ترکی میں ایک فوجی گروپ کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی گئی جس کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ وہ ’جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا ساتھ دیں۔‘ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں ترکی کی سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کریں اور تشدد اور خونریزی سے بچیں۔ ادھر روس کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ترکی کے وزیرِ خارجہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ترکی کی منتخب حکومت اور جمہوری اداروں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔روس کے وزیرِ خارجہ سرگے لاروف کا کہنا ہے کہ ترکی کے مسائل کو اس کے آئین کےمطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ روس کو ترکی سے آنے والی اطلاعات پر ’شدید تشویش‘ ہے۔ ترجمان کے مطابق روس کی اولین ترجیع ترکی میں موجود اس کے شہریوں اور اداروں کی حفاظت ہے۔ دیمتری پیسکووکے مطابق ترکی ایک اہم علاقائی طاقت ہے اور ترکی کا استحکام یقیناً خطے کے لیے بہت ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان کے مطابق ادارے کے سربراہ نے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ ترجمان کے مطابق بان کی مون ترکی میں رونما ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں اور انھیں ایک فوجی گروپ کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بارے میں علم ہے۔جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی میں ’جمہوری عمل کی تکریم کی جانی چاہیے۔‘ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے ترکی میں ہونے والی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ترک سفارتخانے نے برطانوی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ ادھر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی نے ترکی میں رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے خلاف مزاحمت کرنے کو کہا ہے۔ خلیجی مالک میں ترکی کے اہم اتحادی ملک قطر کی جانب سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے بھی ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہے ترکی کا استحکام، جمہوریت اور ترک عوام کا تحفظ بہت اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اتحاد اور دوراندیشی لازمی ہے۔‘
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو ’ملک سے غداری‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صورتحال حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ غداروں کو اس حرکت کی بھاری قیمت چکانا ہوگی جبکہ ملک کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے ترکی کی پارلیمان کا خصوصی اجلاس جمعے کی دوپہر طلب کر لیا گیا ہے۔ ٭ ترکی میں ’فوجی بغاوت: لائیو اپ ڈیٹس ٭ ترکی میں ’اقتدار پر قبضے کی کوشش‘: تصاویر اقتدار پر قبضے کی کوشش کے دوران کم از کم 192 افراد ہلاک اور 1100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ترک فوج کے قائم مقام سربراہ کے مطابق ہلاک شدگان میں 104 باغی فوجی، 41 پولیس اہلکار اور 47 عام شہری شامل ہیں۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے اور کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ اس کے بعد فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔جب یہ واقعات پیش آئے تو اس وقت رجب طیب اردگان ملک سے باہر تھے۔ اب ترک حکام کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے تاہم صورتحال تاحال واضح نہیں ہے۔ فوجی گروپ کے اعلان کے بعد انقرہ اور استنبول میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی تھیں۔ ترک فوج کے 1563 ارکان کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ 26 کرنل اور پانچ جنرل بھی برطرف کر دیے گئے ہیں۔ باغیوں کی جانب سے حراست میں لیے جانے والی فوج کے سربراہ جنرل ہلوزی اکار کو بھی بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ وطن واپسی سے قبل رجب طیب اردوغان نے فیس ٹائم کے ذریعے بھیجے گئے پیغام میں عوام سے باہر نکلنے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کی اپیل کی تھی جس کے بعد انقرہ اور استنبول میں عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی اور وہاں تعینات فوجیوں سے ان کا تصادم بھی ہوا تھا۔عوام کی جانب سے فوجیوں پر غلبہ پانے کی تصاویر عالمی میڈیا پر نشر ہوئی ہیں جن میں باسفورس کے پل پر ہاتھ اٹھائے فوجیوں کو ٹینکوں سے دور جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ترکی کی ریاستی خبر رساں ایجنسی اناطولو کے مطابق ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں 200 غیر مسلح فوجیوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔ اناطولو کے مطابق فوجی بغاوت میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 90 ہو گئی ہے جبکہ 1154 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں جبکہ ترکی کی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملٹری پولیس کمانڈ میں جھڑپوں کے دوران 16 باغی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف 16 طیاروں نے انقرہ میں صدارتی محل کے باہر تعینات باغیوں کے ٹینکوں پر بمباری بھی کی ہے جبکہ ملک کی پارلیمان کی عمارت کو بھی دھماکوں سے نقصان پہنچا ہے۔ ترکی واپسی کے بعد سنیچر کی شب استنبول کے ایئرپورٹ پر پریس کانفرس سے خطاب میں طیب اردوغان نے تختہ الٹنے کی اس کوشش کو غداری قرار دیا اور بتایا تھا کہ جن افسران نے ملک میں مارشل لا لگانے کی کوشش کی ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے این ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے صورتحال بہت حد تک کنٹرول میں ہے اور انقرہ کو نو فلائی زون قرار دے دیا گیا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ بغاوت کی کوشش کس کی ایما پر کی گئی تاہم حکام نے اس کا الزام امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے رہنما فتح اللہ گولین پر عائد کیا ہے۔ اناطولو ایجنسی نے بغاوت کرنے والے اس گروہ کا نام فیتو بتایا ہے۔ ترک حکومت اسے ہزمینت موومنٹ کہتی ہے جس کے سربراہ فتح اللہ گولین ہیں۔ تاہم فتح اللہ گولین نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش ان کی ایما پر ہوئی ہے۔
ترکی میں باغی فوجیوں کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش کو ملکی افواج نے ناکام بنا دیا ہے۔
قطرینہ کیف آج پورے 33 سال کی ہو گئی ہیں اور سنا ہے کہ وہ اس موقعے پر ایک گرینڈ پارٹی دینے والی ہیں جس میں بالی وڈ کے کئی بڑے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ ویسے سلمان خان کا تو پتہ نہیں لیکن ہاں رنبیر کپور کے لیے اس پارٹی میں نو اینٹری ہوگی۔

اور سوناکشی سنہا عام زندگی میں تو اکثر ساڑھی میں میں نظر آتی ہیں، لیکن انھیں فلم ’اکیرا‘ میں اتنا ایکشن سے بھرپور کردار پسند کیوں آیا؟ اس کے علاوہ سنیئے بہت کچھ نصرت جہاں سے بالی وڈ راؤنڈ اپ کے اس ایڈیشن میں
امریکی ایوانِ نمائندگان کے سابق سپیکر نیوٹ گنگرچ نے کہا ہے کہ جو مسلمان شریعت پر یقین رکھتے ہیں انھیں امریکہ سے نکال دیا جائے۔ سابق سپیکر کے بقول تمام امریکی مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ وہ شریعت پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں اور جو یقین رکھتے ہیں انھیں ملک بدر کر دیا جائے۔ نیوٹ گنگرچ کی جانب سے یہ بیان فرانس کے شہر نیس میں ہونے والے حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ خیال رہے کہ نیس میں جمعرات کی شب فرانس کے قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے حملے میں 84 افراد مارے گئے تھے اور اس کی ذمہ داری اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم نے قبول کی ہے۔

اس سے قبل امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوانِ نمائندگان کے سابق سپیکر کا کہنا تھا کہ ’ مغربی تہذیب حالتِ جنگ میں ہے، ہمیں ہر مسلمان سے پوچھنا چاہیے اور اگر وہ شریعت پر یقین رکھتے ہیں تو انھیں ملک بدر کر دینا چاہیے۔‘ نیوٹ گنگرچ کا مزید کہنا تھا کہ ’ شریعت مغربی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی ہے، ایسے روشن خیال مسلمان جو شریعت کے قوانین پر یقین نہیں رکھتے ان کو ہم بخوشی قبل کریں گے۔‘ نیوٹ گنگرچ نے امریکہ میں مسجدوں کی نگرانی کے ساتھ شدت پسند تنظیموں کی ویب سائٹس پر جانے والے افراد کو جیل بھیجنے کی تجویز بھی دی۔ دوسری جانب امریکہ میں مسلمانوں کے حقوق کی نمائندہ تنظیموں نے نیوٹ گنگرچ کے بیان کی مذمت کی ہے۔
ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بینالی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔ سنیچر کی شام ترکی کے صدر کے دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مطابق بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک کُل 265 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سازش کی منصوبہ کرنے والے 104 افراد 161 عام شہریوں شامل ہیں۔ عام شہریوں میں 20 افراد ایسے تھے جنہوں نے سازش میں معاونت کی تھی۔ ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت اس سے قبل وزیر اعظم یلدرم کا کہنا تھا کہ تختہ الٹنے کی ناکام سازش میں شریک اعلیٰ افسران سمیت 2,839 سپاہیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ وزیر اعظم کے بقول جمعے کی رات ’ترکی میں جمہوریت پر سیاہ دھبہ‘ لگانے والی رات تھی۔ تختہ الٹنے کی ناکام سازش کے بعد حکومت نے ملک بھر میں 2745 ججوں کو برخاست کر دیا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو اور این ٹی وی کے مطابق یہ فیصلہ ججوں اور استغاثہ کی نگرانی کرنے والے کمیٹی نے کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں اُن تمام ججوں کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو ترکی کے رہنما فتح اللہ گولین سے رابطے میں تھے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بغاوت کی سازش مبینہ طور پر فتح اللہ گولین نے بنائی جبکہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے۔ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔ *غداروں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی: اردوغان *عالمی برداری کی ترکی کی جمہوری حکومت کی حمایت *طیب اردوغان کا سیاسی سفر کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔ کچھ ہی دیر بعد فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔ انقرہ اور استنبول کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں میں ہزاروں لوگوں نے صدر طیب اردوغان کی اپیل پر لبیک کہا اور تختہ الٹنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ یہ ابھی تک پوری طرح واضح نہیں ہوا ہے کہ اس سازش کے پیچھے اصل میں کس کا ہاتھ تھا۔صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گیلین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ ملک کے حالات ’مکمل کنٹرول‘ میں ہیں اور فوج کی کمان وفادار کمانڈروں کو سونپی گئی ہے۔ فوج میں نچلے رینک سے لے سینیئر افسران جنھوں نے اس سازش میں کردار ادا کیا، انھیں گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن وہ افراد جنھوں نے ’اس بغاوت کو سہارا‘ دیا انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہو گیا ہے اور ’ترکی کی حکومت کو ختم کرنے والوں کے خلاف تمام اقدامات کر لیے گئے ہیں‘۔ ترکی کی حکومت اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ کہیں انٹیلجنس میں کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے ’لیکن فی الحال‘ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘وزیراعظم نے صدر اردوغان کے اس پیغام کو دہرایا کہ عوام شام میں شہر کے مرکز میں جمع ہوں۔ وزیراعظم نے آج شام کو پارلیمان کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ استبول سے بی بی سی کی نامہ نگار کیٹی واٹسن کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح تک بوسپورس پُل کو کھول دیا گیا تھا پُل کی دوجوں جانب گاڑیاں یوں آ جا رہی تھیں جیسے شہر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا شہر میں لوگ گذشتہ رات کے واقعات پر حیران ہیں۔ نامہ نگار کے مطابق اگرچہ ترک عوام میں صدر ارودغان کے حوالے سے رائے منقسم ہے لیکن کسی کو بھی فوجی بغاوت کی توقع نہیں تھی۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب کے تھوڑی دیر بعد ہی استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف آواز بلند کی۔صدر اردوغان رات کو ہی بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ گئے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔ جمعے کی شام سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ فوج کا باغی گروہ ’وٹس ایپ‘ کے ذریعے ایک دوسرے رابطے میں تھا۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ بغاوت کی سازش تیار کرنے والوں نے ایک دوسرے سے وٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطے کیے۔ اُن کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مطابق ’استبول جانے والی ٹریفک کو بلاک کرنے اور حکومت کی ایمرجنسی کیمونیکیشن کے رابطے کو ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ واٹس ایپ پر اس طرح کے مبینہ پیغامات کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ترکی میں فوج کی جانب سے بغاوت کی کوشش کی مذمت کی۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں ترکی کے عوام کا بھرپور کردار قابلِ ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ترکی کی جمہوری حکومت کے ساتھ ہے اور اس موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور عوام کے ساتھ ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن کے اختتام پر کہا کہ ہے وہ لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنی پہلی سنچری اپنی بیوی کے نام کرتے ہیں۔ مصباح الحق نے جمعرات کو لارڈز ٹیسٹ کے پہلے دن 110 رنز کی اننگز کھیلی اور اب بھی کریز پر موجود ہیں۔ ٭ ’انگلینڈ نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا‘ ٭ 42 سالہ ’نوجوان‘ مصباح الحق کی لارڈز میں سنچری انھوں نے اسد شفیق کے ساتھ پانچویں وکٹ کے لیے 148 رنز کی شراکت بنا کر پاکستان کی ٹیم کو مشکل صورت حال سے بھی نکالا۔ پہلے دن کھیل کے اختتام کے بعد پریس کانفرنس میں پاکستانی کپتان کا کہنا تھا ’آج کی اننگز ان کی زندگی کی سب سے بہترین اننگز تھی جسے وہ اپنی بیوی کے نام کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے بہتر پرفارمنس کے لیے روزہ رکھتی ہیں۔‘ اپنی سنچری کی خوشی میں ڈنڈ نکال کر منانے کے بارے میں مصباح کا کہنا تھا انھوں نے فٹنس کیمپ میں اپنے ٹرینرز سے کیا گیا وعدہ نبھایا ہے۔

مصباح کے مطابق انھوں نے کاکول میں کھلاڑیوں کے لیے لگائے فٹنس کیمپ میں آرمی ٹرینرز سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ سنچری بنائیں گے تو گراؤنڈ میں ڈنڈ نکال کر انھیں خراج تحسین پیش کریں گے۔ مصباح کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کریں گے کہ پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم کم از کم 400 رنز بنائے۔ پاکستان نے میچ کے پہلے دن چھ وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز بنائے ہیں۔
Powered by Blogger.