جس کو نہ دے مولا - اس کو دے آصف الدولہ
نواب آصف الدولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دم پخت کہتے ہیں۔ آج انھیں کے ایجاد کردہ اس کھانے کے فن پر ہزاروں کی کمائی ٹکی ہوئی ہے۔
٭ ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے‘
٭ اسلامی دسترخوان کا ارتقا
٭ مغل دسترخوان نفاست اور غذائیت کا امتزاج
٭ دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے
نوابوں کی سرزمین نے باورچیوں کی قدردانی کی اور ایسے ایسے ماہرین فن کو جنم دیا جن کی نسلیں پشت در پشت اس فن کی ماہر سمجھی جاتی رہیں اور آج بھی کسی باورچی کا لکھنؤ سے تعلق رکھنا ہی اس کی مہارت کی سب سے بڑی سند اور دلیل ہے۔آج غذاؤں کے سلسلے میں جب ہماری نگاہیں اٹھتی ہیں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہمارے بزرگوں کے باورچی خانے سرد ہو چکے ہیں ان کے دسترخوان بڑھ چکے ہیں اور نہ وہ کھانے والے رہے اور نہ پکانے والے۔
آخری دور میں واجد علی شاہ کے دسترخوان پر ایک ظرف میں رکھے مربے پر نواب سلیمان قدر کو قورمے کا دھوکہ ہو گیا تھا۔ نواب موصوف صاحب ذوق تھے ان کے یہاں بھی بہترین اور ہنرمند باورچی ملازم تھے۔ انھوں نے واجد علی شاہ کو خصوصی طور پر کھانے کی دعوت دی۔ وہ بھی تیار ہو کر گئے کہ دھوکہ نہ ہو لیکن پھر بھی دھوکہ کھا گئے۔
دسترخوان پر چنے جانے والے تمام خوان شیریں تھے یہاں تک کہ دسترخوان، ظروف اور طشتریاں تک شکر سے تیار کی گئی تھیں۔ ایسے ہی باورچیوں کے جانشین بیسویں صدی کے اوائل تک بقید حیات تھے۔
اس صدی کی دوسری دہائی میں مرزا محمد صادق علی خاں کے باورچی نے چند گھنٹوں میں 23 قسم کی کھچڑی، 32 طرز کی چٹنیاں دسترخوان پر حاضر کر دی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا بدلا کہ نہ وہ رئیس رہے اور نہ وہ ہنرمند باورچی۔
اردو کے معروف مصنف عبدالحلیم شرر کا بیان ہے کہ لکھنؤ کے بعض رکابدار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بھاپ تک نہیں لگی ہے اور بالکل ہرے اور کچے دسترخوان پر لا کر رکھے ہیں کاٹ کر کھائیے تو لذیذ اور بامزہ۔
سنا ہے جب واجد علی شاہ کلکتہ کے مٹیا برج میں مقیم تھے تو ایک انگریز کے گھر مدعو ہوئے اور انھیں انگریزی کھانے کھلائے گئے اور ہندوستانی کھانوں پر طنز کیا گيا۔
ان کا ایک رکاب دار یہ گفتگو سن رہا تھا۔ وہ مصر ہوا کہ انگریز کی دعوت کی جائے اور واجد علی شاہ بادل ناخواستہ راضی ہوئے۔
حب انگریز آیا تو رکابدار نے دسترخوان پر صرف ایک بڑا سا کدو لا کر رکھ دیا۔ انگریز کو غصہ آیا کہ اس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔واجد علی شاہ نے انگریزکے ہاتھ میں چھری دی۔ جب اس نے کدو کاٹا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ کدو کے اندر طرح طرح کے ہندوستانی کھانے سجے تھے۔
کسی نواب نے اپنے دوست کے گھر خوان بھیجا۔ جب خوان کھولا گیا تو ایک طشتری میں ایک کچا کدو رکھا تھا۔ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو گئی۔
نوکر سے کہا۔ لے جاؤ کل پکا لینا۔ خوان لانے والا ہنس کر بولا، حضور اسے پکانے کی ضرورت نہیں یہ پکا پکایا ہے۔
واجد علی شاہ کا ایک رکابدار نوابی دور کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوا اور ان کے لیے مسور کی دال پکائی۔ وہ دسترخوان پر رکھے سارے کھانے کو چھوڑ کر دال کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔
انھوں نے رکابدار سے دال پکانے کی ترکیب پوچھی، رکاب دار نے اجزا اور ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی۔ دال صرف تین پیسے کی اور ديگر اجزا 36 روپے کےتھے۔ رئیس چلا اٹھے۔ کہا نامعقول تین پیسے کی دال پر اتنا خرچ؟ رکابدار یہ سن کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا یہ منھ اور مسور کی دال۔
بعض رکابدار گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بناتے اور اس قدر احتیاط سے پکاتے کہ ان کی صورت بگڑنے نہیں پاتی تھی۔ یہ چڑیاں پلاؤ پر اس طرح سجائی جاتیں گویا پلیٹ میں بیٹھی دانا چگ رہی ہوں۔اچھے کھانوں کی طلب ان قصوں کو تازہ کر دیتی ہیں اور پھر ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقدور بھر اپنے بزرگوں کی تقلید کرنی چاہیے تاکہ پھر ایک بار کھانوں پر بہار آ جائے اور ہمارے آج کے قصے آئندہ نسل کے لیے محفوظ ہو جائیں۔
(سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں جس کی یہ پانچویں کڑی ہے۔)