جرمنی میں حکام کا کہنا ہے کہ ٹرین میں کلہاڑی اور چاقو سے حملہ کرنے والے افغان نوجوان پناہ گزین کے کمرے سے شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ کا ہاتھ سے پینٹ کیا ہوا جھنڈا ملا ہے۔ 17 سالہ نوجوان نے جنوبی جرمنی کی ریاست بویریا کے شہر ویورسبرگ میں ایک ٹرین میں یہ حملہ پیر کی شام کو کیا۔ حملے میں ہانگ کانگ کے چار افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ بعد میں پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خیال رہے کہ یہ حملہ فرانس کے شہر نیس میں ہونے والے حملے کے چند دنوں بعد ہوا ہے۔ بویریا ریاست کے وزیر داخلہ یواخیم ہرمان نے جرمن ٹی کو بتایا کہ اوشینفرٹ میں اس نوجوان کے کمرے میں سامان کے درمیان سے یہ جھنڈا برآمد کیا گیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات میں آیا تھا کہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ 14 افراد صدمے میں ہیں اور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

ویورسبرگ اور اوشینفرٹ کے درمیان ٹرین سروس بند کر دی گئی ہے۔ بویریا کے وزیرِ داخلہ یواخیم ہرمان نے بتایا کہ حملہ آور ایک 17 سالہ افغان پناہ گزین تھا جو قریبی قصبے اوشینفرٹ میں مقیم تھا۔انھوں نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا کہ بظاہر یہ لڑکا کسی بڑے رشتہ دار کے بغیر جرمنی آیا تھا۔ اس نوجوان نے گذشتہ سال جرمنی میں پناہ کی عرضی داخل کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ نہیں جس کے بعد کمیپ سے اسے ایک دوسرے خاندان کے ساتھ منتقل کر دیا گیا تھا۔ گذشتہ سال جرمنی میں دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کا رجسٹریشن کیا گیا جن میں ڈیڑھ لاکھ افغان شامل ہیں۔ جرمن میڈیا میں آنے والی بعض اطلاعات کے مطابق حملہ آور نے حملے کےدوران اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یواخیم ہرمان نے کہا کہ حکام اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا واقعی ایسا ہوا تھا یا نہیں۔ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات سوا نو بجے ٹرین میں پیش آیا۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ٹرین کے ذریعے ویورسبرگ پہنچنے کے بعد حملہ آور نے مسافروں پر کلہاڑی اور چاقو سے حملہ شروع کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو زخمی کرنے کے بعد حملہ آور ٹرین سے اتر کر بھاگ کھڑا ہوا لیکن پولیس اہلکاروں نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حملے کے محرکات کا تاحال علم نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے منگل کو اس مقدمے کی سماعت کی۔ ٭مشرف بنو گے یا ایان علی ٭ مشرف کو باہر کیوں جانے دیا گیا؟ سماعت کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کی پاکستان میں جتنی بھی جائیداد ہے اُسے ضبط کر لیا جائے اور اس ضمن میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر متعلقہ سیشن جج صاحبان کے پاس اس کی تفصیلات جمع کروائیں۔ عدالت نے سٹیٹ بینک کو بھی حکم دیا ہے کہ ملزم کے پاکستان کے مختلف بینکوں میں موجود اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا جائے اور اس بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ حکومت نے عدالتی حکم پر پرویز مشرف کی پاکستان میں جائیداد سے متعلق تفصیلات جمع کروا دی ہیں۔ تاہم اس بارے میں ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے اُن کے موکل کی جائیداد کی تفصیلات سنہ 2008 میں الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی اثاثوں کی تفصیلات سے حاصل کی ہیں جبکہ اس کے بعد سابق آرمی چیف نے اپنی تمام تر جائیداد اپنی بیوی اور بیٹی کو تحفتاً دے دی ہے۔

ملزم کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ جو جائیداد کسی کو گفٹ کر دی گئی ہو تو اسے کیسے ضبط کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے ملزم کی عدم موجودگی میں اس مقدمے کی کارروائی جاری رکھنے سے متعلق استغاثہ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا یا پرویز مشرف خود کو قانون کے سامنے پیش نہیں کرتے اس وقت تک اس مقدمےکی کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اس مقدمے کے سرکاری وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم اس وقت دبئی میں ہے اور اگر عدالت چاہے تو ملزم کا بیان انٹرنیٹ کے ذریعے ریکارڈ کروا سکتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ مظہر عالم میاں خیل کا کہنا تھا کہ ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد 342 کے تحت اس کا بیان ریکارڈ کرنا استغاثہ کی ذمہ داری نہیں ہے جس میں بینچ میں شامل جسٹس یاور علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے پہلے خود ہی ملزم پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی اب وہ کہہ رہے ہیں کہ سکائپ کے ذریعے ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ ترک صدر استنبول میں اپنی رہائش گاہ کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کر رہے تھے جہاں سزائے موت کی دوبارہ بحالی کے لیے نعرہ بازی کی جارہی تھی۔ دوسری جانب یورپی یونین کے حکام نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ملک میں سزائے موت کو بحال کی تو اس کے یورپی یونین میں شمولیت کا راستہ بند ہوسکتا ہے۔ رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترکی میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور فوجی افسران اور ججوں کو برطرف یا حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ترکی کے مغربی اتحادیوں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور صدر اردوغان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر کوئی قدم اٹھائیں۔تاہم منگل کو اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی ایک ’جمہوری ریاست ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تھا اگر ترک عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں اور پارلیمان اس قانون سازی کی منظوری دے دیتی ہے تو وہ سزائے موت بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ عوام کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’آج کیا امریکہ میں سزائے موت نہیں ہے؟ روس میں؟ چین میں؟ دنیا بھر کے ممالک میں؟ صرف یورپی یونین کے ممالک میں سزائے موت نہیں ہے۔‘ خیال رہے کہ ترکی نے سنہ 2004 میں یورپی یونین کا رکن بننے کی کوششوں کے سلسلے میں ملک میں سزائے موت کا قانون ختم کر دیا تھا۔واضح رہے کہ ترک حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے جبکہ عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کے مطابق گذشتہ ماہ اغوا کیے جانے والے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کو ٹانک سے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اس بات کی تصدیق پیر کو رات گئے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کی۔ ٭ بیرسٹر اویس شاہ کی بازیابی (تصاویر) ٭ ’چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا سزاؤں کا ردعمل ہو سکتا ہے‘ بعدازاں منگل کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اویس شاہ کو فوج کی ایک کارروائی کے دوران خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں اغوا کاروں کے قبضے سے چھڑایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی میں تین اغوا کار بھی مارے گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ اویس شاہ کی ٹانک کے علاقے میں موجودگی کے تکنیکی شواہد کئی دن سے مل رہے تھے اور پیر کی شب جب مفتی محمود چوک پر قائم ناکے پر فوج کے جوانوں نے اغواکاروں کی گاڑی روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے نشانہ باز نے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کیا تو اس میں سے مزید دو اغوکاروں نے بھی اتر کے فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم انھیں بھی ہلاک کر دیا گیا۔ لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ جب اس گاڑی کی تلاشی لی گئی تو اس میں مغوی اویس شاہ کو منہ پر ٹیپ لگا کر برقع پہنا کر بٹھایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اغوا کار تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک دھڑے سے تعلق رکھتے تھے جو القاعدہ سے بھی منسلک تھے اور انھیں مغربی سرحد سے افغانستان لے جانا چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ اغواکاروں نے اویس شاہ کے اغوا کے بعد ان کے اہلِ خانہ سے رابطہ بھی کیا تھا تاہم انھوں نے ان کے مطالبات کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی۔ اویس شاہ کو بازیابی کے بعد پہلے فوجی کیمپ لے جایا گیا اور پھر وہاں سے خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی پہنچا دیا گیا ہے۔

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق بیٹے کی بازیابی کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی شب رات تین بجے آرمی چیف نے انھیں فون کر کے بتایا کہ اویس شاہ کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے بات کے بعد ان کی اویس شاہ سے بات کروائی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اویس شاہ کی بازیابی حکومت کی بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہے اور ’پاک فوج حکومت کا ہی حصہ ہے، الگ نہیں ہے۔‘ سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا انھیں نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے کو کس نے اغوا کیا تھا۔ ٹی وی چینلز پر جسٹس سجاد علی شاہ کی رہائش گاہ کے باہر سکیورٹی اہلکاروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا رش دیکھا جا سکتا ہے جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کے بیٹے سے ملاقات کے لیے آنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔اویس شاہ ایڈووکیٹ گذشتہ ماہ کراچی کے متمول علاقے کلفٹن میں واقع ایک سپر سٹور کے باہر سے غائب ہوگئے تھے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اویس شاہ کی بازیابی پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو مبارک باد دی ہے اور اویس شاہ کی بازبابی پر سکیورٹی فورسز کے کردار کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ شدت پسندوں نے پانچ سال قبل سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو جبکہ تین سال قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو بھی پنجاب سے اغوا کیا تھا اور یہ دونوں رواں برس ہی بازیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پارلیمانی انتخابات 21 جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں جن میں 26 سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان انتخابات میں 26,74,584 افراد بالغ رائے دہی کے تحت اپنے ووٹ کاحق استعمال کریں گے جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی 12 نشستوں کے لیے ووٹرز کی کل تعداد 4,38,884 ہے۔ ٭ کشمیری سیاست دانوں کی بدلتی وفاداریاں ٭’عوام کا کام کریں تو سیاسی پس منظر ضروری نہیں‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابات اسمبلی کی کل نشستیں: 49 براہ راست انتخاب کی نشستیں: 29 پاکستان میں مقیم مہاجرین کی نشستیں: 12 مخصوص نشستیں: 8 (5 خواتین، 1 علما مشائح، 1 اوورسیز) بی بی سی کی نامہ نگار تابندہ کوکب گیلانی کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 41 نشستوں کے انتخابات کے لیے 423 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں سے 324 امیدوار پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی 29 نشستوں جبکہ 99 امیدوار پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی بارہ نشستوں کے لیے مدمقابل ہیں۔ انتخابات کے لیے کل 5427 پولنگ سٹیشن جبکہ 8046 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ان انتخابی پولنگ سٹیشنوں میں دس کو حساس ترین جبکہ لگ بھگ ایک ہزار کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابات پاکستانی فوجی کی نگرانی میں منعقد ہوں گے۔ اس سے قبل 2011 میں منعقد ہونے والے انتخابات اس خطے کی پولیس کی نگرانی میں کروائے گے تھے ۔ مظفر آباد سے صحافی اورنگزیب جرال کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری میاں نعیم اللہ کا کہنا ہے کہ انتخابات میں امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے 29 ہزار سے زائد فوجی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار پولنگ مراکز کے اندر اور باہر تعینات کیے جائیں گے۔

ان اہلکاروں میں سے 17 ہزار سے زائد فوجی، ایف سی کے دس ہزار جوان اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔ نعیم اللہ کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کے سات ہزار کے قریب اہلکار بھی ان انتخابات میں اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس اور پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام بھی حصہ لے رہی ہے۔ ان جماعتوں میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی جبکہ مسلم کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ 24 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے زیرِ انتظام آنے کے بعد کشمیر کے اس حصے میں طویل عرصے تک صدارتی نظام حکومت رہا اور سنہ 1975 میں پارلیمانی نظام متعارف کروائے جانے کے بعد یہاں سیاسی جماعتوں کے لیے میدان بنا۔ سیاسی جماعتیں برادریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتیں اگر وہ چاہیں کہ ہمارے آدمی کو ٹکٹ ملے تو ہی ووٹ دیں گے تو پارٹی کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔جہاں قبیلہ، برادری اور پیسہ اہم ہو جاتا ہے وہاں نظریات اپنی گرفت قائم نہیں کر سکتے اور سیاسی جماعتیں اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی سفید پوش کو ٹکٹ دے بھی دیں گی تو اس کی پذیرائی نہیں ہوگی۔ زاہد امین، تجزیہ کار ابتدائی طور پر یہاں قابلِ ذکر سیاسی جماعت کی حیثیت سے سنہ 1932 میں قائم سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ہی پہچان بنا سکی تاہم پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہاں اپنی جگہ بنا لی۔ یہاں کئی علیحدگی پسند جماعتیں بھی ہیں لیکن آئین کی شق کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت کو الحاق پاکستان کے حلف نامہ پر دستخط کرنا ضروری ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قائم حکومت کا اثر یہاں ہونے والے انتخابات پر واضح نظر آتا ہے اور اس خطے کے انتخابات میں عموما وہی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے جسے پاکستانی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ جب جب پاکستان میں مارشل لا رہا کشمیر کے اس حصے میں مسلم کانفرنس کو انتخابات میں برتری رہی تاہم اس کے علاوہ پیپلز پارٹی بھی یہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ نامہ نگار تابندہ کوکب کے مطابق حالیہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کا منشور اب تک غیر واضح ہے۔ صحافی اور تجزیہ کار حکیم کشمیری کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں کا منشور محض ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنی جماعتوں کے رہنماؤں کی تعریفیں کرنا ہی رہ گیا ہے۔ یہاں کوئی بےروزگاری کے خاتمے کی بات نہیں کرتا۔ کوئی آزادئِ کشمیر کی بات نہیں کرتا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ گو کہ کشمیریوں میں بالخصوص نوجوانوں میں سیاسی شعور بڑھا ہے لیکن تبدیلی کے نعرے لگانے والی سیاسی جماعتیں بھی انھی چہروں کو آگے لائی ہیں جو کئی بار سیاسی جماعتیں بدل بدل کر آ چکے ہیں۔ انتخابی اعدادوشمار انتخابات میں حصہ لینے والے کل جماعتیں: 26 امیدواروں کی کل تعداد: 423 رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد:26,74,586 مرد ووٹرز: 14,83,743 خواتین ووٹرز: 11,90,839 ’کوئی جماعت نئی سوچ اور جذبہ نہیں لے کر آئی حتیٰ کہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک خالی خانہ بھی بیلٹ بکس پر رکھا جائے تاکہ جو لوگ اِن میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے وہ وہاں مہر لگا کر احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ اب حال یہ ہے کہ لوگوں کو چھوٹی برائی یا بڑی برائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔‘ تاہم تجزیہ کار زاہد امین کہتے ہیں کہ جماعتوں کے منشور کی اہمیت اس خطے میں ثانوی ہے کیونکہ یہاں برادریوں اور کنبوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ ’سیاسی جماعتیں برادریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتیں اگر وہ چاہیں کہ ہمارے آدمی کو ٹکٹ ملے تو ہی ووٹ دیں گے تو پارٹی کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’جہاں قبیلہ، برادری اور پیسہ اہم ہو جاتا ہے وہاں نظریات اپنی گرفت قائم نہیں کر سکتے اور سیاسی جماعتیں اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی سفید پوش کو ٹکٹ دے بھی دیں گی تو اس کی پذیرائی نہیں ہوگی۔‘ زاہد امین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوجوان بہتر حالات چاہتے ہیں لیکن حالات ایسے بن نہیں پا رہے۔ ’جب سنہ 2009 میں مسلم لیگ ن آئی تو اس نے مسلم کانفرنس کے ہی پرانے لوگوں کو شامل کیا۔ سنہ 2015 میں جب پاکستان تحریکِ انصاف آئی جس کا نعرہ ہی تبدیلی تھا مگر اس نے بھی انھی لوگوں کو شامل کیا جو سنہ 1975 سے ہر انتخاب کا حصہ رہے۔ لہذا نئی نسل کی جگہ نہیں بن پا رہی۔‘ زاہد امین کے مطابق اب پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنی اصولی موقف کو بھول کر پاکستان کی مرکزی جماعتوں کے نعرے دہرانے لگی ہیں۔ ’اس کے ذمہ دار یہاں کے سیاستدان خود ہیں جو اس پارلیمان کو آزادی کا بیس کیمپ سمجھنے کے بجائے اب محض عہدوں کی سیاست میں مشغول ہو گئے ہیں۔‘
آج کا دن لندن کے سینٹ جانز وُڈ کے علاقے میں ایک ایسا دن تھا کہ جب آپ کسی کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ سینٹ جانز وُڈ میں واقع دنیائے کرکٹ کے سب سے تاریخی میدان میں آج پاکستان اپنی اس فارم میں نظر آیا جو دنیا بھر میں اس ٹیم کی پہچان ہے، یعنی وہ پاکستانی ٹیم جس میں مہارت بھی ہوتی ہے، چالبازی بھی، جس میں گھورتی آنکھیں بھی ہوتی ہیں اور مسکراہٹیں بھی اور خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ خطروں سے کھیلنے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے۔ آج کرکٹ کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی میچ جس میں تین بڑی ٹیموں (آسٹریلیا، انڈیا اور انگلینڈ) میں سے کوئی ٹیم نہ کھیل رہی ہو، اسے کوئی میچ ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوہ ہمالیہ سر کیا ہو لیکن کرکٹ کی دنیا اس وقت تک اس کی تعریف نہیں کرتی آپ کوگھاس نہیں ڈالتی جب تک آپ ان تین بڑی ٹیموں میں سے کسی کو نہ ہرائیں۔ دنیا کی ساری توجہ انھی تین ممالک پر مرکوز رہتی ہے اور کرکٹ سے منسلک سارا پیسہ بھی ان ہی ممالک میں ہے۔ مصباح الحق نے اپنی ٹیم کی قیادت اس وقت سنبھالی جب یہ ٹیم آخری مرتبہ لارڈز کے میدان میں کھیلی تھی۔ یہ ٹیم متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی ہے، لیکن اس کے باوجود اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے۔اس لحاظ سے پاکستان کا یہ دورہ انگلینڈ اہم ہونا تھا کیونکہ اس دورے میں انھیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستانی ٹیم بھی ایک ٹیم ہے۔

اگر یہ ٹیم انگلینڈ سے جیت کر دکھا دیتی ہے تو پھر اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کی تعریف کی جائے گی۔ مصباح کی حالیہ ٹیم کی تشکیل سنہ 2014 میں اس وقت ہونا شروع ہوئی تھی جب سعید اجمل اور محمد حفیظ پر مکمل پابندی لگ گئی اور پاکستان کا بالنگ اٹیک بالکل بدل کر رہ گیا تھا۔ تب پاکستان نے اجمل کی جگہ جس بولر کو ٹیم میں شامل کیا وہ فوراً ہی دنیا کا بہترین سپنر بن گیا۔ ان دنوں مصباح کے پاس ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیز بالر بہت کم تھے لیکن اس دوران راحت علی اور عمران خان دونوں نے محنت جاری رکھی اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہے اور پھر ایک سال بعد وہاب ریاض کی شکل میں مصباح کو ایک اور اچھا تیز بولر مل گیا، ایک ایسا بولر جو مخالت بیٹنگ لائن کو اُڑا کر رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے بعد محمد عامر ٹیم میں واپس آگئے اور پاکستان کے بولنگ اٹیک میں یکدم تیزی آگئی۔ پاکستان کے اس بولنگ اٹیک کے لیے انگلینڈ کی ساری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے صرف ایک دن کافی تھا۔ آج جس طرح پاکستانی بولر ایک ٹیم کی شکل میں کھیلے، اسے دیکھ کر لطف آگیا۔انگلینڈ کی تمام وکٹیں چوکے، چھکے لگاتے ہوئے نہیں گریں، بلکہ ہر وکٹ گرنے سے پہلے کی گیندوں پر انگلینڈ کے بلے باز کوئی رن نہیں بنا پائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے انگلینڈ کے نئے آنے والے بلے باز کو آؤٹ کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا۔ یہی وہ پاکستانی ٹیم ہے جس سے ایک دنیا محبت کرتی رہی ہے۔ ایک ایسی ٹیم جو مخالف بلے باز کو جب تک پویلین واپس نہیں بھیج دیتی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اس کے باوجود آج پاکستان کی جو ’روایتی‘ ٹیم ہم نے لارڈز میں دیکھی اس میں ایک فرق واضح تھا اور وہ یہ کہ اس ٹیم کی کپتانی مصباح کے ہاتھ میں تھی۔ یہ سال کپتان کے لیے زبردست سال رہا ہے۔ اس سال کے شروع میں انھوں نے پی ایس ایل کی پہلی ٹرافی جیتی اور سال کے آخر میں آخر کار انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ اتنی خوبصورت داڑھی میں بہت ’ُکول‘ لگتے ہیں۔ پاکستان یہ میچ اسی وقت جیت گیا تھا جب سینچری بنانے کے بعد کپتان نے میدان میں ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تھے، کیونکہ اپنے کپتان کی خوشی اور ان کا اعتماد دیکھ کر ٹیم کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے۔ اسی لیے میچ جیتنے کے بعد جب ساری ٹیم نے ڈنڈ نکالنے شروع کر دیے تو اس پر کسی کو بھی زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ یہ لمحہ واقعی بہت خوبصورت، حیرت انگیز اور مسرت سے بھرپور لمحہ تھا۔ چھ سال پہلے مصباح الحق سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک ٹوٹی پھوٹی ٹیم کو آ کر سنبھالیں اور آج چھ سال بعد انھوں نے پاکستان کو ایک ایسی ٹیم دے دی ہے جو ماضی کی کسی بھی بہترین پاکستانی ٹیم سے کسی لحاظ سے کم نہیں ہے۔
انڈیا کی مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں جادو، ٹونے ٹوٹکے اور ڈائن و کاہن کے شک میں ہونے والے قتل کو روکنے کے لیے قانونی کارروائی کی ایک عرصے سے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم ان میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے ایسے معاملات میں حکومت سے مؤثر اقدام اٹھانے کے لیے کہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں دائر مفاد عامہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے صورتحال پر رپورٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صحافی نیرج سنہا کے مطابق ستمبر سنہ 2015 سے رواں سال مئی تک یعنی نو مہینوں میں جادو اور ڈائن کے نام پر تشدد کے 524 کیسز درج کیے گئے ہیں جبکہ 35 افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ساڑھے پانچ سال کے دوران ڈائن کے شبے میں تشدد کے 3300 کیسز پولیس فائلوں میں درج ہیں اور قبائلی ایسے واقعات کے زیادہ شکار ہیں۔پولیس ریکارڈ کے مطابق سنہ 2011 میں 36 افراد کو جادو ٹونے کے شک میں ہلاک کر دیا گيا جبکہ سنہ 2012 میں33 ہلاک ہوئے، سنہ 2013 میں47 افراد، سنہ 2014 میں 38 افراد اور سنہ 2015 میں 47 افراد ہلاک کر دیے گئے۔ حال ہی میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وریندر سنگھ نے بذات خود قبائلی اکثریتی علاقے کے دور دراز گاؤں کا دورہ کیا اور ڈائن کے متعلق سرکاری پروگرام میں شریک ہوئے۔ مقامی لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:

’ڈائن کے نام پر قتل و تششد صوبے کے لیے سنگین مسئلہ ہے اور اس کا مناسب حل بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔ روک تھام کے لیے اس کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔‘ اس سلسلے میں فلم بنانے کے مقصد سے معروف فلم ساز اور ہدایتکار پرکاش جھا بھی جھارکھنڈ کے دورے پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں بیداری کے لیے وہ چھوٹی فلمیں اور ڈاکومینٹریز تیار کريں گے تاکہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ’سماج میں توہمات کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے لیے عدالت سے انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘ گملا ضلعے کے گھاگھرا میں پرکاش جھا کی یونٹ نے شوٹنگ بھی شروع کر دی ہے۔ اس شوٹنگ میں اس بچی کو شامل کیا گیا ہے، جن کے ماں باپ کو مبینہ طور پر ڈائن کے شبے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حال ہی میں لوہردگا کے گڑي ٹھیكاٹولي گاؤں میں جادو کے شبے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے اور پھر گملا کے گھاگھرا میں ڈائن کے شبے میں ایک بیٹے کے ہاتھوں اپنی ماں کے قتل کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ رانچی ضلع کے مانڈر میں بھی ایک ساتھ پانچ قبائلی خواتین کا قتل کر دیا گيا تھا۔ آئی جی (منظم جرائم) سمپت مینا بتاتی ہیں کہ ’ڈیٹا بیس کے ذریعے ان اضلاع اور تھانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں رانچی، لوہردگا، کھونٹی، گملا، سمڈیگا، چائی باسا، سرائے کیلا، لاتیہار، گڑھوا، جمشید پور جیسے اضلاع شامل ہیں۔‘انھوں نے اضلاع کے پولیس افسران کو زیر التوا معاملات کو نمٹانے اور مکمل کارروائی کرنے کے لیے کہا ہے۔ ڈائن کے خلاف تشدد کے خاتمے کے متعلق پروگرام چلانے والے غیر سرکاری ادارے ’آشا‘ کی پونم ٹوپو کہتی ہیں: ’ان معاملات میں سرکاری کوششیں ابھی تک ناکافی ہیں۔ بیداری مہم والوں کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ گاؤں بھیجا گیا لیکن یہ مہم مسلسل نہیں چلائی جا رہی ہے۔‘ اسی تنظیم کے سربراہ اجے بھگت کا خیال ہے کہ ’دیہات میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں ٹھوس کام کیے بغیر توہمات پر لگام لگانا مشکل ہے۔‘جبکہ لوہردگا کے ایس پی کارتک ایس بتاتے ہیں کہ ’دیہات میں اوجھا اور جھاڑ پھونک کرنے والوں شناخت کرنے کی کارروائی شروع کی گئی ہے، تاکہ وہ بھولے بھالے دیہاتیوں کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔‘ گڑاٹھوكي ٹولے میں تین لوگوں کو زندہ جلانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’رات میں کئی دیہات کے لوگ گھنٹیاں بجاتے آ گئے۔ انھیں وہم تھا کہ اس گھر کے لوگ بچوں کی قربانی دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ امیر و کبیر ہو رہے ہیں۔ جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔‘
Powered by Blogger.