ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بینالی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔ سنیچر کی شام ترکی کے صدر کے دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مطابق بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک کُل 265 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سازش کی منصوبہ کرنے والے 104 افراد 161 عام شہریوں شامل ہیں۔ عام شہریوں میں 20 افراد ایسے تھے جنہوں نے سازش میں معاونت کی تھی۔ ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت اس سے قبل وزیر اعظم یلدرم کا کہنا تھا کہ تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ وزیر اعظم کے بقول جمعے کی رات ’ترکی میں جمہوریت پر سیاہ دھبہ‘ لگانے والی رات تھی۔ تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے بعد حکومت نے ملک بھر میں 2745 ججوں کو برخاست کر دیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو اور این ٹی وی کے مطابق یہ فیصلہ ججوں اور استغاثہ کی نگرانی کرنے والے کمیٹی نے کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں اُن تمام ججوں کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین سے رابطے میں تھے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش مبینہ طور پر فتح اللہ گولین نے بنائی جبکہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ *غداروں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی: اردوغان *عالمی برداری کی ترکی کی جمہوری حکومت کی حمایت *طیب اردوغان کا سیاسی سفر کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ کچھ ہی دیر بعد فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ انقرہ اور استنبول کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں میں ہزاروں لوگوں نے صدر طیب اردوغان کی اپیل پر لبیک کہا اور تختہ الٹنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ یہ ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہوا ہے کہ اس سازش کے پیچھے اصل میں کس کا ہاتھ تھا۔صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گیلین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔ فوج میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘وزیراعظم نے صدر اردوغان کے اس پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام کو پارلیمان کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ استبول سے بی بی سی کی نامہ نگار کیٹی واٹسن کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح تک بوسپورس پُل کو کھول دیا گیا تھا پُل کی دوجوں جانب گاڑیاں یوں آ جا رہی تھیں جیسے شہر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا شہر میں لوگ گذشتہ رات کے واقعات پر حیران ہیں۔ نامہ نگار کے مطابق اگرچہ ترک عوام میں صدر ارودغان کے حوالے سے رائے منقسم ہے لیکن کسی کو بھی فوجی بغاوت کی توقع نہیں تھی۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب کے تھوڑی دیر بعد ہی استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔صدر اردوغان رات کو ہی بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ گئے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔ جمعے کی شام سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ فوج کا باغی گروہ ’وٹس ایپ‘ کے ذریعے ایک دوسرے رابطے میں تھا۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کے اختتام پر کہا کہ ہے وہ لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنی پہلی سنچری اپنی بیوی کے نام کرتے ہیں۔ مصباح الحق نے جمعرات کو لارڈز ٹیسٹ کے پہلے دن 110 رنز کی اننگز کھیلی اور اب بھی کریز پر موجود ہیں۔ ٭ ’انگلینڈ نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا‘ ٭ 42 سالہ ’نوجوان‘ مصباح الحق کی لارڈز میں سنچری انھوں نے اسد شفیق کے ساتھ پانچویں وکٹ کے لیے 148 رنز کی شراکت بنا کر پاکستان کی ٹیم کو مشکل صورت حال سے بھی نکالا۔ پہلے دن کھیل کے اختتام کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستانی کپتان کا کہنا تھا ’آج کی اننگز ان کی زندگی کی سب سے بہترین اننگز تھی جسے وہ اپنی بیوی کے نام کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے بہتر پرفارمنس کے لیے روزہ رکھتی ہیں۔‘ اپنی سنچری کی خوشی میں ڈنڈ نکال کر منانے کے بارے میں مصباح کا کہنا تھا انھوں نے فٹنس کیمپ میں اپنے ٹرینرز سے کیا گیا وعدہ نبھایا ہے۔

مصباح کے مطابق انھوں نے کاکول میں کھلاڑیوں کے لیے لگائے فٹنس کیمپ میں آرمی ٹرینرز سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ سنچری بنائیں گے تو گراؤنڈ میں ڈنڈ نکال کر انھیں خراج تحسین پیش کریں گے۔ مصباح کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم کم از کم 400 رنز بنائے۔ پاکستان نے میچ کے پہلے دن چھ وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز بنائے ہیں۔
کینیڈا کے میلوس راونک اور رومانیہ کی سیمونا ہیلپ نے زیکا وائرس کے خطرات کے پیشِ نظر برازیل کے شہر ریو میں آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے میلوس روانک کا کہنا تھا: ’ میں یہ فیصلہ صحت کے خدشات کے پیش نظر اور زیکا وائرس کی غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے کر رہا ہوں۔‘ واضح رہے کہ اب تک 20 سے زائد کھلاڑی زیکا وائرس کی وجہ سے ریو اولمپکس میں شرکت سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادھر رومانیہ کی سیمونا کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان کا خاندان اہم ہے اور وہ زیکا وائرس کی وجہ سے خود کو خطرے میں نہیں ڈال سکتیں۔

خیال رہے کہ زیکا وائرس کی وجہ سے بچے پیدائشی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ سیمونا اور راونک ٹینس کے پہلے دو کھلاڑی ہیں جنھوں نے زیکا وائرس کی وجہ سے ریو اولمپیکس میں شرکت سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ راونک نے فیس بک پر لکھا ہے: ’میں اپنے فیصلہ سے کسی دوسرے ایتھلیٹ کو متاثر نہیں کرنا چاہتا جو کہ گیمز کے لیے جا رہے ہیں۔ میں اس موسم گرما میں ٹیم کینیڈا کی حوصلہ افزائی کے لیے ہوں۔‘ ہمارے ٹینس نامہ نگار رسل فلر کا کہنا ہے کہ ’راونک اور ہیلپ اولمپکس میں شرکت سے دست بردار ہونے والے صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ اگر دوسرے لوگ جو ایسے خدشات رکھتے ہیں انھیں ان کے اعلان سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔‘
ترکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران اب تک کم از کم 192 افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک شدگان میں 104 باغی فوجی، 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری شامل ہیں۔ بغاوت کا حصہ بننے والے 1500 فوجیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔ اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔ صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیترکی کا یونان سے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ ترکی کی وزراتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یونان ترکی پہچنے والے آٹھ فوجیوں کو واپس کرے۔ یہ فوجی ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر یونان پہنچے ہیں جہاں وہ سیاسی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم کے خطاب کے اہم نکات وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔

فوجی میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘ ترکی کے وزیراعظم نے صدر کے پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام میں پارلیمانی اجلاس طلب کیا ہے۔باغی گروہ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں تھا ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو منظر عام پر آئیں ہیں۔پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر نہیں کچلا جا سکا۔ انقرہ میں واقع ملٹری ہیڈ کوارٹرز کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ہیڈ کوارٹرز کے ارد گرد کے علاقے کو کلییر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قائم مقام آرمی چیف نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ باغی فوجیوں نے کئی فوجی کمانڈرز کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ترک صدر طیب اردوغان کے دفتر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام کو سڑکوں پر نکلیں۔ صدر کے دفتر سے کیے گئے ٹویٹ میں کہا گیا ہے ’اس بات سے قطع نظر کہ بغاوت کس مرحلے پر ہے ہمیں آج شام کو سڑکوں نکلنا ہو گا۔ نئی بغاوت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔‘ترکی کے قائم مقام آرمی چیف کا کہنا ہے کہ باغیوں کے 104 رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ترکی کے حکام نے کہا تھا کہ باغیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 90 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ قائم مقام آرمی چیف کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ان 90 افراد میں پولیس اہلکار اور عام شہری ہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری ہلاک ہوئے۔رکی کے صدر طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے عوام سے اپیل کی تھی کہ حکومت کی حمایت کریں۔
ایک زمانہ تھا جب بالی وڈ میں سلمان خان اور سنجے دت کی دوستی کی مثال دی جاتی تھی۔ یہ دوستی 1991 میں اس وقت شروع ہوئی تھی جب دونوں نے فلم ساجن میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن فروری میں جب سے سنجے دت جیل سے رہا ہوئے ہیں تبھی سے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ تو واضح نہیں لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد سلمان نے اپنے مینیجر کو سنجے کے یہاں ملازت دلوائی تاکہ وہ ان کے لیے کام تلاش کر سکے لیکن وہ ناکام رہا جس پر سنجے نے اسے ملازمت سے فارغ کر دیا اور یہ بات سلمان کو پسند نہیں آئی۔ لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنجے کی بائیو پِک کے لیے سلمان کی سابق گرل فرینڈ قطرینہ کیف کے سابق بوائے فرینڈ کا نام تجویز کیا گیا جو سلمان کو منظور نہیں تھا۔ خیر حقیقت جو بھی ہو اب خبریں یہ ہیں کہ سنجے کی بیگم مانیتا دت اب ان دونوں ناراض دوستوں کو نزدیک لانے کا کام کر رہی ہیں۔ مانیتا چاہتی ہیں کہ سنجے اور سلمان پہلے کی طرح ایک بار پھر اچھےدوست بن جائیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سلمان بالی وڈ کے بے تاج بادشاہ بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ اپنے فارم ہاؤس پر ایک پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے ان تمام تنازعوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سلمان سمجھ گئے کہ اشارہ کس جانب ہے۔ جھٹ سے بول پڑے کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو اگلے دو ہفتوں کا مصالحہ فراہم کردوں کیونکہ میں کہتا کچھ ہوں اور اسے پیش کسی اور انداز میں کیا جاتا ہے اور تو اور اب میری خاموشی کا بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے‘۔سلمان شاید سوچ رہے ہیں کہ ایک چپ ستر بلائیں ٹالتی ہیں لیکن بھائی خاموشی سے پہلے جو طوفان آپ اٹھا چکے ہیں اسے ختم بھی تو کریں، ورنہ ایک بار پھر آپ کے پاپا سلیم صفائی دیتے نظر آئیں گے۔

اب کل ہی کی بات ہے سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے سلطان فلم میں آپ کو دادا جی کی عمر کا کہا تو آپ کے پاپاجی نے دل پر لے لیا۔ تو بھائی بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ سلمان خان سے یاد آیا کہ قطرینہ کیف آج پورے 33 سال کی ہو گئی ہیں اور سنا ہے کہ وہ اس موقعے پر ایک گرینڈ پارٹی دینے والی ہیں کیونکہ اس بار ان کی دو بہنیں اور والدہ اس وقت ممبئی میں ان کے ساتھ ہیں۔ قطرینہ اپنی پارٹی باندرہ کے اسی گھر میں منا رہی ہیں جہاں وہ کبھی رنبیر کپور کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ اس پارٹی میں بالی وڈ کے کئی بڑے لوگ شامل ہو رہے ہیں جن میں ہدایت کار ایان مکھرجی، علی عباس ظفر، کرن جوہر اور کبیر خان اپنی بیگم کے ساتھ ہوں گے۔ ویسے سلمان خان کا تو پتہ نہیں لیکن ہاں رنبیر کپور کے لیے اس پارٹی میں نو اینٹری ہوگی۔یہ سوشل میڈیا کی لت بھی عجیب ہے لوگ اپنی زندگی کے اہم اور غیر اہم ہر طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان لمحات کو بھی عام کر دیتے ہیں جو شاید صرف انھیں کی ذات یا زندگی تک محدود ہونے چاہییں۔ اب شاہد کپور کو ہی لے لیجیے۔ شاہد کپور جلد ہی پاپا بننے والے ہیں اور آج کل زیادہ تر وقت اپنی بیگم میرا کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم ہیں اور بیگم کے ساتھ اپنی گرما گرم تصاویر بھی پوسٹ کر رہے ہیں۔ کہیں وہ بیگم کو باہوں میں لیے ہوئے ہیں تو کہیں انھیں بوسہ دے رہے ہیں۔ ایکٹنگ کرتے کرتے شاید وہ بھول گئے ہیں کہ یہ اصل زندگی ہے اور یہ ان کے نجی لمحات ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے شہرت پانے والی پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو ملتان میں قتل کر دیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے بی بی سی اردو کے رضا ہمدانی کو بتایا کہ قندیل کو ان کے بھائی نے ہلاک کیا ہے۔ ٭ قندیل بلوچ جو کرتی ہیں دل سے کرتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ فورینزک ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں اور پنجاب پولیس کے سربراہ نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ آر پی اور ملتان سلطان اعظم تیموری نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ قندیل کی موت دم گھٹنے سے ہوئی اور انھیں گلا دبا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم ڈیرہ غازی خان میں موبائل فونز کی دکان چلاتا ہے اور گذشتہ شب ہی اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان آیا تھا۔ تاحال اس قتل کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے تاہم سلطان اعظم تیموری کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد ڈیرہ غازی خان میں ملزم وسیم کو لوگ طعنے دیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ملزم اس واقعے کے بعد سے مفرور ہے اور اسے تلاش کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ قندیل بلوچ کی جانب سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی وزارتِ داخلہ کے حکام کو درخواست دی گئی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔

تاہم اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر سٹار سمجھا جاتا تھا اور جہاں فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے وہیں ان کا شمار پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ہوتا تھا۔ حال ہی میں ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اپنی پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں تھیں۔ اس سے قبل ماہِ رمضان میں ان کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ ’سیلفیز‘ بھی منظرِ عام پر آئی تھیں جن کی وجہ سے مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں قندیل نے کہا تھا کہ انھوں نے ابتدا میں شو بزنس میں جانے کی کوشش کی لیکن وہاں لڑکیوں کے استحصال کے واقعات کی وجہ سے مایوس ہو کر سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ لوگ ان کے بارے کیا کہتے ہیں، وہ اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ’میرے والدین نے مجھے آزادی دی اور میں مانتی ہوں کہ اس کا میں نے ناجائز استعمال کیا، لیکن اب میں ہاتھوں سے نکل چکی ہوں۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت صوبہ بھر میں 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب کے محکمہ قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس’ان سیشن‘ نہ ہونے کے باعث گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 128 کی شق 1 کے تحت آرڈیننس جاری کیا جو فوری طور پر پورے صوبہ میں نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔ ٭ ’دنیا میں ساڑھے چار کروڑ جدید غلام موجود‘ ٭ پاکستان کے’غیر محفوظ‘ بچے آرڈیننس میں صوبہ کے تمام سرکاری اور نجی اداروں اور آجروں کو 15 سال سے کم عمر بچوں سے مشقت نہ لینے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ 15 سے 18 سال کی عمر کے افراد کو خطرناک پیشوں میں ملازمت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ صحافی عبدالناصر کے مطابق آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے کام لیتے وقت ان کے تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے اوقات کا خیال رکھا جائے تاکہ ان میں کوئی حرج نہ آئے۔ آجروں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ 15 سے 18 سال کے بالغ افراد سے مسلسل صرف تین گھنٹے کام لیا جائے اور اگلے تین گھنٹوں کی مشقت سے قبل انھیں آرام کے لیے ایک گھنٹہ کا وقفہ دیا جائے لیکن ایک دن میں وقفے سمیت سات گھنٹوں سے زیادہ یا شام 7 سات بجے سے صبح 8 بجے تک کام لینا جرم تصور کیا جائے گا۔ آرڈینس میں آجروں کو بالغ افراد کو ہفتہ میں ایک چھٹی دینے کا بھی پابند بنایا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر کم از کم سات روز اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ قید اور دس ہزار سے 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے
گی۔

اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی کے قانون کو دوسری بار توڑنے پر تین ماہ سے پانچ سال تک کی سزا دی جا سکے گی۔ آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر اخلاقی سرگرمی، جسم فروشی، منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لیے غلام بنانے پر 2 سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ اور 3 سے 7 سال تک کی قید کی سزا ہوگی۔ آجروں کو 15 سال سے 18 سال کے بالغ ملازمین کی عمر اور ملازمت کا مکمل ریکارڈ مرتب کرنے کا بھی پابند بنایا گیا اور عمر کے تعین کے لیے نادرا کے فارم ’ب‘ کی شرط رکھی گئی ہے۔ کسی بچے کو ملازم رکھنے یا 18 سال تک کے بالغ افراد سے آرڈیننس کے منافی مشقت لینے کی صورت میں کارخانہ یا کوئی بھی ادارہ جس سے وہ وابستہ ہوں اسے بند کیا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس میں خطرناک پیشوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق سامان یا مسافروں کی منتقلی، ریلوے سٹیشن پر کیٹرنگ، ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم یا ایک ٹرین سے دوسری ٹرین میں منتقلی شامل ہے۔ وزن اٹھانا، چمڑے کی رنگائی، سکھائی، زرعی ادویات کی مینوفیکچرنگ و سپرے، دھماکہ خیز مواد، کیمیکل، کاٹنے والی مشینری اور 50 وولٹ سے زیادہ بجلی کے تاروں کا کام بھی خطرناک پیشوں میں شمار کیا گیا ہے۔ آرڈیننس میں بالغ افراد کو سیمنٹ انڈسٹری، کان کنی، پتھروں کی پسائی، شیشہ مینوفیکچرنگ، قالین بافی، سگریٹ، بیڑی اور نسوار سازی، ایل پی جی اور سی این جی ریفیلنگ انڈسٹریز اور سینیماز میں ملازمت دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
Powered by Blogger.