کینیڈا کے میلوس راونک اور رومانیہ کی سیمونا ہیلپ نے زیکا وائرس کے خطرات کے پیشِ نظر برازیل کے شہر ریو میں آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے میلوس روانک کا کہنا تھا: ’ میں یہ فیصلہ صحت کے خدشات کے پیش نظر اور زیکا وائرس کی غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے کر رہا ہوں۔‘ واضح رہے کہ اب تک 20 سے زائد کھلاڑی زیکا وائرس کی وجہ سے ریو اولمپکس میں شرکت سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادھر رومانیہ کی سیمونا کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان کا خاندان اہم ہے اور وہ زیکا وائرس کی وجہ سے خود کو خطرے میں نہیں ڈال سکتیں۔

خیال رہے کہ زیکا وائرس کی وجہ سے بچے پیدائشی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ سیمونا اور راونک ٹینس کے پہلے دو کھلاڑی ہیں جنھوں نے زیکا وائرس کی وجہ سے ریو اولمپیکس میں شرکت سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ راونک نے فیس بک پر لکھا ہے: ’میں اپنے فیصلہ سے کسی دوسرے ایتھلیٹ کو متاثر نہیں کرنا چاہتا جو کہ گیمز کے لیے جا رہے ہیں۔ میں اس موسم گرما میں ٹیم کینیڈا کی حوصلہ افزائی کے لیے ہوں۔‘ ہمارے ٹینس نامہ نگار رسل فلر کا کہنا ہے کہ ’راونک اور ہیلپ اولمپکس میں شرکت سے دست بردار ہونے والے صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ اگر دوسرے لوگ جو ایسے خدشات رکھتے ہیں انھیں ان کے اعلان سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔‘
ترکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 192 افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 104 باغی فوجی، 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری شامل ہیں۔ بغاوت کا حصہ بننے والے 1500 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیترکی کا یونان سے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ ترکی کی وزراتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یونان ترکی پہچنے والے آٹھ فوجیوں کو واپس کرے۔ یہ فوجی ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر یونان پہنچے ہیں جہاں وہ سیاسی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم کے خطاب کے اہم نکات وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔

فوجی میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘ ترکی کے وزیراعظم نے صدر کے پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام میں پارلیمانی اجلاس طلب کیا ہے۔باغی گروہ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں تھا ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو منظر عام پر آئیں ہیں۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر نہیں کچلا جا سکا۔ انقرہ میں واقع ملٹری ہیڈ کوارٹرز کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوارٹرز کے ارد گرد کے علاقے کو کلییر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قائم مقام آرمی چیف نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی فوجیوں نے کئی فوجی کمانڈرز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ترک صدر طیب اردوغان کے دفتر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام کو سڑکوں پر نکلیں۔ صدر کے دفتر سے کیے گئے ٹویٹ میں کہا گیا ہے ’اس بات سے قطع نظر کہ بغاوت کس مرحلے پر ہے ہمیں آج شام کو سڑکوں نکلنا ہو گا۔ نئی بغاوت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔‘ترکی کے قائم مقام آرمی چیف کا کہنا ہے کہ باغیوں کے 104 رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ترکی کے حکام نے کہا تھا کہ باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 90 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ قائم مقام آرمی چیف کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان 90 افراد میں پولیس اہلکار اور عام شہری ہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری ہلاک ہوئے۔رکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ حکومت کی حمایت کریں۔
ایک زمانہ تھا جب بالی وڈ میں سلمان خان اور سنجے دت کی دوستی کی مثال دی جاتی تھی۔ یہ دوستی 1991 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب دونوں نے فلم ساجن میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن فروری میں جب سے سنجے دت جیل سے رہا ہوئے ہیں تبھی سے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ تو واضح نہیں لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد سلمان نے اپنے مینیجر کو سنجے کے یہاں ملازت دلوائی تاکہ وہ ان کے لیے کام تلاش کر سکے لیکن وہ ناکام رہا جس پر سنجے نے اسے ملازمت سے فارغ کر دیا اور یہ بات سلمان کو پسند نہیں آئی۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنجے کی بائیو پِک کے لیے سلمان کی سابق گرل فرینڈ قطرینہ کیف کے سابق بوائے فرینڈ کا نام تجویز کیا گیا جو سلمان کو منظور نہیں تھا۔ خیر حقیقت جو بھی ہو اب خبریں یہ ہیں کہ سنجے کی بیگم مانیتا دت اب ان دونوں ناراض دوستوں کو نزدیک لانے کا کام کر رہی ہیں۔ مانیتا چاہتی ہیں کہ سنجے اور سلمان پہلے کی طرح ایک بار پھر اچھےدوست بن جائیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سلمان بالی وڈ کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ اپنے فارم ہاؤس پر ایک پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے ان تمام تنازعوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سلمان سمجھ گئے کہ اشارہ کس جانب ہے۔ جھٹ سے بول پڑے کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو اگلے دو ہفتوں کا مصالحہ فراہم کردوں کیونکہ میں کہتا کچھ ہوں اور اسے پیش کسی اور انداز میں کیا جاتا ہے اور تو اور اب میری خاموشی کا بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے‘۔سلمان شاید سوچ رہے ہیں کہ ایک چپ ستر بلائیں ٹالتی ہیں لیکن بھائی خاموشی سے پہلے جو طوفان آپ اٹھا چکے ہیں اسے ختم بھی تو کریں، ورنہ ایک بار پھر آپ کے پاپا سلیم صفائی دیتے نظر آئیں گے۔

اب کل ہی کی بات ہے سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے سلطان فلم میں آپ کو دادا جی کی عمر کا کہا تو آپ کے پاپاجی نے دل پر لے لیا۔ تو بھائی بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ سلمان خان سے یاد آیا کہ قطرینہ کیف آج پورے 33 سال کی ہو گئی ہیں اور سنا ہے کہ وہ اس موقعے پر ایک گرینڈ پارٹی دینے والی ہیں کیونکہ اس بار ان کی دو بہنیں اور والدہ اس وقت ممبئی میں ان کے ساتھ ہیں۔ قطرینہ اپنی پارٹی باندرہ کے اسی گھر میں منا رہی ہیں جہاں وہ کبھی رنبیر کپور کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ اس پارٹی میں بالی وڈ کے کئی بڑے لوگ شامل ہو رہے ہیں جن میں ہدایت کار ایان مکھرجی، علی عباس ظفر، کرن جوہر اور کبیر خان اپنی بیگم کے ساتھ ہوں گے۔ ویسے سلمان خان کا تو پتہ نہیں لیکن ہاں رنبیر کپور کے لیے اس پارٹی میں نو اینٹری ہوگی۔یہ سوشل میڈیا کی لت بھی عجیب ہے لوگ اپنی زندگی کے اہم اور غیر اہم ہر طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان لمحات کو بھی عام کر دیتے ہیں جو شاید صرف انھیں کی ذات یا زندگی تک محدود ہونے چاہییں۔ اب شاہد کپور کو ہی لے لیجیے۔ شاہد کپور جلد ہی پاپا بننے والے ہیں اور آج کل زیادہ تر وقت اپنی بیگم میرا کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم ہیں اور بیگم کے ساتھ اپنی گرما گرم تصاویر بھی پوسٹ کر رہے ہیں۔ کہیں وہ بیگم کو باہوں میں لیے ہوئے ہیں تو کہیں انھیں بوسہ دے رہے ہیں۔ ایکٹنگ کرتے کرتے شاید وہ بھول گئے ہیں کہ یہ اصل زندگی ہے اور یہ ان کے نجی لمحات ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو ملتان میں قتل کر دیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے بی بی سی اردو کے رضا ہمدانی کو بتایا کہ قندیل کو ان کے بھائی نے ہلاک کیا ہے۔ ٭ قندیل بلوچ جو کرتی ہیں دل سے کرتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ فورینزک ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں اور پنجاب پولیس کے سربراہ نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ آر پی اور ملتان سلطان اعظم تیموری نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ قندیل کی موت دم گھٹنے سے ہوئی اور انھیں گلا دبا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم ڈیرہ غازی خان میں موبائل فونز کی دکان چلاتا ہے اور گذشتہ شب ہی اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان آیا تھا۔ تاحال اس قتل کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے تاہم سلطان اعظم تیموری کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد ڈیرہ غازی خان میں ملزم وسیم کو لوگ طعنے دیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ملزم اس واقعے کے بعد سے مفرور ہے اور اسے تلاش کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ قندیل بلوچ کی جانب سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔

تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر سٹار سمجھا جاتا تھا اور جہاں فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے وہیں ان کا شمار پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ہوتا تھا۔ حال ہی میں ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اپنی پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں تھیں۔ اس سے قبل ماہِ رمضان میں ان کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ ’سیلفیز‘ بھی منظرِ عام پر آئی تھیں جن کی وجہ سے مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں قندیل نے کہا تھا کہ انھوں نے ابتدا میں شو بزنس میں جانے کی کوشش کی لیکن وہاں لڑکیوں کے استحصال کے واقعات کی وجہ سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ’میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ اس کا میں نے ناجائز استعمال کیا، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت صوبہ بھر میں 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب کے محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس’ان سیشن‘ نہ ہونے کے باعث گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 128 کی شق 1 کے تحت آرڈیننس جاری کیا جو فوری طور پر پورے صوبہ میں نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔ ٭ ’دنیا میں ساڑھے چار کروڑ جدید غلام موجود‘ ٭ پاکستان کے’غیر محفوظ‘ بچے آرڈیننس میں صوبہ کے تمام سرکاری اور نجی اداروں اور آجروں کو 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت نہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ 15 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو خطرناک پیشوں میں ملازمت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ صحافی عبدالناصر کے مطابق آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے کام لیتے وقت ان کے تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے اوقات کا خیال رکھا جائے تاکہ ان میں کوئی حرج نہ آئے۔ آجروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے مسلسل صرف تین گھنٹے کام لیا جائے اور اگلے تین گھنٹوں کی مشقت سے قبل انھیں آرام کے لیے ایک گھنٹہ کا وقفہ دیا جائے لیکن ایک دن میں وقفے سمیت سات گھنٹوں سے زیادہ یا شام 7 سات بجے سے صبح 8 بجے تک کام لینا جرم تصور کیا جائے گا۔ آرڈینس میں آجروں کو بالغ افراد کو ہفتہ میں ایک چھٹی دینے کا بھی پابند بنایا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر کم از کم سات روز اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید اور دس ہزار سے 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے
گی۔

اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی کے قانون کو دوسری بار توڑنے پر تین ماہ سے پانچ سال تک کی سزا دی جا سکے گی۔ آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمی، جسم فروشی، منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لیے غلام بنانے پر 2 سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 3 سے 7 سال تک کی قید کی سزا ہوگی۔ آجروں کو 15 سال سے 18 سال کے بالغ ملازمین کی عمر اور ملازمت کا مکمل ریکارڈ مرتب کرنے کا بھی پابند بنایا گیا اور عمر کے تعین کے لیے نادرا کے فارم ’ب‘ کی شرط رکھی گئی ہے۔ کسی بچے کو ملازم رکھنے یا 18 سال تک کے بالغ افراد سے آرڈیننس کے منافی مشقت لینے کی صورت میں کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ جس سے وہ وابستہ ہوں اسے بند کیا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس میں خطرناک پیشوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق سامان یا مسافروں کی منتقلی، ریلوے سٹیشن پر کیٹرنگ، ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم یا ایک ٹرین سے دوسری ٹرین میں منتقلی شامل ہے۔ وزن اٹھانا، چمڑے کی رنگائی، سکھائی، زرعی ادویات کی مینوفیکچرنگ و سپرے، دھماکہ خیز مواد، کیمیکل، کاٹنے والی مشینری اور 50 وولٹ سے زیادہ بجلی کے تاروں کا کام بھی خطرناک پیشوں میں شمار کیا گیا ہے۔ آرڈیننس میں بالغ افراد کو سیمنٹ انڈسٹری، کان کنی، پتھروں کی پسائی، شیشہ مینوفیکچرنگ، قالین بافی، سگریٹ، بیڑی اور نسوار سازی، ایل پی جی اور سی این جی ریفیلنگ انڈسٹریز اور سینیماز میں ملازمت دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
اگر آپ نے میرا کل کا کالم پڑھا ہو تو شاید آپ کو یاد ہو کہ اس میں محمد عامر نامی کسی شخص کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ عجیب لگا ہو، کیونکہ جمعے کو میڈیا اور خاص طور پر برطانوی میڈیا کی پوری توجہ محمد عامر کی ’جائے واردات‘ پر واپسی پر ہی تھی۔ لیکن دل لگتی بات یہ ہے کہ آج کی پاکستانی ٹیم ایک بہت اچھی ٹیسٹ ٹیم ہے اور لارڈز ٹیسٹ کی کہانی میں عامر کی واپسی کے علاوہ بھی دلچسپی کا سامان بہت ہے۔ ’انگلینڈ نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا‘ * ’انگلینڈ فیورٹ نہیں ہے‘ * بیالیس سالہ ’نوجوان‘ مصباح الحق کی لارڈز میں سنچری * پاکستان بمقابلہ انگلینڈ، تصاویر مثلاّ یاسر شاہ کو ہی لے لیجیے۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے اس سپنر نے دوسرے دن کے کھیل میں پانچ وکٹیں لیکر اپنے کپتان کی طرح اپنا نام بھی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے’آنرز بورڈ‘ پر لکھوا لیا ہے۔ یاسر کی انتہائی نپی تلی بالنگ نے آج انگلینڈ کی بیٹنگ کے بخیے ادھیڑ دیے۔انگلینڈ کی وکٹوں پر ٹیسٹ میچ کے ابتدائی دنوں میں سپنرز عموماً کچھ نہیں کر پاتے، لیکن آج اسی انگلینڈ کے ایک میدان میں میچ کے دوسرے دن یاسر کو اتنی عمدہ بالنگ کراتے دیکھنا کسی بھی تماشائی کو مسحور کرنے کے لیے کافی تھا۔ لگتا ہے کہ یاسر کو بھی اپنی باقی ٹیم کی طرح آج یہ ِخواہش گھیرے ہوئے تھی کہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ صرف پاکستانی وکٹوں پر اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے بلکہ بیرون ملک بھی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بات خواہشات اور تمناؤں کی ہو تو عامر کی کہانی کا ذکر کیسے نہ ہو۔ اگرچہ آج صبح کھیل کے آغاز میں ہی پاکستانی
اننگز ختم ہوگئی لیکن اننگز ختم ہونے سے پہلے محمد عامر نے یاسر کے ساتھ شراکت میں قیمتی رنز کا اضافہ کر دیا تھا، لیکن ساری دنیا جس چیز کا انتظار کر رہی تھی وہ عامر کی بیٹنگ نہیں تھی بلکہ ہر کوئی انھیں بولنگ ایکشن میں دیکھنا چاہتا تھا اور جب ان کی بولنگ کی ابتدا میں وہ خاص جھلک دکھائی نہیں دی تو ہر کوئی حیران ہوا کہ عامر کو کیا ہو گیا ہے۔ دراصل عامر کے ٹیلنٹ اور ان کی ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے حوالے سے اتنا کچھ کہا جا رہا تھا کہ ہر کوئی یہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا کہ پانچ سال بین الاقوامی کرکٹ سے باہر رہنے کے ان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے۔ اور پھر جب عامر اپنی پرانی فارم میں واپس آئے اور جلد ہی نپی تلی بالنگ کرانا شروع کر دی تو ان کا پالا ایک ایسی چیز سے پڑا جو واقعی گذشتہ پانچ سالوں میں نہیں بدلی تھی، یعنی پاکستانی فیلڈروں کی کیچ نہ پکڑنے کی اہلیت۔ ایک نہیں، دو مرتبہ عامر انگلینڈ کی سب سے قیمتی وکٹ نہ لے سکے کیونکہ الیسٹر کُک کے دو آسان کیچ چھوڑ دیے گئے۔ آخر کار عامر کو وہی کرنا پڑا جو پاکستان کے تمام عظیم بالر کرتے آئے ہیں، یعنی فیلڈرز پر بھروسہ نہ کرو اور خود ہی بلے باز کو بولڈ کر دو۔ چانچہ انھوں نے وہی کیا اور الیسٹر کُک کو بولڈ کر دیا۔ آؤٹ ہونے سے پہلے کُک نے سارا دن جو اننگز کھیلی وہ ان کی ماضی کی اننگز سے بالکل مختلف تھی۔ وہ آج بالکل بھی جم کر نہیں کھیل پائے اور زیادہ تر رنز بھی اچھی شارٹس کی بجائے ان گیندوں پر بنائے جب گیند ان کے بلے کے کنارے کو چُھو کر گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آج انھیں کریز سے ہٹانا آسان نہیں تھا۔ انھوں نے جو روٹ کے ساتھ مل کر انگلینڈ کی اننگز کو اس وقت سہارا دیا جب ایلکس ہیلز جلد ہی آؤٹ ہو چکے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایلسٹر کُک اور جو روٹ نے سکور میں تیزی سے اضافہ کیا۔اِن دونوں بلے بازوں کو اس بات سے بھی فائدہ ہوا کہ پاکستانی بالروں کو لارڈز کی وکٹ پر اپنی لائن اور لینگتھ پکڑے میں بھی وقت لگا۔ اور اگر ہم ’کرِک وِز‘ کے آج کے اعداد و شمار دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آج وہاب ریاض کے علاوہ ہر پاکستانی بولر کو ہوا میں بال گھمانے میں مدد ملی اور وہ گینذ کو ’مُوو‘ کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً جب راحت علی نے ایک شاندار اوور کراتے ہوئے ہیلز کی وکٹ لی تو اس وقت ان کی گیند میں عامر سے زیادہ موومنٹ نظر آ رہی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ آج گیند پر راحت علی کا کنٹرول ایسا نہیں تھا جیسا ہوتا ہے۔ انگلینڈ کی بیٹنگ میں گہرائی پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اتنے پر اعتماد کیوں ہیں۔ کرِس ووکس کو ہی لیں لے۔ پاکستان کے خلاف چھ وکٹیں لینے کے بعد آج جب وہ چھٹے نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے تو وہ انتہائی پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے لیکن پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اس نے معین علی اور بیئرسٹو کو جلد ہی واپس پولین بھیج دیا، کیونکہ عموماً یہ دونوں آخر میں دھواں دھار بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان کی فیلڈنگ اتنی بڑی نہیں ہوتی تو دوسرے دن کے اختتام پر انگلینڈ کہیں زیاد ہ مشکلات کا شکار ہو چکا ہوتا۔ دوسرے دن کے اختتام پر دونوں ٹیموں کا پلہ برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلینڈ کو دھچکا لگا ہے، لیکن ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ میچ میں واپس آ سکتے ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھی صرف گھر کے شیر نہیں ہیں۔
صحرائے تھر کے ٹیلوں کے درمیان کرین مشینیں تیزی کے ساتھ ریت نکال رہی ہیں، جبکہ بڑے بڑے ڈمپر جن پر سرخ جھنڈے لگے ہیں اس ریت کو کچھ کلومیٹر دور ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ یہ کان کن 16 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکے ہیں اور انھیں 160 میٹر زیر زمین کوئلے تک پہنچنا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ صحرائے تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر واقع ہیں جن کو 12 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان دنوں بلاک نمبر دو میں کان کنی اور بجلی گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ 160 میٹر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے۔ وہ کہتے ہیں ’تھر میں زیر زمین پانی کی تین سطح موجود ہیں ان میں سے سب سے زیادہ مقدار میں پانی تیسری سطح پر ہے، یہ واحد چیلنج ہے جو مختلف ہے، یہ پانی ہزاروں کیوسکس میں ہوگا جن کو درجن سے زائد پمپس کے ذریعے نکال کر ذخیرہ کیا جائے گا، بجلی گھر کی تعمیر کے بعد اس پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنایا جائے گا۔‘ اینگرو کے منصوبے سے تقریباً 28 کلومیٹر دور واقع گوڑانو گاؤں اور آس پاس کے لوگ ناراض ہیں۔ یہاں زمین ہموار ہے جبکہ چاروں اطراف ٹیلے واقع ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی اینگرو کمپنی کے ٹھیکیداروں سے جھڑپ بھی ہوچکی ہے لیکن پولیس کی موجودگی میں ڈمپر اور ٹریکٹر اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نوجوان بھیم راج کے مطابق اس علاقے میں دس کے قریب گاؤں ہیں جبکہ 2700 ایکڑ لوگوں کی ذاتی زمین ہے اینگرو یہاں زبردستی ڈیم بنانا چاہتی ہے،

حالانکہ یہ علاقے کول ایریا میں بھی نہیں آتا اور نہ ہی انھیں الاٹ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’لوگوں کے گزر بسر اور آمدنی کا وسیلہ صرف یہ زمین ہے، ہم نے انھیں دیگر مقامات بھی تجویز کیے ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ اسی مقام پر وہ کھارے پانی کی جھیل بنائیں گے۔‘ اینگرو کول کمپنی کے چیف آپریٹنگ افسر شمس الدین شیخ کا دعویٰ ہے کہ ایک ہزار ایکڑ پر پانی کا ذخیرہ بنایا جارہا ہے، دراصل لوگوں تک صحیح طریقے سے معلومات پہنچ نہیں پائی اس وجہ سے انھیں خدشات ہیں۔ ’جس طرح پہلے لوگوں کو معاوضہ دیا ہے اور انھیں آباد کیا جائے گا اسی طرح یہاں کے متاثرین کے لیے بھی وہ ہی پالیسی اختیار کی جائے گی۔‘ اینگرو کی جانب سے پہلے مرحلے میں سالانہ 38 لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جائے گا جو 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں کو چلانے کے لیے کافی ہوگا، دوسرے مرحلے میں یہ گنجائش 78 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچائی جائے گی جس سے مزید ایک 660 میگاواٹ کا بجلی گھر لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھر کے کوئلے میں گندھک کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جس کو جلانے سے بڑے پیمانے پر راکھ کا اخراج ہوگا۔ سندھ اینگرو کول کمپنی کے جنرل مینجر آپریشن سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایف سی کے جو معیار ہیں ان کی پیروی کی جارہی ہے، راکھ کو فلٹر کرنے کے لیے ای ایس پی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی بعد میں اس راکھ کو کسی مقام پر ڈمپ کریں گے۔کوئلے منصوبے میں سڑکوں کی تعمیر اور کان کی کھدائی کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صحرا میں ایک پودے کو درخت کی شکل اختیار کرنے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت سندھ کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ اگر وہ ایک درخت نکالیں گے تو اس کی جگہ پانچ درخت لگائیں گے۔ سلام کوٹ شہر سے قریب ایک مقام پر اینگرو کی جانب سے ایک گرین ہاوس قائم کیا گیا ہے، جہاں وعدے کے مطابق پودے لگائے گئے ہیں جن میں اکثریت غیر مقامی پودوں کی ہے، انھیں آر او پلانٹ کا پانی دیا جارہا ہے، جب ہم نے اس فارم کا دورہ کیا تو کئی پودے مرجھا چکے تھے۔ اینگرو اور حکومت سندھ کی شراکت داری سے زیر تعمیر بجلی گھروں کے منصوبے میں مرکزی کردار چائنا پاور انوسٹمنٹ کارپوریشن ادا کر رہی ہے، اینگرو کے زیر استعمال زمین میں دو بڑے گاؤں متاثر ہوں گے۔ جنرل مینجر ایڈمنسٹریشن فرحان انصاری کا کہنا ہے کہ کہ کمپنی کے منصوبے کی باؤنڈری پر ایک علاقہ مختص کیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری کی جائے گی یہاں ایک کارپوریٹو ریسپانسبلٹی کمپلیکس بھی تعمیر ہوگا جس میں سکول اور ہسپتال موجود ہوں گے۔ کول ایریا کے علاوہ بھی آس پاس کے گاؤں اور زمینیں متاثر ہورہی ہیں، جہاں سڑکیں، پانی کے چھوٹے بڑے تلاب اور پائپ لائن بچھائی جا رہی لیکن ان متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی تاحال نہیں کی گئی تاہم اینگرو کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انھیں ادائیگی ضرور ہوگی۔ایک ایسے ہی متاثر جاوید سے بات ہوئی جس کی زمین پر اینگرو نے باڑ لگا دی ہے اور یہاں سے سڑک تعمیر ہو رہی ہے، جاوید کا کہنا ہے کہ ان کی زمین سے زبردستی سڑک نکالی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ملازمتوں میں انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے مستقل ملازمتوں کے بجائے ٹھیکیداری نظام کے ذریعے چھوٹی ملازمتیں دی گئی ہیں۔ سید مرتضیٰ اظہر رضوی کا کہنا ہے کہ اگر 300 سے زائد لوگ کام کر رہے ہیں تو ان میں جتنے بھی ڈمپر ڈرائیورز ہیں وہ مقامی ہیں۔ یہ منصوبہ اب پاکستان چین اقتصادی راہدری کا بھی حصہ بن چکا ہے، تھر میں بھی حکام لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ چینی کر رہے ہیں اور یہ منصوبہ قومی مفاد میں ہے
Powered by Blogger.