ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بینالی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔
سنیچر کی شام ترکی کے صدر کے دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مطابق بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک کُل 265 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سازش کی منصوبہ کرنے والے 104 افراد 161 عام شہریوں شامل ہیں۔ عام شہریوں میں 20 افراد ایسے تھے جنہوں نے سازش میں معاونت کی تھی۔
٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی
٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر
٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت
اس سے قبل وزیر اعظم یلدرم کا کہنا تھا کہ تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
وزیر اعظم کے بقول جمعے کی رات ’ترکی میں جمہوریت پر سیاہ دھبہ‘ لگانے والی رات تھی۔
تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے بعد حکومت نے ملک بھر میں 2745 ججوں کو برخاست کر دیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو اور این ٹی وی کے مطابق یہ فیصلہ ججوں اور استغاثہ کی نگرانی کرنے والے کمیٹی نے کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں اُن تمام ججوں کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین سے رابطے میں تھے۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش مبینہ طور پر فتح اللہ گولین نے بنائی جبکہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے۔
ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔
*غداروں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی: اردوغان *عالمی برداری کی ترکی کی جمہوری حکومت کی حمایت *طیب اردوغان کا سیاسی سفر
کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ کچھ ہی دیر بعد فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔
انقرہ اور استنبول کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں میں ہزاروں لوگوں نے صدر طیب اردوغان کی اپیل پر لبیک کہا اور تختہ الٹنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
یہ ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہوا ہے کہ اس سازش کے پیچھے اصل میں کس کا ہاتھ تھا۔صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔
صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گیلین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔
وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔ فوج میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘وزیراعظم نے صدر اردوغان کے اس پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام کو پارلیمان کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
استبول سے بی بی سی کی نامہ نگار کیٹی واٹسن کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح تک بوسپورس پُل کو کھول دیا گیا تھا پُل کی دوجوں جانب گاڑیاں یوں آ جا رہی تھیں جیسے شہر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا شہر میں لوگ گذشتہ رات کے واقعات پر حیران ہیں۔ نامہ نگار کے مطابق اگرچہ ترک عوام میں صدر ارودغان کے حوالے سے رائے منقسم ہے لیکن کسی کو بھی فوجی بغاوت کی توقع نہیں تھی۔
حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب کے تھوڑی دیر بعد ہی استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔صدر اردوغان رات کو ہی بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ گئے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔
جمعے کی شام سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ فوج کا باغی گروہ ’وٹس ایپ‘ کے ذریعے ایک دوسرے رابطے میں تھا۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔
واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔