پاکستان میں سوشل میڈیا سے شہرت حاصل کرنے والی ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے بعد بھی سوشل میڈیا پر اُن کے قتل کے واقعے پر مختلف طرح کی خیالات کا اظہار کیا گیا۔ قندیل بلوچ کے قتل کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد #qandeelbaloch #qandeelmuder ٹرینڈ کرنے لگا۔ کئی افراد نے اُن کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرتی تھیں لیکن اُنھیں قتل کیا جانا افسوسناک ہے لیکن سوشل میڈیا پر کئی افراد اُن کے قتل پر مطمعن بھی دکھائی دیےپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کی کہ ’قندیل بلوچ پاکستانی خاتون تھیں اور انھیں زندہ رہنے کا حق ہے۔ کوئی اگر مگر نہیں۔ پنجاب حکومت کو قندیل بلوچ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔‘

 دو بار آسکر ایورڈ جیتنے والی پاکستان فلم ساز شرمین عبید چنائے نے بھی قندیل بلوچ کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا۔ غیرت کے نام پر قتل پر دستاویزی فلم بنانے والے شرمین عبید چنائے نے ٹویٹ کی کہ ’قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے قانون سازی میں اور کتنی خواتین کو جان دینے پڑے گی۔‘ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ ’اس واقعے میں غیرت کا تعلق براہ راست پیسوں کی کمی سے بھی ہے۔ پیسہ کم ہو گا تو غیرت نے تو باہر آنا ہی ہے۔‘ عاصم یوسف زئی نے ٹویٹ کی ’قندیل بلوچ پاکستان کے مردوں اور مولویوں کے لیے خطرہ تھیں۔اُن کا قتل وحشی پن ہے۔‘ بی بی سی جنوبی ایشیا کی مدیرہ جل میکگروینگ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض افراد قندیل بلوچ کی موت کو ’اچھی خبر‘ قرار دے رہے ہیں اور اُن قاتلوں کی تعریف کر رہے ہیں۔‘ ان کے مطابق پاکستان میں خواتین خصوصاً غریب خواتین کو بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جیسے اپنے مرضی سے شادی کرنے کا حق۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ برہان وانی سے ان کا موازنہ کیے جانے اور کشمیر کے حالات پر وہ رنجیدہ ہیں۔ کشمیر کے علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی گذشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد وادی میں پرتشدد لہر دیکھی گئی جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ شاہ فیصل سرینگر میں محکمہ تعلیم کے سربراہ ہیں اور وہ حالیہ تشدد کے دوران میڈیا کے رویے سے ناراض ہیں۔انھوں نے برہان وانی کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی تصویر دکھائے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ملک میں میڈیا کا ایک طبقہ پھر سے کشمیر میں تشدد کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے، لوگوں کو متقسم کر رہا ہے اور لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے۔‘ انھوں نے لکھا: ’کشمیر حال میں ہونے والی اموات پر آنسو بہا رہا ہے اور نيوز روم سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈہ کے سبب کشمیر میں نفرت اور غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔‘

 فیصل نے کہا: ’میں نے آئی اے ایس کی نوکری اس لیے نہیں کی جس سے میں کسی پروپیگنڈے کا موضوع بن جاؤں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس طرح کے موضوعات کا حصہ بنوں گا۔ اگر ایسا جاری رہا تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔‘سوشل میڈیا پر شاہ فیصل کی تصویر برہان وانی کی تصویر کے ساتھ پوسٹ کی گئی ہے اور دونوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اس تصویر کو کانگریس کے رہنما سنجے نروپم نامی ایک اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انتہا پسندی کوئی حل نہیں۔‘ (بلیو ٹک نہ ہونے کی وجہ سے اس ٹوئٹر ہینڈل کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ یہ واقعتا کس کا ٹوئٹر ہینڈل ہے) یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے اور بہت سے لوگوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ کشمیریوں کو فیصل شاہ کو ہیرو کے روپ میں دیکھنا چاہیے نہ کہ برہان وانی کو۔بی جے پی کے ترجمان سمبت مہاپاترا نے لکھا ہے کہ ’سمجھ میں نہیں آتا کہ میرے بیان کو، وانی کے بجائے فیصل کو پوسٹر بوائے ہونا چاہیے، ہٹا دیا گیا ہے۔‘ جبکہ کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے لکھا ہے کہ ’کیا (نیوز) چینل کشمیریوں کے جذبات کو مجروح کرنا بند کریں گے؟ کیا حکومت ہند انھیں قابو میں نہیں رکھ سکتی؟‘
بالی وڈ سٹار سلمان خان باکس آفس پر کرڑوں روپے کا بزنس کرنے والے فلم سلطان کے پروموشن کے دوران ایک متنازع بیان پر تنازعات کے بعد میڈیا سے کافی حد تک دور تھے لیکن ریلیز کے بعد 220 کروڑ کی کامیابی نے سلمان خان کو میڈیا پر آنے پر مجبور کر دیا۔ سلمان خان نے تقریباً 20 صحافیوں کو ممبئی کے قریب اپنے فارم ہاؤس آنے کی دعوت دی۔ میڈیا کے نمائندوں سے اس ملاقات میں سلمان کافی افسردہ اور بجھے ہوئے نظر آئے۔ ایک صحافی نے فلم ریلیز سے پہلے ہوئے تنازعہ پر سوال پوچھا تو سلمان خان نے لمبی سانس لی اور کہا کہ ’ کیا میں ایسا کچھ کہہ دوں کے آپ کے دو ہفتے آرام سے گزر جائیں۔ وہ بات آپ کو اچھی بھی لگے گی لیکن اس سے میرے قرینی افراد کو تکلیف ہو گی۔‘ سلمان خان نے کہا کہ ’اگر میں کچھ ایسا ویسا کچھ نہیں کہتا تو میں بورنگ ہوں. اب آپ فیصلہ کریں کہ مجھے کچھ کہنا چاہیے یا نہیں؟‘ سلمان کی آنکھوں میں غصہ، مایوسی اور تنازعات سے ہونے والی پریشانی صاف جھلک جھلک رہی تھی۔ سلمان خان نے میڈیا سے اپنی ناراضی کا اظہار کرتہ ہوئے کہا کہ ’میں جو بھی کہوں آپ وہی لکھیں گے جو آپ نے سوچا ہے۔ کتنی بار بیانات کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جاتا ہے جو بہت افسوسناک ہے۔‘

 سلمان خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو اپنی فلموں کا سب سے بڑا ناقد سمجھتے ہیں۔سلمان کے مطابق ’اگر فلم بری ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی سو جاؤ اگلی فلم پر محنت کرنا۔‘ سلمان نے کہا کہ وہ اپنے زندگی پر کسی کو فلم بنانے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اپنی زندگی کی پوری حقیقت سے اُن کے علاوہ کوئی اور پوری طرح واقف نہیں ہو سکتا۔ سلمان کے خیال میں اُن کی ’میری زندگی بوریت سے بھری ہوئی ہے اور ایسی زندگی پر فلم نہیں بنتی۔‘ باڈی گارڈ، کک، بجرنگی بھائی جان اور سلطان جیسی مسلسل ہٹ فلمیں دینے والے باکس آفس کے سلطان سلمان خان نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب ان کی فلمیں مسلسل باکس آفس پر فلاپ ہو رہی تھیں۔ عامر خان نے حال ہی میں اپنی فلم دنگل کے پوسٹر لانچنگ میں کہا کہ سلمان خان ان سے بڑے سٹار ہیں۔ سلمان خان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ وہ عامر خان کی بات سے بالکل اتفاق کرتے ہیں۔ حویلی نما فام ہاؤس پر آرام کرنے والے سلمان خان جلد ہی کبیر خان کی فلم ٹیوب لائٹ کی شوٹنگ میں مصروف ہو جائیں گے جو آئندہ سال عید پر ریلیز ہوگی۔
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اب تک تقریباً چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے جو’وائرس‘ تھے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے گا۔ بغاوت کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے ایک شخص کے جنازے میں شرکت کے موقعے پر ترک صدر نے کہا ہے کہ ’یہ بغاوت خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمیں فوج میں صفائی کا موقع ملے گا۔‘ صدر اردغان نے مزید کہا ہے کہ ’ میری عظیم قوم نے بغاوت کرنے والوں کو بہترین جواب دیا ہے۔‘ ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایت صدر اردغان نے کہا کہ ’تمام ریاستی اداروں سے اس وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا کیونکہ یہ وائرس اب پھیل چکا ہے۔ بدقسمتی سے کینسر کی طرح یہ وائرس ریاست میں پھوٹ چکا ہے۔‘ صدر طیب اردوغان نے سنیچر کو کہا تھا کہ اس سازش میں ملوث افراد کو بھاری قیمت ادا کرنے پڑے گی۔اس سے قبل ملک کے وزیر برائے انصاف نے کہا تھا کہ اب تک بغاوت کی سازش میں ملوث چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کا امکان ہے۔ ترکی میں جمہوری حکومت نے حالاتِ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تک فوج کے کئی اعلیٰ افسران اور 2700 ججوں کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح ملک کے جنوبی صوبے میں بریگیڈ کمانڈر اور 50 سے زائد فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر انصاف نے ان افراد کی گرفتاری کے عمل کو ’صفائی کا عمل‘ قرار دیا۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 265 ہو گئی ہے جبکہ وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ’انصاف کے کٹہرے‘ میں لایا جائے گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ ملک کی پارلیمان سزائے موت کو متعارف کروانے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولین کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گولین نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے ترکی کو تنبیہہ کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش میں امریکہ کے کردار کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ترکی میں ایک فوجی گروہ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہو جانے کے بعد صدر رجب طیب اردوغان کی کہنے پر عوام نے مختلف شہروں میں جمہوریت کی حمایت میں ریلیاں نکالی ہیں۔ سنیچر کی شام نکالی جانے والی ان ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک تھے جنھوں نے ہاتھوں میں بینرز اور جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
MUZAFFARABAD: Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) Chairman Imran Khan on Sunday stated the people of Pakistan will celebrate and distribute sweets if the army takes over in the country. "Democracy in Pakistan is threatened by Nawaz's monarchy and the people will celebrate and distribute sweets if the army takes over," said Imran while addressing a public rally in Azad Kashmir. The PTI chief added the people of Turkey supported Erdogan as he serves the people, while Nawaz has burdened the people with debt. "In three years

, Nawaz Sharif has burdened the people with billions in debt." Imran also questioned the premier's continued silence over the Panama Papers controversy. Forces loyal to the Turkish government fought on Saturday to crush the military coup attempt which crumbled after crowds answered President Tayyip Erdogan's call to take to the streets and dozens of rebel soldiers abandoned their tanks. More than 194 people — including 41 police, 47 civilians, two military officers and 104 described as “coup plotters” — were killed in clashes that erupted after a faction of the armed forces attempted to seize power using tanks and attack helicopters, some strafing the headquarters of Turkish intelligence and parliament in Ankara, others seizing a major bridge in Istanbul.
میں جب منٹو وغیرہ کے سینتالیس کے تناظر میں لکھے افسانے پڑھتی تھی تو یہ سوچتی تھی کہ یہ دانشورانہ غیر ذمہ داری ہے۔ ایک دانشور کو صورتحال کا منطقی جائزہ لینا چاہیے اور اس پہ مدلل بات کرنی چاہیے۔ اگر افسانہ یا ناول لکھا تو ایسے کیوں لکھا جیسے بین ہو۔ یہ وہ دور تھا جب سقوطِ ڈھاکہ کا زخم چھپا لیا گیا تھا، ہم کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے اور بقول شخصے باس کے خاص آدمی بنے ہوئے تھے۔اس وقت کے ادیب بین نہیں کرتے تھے، بڑی معصوم باتیں کرتے تھے، مزاح اور تصوف سے بھر پور۔ مان لینے والے لوگ تھے اور رونے دھونے، سوال کرنے، بین ڈالنے والے لوگوں سے یقیناً بہتر تھے۔ برہان وانی کو مار دیا گیا، احتجاج کرنے والوں کو بھی مار دیا گیا۔ بہت سوں کو اندھا کر دیا گیا اور پھر ہم لو گوں نے کان سے قلم اتارے، کھنکھارے، آنکھیں ملیں اور اپنے کافوری سروں پہ ہاتھ پھیر کر منطقی تجزیے شروع کر دیے۔ کیا اس قتل و غارت گری سے بچا جا سکتا تھا؟ کیا برہان کا جنازہ جانے دیا جاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا؟ اگر یہ چھرے والی بندوقیں نہ چلائی جاتیں اور کسی طرح کا ’ہلکا پھلکا تشدد‘ کر لیا جاتا تو یہ لوگ نہ مرتے اور بی جے پی سرکار کی بھد نہ اڑتی، ہندوستانی فوج کو اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی تو یہ سب نہ ہوتا۔ہم بین کرنے والی نسل نہیں۔ ہم بہت منطقی ہیں اور ہر بات میں دو جمع دو چار نکال لیتے ہیں ہم کوئی منٹو ہیں جو تقسیم کا نوحہ لکھیں گے؟

کشمیر میں 1931 سے جاری یہ تحریک ہمیں نظر نہیں آتی شاید کوئی چھرا اڑ کر سینکڑوں ہزاروں میل کا فا صلہ طے کر کے ہماری آنکھ میں بھی گر گیا ہے۔ خیر اگلی بار ان کو سمجھا دیا جائے گا، وہ ہلکا پھلکا تشدد ہی کریں گے۔ وہ تو جب سمجھیں گے تب سمجھیں گے، ہم اب ’جان کانڑیاں‘ بن چکے ہیں اور ساری دنیا کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں، بھگت سنگھ، منگل پانڈے، سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر آزاد، جھانسی کی رانی، لینن، جارج واشنگٹن وغیرہ وغیرہ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ایک کھلا خط ایک مردہ دہشت گرد کے نام لکھا گیا جس میں اسے صاف سمجھا دیا گیا کہ بیٹا تم ڈاکٹر، انجینیئر کچھ بھی بن سکتے تھے اگر تم آزادی کے لیے آواز نہ اٹھاتے۔ جو فوجی ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں، بننے کو تو وہ بھی ڈاکٹر، انجینیئر سائنسدان بن سکتے تھے لیکن بھئی بات دلیل سے کرو، ان کو بندوق اٹھانی تھی، مادرِ وطن کی حفاظت کی خاطر۔ آخر کو کشمیر کسی کے باپ کا تو ہے نہیں اور حکومت چلانا، اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا کوئی خالہ جی کا واڑہ تو ہے نہیں ۔بات اتنی سی ہے کہ یہ جو ہنگامہ مچا اس کو دبا دو، چپ کرا دو ورنہ بات بہت بڑھ جائے گی ۔ ایک وعدہ تھا، رائے شماری کا تو جناب، ہم نے تو کیا نہیں تھا، جو کر گئے وہ مر چکے ہیں اب مردوں کے عہد و پیماں وہی جانیں۔ آزادی کی جہاں تک بات ہے تو ہندوستان کو دیکھو، پاکستان کو دیکھو۔ آزاد ہو کر کون سے لڈو پیڑے مل گئے۔ جو کام انگریز کر گیا اسی کو بیٹھے چاٹ رہے ہیں۔ ماری غلطیوں سے سبق سیکھو اور چپکے بیٹھے رہو۔ پڑھو لکھو ڈاکٹر بنو، انجینیئر بنو۔اگر آتے جاتے تمہاری تلاشی ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں، پاکستان کے ساتھ شا مل ہو کر آخر مل کیا جائے گا؟ وہاں تو جو ہیں وہ بھی روتے رہتے ہیں رونا ہی ہے نا؟ یہاں رو لو۔ کشمیر ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ہے ، تمھارا تو نہیں۔ تم بلا وجہ کیوں ہمارے غضب کو للکارتے ہو؟ہمارے لہجے سے یہ نہ سمجھنا کہ اس میں رعونت ہے۔ ہم تو دلیل کی بات کر رہے ہیں، تم جذباتی ہو، نادان ہو، کم عمر ہو۔ لوگوں کی باتوں میں آ گئے ہو۔ جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے، جو ہم سب کے رائے ہے اس کا احترام کیا جائے اور ہماری رائے سنہ 47 ہی سے یہ تھی۔ فیروز پور، گورداس پور وغیرہ کے جذباتی لوگوں نے ہماری رائے کا احترام نہ کیا۔ خواہ مخواہ امرتا پریتم کو بلھے شاہ کی روح کو تکلیف دینا پڑی اور چناب کے خون سے بھرنے کے بارے میں انٹ شنٹ لکھنا پڑا، خیر وہ تو تھے ہی نوحے لکھنے والے لوگ۔ وادی کی صورتحال کا ایسا منطقی تجزیہ میرے بہت سے دوستوں نے کیا اور یہ سب وہ ہیں جو میرے ساتھ گھنٹوں اعلیٰ انسانی اقدار پہ بات کرتے ہیں۔ امن، محبت، بھائی چارے کے خواب دکھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ لیکن آج جب وادی میں بین گونج رہے ہیں تو یہ سب اپنی اپنی آستینوں سے نچڑتے لہو سے بے خبر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے مجھے امن کے سندیسے بھیج رہے ہیں۔ کاش میں منٹو کی موذیل ہوتی اور یہ سندیسے ان کے منہ پہ مارتی اور ان سے کہتی کہ لے جاؤ اپنے اس امن کو اور دوستی کو۔ مجھے بین کرنے ہیں ان سب جواں مرگوں کے جو آزادی کی چاہ میں مارے گئے۔ مجھے منٹو اور امرتا پریتم کی طرح صرف بین کرنے ہیں ، عبداللہ حسین کی طرح ’اداس نسلیں‘ لکھنی ہے۔ رونا ہے اور رلانا ہے۔ آج کی دنیاکا قلم کار صرف یہ ہی کر سکتا ہے، مارنے والوں کے پاس ہمیں پڑھنے کا وقت کہاں اور جو پڑھ رہے ہیں ان کی آواز نہیں اور جو آواز اٹھاتا ہے اسے بھون دیا جاتا۔ اس لیے میں بھی صرف بین کر سکتی ہوں۔ آئیے ان سب لاشوں پہ رو لیں جو خون آشام انسانوں نے کشمیر سے لے کر فرانس تک گرائی ہیں اور جانے کس ڈر سے وہ انہیں کھا نہیں سکتے تو صرف ہونٹوں پہ زبان پھیر کر رہ جاتے ہیں۔ آئیے، پوری دنیا کے مرنے والوں کے آنسو برہان کا نام لے کر بہا دیں۔ اتنا روئیں، اتنا روئیں کہ ساری وادی میں بین ہی بین گونج کر رہ جائیں۔ ان لوگوں کو بین کرنے والوں سے کوئی پرخاش نہیں۔ بس یاد رکھنا سبکیوں، سسکیوں میں کوئی سوال نہ منہ سے پھسل جائے، ورنہ ہم دشت گردوں کے ساتھی بن جائیں گے۔ بس روتے رہیں اور اگلی لاشیں اٹھانے کی ہمت جمع کرتے رہیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین لارڈز کےمیدان پر جاری پہلے ٹیسٹ کےچوتھے روز پاکستان نے انگلینڈ کو جیتنے کے لیے 283 کا ہدف دیا ہے۔ 283 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ نے ایک کھلاڑی کے نقصان پر 19 رنز بنائے ہیں۔ اس وقت کریز پررروٹ اور ہیلز موجود ہیں۔ ٭ تفصیلی سکور کارڈ کے لیے کلک کریں ٭ لارڈز میں صبر کا امتحان آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان کک تھے جو آٹھ رنز بنا کر محمد عامر کے گیند پر سرفراز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ تیسرے روز کھیل کے اختتام تک پاکستان نے آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 214 رنز بنائے تھے اور اس طرح اس کی مجموعی برتری281 رنز ہو چکی ہے تاہم چوتھے روز صرف ایک رنز کے اضافے کے ساتھ پوری ٹیم آؤٹ ہوگئی۔ یاسر شاہ 30 اور محمد عامر ایک رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ دونوں کھلاڑیوں کو کرس براڈ نے آؤٹ کیا۔ اس میچ میں کرس ووکس نے گیارہ وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کے آؤٹ ہونے والوں کھلاڑیوں میں سرفراز احمد 45، اسد شفیق 49، یونس خان 29، مصباح الحق 0، اظہر علی 23، محمد حفیظ 0 اور شان مسعود 24 شامل ہیں۔

مصباح الحق آف سپنر معین علی کو چھکا لگانے کی کوشش میں باونڈری پر کیچ آؤٹ ہوگئے ۔ وہاب ریاض بغیر کوئی رنز بنائے کرس ووکس کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ دوسری اننگز میں ووکس نے چھ، براڈ نے تین اور بال نے ایک وکٹ حاصل کی۔ اس سے پہلے پاکستان کی پہلی اننگز میں 339 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں 272 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی اس طرح پاکستان کو 67 رنز کی برتری حاصل ہو گئی۔ فاسٹ بولر وہاب ریاض اور سپنر یاسر شاہ کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔ انگلینڈ کے ایک کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے۔ پہلی اننگز میں پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ سب سے کامیاب بولر رہے۔ یاسر شاہ نے 29 اووروں میں صرف 70 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ یاسر شاہ نے کی عمدہ بولنگ نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا۔ یاسر شاہ پہلے لیگ سپنر ہیں جنھوں نےگذشتہ 20 برسوں میں لارڈز کے میدان میں پہلی بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ پچھلی بار پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد نے لارڈز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
Powered by Blogger.