جس کو نہ دے مولا - اس کو دے آصف الدولہ نواب آصف الدولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دم پخت کہتے ہیں۔ آج انھیں کے ایجاد کردہ اس کھانے کے فن پر ہزاروں کی کمائی ٹکی ہوئی ہے۔ ٭ ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے‘ ٭ اسلامی دسترخوان کا ارتقا ٭ مغل دسترخوان نفاست اور غذائیت کا امتزاج ٭ دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے نوابوں کی سرزمین نے باورچیوں کی قدردانی کی اور ایسے ایسے ماہرین فن کو جنم دیا جن کی نسلیں پشت در پشت اس فن کی ماہر سمجھی جاتی رہیں اور آج بھی کسی باورچی کا لکھنؤ سے تعلق رکھنا ہی اس کی مہارت کی سب سے بڑی سند اور دلیل ہے۔آج غذاؤں کے سلسلے میں جب ہماری نگاہیں اٹھتی ہیں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہمارے بزرگوں کے باورچی خانے سرد ہو چکے ہیں ان کے دسترخوان بڑھ چکے ہیں اور نہ وہ کھانے والے رہے اور نہ پکانے والے۔ آخری دور میں واجد علی شاہ کے دسترخوان پر ایک ظرف میں رکھے مربے پر نواب سلیمان قدر کو قورمے کا دھوکہ ہو گیا تھا۔ نواب موصوف صاحب ذوق تھے ان کے یہاں بھی بہترین اور ہنرمند باورچی ملازم تھے۔ انھوں نے واجد علی شاہ کو خصوصی طور پر کھانے کی دعوت دی۔ وہ بھی تیار ہو کر گئے کہ دھوکہ نہ ہو لیکن پھر بھی دھوکہ کھا گئے۔ دسترخوان پر چنے جانے والے تمام خوان شیریں تھے یہاں تک کہ دسترخوان، ظروف اور طشتریاں تک شکر سے تیار کی گئی تھیں۔ ایسے ہی باورچیوں کے جانشین بیسویں صدی کے اوائل تک بقید حیات تھے۔ اس صدی کی دوسری دہائی میں مرزا محمد صادق علی خاں کے باورچی نے چند گھنٹوں میں 23 قسم کی کھچڑی، 32 طرز کی چٹنیاں دسترخوان پر حاضر کر دی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا بدلا کہ نہ وہ رئیس رہے اور نہ وہ ہنرمند باورچی۔ اردو کے معروف مصنف عبدالحلیم شرر کا بیان ہے کہ لکھنؤ کے بعض رکابدار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بھاپ تک نہیں لگی ہے اور بالکل ہرے اور کچے دسترخوان پر لا کر رکھے ہیں کاٹ کر کھائیے تو لذیذ اور بامزہ۔ سنا ہے جب واجد علی شاہ کلکتہ کے مٹیا برج میں مقیم تھے تو ایک انگریز کے گھر مدعو ہوئے اور انھیں انگریزی کھانے کھلائے گئے اور ہندوستانی کھانوں پر طنز کیا گيا۔ ان کا ایک رکاب دار یہ گفتگو سن رہا تھا۔ وہ مصر ہوا کہ انگریز کی دعوت کی جائے اور واجد علی شاہ بادل ناخواستہ راضی ہوئے۔ حب انگریز آیا تو رکابدار نے دسترخوان پر صرف ایک بڑا سا کدو لا کر رکھ دیا۔ انگریز کو غصہ آیا کہ اس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔واجد علی شاہ نے انگریزکے ہاتھ میں چھری دی۔ جب اس نے کدو کاٹا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ کدو کے اندر طرح طرح کے ہندوستانی کھانے سجے تھے۔ کسی نواب نے اپنے دوست کے گھر خوان بھیجا۔ جب خوان کھولا گیا تو ایک طشتری میں ایک کچا کدو رکھا تھا۔ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو گئی۔

نوکر سے کہا۔ لے جاؤ کل پکا لینا۔ خوان لانے والا ہنس کر بولا، حضور اسے پکانے کی ضرورت نہیں یہ پکا پکایا ہے۔ واجد علی شاہ کا ایک رکابدار نوابی دور کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوا اور ان کے لیے مسور کی دال پکائی۔ وہ دسترخوان پر رکھے سارے کھانے کو چھوڑ کر دال کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔ انھوں نے رکابدار سے دال پکانے کی ترکیب پوچھی، رکاب دار نے اجزا اور ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی۔ دال صرف تین پیسے کی اور ديگر اجزا 36 روپے کےتھے۔ رئیس چلا اٹھے۔ کہا نامعقول تین پیسے کی دال پر اتنا خرچ؟ رکابدار یہ سن کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا یہ منھ اور مسور کی دال۔ بعض رکابدار گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بناتے اور اس قدر احتیاط سے پکاتے کہ ان کی صورت بگڑنے نہیں پاتی تھی۔ یہ چڑیاں پلاؤ پر اس طرح سجائی جاتیں گویا پلیٹ میں بیٹھی دانا چگ رہی ہوں۔اچھے کھانوں کی طلب ان قصوں کو تازہ کر دیتی ہیں اور پھر ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مقدور بھر اپنے بزرگوں کی تقلید کرنی چاہیے تاکہ پھر ایک بار کھانوں پر بہار آ جائے اور ہمارے آج کے قصے آئندہ نسل کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ (سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں جس کی یہ پانچویں کڑی ہے۔)
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی ایک تنگ گلی میں واقع چھوٹے سے مکان میں 15 سالہ مسکان فیاض عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ریلیز ہونے والی پشتو فلم کے لیے گانے کی ریہرسل کر رہی ہیں۔ محلہ ملوک آباد کی رہائشی مسکان ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں اور وہ اپنی خالہ غزالہ جاوید کی گائیکی سے بےحد متاثر ہیں۔ غزالہ جاوید پشتو زبان کی معروف گلوکارہ تھیں جنھیں ان کے شوہر نے پشاور میں گھریلو ناچاقی پر گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔ مسکان فیاض نے صحافی انور شاہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ’میں نے سات سال کی عمر میں گلوکاری کے فن میں قدم رکھا کیونکہ میں اپنی خالہ کی گائیکی کو بے حد پسند کرتی تھی اور ان سے متاثر تھی۔ میں انھی کی طرح پشتو کی ایک عظیم گلوکارہ بننا چاہتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس فن کو اپنانے کی ایک اور وجہ خاندانی طور پر بھی اس سے وابستگی ہے۔ ہمارے خاندان کی زیادہ تر لڑکیاں اس فن سے منسلک ہیں۔‘

 مسکان اب پشتو فلموں کے لیے بھی گانے گا رہی ہیں اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی پشتو فلموں ’باز او شہباز‘ اور ’خیر دے یار نشہ کے دے‘ کے لیے بھی انھوں نےگیت گائے ہیں۔ ان کے بقول وہ عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی ایک پشتو فلم کے لیے بھی گیت گائیں گی۔مسکان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہارمونیم بھی خود بجاتی ہیں۔ مسکان کے والد فیاض کا کہنا ہے کہ ’عام بول چال میں مسکان کی زبان میں لکنت ہے لیکن یہ میری بیٹی کی خوش قسمتی ہے کہ گانے کے دوران ان کی زبان میں لکنت نہیں رہتی۔ انھیں اس حوالے سے کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن میری خواہش ہے کہ ان کی بیٹی مزید پڑھے۔‘ مسکان اپنے فنی سفر کے حوالےسے مطمئن ہیں اور وہ ایک بڑی گلوکارہ بننے کا عزم رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھیں گی۔ سوات کے فنکاروں کا کہنا ہے کہ مسکان کے گائے ہوئے گیت نہ صرف مقامی سطح پر پسند کیے جا رہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں مقیم پشتون بھی اسے بےحد پسند کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ سوات میں طالبان کی شکست اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد موسیقی اس علاقے میں پھر سے جگہ بنانے لگی ہے۔ مینگورہ میں رقاصوں کا محلہ کہلانے والے بنڑ کی رونقیں بھی بحال ہو گئی ہیں اور موسیقی کی گونج نے اس خوف کو شکست دی ہے جس کے باعث اس محلے کے مکین اپنے گھر بار چھوڑ گئے تھے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حکام نے اخباروں پر پابندی لگا دی ہے تاکہ معروف علیحدگی پسند جنگجو برہان وانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔ اخبار ’رائزنگ کشمیر کے مدیر شجاعت بخاری اخباروں کی اشاعت پر پابندی سے حیران نہیں اور یہاں ان کے خیالات دیے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے سنیچر کی صبح فون کیا، اسے تشویش تھی کہ ہمارے اخبار کے ساتھ سب ٹھیک تو ہے۔ ٭ کشمیر میں کرفیو اور اخباروں پر پابندی برقرار ٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ اس نے پوچھا: ’کیا تمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے؟‘ میں نے اس سے کہا کہ مجھے پتہ چلانے دیں۔ انھوں نے بتایا کہ دوسرے اخبار اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر دے رہے ہیں کہ ان کے پریس پر چھاپہ مارا گیا ہے۔ ہم نے بہت سوچا کہ کیا مظاہرے کے بعد سے ہم نے کوئی ’اشتعال انگیز‘ چیز تو شائع نہیں کی لیکن بہت سوچنے پر بھی کچھ یاد نہیں آیا۔ لیکن جب میں نے اپنے دفتر فون کیا تو دفتر کے ایک ملازم نے بتایا کہ ہمارے پرنٹنگ پریس پر بھی چھاپہ مارا گیا ہے سٹاف کو پکڑلیا گیا ہے اور اخبار کو ضبط کر لیا گيا ہے۔ مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ حکام نے پہلے بھی سنہ 2008 اور 2010 میں انڈیا کے خلاف مظاہروں کے دوران ہمیں اپنی اشاعت روکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب کشمیری علیحدگی پسند افضل گورو کو بھارتی پارلیمان پر سنہ 2001 میں حملے کی پاداش میں سنہ 2013 میں پھانسی دی گئی تھی تو پریس اور سٹینڈ سے ہمارے اخبار کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا اخبار چار دنوں تک بند رہا تھا جبکہ سنہ 2010 کے مظاہروں کے دوران دس دنوں تک بند رہا تھا۔ اس بار معروف جنگجو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پرتشدد واقعات میں ابھی تک 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 1800 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کرفیو نافذ ہے اور موبائل اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن ہے۔ اس سے قبل بھی معلومات پر روک حکومت کی ’حکمت عملی‘ تھی اور وہی منظر پھر آنکھوں کے سامنے ہے۔ حکومت کے ٹیلیفون سروس کے علاوہ تمام ٹیلیفون سرو‎سز کو بند کر دیا گيا ہے، کیبل ٹی وی بند ہے، انگریزی، اردو اور کشمیری میں شائع ہونے والے تقریباً 70 اخبارات کو سرکاری طور پر چند دنوں کے لیے اشاعت بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ صرف چند براڈ بینڈ کنکشن کے سبب ہم دنیا کے باقی حصوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہمارے لیے یہ پابندیاں نئی نہیں ہیں۔ سنہ 1990 کے اوائل میں مسلح بغاوت کے پھیلنے کے بعد سے علاقے میں میڈیا کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑا ہے اور یہ یہ علاقہ عملی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ فوج والا علاقہ ہے۔اس وقت سے اب تک 13 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں اور مقامی صحافیوں کے لیے جان کا خطرہ، دھمکیاں، زدو کوب، گرفتاریاں، پابندیاں زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ صحافیوں کو سکیورٹی فورسز اور جنگجو دونوں جانب سے برابر نشانہ بنایا گيا ہے۔ یہاں شائع ہونے والے اخبارات کو حکومت کے اشتہار نہیں دیے گئے جو کہ چھوٹے اخباروں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔ جب کوئی مقامی صحافی سکیورٹی فورسز کے مظالم کی رپورٹ کرتا ہے تو اسے ’ملک مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر وہ جنگجوؤں یا علیحدگی پسندوں کی خرابی کو اجاگر کرتا ہے تو اسے ’تحریک مخالف‘ یا ’حکومت نواز‘ کہا جاتا ہے۔ کشمیر کے وزیر تعلیم نعیم اختر نے کہا ہے کہ میڈیا پر پابندی کا ’فیصلہ بہت ہچکچاتے ہوئے کیاگیا۔‘ انھوں نے اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے لیے عارضی طریقہ کار ہے۔۔۔ ہمارے خیال میں بہت سے جذباتی اورنوجوان ہے جو میڈیا کے بعض رخ سے بہت بھر جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سانحے بڑھ جاتے ہیں۔‘ حکومت جو حالات کو معمول پر لانے کے لیے بے تاب ہے اس نے اخباروں پر پابندی لگا کر افواہوں کے پھیلنے کا راستہ کھول دیا ہے جس سے پہلے سے ہی کشیدہ ماحول مزید خراب ہو سکتا ہے۔ کسی جمہوری نظام میں میڈیا کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ میڈیا کا گھونٹنے سے جمہوریت کو طاقت نہیں ملے گی جو کہ کشمیر میں ایک عرصے سے خطرے سے دو چار ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں حالات اب بھی معمول پر نہیں آئے ہیں اور وادی کے تمام دس اضلاع میں کرفیو اب بھی جاری ہے۔ حکومت کے ترجمان نعیم اختر کے مطابق اخبارات، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندی برقرار ہے۔ ٭ ’اخبارات پر پابندی سے افواہوں کی راہ کھل گئی‘ ٭ ’میڈیا لوگوں میں نفرت پھیلا رہا ہے‘ مقامی عسکریت پسند برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں موت کے بعد سے وادی میں حالات کشیدہ ہیں۔ کئی دنوں تک کشمیر وادی کے کئی شہروں میں لوگ سڑکوں پر مظاہرہ کرتے رہے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ محبوبہ مفتی حکومت کے ترجمان اور وزیر تعلیم نعیم اختر نے اتوار کی شب کشمیر کے حالیہ پرتشدد واقعات پر پہلی بار اعداد و شمار جاری کیے۔انھوں نے بتایا: ’مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والے پر تشدد واقعات کے متعلق میڈیا میں ہلاکتوں کی تعداد جو بھی بتائی جا رہی ہو، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 34 لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ 1664 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔‘

نعیم اختر نے یہ بھی بتایا کہ ’آٹھ جولائی سے جاری مظاہروں میں اب تک 1900 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 1700 کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ شدید زخمی 300 افراد کی سرجری بھی کی گئی ہے۔دس دنوں سے جاری پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر ریاست میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو 24 جولائی تک بند رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ حریت کانفرنس کی جانب سے ہڑتال کی کال کا آج پیر کو تیسرا دن ہے جبکہ اتوار کو باندي پورہ میں مظاہرے ہوئے تھے۔ریاست کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مرکز سے سی آر پی ایف کے 2000 مزید جوانوں کو جموں و کشمیر کے لیے روانہ کیا گیا ہے جبکہ پہلے 800 جوان بھیجے گئے تھے۔ احتیاط کے طور پر تمام اہم سرکاری عمارتوں، سیاسی جماعتوں کے دفاتر، حساس مقامات کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گيا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے فائرنگ سے تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعے پر کہا ہے کہ ایک قوم ہونے کے ناطے ہمیں اس حوالے سے واضح ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے خلاف تشدد کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے یہ بات وائٹ ہاؤس سے لائیو براڈ کاسٹ کے دوران کہی۔ ٭ سیاہ فام ہی کیوں پولیس کے نشانے پر؟ ٭ ڈیلس میں مظاہرے کے دوران پولیس پر فائرنگ:تصاویر ٭ امریکہ: پولیس فائرنگ سےدو سیاہ فام ہلاک، مظاہرے جاری ان کا کہنا تھا ’محرکات سے قطع نظر تین بہادر پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اس خطرے کی جانب توجہ مبذول کراتی ہے جس کا سامنا یہ پولیس اہلکار روزانہ کرتے ہیں۔ ایک قوم ہونے کے ناطے ہمیں اس حوالے سے واضح ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کے خلاف تشدد کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘

صدر اوباما کا مزید کہنا تھا کہ سب کو چاہیے کہ ایسا کہا جائے اور کیا جائے کہ قوم متحد ہو نہ کہ مزید منقسم۔یاد رہے کہ امریکی ریاست لوئزیانا کے شہر بیٹن روگ میں تین پولیس اہلکار فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک جبکہ تین زخمی ہو گئے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ بتایا گیا ہے کہ ایک مشتبہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حال ہی میں پولیس کے ہاتھوں شہر میں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ امریکی شہر ڈیلس میں پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ کر کے پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میچ میں دس وکٹیں لینے والے پاکستانی لیگ سپنر یاسر شاہ آئی سی سی کی ٹیسٹ بولروں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ نے انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگز میں 72 رنز کے عوض چھ وکٹیں اور دوسری اننگز میں 69 رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ٭ 20 سال بعد لارڈز میں پاکستان کی شاندار جیت ٭ایک ’کول‘ کپتان کی حوصلہ مند ٹیم اس شاندار پرفارمنس کے باعث وہ 32 پوائنٹس حاصل کر کے رینکنگ میں چوتھے نمبر سے پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔ یاسر شاہ تقریباً 20 سال میں پہلے پاکستانی بولر ہیں جو آئی سی سی کی رینکنگ میں سرفہرست آئے ہیں۔ اس سے قبل 1996 میں لیگ سپنر اور پاکستان کے موجودہ بولنگ کوچ مشتاق احمد آئی سی سی کی درجہ بندی میں پہلے نمبر آئے تھے۔ یاسر شاہ گذشتہ 11 برس میں ایسے پہلے لیگ سپنر بھی ہیں جو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر پہنچے ہیں۔ ان سے قبل آسٹریلیا نے شین وارن سنہ 2005 میں دنیا کے بہترین ٹیسٹ بولر قرار دیے گئے تھے۔

آئی سی سی رینکنگ کے مطابق یاسر شاہ 878 پوائنٹس کے ساتھ پہلے اور انڈیا کے روی چندرن ایشون 871 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ انگلینڈ کے جیمز اینڈرسن کا نمبر تیسرا ہے۔ آئی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق 30 سالہ یاسر شاہ کے پوائنٹس میں مزید اضافے کا امکان ہے کیونکہ وہ ابھی کوالیفائنگ پیریڈ میں ہیں۔ واضح رہے کہ بولر کی فُل رینکنگ اس وقت کی جاتی ہے جب وہ 100 وکٹیں حاصل کر لے۔ 26 اکتوبر 2014 کو اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے یاسر شاہ نے اس وقت 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کی ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ آئی سی سی کی درجہ بندی میں یاسر شاہ کے علاوہ پاکستان کے راحت علی 35 ویں نمبر سے 32 ویں نمبر جبکہ چھ سال بعد انٹرنیشنل ٹیسٹ کھیلنے والے محمد عامر 93 ویں نمبر پر ہیں۔ جہاں تک بیٹنگ کی رینکنگ کی بات ہے تو پاکستان کے اسد شفیق 13 ویں سے 11 ویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ انھوں نے لارڈز ٹیسٹ میں 73 اور 49 رنز سکور کیے۔ پاکستان کے کپتان مصباح الحق اپنی سنچری کے باعث 10 ویں سے نویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ سرفراز احمد 17 ویں پوزیشن پر آ گئے ہیں۔
ترک حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے جبکہ پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان استنبول میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویر ٭ عالمی برادری کی ترکی جمہوری حکومت کی حمایتاس سے قبل ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کا کہنا تھا کہ حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد پولیس کے خصوصی دستے کے 1800 ارکان کو استنبول میں تعینات کر دیا ہے۔ سپیشل فورسز کے یہ دستے استنبول میں گشت کر رہے ہیں اور انھیں حکم دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ہیلی کاپٹر نظر آئے اسے مار گرایا جائے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حمایتیوں کی جانب سے موت کی سزا بحال کرنے کے مطالبے کا احترام کریں گے۔ صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے جو’وائرس‘ تھا اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے گا۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہو گئی ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سازش میں حصہ لینے والے بہت سے زیرِ حراست لوگوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ترک حکومتی عہدے دار نے بتایا کہ استنبول کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے فائرنگ کی گئی اور اس کے علاوہ قونیہ صوبے میں فوجی اڈے پر بھی فائرنگ کی گئی۔ 6000 گرفتاریاں اس سے قبل ملک کے وزیر برائے انصاف نے کہا تھا کہ اب تک بغاوت کی سازش میں ملوث چھ ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور مزید افراد کی گرفتاریوں کا امکان ہے۔ ترکی میں جمہوری حکومت نے حالاتِ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب تک فوج کے کئی اعلیٰ افسران اور 2700 ججوں کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح ملک کے جنوبی صوبے میں بریگیڈ کمانڈر اور 50 سے زائد فوجیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔صدر کے بیان کے جواب میں فتح اللہ گولن نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ترکی میں ہونے والے واقعات سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں ’مذمت‘ کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے ترکی کو تنبیہہ کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش میں امریکہ کے کردار کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور اس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے وزیر برائے افرادی قوت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ کہانی کو شیئر کریں ش
Powered by Blogger.