات بجے سے صبح 8 بجے تک کام لینا جرم تصور کیا جائے گا۔ آرڈینس میں آجروں کو بالغ افراد کو ہفتہ میں ایک چھٹی دینے کا بھی پابند بنایا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر کم از کم سات روز اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید اور دس ہزار سے 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے
گی۔

اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی کے قانون کو دوسری بار توڑنے پر تین ماہ سے پانچ سال تک کی سزا دی جا سکے گی۔ آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمی، جسم فروشی، منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لیے غلام بنانے پر 2 سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 3 سے 7 سال تک کی قید کی سزا ہوگی۔ آجروں کو 15 سال سے 18 سال کے بالغ ملازمین کی عمر اور ملازمت کا مکمل ریکارڈ مرتب کرنے کا بھی پابند بنایا گیا اور عمر کے تعین کے لیے نادرا کے فارم ’ب‘ کی شرط رکھی گئی ہے۔ کسی بچے کو ملازم رکھنے یا 18 سال تک کے بالغ افراد سے آرڈیننس کے منافی مشقت لینے کی صورت میں کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ جس سے وہ وابستہ ہوں اسے بند کیا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس میں خطرناک پیشوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق سامان یا مسافروں کی منتقلی، ریلوے سٹیشن پر کیٹرنگ، ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم یا ایک ٹرین سے دوسری ٹرین میں منتقلی شامل ہے۔ وزن اٹھانا، چمڑے کی رنگائی، سکھائی، زرعی ادویات کی مینوفیکچرنگ و سپرے، دھماکہ خیز مواد، کیمیکل، کاٹنے والی مشینری اور 50 وولٹ سے زیادہ بجلی کے تاروں کا کام بھی خطرناک پیشوں میں شمار کیا گیا ہے۔ آرڈیننس میں بالغ افراد کو سیمنٹ انڈسٹری، کان کنی، پتھروں کی پسائی، شیشہ مینوفیکچرنگ، قالین بافی، سگریٹ، بیڑی اور نسوار سازی، ایل پی جی اور سی این جی ریفیلنگ انڈسٹریز اور سینیماز میں ملازمت دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
اگر آپ نے میرا کل کا کالم پڑھا ہو تو شاید آپ کو یاد ہو کہ اس میں محمد عامر نامی کسی شخص کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ عجیب لگا ہو، کیونکہ جمعے کو میڈیا اور خاص طور پر برطانوی میڈیا کی پوری توجہ محمد عامر کی ’جائے واردات‘ پر واپسی پر ہی تھی۔ لیکن دل لگتی بات یہ ہے کہ آج کی پاکستانی ٹیم ایک بہت اچھی ٹیسٹ ٹیم ہے اور لارڈز ٹیسٹ کی کہانی میں عامر کی واپسی کے علاوہ بھی دلچسپی کا سامان بہت ہے۔ ’انگلینڈ نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا‘ * ’انگلینڈ فیورٹ نہیں ہے‘ * بیالیس سالہ ’نوجوان‘ مصباح الحق کی لارڈز میں سنچری * پاکستان بمقابلہ انگلینڈ، تصاویر مثلاّ یاسر شاہ کو ہی لے لیجیے۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے اس سپنر نے دوسرے دن کے کھیل میں پانچ وکٹیں لیکر اپنے کپتان کی طرح اپنا نام بھی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے’آنرز بورڈ‘ پر لکھوا لیا ہے۔ یاسر کی انتہائی نپی تلی بالنگ نے آج انگلینڈ کی بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ دیے۔انگلینڈ کی وکٹوں پر ٹیسٹ میچ کے ابتدائی دنوں میں سپنرز عموماً کچھ نہیں کر پاتے، لیکن آج اسی انگلینڈ کے ایک میدان میں میچ کے دوسرے دن یاسر کو اتنی عمدہ بالنگ کراتے دیکھنا کسی بھی تماشائی کو مسحور کرنے کے لیے کافی تھا۔ لگتا ہے کہ یاسر کو بھی اپنی باقی ٹیم کی طرح آج یہ ِخواہش گھیرے ہوئے تھی کہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ صرف پاکستانی وکٹوں پر اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے بلکہ بیرون ملک بھی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بات خواہشات اور تمناؤں کی ہو تو عامر کی کہانی کا ذکر کیسے نہ ہو۔ اگرچہ آج صبح کھیل کے آغاز میں ہی پاکستانی
اننگز ختم ہوگئی لیکن اننگز ختم ہونے سے پہلے محمد عامر نے یاسر کے ساتھ شراکت میں قیمتی رنز کا اضافہ کر دیا تھا، لیکن ساری دنیا جس چیز کا انتظار کر رہی تھی وہ عامر کی بیٹنگ نہیں تھی بلکہ ہر کوئی انھیں بولنگ ایکشن میں دیکھنا چاہتا تھا اور جب ان کی بولنگ کی ابتدا میں وہ خاص جھلک دکھائی نہیں دی تو ہر کوئی حیران ہوا کہ عامر کو کیا ہو گیا ہے۔ دراصل عامر کے ٹیلنٹ اور ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے حوالے سے اتنا کچھ کہا جا رہا تھا کہ ہر کوئی یہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا کہ پانچ سال بین الاقوامی کرکٹ سے باہر رہنے کے ان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے۔ اور پھر جب عامر اپنی پرانی فارم میں واپس آئے اور جلد ہی نپی تلی بالنگ کرانا شروع کر دی تو ان کا پالا ایک ایسی چیز سے پڑا جو واقعی گذشتہ پانچ سالوں میں نہیں بدلی تھی، یعنی پاکستانی فیلڈروں کی کیچ نہ پکڑنے کی اہلیت۔ ایک نہیں، دو مرتبہ عامر انگلینڈ کی سب سے قیمتی وکٹ نہ لے سکے کیونکہ الیسٹر کُک کے دو آسان کیچ چھوڑ دیے گئے۔ آخر کار عامر کو وہی کرنا پڑا جو پاکستان کے تمام عظیم بالر کرتے آئے ہیں، یعنی فیلڈرز پر بھروسہ نہ کرو اور خود ہی بلے باز کو بولڈ کر دو۔ چانچہ انھوں نے وہی کیا اور الیسٹر کُک کو بولڈ کر دیا۔ آؤٹ ہونے سے پہلے کُک نے سارا دن جو اننگز کھیلی وہ ان کی ماضی کی اننگز سے بالکل مختلف تھی۔ وہ آج بالکل بھی جم کر نہیں کھیل پائے اور زیادہ تر رنز بھی اچھی شارٹس کی بجائے ان گیندوں پر بنائے جب گیند ان کے بلے کے کنارے کو چُھو کر گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آج انھیں کریز سے ہٹانا آسان نہیں تھا۔ انھوں نے جو روٹ کے ساتھ مل کر انگلینڈ کی اننگز کو اس وقت سہارا دیا جب ایلکس ہیلز جلد ہی آؤٹ ہو چکے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایلسٹر کُک اور جو روٹ نے سکور میں تیزی سے اضافہ کیا۔اِن دونوں بلے بازوں کو اس بات سے بھی فائدہ ہوا کہ پاکستانی بالروں کو لارڈز کی وکٹ پر اپنی لائن اور لینگتھ پکڑے میں بھی وقت لگا۔ اور اگر ہم ’کرِک وِز‘ کے آج کے اعداد و شمار دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آج وہاب ریاض کے علاوہ ہر پاکستانی بولر کو ہوا میں بال گھمانے میں مدد ملی اور وہ گینذ کو ’مُوو‘ کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً جب راحت علی نے ایک شاندار اوور کراتے ہوئے ہیلز کی وکٹ لی تو اس وقت ان کی گیند میں عامر سے زیادہ موومنٹ نظر آ رہی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ آج گیند پر راحت علی کا کنٹرول ایسا نہیں تھا جیسا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کی بیٹنگ میں گہرائی پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اتنے پر اعتماد کیوں ہیں۔ کرِس ووکس کو ہی لیں لے۔ پاکستان کے خلاف چھ وکٹیں لینے کے بعد آج جب وہ چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے تو وہ انتہائی پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے لیکن پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس نے معین علی اور بیئرسٹو کو جلد ہی واپس پولین بھیج دیا، کیونکہ عموماً یہ دونوں آخر میں دھواں دھار بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی فیلڈنگ اتنی بڑی نہیں ہوتی تو دوسرے دن کے اختتام پر انگلینڈ کہیں زیاد ہ مشکلات کا شکار ہو چکا ہوتا۔ دوسرے دن کے اختتام پر دونوں ٹیموں کا پلہ برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلینڈ کو دھچکا لگا ہے، لیکن ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ میچ میں واپس آ سکتے ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی صرف گھر کے شیر نہیں ہیں۔
صحرائے تھر کے ٹیلوں کے درمیان کرین مشینیں تیزی کے ساتھ ریت نکال رہی ہیں، جبکہ بڑے بڑے ڈمپر جن پر سرخ جھنڈے لگے ہیں اس ریت کو کچھ کلومیٹر دور ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ یہ کان کن 16 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے ہیں اور انھیں 160 میٹر زیر زمین کوئلے تک پہنچنا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ صحرائے تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر واقع ہیں جن کو 12 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دنوں بلاک نمبر دو میں کان کنی اور بجلی گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ 160 میٹر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے۔ وہ کہتے ہیں ’تھر میں زیر زمین پانی کی تین سطح موجود ہیں ان میں سے سب سے زیادہ مقدار میں پانی تیسری سطح پر ہے، یہ واحد چیلنج ہے جو مختلف ہے، یہ پانی ہزاروں کیوسکس میں ہوگا جن کو درجن سے زائد پمپس کے ذریعے نکال کر ذخیرہ کیا جائے گا، بجلی گھر کی تعمیر کے بعد اس پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنایا جائے گا۔‘ اینگرو کے منصوبے سے تقریباً 28 کلومیٹر دور واقع گوڑانو گاؤں اور آس پاس کے لوگ ناراض ہیں۔ یہاں زمین ہموار ہے جبکہ چاروں اطراف ٹیلے واقع ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اینگرو کمپنی کے ٹھیکیداروں سے جھڑپ بھی ہوچکی ہے لیکن پولیس کی موجودگی میں ڈمپر اور ٹریکٹر اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نوجوان بھیم راج کے مطابق اس علاقے میں دس کے قریب گاؤں ہیں جبکہ 2700 ایکڑ لوگوں کی ذاتی زمین ہے اینگرو یہاں زبردستی ڈیم بنانا چاہتی ہے،

حالانکہ یہ علاقے کول ایریا میں بھی نہیں آتا اور نہ ہی انھیں الاٹ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’لوگوں کے گزر بسر اور آمدنی کا وسیلہ صرف یہ زمین ہے، ہم نے انھیں دیگر مقامات بھی تجویز کیے ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ اسی مقام پر وہ کھارے پانی کی جھیل بنائیں گے۔‘ اینگرو کول کمپنی کے چیف آپریٹنگ افسر شمس الدین شیخ کا دعویٰ ہے کہ ایک ہزار ایکڑ پر پانی کا ذخیرہ بنایا جارہا ہے، دراصل لوگوں تک صحیح طریقے سے معلومات پہنچ نہیں پائی اس وجہ سے انھیں خدشات ہیں۔ ’جس طرح پہلے لوگوں کو معاوضہ دیا ہے اور انھیں آباد کیا جائے گا اسی طرح یہاں کے متاثرین کے لیے بھی وہ ہی پالیسی اختیار کی جائے گی۔‘ اینگرو کی جانب سے پہلے مرحلے میں سالانہ 38 لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جائے گا جو 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں کو چلانے کے لیے کافی ہوگا، دوسرے مرحلے میں یہ گنجائش 78 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچائی جائے گی جس سے مزید ایک 660 میگاواٹ کا بجلی گھر لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھر کے کوئلے میں گندھک کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جس کو جلانے سے بڑے پیمانے پر راکھ کا اخراج ہوگا۔ سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایف سی کے جو معیار ہیں ان کی پیروی کی جارہی ہے، راکھ کو فلٹر کرنے کے لیے ای ایس پی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی بعد میں اس راکھ کو کسی مقام پر ڈمپ کریں گے۔کوئلے منصوبے میں سڑکوں کی تعمیر اور کان کی کھدائی کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صحرا میں ایک پودے کو درخت کی شکل اختیار کرنے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت سندھ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ ایک درخت نکالیں گے تو اس کی جگہ پانچ درخت لگائیں گے۔ سلام کوٹ شہر سے قریب ایک مقام پر اینگرو کی جانب سے ایک گرین ہاوس قائم کیا گیا ہے، جہاں وعدے کے مطابق پودے لگائے گئے ہیں جن میں اکثریت غیر مقامی پودوں کی ہے، انھیں آر او پلانٹ کا پانی دیا جارہا ہے، جب ہم نے اس فارم کا دورہ کیا تو کئی پودے مرجھا چکے تھے۔ اینگرو اور حکومت سندھ کی شراکت داری سے زیر تعمیر بجلی گھروں کے منصوبے میں مرکزی کردار چائنا پاور انوسٹمنٹ کارپوریشن ادا کر رہی ہے، اینگرو کے زیر استعمال زمین میں دو بڑے گاؤں متاثر ہوں گے۔ جنرل مینجر ایڈمنسٹریشن فرحان انصاری کا کہنا ہے کہ کہ کمپنی کے منصوبے کی باؤنڈری پر ایک علاقہ مختص کیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری کی جائے گی یہاں ایک کارپوریٹو ریسپانسبلٹی کمپلیکس بھی تعمیر ہوگا جس میں سکول اور ہسپتال موجود ہوں گے۔ کول ایریا کے علاوہ بھی آس پاس کے گاؤں اور زمینیں متاثر ہورہی ہیں، جہاں سڑکیں، پانی کے چھوٹے بڑے تلاب اور پائپ لائن بچھائی جا رہی لیکن ان متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی تاحال نہیں کی گئی تاہم اینگرو کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انھیں ادائیگی ضرور ہوگی۔ایک ایسے ہی متاثر جاوید سے بات ہوئی جس کی زمین پر اینگرو نے باڑ لگا دی ہے اور یہاں سے سڑک تعمیر ہو رہی ہے، جاوید کا کہنا ہے کہ ان کی زمین سے زبردستی سڑک نکالی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ملازمتوں میں انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے مستقل ملازمتوں کے بجائے ٹھیکیداری نظام کے ذریعے چھوٹی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ اگر 300 سے زائد لوگ کام کر رہے ہیں تو ان میں جتنے بھی ڈمپر ڈرائیورز ہیں وہ مقامی ہیں۔ یہ منصوبہ اب پاکستان چین اقتصادی راہدری کا بھی حصہ بن چکا ہے، تھر میں بھی حکام لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ چینی کر رہے ہیں اور یہ منصوبہ قومی مفاد میں ہے
فرانس کے شہر نیس میں درجنوں افراد کی ہلاکت کو 24 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب جمعہ کی صبح لندن سے نیس روانگی کی تیاری شروع کی تو خیال یہی تھا کہ ایک افراتفری کا ماحول میرا منتظر ہو گا۔ بحیرۂ روم کے خوبصورت ساحل پر واقع اور سیاحوں میں مقبول فرانس کے اس جنوبی شہر میں لوگ نیس سے دور اور صحافی نیس کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ لیکن معلوم ہوا کہ صحافی تو نیس جا ہی رہے ہیں بظاہر سیاحوں کے جذبے میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ نیس جانے والی پرواز مکمل طور پر بھری ہوئی تھی۔ میرے برابر والی نشست پر بیٹھے ایک انگریز مسافر نے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے پہلی بات یہی کہی کہ ’یہ جہاز تو بھرا ہوا ہے۔ کوئی کینسلیشن نہیں۔‘میں نے ان سے پوچھا کہ نیس میں آپ کا گھر ہے تو کیا کبھی خیال آیا تھا کہ ایسا واقعہ ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ نیس میں ایسا کوئی ماحول نہیں تھا، لیکن جو کچھ پیرس، برسلز اور اس سے پہلے لندن میں ہو چکا ہے اس کے بعد اب انھیں اس واقعے سے حیرت نہیں ہوئی۔ نیس پہنچا تو ہوٹل میں بھی سیاحوں کی کمی نہیں تھی۔ ایئر پورٹ سے ہوٹل آتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ شہر میں لوگ افسردہ ہیں لیکن زندگی چل رہی ہے۔ ہوٹل میں سامان چھوڑ کر میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس جگہ کو دیکھوں جہاں صرف 24گھنٹے قبل درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔تقریباً 20 منٹ پیدل کے اس فاصلے میں ایک پولیس کی گاڑی نظر آئی۔ ساحل سمندر پر پغومناد دیزانگلیز پہنچا تو سڑک کی ایک طرف فٹ پاتھ کے ساتھ دور تک رکاٹ لگائی گئی تھی جس پر جگہ جگہ پھولوں کےگلدستے آویزاں تھے۔

کہیں کہیں فٹ پاتھ پر موم بتیاں اور چراغ بھی جل رہے تھے۔ کہیں فرانسیسی، انگریزی تو کہیں عربی میں عبارات لکھ کر وہاں جگہ جگہ لگائی گئی تھیں۔ ایک جگہ مہاتما بدھ کی تصویر بھی چراغوں اور اگربتیوں کے بیچ میں نظر آئی۔آدھی رات کے بعد کا وقت ہونے کے باوجود لوگوں کی ٹولیاں وہاں سے گزر رہی تھیں اور یہ شاید وہاں گرمیوں کی شاموں میں ایک معمول بھی ہے۔ کوئی خاموشی سے گزر رہا تھا اور کہیں لوگوں کی ٹولیاں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ ایک شخص سر جھکائے خاموشی سے بیٹھا اس واقعے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور قریب ہی دیر رات کو ہوٹلوں سے نکل کر باہر آنے والے لوگوں کی قہقہے لگاتی ہوئی ٹولیاں بھی تھیں۔ کہیں سے پولیس کے سائرن کی آواز آئی لیکن وہ کسی گاڑی میں زور سے بجنے والی موسیقی کی آواز میں دب گئی۔ایک فٹ پاتھ پر نیکر اور بنیان میں ایک شخص اپنا سر ہاتھوں میں دیے گلدستوں کے ڈھیر کے پاس بیٹھا تھا اور اس کے قریب ہی ہوٹل میں شاید کسی پارٹی سے فارغ ہو کر نکلنے والے لوگ ہنسی مذاق میں مشغول تھے۔ کسی پر غم منانے کی پابندی نہیں تھی۔ سڑک کی دوسری جانب سطح سمندر آدھے چاند کی روشنی میں چمک رہی تھی اور اس اندھیرے میں بھی سمندر کا خوبصورت نیلا رنگ اپنی جھلک دکھا رہا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کےمسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ ایک ہفتے میں مظاہروں اور احتجاج کے دوران 40 سے زیادہ کشمیری نوجوان سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ مظاہروں کےدوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ حالت ان لوگوں کی ہے جن کی آنکھوں اور چہرے پر لوہے کے چھرے لگے ہیں جبکہ ہسپتال زخمی مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کےہاتھوں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت پر ہندوستان میں خاموشی ہے۔ بعض اخبارات میں کچھ تجزیےاور مضامین ضرور شائع ہوئے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کا کچھ ذکر کیا گیا ہے۔ کشمیر کے سلسلے میں بیشتر ٹی وی چینل جارحانہ قوم پرستی کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ان کے بحث ومباحثے میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت اہم خبر نہیں ہوتی بلکہ ان کی توجہ اس پہلو پر مرکوز ہوتی ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے سبھی نوجوان ایک دہشتگرد کی حمایت میں باہر آئے تھے۔ سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں جن میں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کوجائز قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل کشمیر ایک ایسے مرحلے میں ہے جب انڈیا کی حکومت اور کشمیر وادی کےعوام کےدرمیان تعلق پوری طرح منقطع ہے۔ کشمیر میں مظاہرے، جلسے جلوس، میٹنگیں کرنے اور مخالفت اور مزاحمت کے ہر جمہوری طریقے پر پابندی عائد ہے۔کشمیری علیحدگی پسندوں کی تمام سرگرمیوں پر موثر طریقے سےروک لگی ہوئی ہے۔ کنٹرول لائن کی بہتر نگہبانی اور پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کےسبب شدت پسند سرگرمیوں اور مسلح جد وجہد کے راستے کافی حد تک بند ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ ان سے پہلے منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران بھی یہی صورتحال تھی۔ اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ کسی نے بھی کشمیر کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ لیکن مودی حکومت نے ایک بات ضرور واضح کی ہے اور وہ یہ کہ حکومت علیحدگی پسندوں سے ہرگز بات نہیں کرے گی۔مرکز میں بی جے پی کی ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ کشمیر میں بھی بی جے پی کا اقتدار ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کشمیر مسئلے کا حل پاکستان سےتعلقات بہتر کرنے میں پنہاں ہے لیکن دس برس تک منموہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ گذشتہ دو برس میں جو کچھ تعلقات باقی بچے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔ پچھلے پندرہ بیس برس یوں ہی ضائع کیے گئے۔ اس مدت میں کشمیر میں ایک نئی نسل نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ مایوسی اور بےبسی ان کی نفسیات کا حصہ ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے گزرے ہوئے برسوں میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ وہ ان پر ذرہ بھر بھی اعتبار کر سکیں۔گذشتہ 70 برس میں وادی کے عوام انڈیا سےکبھی بھی اتنا بدظن اور متنفر نہیں ہوئے جتنا تاریخ کی اس منزل پر ہیں۔ انڈیا میں کشمیریوں کے لیےکسی طرح کے ہمدردی کےجذبات نہیں ہیں۔ انڈیا کی نئی قوم پرست نسل کی نفسیات میں کشمیری، دہشت گرد، علیحدگی پسند، پاکستان نواز اور ملک دشمن سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ان کے مرنے، اندھے اور اپاہج ہونے سے یہاں ہمدردی کے جزبات نہیں پیدا ہوتے بلکہ مشکل حالات میں کام کرنے کے لیےسکیورٹی فورسزکی ستائش ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل تعطل کی صورتحال ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لیے جذبات کے اظہار کے راستے بند ہیں۔ دونوں جانب باہمی نفرتیں اپنی انتہا پر ہیں۔ برہان وانی اسی بے بسی اور گھٹن کا عکاس تھا۔ اس کے جنازے میں لاکھوں نوجوانوں کی شرکت بھی اسی گھٹن اور بے بسی کا اظہار تھی۔
ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 700 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔سی این این ترکی کے مطابق ترکی کی فوج کے سربراہ اور ملٹری چیف آف سٹاف ہلوزی اکار کو سکیورٹی فورسز ریسکیو کر لیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے ان کو انقرہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایئر بیس سے ریسکیو کیا ہے۔ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ باغی فوجیوں نے ان کو یرغمال بنا لیا ہے۔16

 باغی فوجی ہلاک خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ نیم فوجی دستوں کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی جھڑپوں میں 16 باغی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ وہاں سے 250 کو حراست میں لیا گیا ہے۔’فوجی بغاوت‘ کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات استنبول کی یونیورسٹی کے سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کے سربراہ گلنور ایبت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں تختہ الٹنے کی کوشش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے۔ سینیئر کمانڈر اس کوشش کی مذمت میں کھل کر سامنے آئے۔ عوام اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے باہر نکلے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ترکی کی مسلح افواج کے 754 فوجیوں کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں حراست میں لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ پانچ جنرلز اور 29 کرنلز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ باغی فوجیوں کے پاس چند فوجی ہیلی کاپٹر ہیں لیکن ان کے پاس کوئی جیٹ طیارہ نہیں۔ 09:45 بین الاقوامی امور کے ماہر مائیکل سٹیفنز کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش صدر طیب اردوغان کی اتھارٹی کو بڑا دھچکہ ہے۔امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین نے تردید کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور انھوں نے اس کوشش کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پانچ دہائیوں میں جو شخص خود فوجی بغاوتوں میں متاثر ہوا ہو اس کے لیے یہ بہت بے عزتی کی بات ہے کہ اس پر فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگایا جائے۔ میں ان الزامات کی تردید کرتا ہوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے حاصل کرنی چاہیے نہ کہ طاقت کے ذریعے۔‘برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ اس کو باغی فوجیوں کے گروہ کی جانب سے ایک بیان ای میل کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اب بھی پرعزم طریقے سے لڑ رہے ہیں‘۔ دوسری جانب اب بھی ترکی کی سڑکوں پر ٹینک موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹینک خالی ہیں اور ان کے قریب مسلح پولیس موجود ہے اور لوگ ان ٹینکوں کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہیں۔
فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب ایک ٹرک پر سوار حملہ آور نے 80 سے زیادہ افراد کو کچل کر مار ڈالا۔ اس واقعے کے وقت موقع پر موجود افراد کی یادداشتوں کے بارے میں بی بی سی اردو کے کلک ایبل نقشے کی مدد سے مزید جانیے۔ 1. آغاز پیڈی ملن، عینی شاہد ’یہ ٹرک ہمارے سامنے سڑک کی دوسری جانب فٹ پاتھ پر چڑھا اور پھر پر طرف صرف ٹکرانے، چیخنے اور چلّانے کی آوازیں تھیں‘’وہ آڑا ترچھا ہو کر چلتا رہا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میری بیوی مجھ سے ایک میٹر دور تھی اور ماری گئی‘۔ 3. ڈرائیور کو ہلاک کر دیا گیا’میں اسے دیکھ کر چیختا رہا اور ہاتھ ہلاتا رہا تاکہ وہ رک جائے۔۔۔

اس نے اپنی پستول نکالی اور پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔‘ 4. ساحل کی جانب سے فرار رائے کیلی, بی بی سی نامہ نگار ’جب میں واپس جا رہا تھا تو مجھے اچانک چیخیں سنائی دیں۔۔۔ اگلا منظر یہ تھا کہ لوگ دیوانہ وار واپس بھاگ رہے تھے اور پولیس اہلکار جائے وقوعہ کی جانب بھاگ رہے تھے۔‘ 5. بھاگتے ہوئے لوگ’ہم تو نیس کے قدیم علاقے میں باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سینکڑوں افراد بھاگتے ہوئے ہماری طرف آنے لگے جن کے چہرے سے خوف عیاں تھا۔‘
Powered by Blogger.