پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اُنھیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے دوران دھاندلی اور خونریزی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہوا تو پھر مسلم لیگ ن کو 2014 کا دھرنا بھُلا دیا جائےگا۔‘ بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’نریندر مودی کس طرح اٹل بہاری واجپائی، راجیو گاندھی یا کسی اور انڈین وزیرِ اعظم کی طرح ہو سکتے ہیں۔ ہر کوئی امن چاہتا ہے لیکن آپ کس طرح اِس بربریت کو دیکھ سکتے ہیں، سارے معاملے سے علیحدہ رہ کر لوگوں کو مرتے دیکھ سکتے ہیں۔؟‘ اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان یہ ثابت کرے گی کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تشدد کے معاملے پر درست موقف کا ساتھ دے رہے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چاہے پیپلز پارٹی کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات میں فتح حاصل ہو یا نہ ہو وہ کبھی ظالم کا ساتھ نہیں دے گی۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ’میں اِس بات پر عمران خان سے اتفاق کرتا ہوں کہ فی الحال جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ میاں محمد نواز شریف کے طرزِ حکومت سے ہے، لیکن میں عمران خان کی اِس بات سے اختلاف کرتا ہوں جو اُنھوں نے کسی غیر آئینی قدم کے جواب میں عوامی ردِ عمل کے بارے میں کہی ہے۔‘ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت جانتی ہے کہ اُس نے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا کیسے مقابلہ کیا تھا اور اب بھی وہ متحد ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ سرمایہ دار نہیں بلکہ اجارہ دار ہیں کیونکہ ’اگر مُرغی کا کاروبار ہے تو انڈے بھی خود ہی بیچتے ہیں اگر سٹیل کا کاروبار ہے تو سٹیل ملیں بھی اپنی، اور پھر ملک کا وزیرِ خزانہ اُس کی تشہیر کرتا ہے کہ اگر دالیں مہنگی ہیں تو مُرغی کھاؤ۔‘
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ خاندان افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔ اب انھیں واپس پاکستان لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک ماہ میں صرف اڑھائی ہزار خاندانوں نے ہی آمادگی ظاہر کی ہے۔ افغانستان نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں کو اب دوسری مرتبہ یکم اگست تک کی حتمی تاریخ دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رجسٹریشن فارم مکمل کر کے غلام خان میں قائم رجسٹریشن مرکز میں جمع کروا دیں۔ شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جو متاثرین رجسٹریشن نہیں کرا سکے ان کے بارے میں اعلی سطح پر منعقد ہونے والے آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جا ئےگا۔ اس سے پہلے یکم جولائی کی تاریخ دی گئی تھی لیکن اس وقت تک کم ہی لوگ رجسٹریشن فارم جمع کرا پائے تھے۔ افغانستان کے صوبے خوست اور دیگر علاقوں میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی خاندان متاثرین کے کیمپوں، رشتہ داروں اور کرائے کے مکانوں میں مقیم ہیں۔کامران آفریدی نے بتایا کہ یہ قبائلی رہنماؤں کا مطالبہ تھا اور اس کے لیے انھوں نے افغانستان ایک نمائندہ وفد بھیجا تھا تاکہ وہاں مقیم متاثرین کو اطلاع دے دیں کہ وہ واپس اپنے وطن آنے کے لیے اپنی رجسٹریشن کرا لیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد ایک تو ان لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ہے اور دوسرا انھیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے دستیاب وسائل کا جائزہ لینا ہے۔ افغانستان میں مقیم پاکستانی متاثرین کی واپسی کے عمل کے لیے پہلے غلام خان چیک پوسٹ پر ان کی رجسٹریشن ہوگی اور پھر انھیں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں کے قریب قائم بکاخیل کیمپ لایا جائےگا۔ بکا خیل کیمپ میں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن مکمل

ہوگی جہاں انھیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور پھر دیگر متاثرین کے ہمراہ ان کی اپنے وطن کو واپسی کی جائے گی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر متاثرین رجسٹریشن نہیں کراتے تو پھر ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند روز میں ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوگا جس میں ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائےگا۔‘یہاں ایسی اطلاعات ہیں کہ ان فیصلوں میں ایک یہ فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان متاثرین کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو جس طرف جانے کا موقع ملا وہ اسی جانب روانہ ہوگئے تھے ان میں وہ لوگ جو افغانستان کی سرحد کے قریب رہائش پذیر تھے وہ افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔ کامران آفریدی کے مطابق افغانستان جانے والے متاثرین میں چند ایک کرم ایجنسی کے راستے واپس پاکستان آگئے تھے۔ ادھر خیبر پختونحوا کے مختلف علاقوں میں مقیم شمالی وزیرستان ایجنسی کے متاثرین کی واپسی میں کچھ عرصے سے تیزی آئی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ ان متاثرین کی واپسی کا یہ عمل اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں قریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ افراد ان دنوں ضلع بنوں میں مقیم ہیں۔
ترک حکام نے امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ایک دن پہلے پیر کو حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پرگذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا تھا۔ ترکی کی حکومت نے امریکہ میں مقتم فتح اللہ گولن پر الزام عائد کیا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا جبکہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویرمحکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار دو سو ملازمین کو معطل کرنے کے فیصلے سے قبل ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ وہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ وزارتِ تعلیم نے ملازمین کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معطل کیے جانے والے ملازمین میں کون کون شامل ہیں۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹوں کے 1500 سو سے زیادہ ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔

یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔
ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے پر پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ترک صدر رجب طیب اردوغان کو مبارک باد دی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اس کا مظاہرہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر بھی کیا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر جماعت اسلامی کی جانب سے ترک عوام اور صدر اردوغان کے ساتھ اظہار یکہجتی کے لیے سرخ بینر لگائے گئے ہیں اور ترکی کے قومی پرچم نما بینروں پر تحریر ہے کہ ترک عوام نے اسلام دشمن لبرل امریکی لابی کو شکست دے دی ہے۔ ٭ترکی: ناکام بغاوت کے بعد پولیس میں ’صفائی‘ جاری ٭ ’فوج آئے تو مٹھائیاں بنٹیں گی، لوگ جشن منائیں گے‘ ان بینروں سے قبل کراچی اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں میں اردوغان حکومت محفوظ رہنے کی خوشی میں جماعت اسلامی کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی اور ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے اتنی بڑی قربانی شاید ہی کسی ملک نے دی ہے جو ترکی میں دی گئی۔ ’

جہاں فوج اقتدار پر قابض ہوگئی ہو، سڑکوں پر ٹینک موجود ہوں، نئی کابینہ کا اعلان ہو چکا ہو وہاں سیاسی قیادت واپس پہنچ گئی اور عوام نے اپنی تاریخی مزاحمت سے اس پوری بغاوت کو کچل دیا، یہ جمہوریت کی بڑی فتح ہے۔‘ اس سے قبل جماعت کی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دینے کے خلاف اور کشمیر میں مسلمانوں پر مبینہ مظالم کے خلاف مہم جاری تھی۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ اردوغان نے 12 سال عوام کی خدمت کی، اس سے قبل ترکی میں بھی بدعنوانی عام تھی اس دور سے پہلے نجم الدین اربکان نکلا اور ا س کے بعد طیب اردوغان آگے آئے اور ملک کو کرپشن سے پاک کیا اور ترقی کی۔ ’ہم ایک ایسے آدمی اور ایسی قوم کو جس کی ایک تاریخ ہے، اس نے اپنی جمہوریت کے لیے اتنا بڑا کام کیا ہے، اس سے کیوں نہ اظہار یکجہتی کریں اور اس کو رول ماڈل بنائیں، تاکہ عوام بدعنوانی سے پاک ملکی ترقی اور جو انسانی قدریں ہیں ان کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں اور قربانیاں دیں۔‘ نوجوان تجزیہ نگار سرتاج خان کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی اور اردوغان میں اخوان مسلمین کا نظریاتی تعلق ہے، جس میں اردوغان کے علاوہ پاکستان، انڈیا، افغانستان، مصر، بنگلہ دیش شامل ہیں۔ فی زمانہ بنگلہ دیش اور مصر میں اس پر برا وقت آیا ہوا ہے اور وہاں اس کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔‘ جامعہ کراچی کے پاکستان سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا ترکی سے نظریاتی تعلق ہے۔ طیب اردوغان کے سیاسی سرپرست اربکان جماعت اسلامی کے ہم خیال تھے اور ان کے آپس میں بہت زیادہ روابط بھی رہے اور جب سے اردوغان اقتدار میں ہیں، جماعت اسلامی بحثیت مجموعی ان کے پالیسیوں کی حمایت کرتی آئی ہے کیونکہ اردوغان اور ان کے جماعت کا بھی دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کا ترک عوام کے ساتھ پرانا تعلق رہا ہے، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف یہاں اسلامی جماعتوں نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی جس کو مہاتما گاندھی کی بھی حمایت حاصل رہی۔ جماعت اسلامی پر پاکستان میں فوج کی حمایت اور سیاسی معاونت کے بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ بنیاد پرست جماعتوں کا فوج کے حوالے سے کوئی اصولی موقف نہیں ہے بلکہ ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ فوج کی سربراہی کرنے والا جرنیل ان کا بندہ ہے کہ نہیں۔ انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں جماعت کا جو لٹریچر شائع ہوتا تھا اس میں کہا جا رہا تھا کہ اسلامی نظام لانے کے لیے جمہوریت ایک طریقہ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقے بھی ہو سکتے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہمارا ہم خیال جرنیل اقتدار میں آگیا ہے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا میں حکام کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف امن لشکر کی گاڑی پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ پیر کی شام دیر بالا کے علاقے ڈوگ درہ میں تھانہ شرینگل کی حدود میں پیش آیا۔ تھانہ شرینگل کے ایک اہلکار گل حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ امن لشکر کے افراد کسی جرگہ میں شرکت کر کے واپس آرہے تھے کہ ان کی پک آپ گاڑی کو سڑک کے کنارے ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ دھماکے میں کم سے کم سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد گاڑی نیچے ایک کھائی میں جاگری جہاں پولیس پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دیر بالا کے ضلعی ناظم صاحبزادہ فصیع اللہ نے بتایا کہ مرنے والوں میں ڈوگ درہ امن لشکر کے رہنما اور ویلج کونسل چیئرمین ملک خان محمد بھی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں امن لشکر کے علاوہ علاقے کے دیگر مقامی مشران بھی شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ گاڑی میں کتنے افراد سوار تھے۔ میڈیا کے نمائندوں کو بھیجی گئی ایک ای میل کے ذریعے تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ خیال رہے کہ دیر بالا کے علاقے ڈوگ درہ میں اس سے قبل بھی طالبان مخالف امن لشکر کے رضاکاروں پر متعدد مرتبہ حملے ہوچکے ہیں جس میں کئی افراد مارے جاچکے ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ڈوگ درہ ماضی میں شدت پسندوں کا گڑھ رہا ہے، تاہم سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے بعد یہ علاقہ عسکریت پسندوں سے صاف کرایا گیا تھا۔
پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کی دفعہ بھی شامل کر لی ہے جس کے تحت مدعی ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ریجنل پولیس افسر ملتان سلطان اعظم تیموری نے بی بی سی کو بتایا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 311 سی کو شامل کیا گیا ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے سے متعلق ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے سے متعلق عدالت ہی میں فیصلہ ہو گا اور مدعی مقدمہ اس میں ملوث ملزمان کو اپنے طور پر معاف نہیں کر سکے گا۔ ٭ قندیل بلوچ کے قتل پر پنجاب اسمبلی میں بحث کا مطالبہ ٭ ’وہ قاتل بھائی سمیت سب کی کفالت کرتی تھی‘ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا، اس کے علاوہ دیگر افراد بھی شامل تفتیش کیے جائیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ ٹاک شوز بھی کیے تھے جس سے تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن دو افراد کو بھی شاملِ تفتیش کیا گیا ہے جو وقوعے کے بعد ملزم کو ڈیرہ غازی خان لے گئے تھے۔ ڈی آئی جی سلطان اعظم تیموری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ حقائق اور محرکات کو سامنے لایا جا سکے۔ اُنھوں نے کہا کہ مقتولہ کے زیر استعمال موبائل کا ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیا ہے جس کے بعد اس مقدمے کی تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزم وسیم نے مجسریٹ کے سامنے اقبالی بیان دیا ہے جس میں اُنھوں نے قندیل بلوچ کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ ریجنل پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قندیل بلوچ کو قتل کرنے کے لیے کسی نے اُسے نہیں اُکسایا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا گیا ہے کیونکہ قندیل بلوچ کے چہرے پر ناخنوں کے نشانات ہیں، اور اب ملزم کے ڈی این اے کا اُن ناخنوں کے ساتھ تقابل کیا جائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ قتل کی اس واردات میں کوئی دوسرا تو ملوث نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل میں دو محرکات ہیں۔ ایک کا تو ملزم نے اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اور دوسرا محرک پیسوں کا تھا۔ سلطان اعظم تیموری کا کہنا تھا کہ مقتولہ جو بھی پیسے کما کر لاتی تھی وہ اپنے والدین کو دیتی تھی جس کا ملزم کو رنج تھا کہ وہ اسے کیوں پیسے نہیں دیتی۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے چھ بھائی ہیں جن میں سے تین سعودی عرب میں، ایک فوج میں، اور دو پاکستان ہی میں محنت مزوری کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ ملزم وسیم واردات کے وقت بھی اپنے بھائیوں سے رابطے میں رہا۔ آُنھوں نے کہا کہ ملزم وسیم سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے تاہم اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا فیصلہ اگلے ایک دو روز میں کر لیا جائے گا۔
جرمنی میں حکام کا کہنا ہے کہ ٹرین میں کلہاڑی اور چاقو سے حملہ کرنے والے افغان نوجوان پناہ گزین کے کمرے سے شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ کا ہاتھ سے پینٹ کیا ہوا جھنڈا ملا ہے۔ 17 سالہ نوجوان نے جنوبی جرمنی کی ریاست بویریا کے شہر ویورسبرگ میں ایک ٹرین میں یہ حملہ پیر کی شام کو کیا۔ حملے میں ہانگ کانگ کے چار افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ بعد میں پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خیال رہے کہ یہ حملہ فرانس کے شہر نیس میں ہونے والے حملے کے چند دنوں بعد ہوا ہے۔ بویریا ریاست کے وزیر داخلہ یواخیم ہرمان نے جرمن ٹی کو بتایا کہ اوشینفرٹ میں اس نوجوان کے کمرے میں سامان کے درمیان سے یہ جھنڈا برآمد کیا گیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات میں آیا تھا کہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ 14 افراد صدمے میں ہیں اور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

ویورسبرگ اور اوشینفرٹ کے درمیان ٹرین سروس بند کر دی گئی ہے۔ بویریا کے وزیرِ داخلہ یواخیم ہرمان نے بتایا کہ حملہ آور ایک 17 سالہ افغان پناہ گزین تھا جو قریبی قصبے اوشینفرٹ میں مقیم تھا۔انھوں نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا کہ بظاہر یہ لڑکا کسی بڑے رشتہ دار کے بغیر جرمنی آیا تھا۔ اس نوجوان نے گذشتہ سال جرمنی میں پناہ کی عرضی داخل کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ نہیں جس کے بعد کمیپ سے اسے ایک دوسرے خاندان کے ساتھ منتقل کر دیا گیا تھا۔ گذشتہ سال جرمنی میں دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کا رجسٹریشن کیا گیا جن میں ڈیڑھ لاکھ افغان شامل ہیں۔ جرمن میڈیا میں آنے والی بعض اطلاعات کے مطابق حملہ آور نے حملے کےدوران اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یواخیم ہرمان نے کہا کہ حکام اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا واقعی ایسا ہوا تھا یا نہیں۔ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات سوا نو بجے ٹرین میں پیش آیا۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ٹرین کے ذریعے ویورسبرگ پہنچنے کے بعد حملہ آور نے مسافروں پر کلہاڑی اور چاقو سے حملہ شروع کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو زخمی کرنے کے بعد حملہ آور ٹرین سے اتر کر بھاگ کھڑا ہوا لیکن پولیس اہلکاروں نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حملے کے محرکات کا تاحال علم نہیں ہو سکا۔
Powered by Blogger.