ترک حکام نے امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔
ایک دن پہلے پیر کو حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پرگذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا تھا۔
ترکی کی حکومت نے امریکہ میں مقتم فتح اللہ گولن پر الزام عائد کیا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا جبکہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان
٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی
٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویرمحکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار دو سو ملازمین کو معطل کرنے کے فیصلے سے قبل ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ وہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔
وزارتِ تعلیم نے ملازمین کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معطل کیے جانے والے ملازمین میں کون کون شامل ہیں۔
ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹوں کے 1500 سو سے زیادہ ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔
صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔
زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔
پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔
رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔