انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں اور وادی کے تمام دس اضلاع میں کرفیو اب بھی جاری ہے۔
حکومت کے ترجمان نعیم اختر کے مطابق اخبارات، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندی برقرار ہے۔
٭ ’اخبارات پر پابندی سے افواہوں کی راہ کھل گئی‘
٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘
مقامی عسکریت پسند برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں موت کے بعد سے وادی میں حالات کشیدہ ہیں۔
کئی دنوں تک کشمیر وادی کے کئی شہروں میں لوگ سڑکوں پر مظاہرہ کرتے رہے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
محبوبہ مفتی حکومت کے ترجمان اور وزیر تعلیم نعیم اختر نے اتوار کی شب کشمیر کے حالیہ پرتشدد واقعات پر پہلی بار اعداد و شمار جاری کیے۔انھوں نے بتایا: ’مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والے پر تشدد واقعات کے متعلق میڈیا میں ہلاکتوں کی تعداد جو بھی بتائی جا رہی ہو، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 34 لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ 1664 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔‘
نعیم اختر نے یہ بھی بتایا کہ ’آٹھ جولائی سے جاری مظاہروں میں اب تک 1900 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 1700 کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ شدید زخمی 300 افراد کی سرجری بھی کی گئی ہے۔دس دنوں سے جاری پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر ریاست میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو 24 جولائی تک بند رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
حریت کانفرنس کی جانب سے ہڑتال کی کال کا آج پیر کو تیسرا دن ہے جبکہ اتوار کو باندي پورہ میں مظاہرے ہوئے تھے۔ریاست کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز سے سی آر پی ایف کے 2000 مزید جوانوں کو جموں و کشمیر کے لیے روانہ کیا گیا ہے جبکہ پہلے 800 جوان بھیجے گئے تھے۔
احتیاط کے طور پر تمام اہم سرکاری عمارتوں، سیاسی جماعتوں کے دفاتر، حساس مقامات کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گيا ہے۔