امریکہ کے ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپبلکن پارٹی نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے باضابطہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں جاری رپبلکن کنونشن میں ووٹنگ کے دوران ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ریاست نیویارک کی جانب سے اپنے والد کی حمایت کا اعلان کیا، جس کے بعد انھیں صدارتی نامزدگی کے لیے درکار 1237 سے زیادہ مندوبین کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد ایوانِ نمائندگان کے سپیکر پال رائن نے رپبلکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کے حامی کل مندوبین کی تعداد 1725 رہی، جب کہ ان کے قریب ترین حریف ٹیڈ کروز صرف 475 مندوبین کی حمایت ہی حاصل کر پائے۔ سابق امریکہ صدر بش کے بھائی جیب بش صرف تین مندوبین کی حمایت بٹور سکے۔ٹرمپ نے ٹویٹ کی: ’یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں سخت محنت کروں گا اور آپ کو مایوس نہیں ہونے دوں گا۔ سب سے پہلے امریکہ!!!‘ ٹرمپ جونیئر نے کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’یہ میری زندگی کا عجیب ترین دن ہے۔ یہ حقیقی لمحہ ہے۔ وہ حقیقی شخصیت ہیں جنھوں نے کام کر کے دکھایا ہے، وہ اس ملک کے لیے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘

 ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹ پارٹی کی ہلیری کلنٹن سے ہو گا، جنھوں نے اس خبر پر فوری ردِعمل دکھاتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’ڈونلڈ ٹرمپ ابھی ابھی رپبلکن امیدوار بن گئے ہیں۔ ابھی ہمارے ساتھ شامل ہو کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کبھی بھی (وائٹ ہاؤس کے) اوول آفس میں قدم نہ رکھ پائیں۔‘ رپبلکن کنونشن کے موقعے پر ٹرمپ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والے نائب صدر کے امیدوار مائیک پینس کی بھی باقاعدہ نامزدگی کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن خود رپبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے مخالفوں کی کمی نہیں۔ گذشتہ روز ان کے مخالفین نے ان کی نامزدگی کا راستہ روکنے کے لیے رائے شماری کروانے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ اس کے علاوہ ان کی اہلیہ میلانیا کی تقریر پر سرقے کا الزام عائد کیا گیا، جب کہ کئی اہم رپبلکن رہنماؤں نے اس اہم کنونشن میں شرکت کرنے پر گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ ان میں بش سینیئر، بش جونیئر اور مٹ رامنی جیسے اہم رپبلکن شامل ہیں۔ کنونشن سے کئی لوگوں نے خطاب کیا جنھوں نے ہلیری کلنٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا الزام تھا کہ سابق خاتونِ اول عام امریکیوں کے مسائل سے نابلد ہیں اور صدر اوباما کی ’جابرانہ‘ روایت کا تسلسل ہیں۔ توقع ہے کہ 68 سالہ ہلیری کلنٹن کی باضابطہ صدارتی نامزدگی کا اعلان اگلے ہفتے فلیڈیلفیا میں ہونے والے ڈیموکریٹک کنونشن میں کیا جائے گا۔
ترکی میں گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی حکومت کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں ترکی کی سکیورٹی سروسز سے لے کر سول سروسز اور محکمۂ تعلیم سے لے کر میڈیا تک تمام اہم شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا ہے کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ترکی کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔پارلیمان سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن ایک دہشت گرد تنظیم کے قائد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘ ترکی امریکہ سے فتح گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترک صدر اردوغان نے منگل کو امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان سے فون پر بات کر کے انھیں گذشتہ ہفتے کی ناکام فوجی بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی ترکی حوالگی کے معاملے پر بات کی۔ ترکی کا الزام ہے کہ گولن نے گذشتہ ہفتے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی سازش تیار کی تھی، جب کہ گولن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا: ’صدر اوباما نے پرتشدد مداخلت کے خلاف ترک عوام کی جرات اور جمہوریت کے لیے ان کے عزم کو سراہا۔ ’صدر اوباما نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ بغاوت کی تحقیقات کے سلسلے میں ترک حکام کی مناسب مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ اس نے گولن کے بارے میں کچھ ’مواد‘ امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ترکی کی جانب سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی کسی بھی درخواست پر دوطرفہ معاہدے کے تحت غور کیا جائے گا۔ صدر اردوغان بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترک حکام نے بغاوت فرو کیے جانے کے بعد سے فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے 15 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹیوں کے 1577 سو سے زیادہ ڈینز کو بھی مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان سے پہلے منگل کو حکام نے وزارتِ داخلہ کے 8777 جبکہ وزارتِ خزانہ کے 1500 ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ ترک وزیرِ اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے 257 افراد کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور قریباً نو ہزار پولیس اہلکار برطرف کیے جا چکے ہیں۔زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی شہر میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔
گذشتہ ہفتے فرانس کے ساحلی شہر نیس میں ایک حملے میں 84 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاسی الزام تراشیاں ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہ پریشان کن سوال دُہرایا جا رہا ہے کہ آخر فرانس میں لوگوں کو جہاد کی جانب راغب ہونے سے کیسے روکا جائے۔ فرانس کے قومی دن پر جب محمد لحوايج بوہلال نے ٹرک ایک ہجوم پر چڑ ھا دیا، تو ہو سکتا ہے کہ وہاں پر موجود عام لوگوں کو اس حملے پر شدید حیرت ہوئی ہو، لیکن جہاں تک شہر کے سرکاری افسران کا تعلق ہے تو آپ انھیں یہ الزام نہیں دے سکتے کہ دہشتگردی کے خطرے سے بےخبر تھے اور اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ اس حملے سے بہت پہلے جب جنوری سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں نے پوری فرانسیسی قوم کو جگا دیا تھا تو سرکاری حکام نے ملک میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔ جہاں تک نیس کا تعلق ہے تو یہاں بھی سنہ 2000 کے پہلے عشرے میں ہی دیگر فکرمند حلقوں کے علاوہ مقامی ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اس بات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی تھی کہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے وہاں لوگ فرانس کی تہذیب اور اس کی اقدار کو رد کر رہے ہیں۔ ٭ نیس میں حملہ کرنے والا کون تھا؟ ٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘ شہر کی ایک کونسلر اور اس کے پسماندہ علاقے میں 35 سال سے سکول میں پڑھانے والی کیتھرین لکوننی کہتی ہیں کہ ایک عرصے سے ان کا مشاہدہ یہی ہے کہ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ زیادہ کٹر خیالات کو اپنا رہے ہیں۔ ان کے بقول ’ پرانے وقتوں میں میرے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں ماڈرن ہوتی تھیں۔ یہ خواتین کبھی بھی حجاب نہیں لیتی تھیں، لیکن اب بچیاں بھی حجاب لیتی ہیں اور ان کی مائیں بھی۔ بچوں کی مائیں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے انھیں کہتے ہیں کہ وہ پردہ کیا کریں۔‘ احساسِ محرومی ماہرین کے مقامی گروپ سے منسلک برجٹ اربیبو کا کہنا ہے کہ گذشتہ عرصے میں لوگوں میں اپنی الگ شناخت کا احساس بہت عام ہو گیا اور اس کی بنیاد ان لوگوں کی شکایات ہیں۔ ’سنہ 2012 سے ان لوگ کو شکوہ ہے کہ ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ امریکیوں اور یہودیوں کا اتحاد ان کے خلاف ہے۔ یہ لوگ کھلے عام یہودیوں اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع ہوگئے تھے۔ اور پھر آنے والے دو برسوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نیس اور اس کے نواح کا علاقہ فرانس میں سب سے زیادہ جہادی فراہم کرنے والا علاقے بن گیا ہے۔ مثلاً وہ لوگ جو فرانس سے جہاد کے لیے شام گئے ان میں سے دس فیصد کا تعلق یہاں سے تھا۔ نیس شہر اور ایپلس میریٹائم کے صوبائی حکام اس نئے رجحان کا جائزہ لے رہے تھے، اور پھر جنوری 2015 میں پیرس حملوں میں 17 افراد کی ہلاکت کے بعد ان حکام نے مقامی حالات پر زیادہ کڑی نظر رکھنا شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے علاقائی سطح پر ’انسدادِ انتہاد پسندی‘ کا ایک یونٹ بھی قائم کیا گیا جس میں اساتذہ، سوشل ورکروں اور سکیورٹی کے ماہرین کو جمع کیا گیا۔ یہ ماہرین ہر ہفتے ملتے ہیں اور اگر کسی خطرے کی علامات نظر آئیں تو اس کی تفتیش بھی کرتے ہیں۔نیس کے میئر نے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جہاں کسی بھی وقت کال کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن ان گھرانوں کے لیے قائم کی گئی ہے جن کو خطرہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ افراد اور گھرانوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد فرام کرنے کے لیے شہر کے کونسلروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ اِس سال کے شروع میں جب حکام کو بتایا گیا کہ نیس کے کچھ فٹبال کلبوں میں باجماعت نماز کا انتظام کیا جاتا ہے تو میئر نے خبردار کیا کہ وہ کلب جو یہاں کے ’سیکولر دستور‘ کا احترام نہیں کرتے ان کی مالی مدد بند کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں استادوں، ماہرین تعلیم اور مقامی تنظیموں کے اہلکاروں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ’

بڑا بھائی‘ فرانس کے اِس علاقے میں شدت پسندی کے خلاف کام کرنے والوں میں سب سے بڑے مقرر عبداللہ مراہ ہیں ۔ عبداللہ مراہ دراصل محمد مراہ کے بڑے بھائی ہیں۔ تلوز کا رہائشی محمد مراہ وہ شخص تھا جس نے مارچ سنہ 2012 میں فوجیوں اور یہودی سکول کے بچوں پر حملہ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ محمد مراہ فرانس کا وہ پہلا مقامی جہادی تھا جس نے فرانس کی سرزمین پر دہشتگردی کی تھی اور اسے اب بھی ملک کے انتہاپسند حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد کے برعکس اس کے 39 سالہ بڑے بھائی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ انسدادِ انتہاپسندی کے ماہرین کے ساتھ کام کر کے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں جو ان کے بھائی نے لگایا تھا، بلکہ دیگر نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔عبدالغنی مراہ کے بقول ’میں کچھ نوجوانوں میں مشہور محمد مراہ کی اس شبیہہ کو توڑ دینا چاہتا ہوں کہ محمد ایک بہت بڑا ہیرو اور اسلام کا سپاہی تھا۔ عبدالغنی کا پیغام یہ ہے کہ فرانس ایسا ملک نہیں جہاں مقامی لوگ مسلمانوں کو دبانے پر تلے بیٹھے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ’فرانس ایک خوبصورت اقدار کی سرزمین ہے۔‘ ’مذہبی کنوارا پن‘ نیس اور اس کے گر د ونواح میں انتہاپسندی کے خلاف سرگرم لوگوں میں مذہبی رہنما بھی بہت اہم کراد ر ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک ابوبکر بکری ہیں جو سرکاری فلیٹوں سے منسلک ایک مسجد کے امام ہیں اور مسلم کونسل کے علاقائی نائب صدر بھی۔ سنہ 2012 میں جب محمد مراہ والا معاملہ چل رہا تھا تو ابوبکر بکری نے بھی شہر کے اس پسماندہ علاقے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو محسوس کیا۔ اس وقت سے وہ مسلسل اس رجحان کو روکنے کی کوشش میں رہے ہیں، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ دو ایسے نوجوانوں سے بات کر رہے تھے جن کی والدہ انھیں ان کے ہاں لائی تھیں۔ ’میں نے انھیں بتایا کہ انتہاپسندی اسلام کے خلاف ہے، لیکن بدقسمتی سے میری اس حکمت عملی نے کام نہیں کیا، کیونکہ دو ماہ بعد وہ دونوں لڑکے شام جانے کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ پولیس نے انھیں فرانس سے نکلنے سے پہلے پکڑ لیا تھا۔‘ابوبکر بکری کہتے ہیں کہ پریشانی میں مبتلا ان نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ نوجوان ’مذہبی طور پر کنوراے‘ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بڑی آسانی سے قائل کر لیا جاتا ہے اگر وہ کافروں سے کوئی چیز چرایں گے تو وہ دراصل خدائی کام کر رہے ہوں گے۔ اور کسی بھی نوجوان کے لیے انتہا پسند بننا اس لیے بھی پرکشش ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے خیالات سے لڑکیوں میں بھی زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یعنی آپ پرنس چارمنگ بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کو انتہاپسندی کے جانب جو چیز راغب کرتی ہے وہ اس کا عسکری یا جنگجوئی پہلو ہے، جبکہ لڑکیاں اس جانب رومانوی خیالات اور امدادی کام کے جذبے کی وجہ سے آتی ہیں۔ برین واشنگ مندرجہ بالا باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ فرانس میں صرف تارکین وطن گھرانوں کے نوجوان ہی انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ مِس اربیو کہتی ہیں کہ ’انتہاپسندوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ یہ نوجون مختلف سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔‘ مثلاً نیس کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والی ایک ماڈرن خاتون کی 13 سالہ بیٹی کیرل کی کہانی کو ہی لے لیجیے جو ایک دن اچانک بدل گئی۔کیرل کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی ایک خاموش اور فرض شناس لڑکی ہوا کرتی تھی اور بہترین طالبہ بھی۔ پھر اس نے سکول میں ان بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا جن کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو یہاں خوش نہیں تھے۔‘ کیرل نے اپنے والدین سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر وہ خنزیر کھائیں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کیرل نے انھیں ایک پروپیگنڈا وڈیو دکھائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ جنت کیسی ہوگی اور جہنم کا منظر کیا ہوگا۔ کیرل کی والدین کے بقول ’یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی آپ کا بچہ چرا کر لے جائے اور پھر برین واشنگ کر کے اس کا ذہن ہی بدل دے۔ کیرل کی باتیں سن کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہمارے ساتھ یہ ہوگا۔‘ ماہرین نفسیات کی مدد سے کیرل کو انتہاس پسندی سے بال بال بچا لیاگیا۔ اب وہ سولہ سال کی ہو گئی ہے اور اس نے اس اسلام کو قبول کر لیا ہے جس پر فرانس کے زیادہ تر مسلمان عمل کرتے ہیں۔ لیکن کیرل کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی بیٹی خطرے سے مکمل باہر نہیں آئی۔ ’اسی لیے ہم پوری طرح چوکس رہتے ہیں کہ کہیں ہماری بیٹی پھر سے انتہا پسند نہ بن جائے۔
انڈیا کے زیر انتظام جنوبی کشمیر کی رہائشی چودہ سالہ انشا مشتاق اس وقت سرینگر کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بستر پر شدید تکلیف میں ہیں اور ان کی والدہ رضیہ بیگم بے یار و مددگار ان کے پاس بیٹھی ہیں۔ انشا مشتاق کا چہرہ سوجنے کے بعد مکمل طور پر بگڑ گیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس میں انشا فاطمہ کو بڑی تعداد میں چھرے لگے تھے۔ ان کے والد مشتاق احمد ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انشا دیگر خاندان والوں کے ساتھ اپنے گھر کی پہلی منزل پر تھیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’میں نماز پڑھنے مسجد گیا تھا۔ انشا نے جیسے ہی کھڑکی سے باہر جھانکا تو سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکار نے انتہائی قریب سے ان پر چھرے فائر کیے۔‘امراضِ چشم کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر طارق قریشی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انشا مشتاق کی دونوں آنکھوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ اب دوبارہ بینائی حاصل نہیں کر پائیں گی۔‘ ڈاکٹر طارق قریشی نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسے تقریباً 117 کیسز آئے ہیں۔ ان میں سے سات لوگ چھروں کی وجہ سے بینائی کھو بیٹھے ہیں جبکہ دیگر 40 افراد کو آنکھوں پر معمولی زخم آئے جنھیں طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔‘

چھروں والی بندوق (پیلیٹ گن) ایک شاٹ گن ہوتی ہے جسے عام طور پر جانوروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلی مرتبہ اس قسم کی گن کا بطور غیر مہلک ہتھیار استعمال سنہ 2010 میں کیا گیا تھا۔ اس بندوق سے ایک وقت میں بڑی تعداد میں گول چھرے فائر کیے جاتے ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ نکلتے ہیں۔ پیلیٹ گن کے کارتوس میں تقریباً پانچ سو چھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس پھٹتا ہے تو چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔عام گولی کی نسبت یہ کم مہلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی شدید زخم آ سکتے ہیں خاص طور پر اگر یہ چھرے آنکھ میں لگیں۔ کشمیر میں چھروں سے آنے والے زخموں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ’بے ڈھنگے اور نوکیلے چھرے دیکھے ہیں جن سے اس مرتبہ زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔‘ انڈیا کی سکیورٹی فورسز کو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت کارروائی کرنی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی کشیدہ صورتحال میں ٹانگوں کا نشانہ بنایا جائے۔ تاہم 90 فیصد زخم وہ جسم کے اوپر کے حصوں پر آئے ہیں۔ کشمیر میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیشور یادو کا اس بات پر اسرار ہے کہ اہلکاروں نے ’مظاہرین سے نمٹنے میں کافی حد تک تحمل کا مظاہرہ کیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک خصوصی کارتوس کا استعمال کیا جو کم اثر اور غیر مہلک ہے۔‘ لیکن بہت سے لوگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری فورسز نے جان بوجھ کر سینے اور سروں کو نشانہ بنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے ہلاک کرنے کے لیے نشانہ بنایا۔‘سرینگر ہسپتال جہاں انشا مشتاق زیر علاج ہیں ایسی دردناک اور کرب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ 17 سالہ شبیر احمد ڈار کو نرس طبی امداد فراہم کر رہی ہیں اور ڈاکٹروں کو ڈر ہے کہ شبیر اپنی دائیں آنکھ کی بینائی کھو بیٹھیں گے۔ ان کے بیڈ کے قریب ہی موجود 16 سالہ عامر فیاض غنی نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے گھر جا رہا تھا کہ کوئی چیز میری آنکھ پر زور سے آکر لگی۔‘ ڈاکٹروں کے خیال میں فیاض غنی خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کی آنکھ بچائی جا سکتی ہے۔ ایسے زخمی اگر بچ بھی جائیں تو انھیں بڑے پیمانے پر مالی مشکلات اور ٹراما کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ 15 سالہ عابد میر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ عابد میر کے گھر والوں کو اب ان کا علاج کروانے کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے، وہ انھیں ریاست پنجاب میں امرتسر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔ ان کے گھر والوں نے بتایا کہ ’عابد کے علاج پر دو لاکھ روپے خرچ آیا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اُنھیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات کے دوران دھاندلی اور خونریزی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا ہوا تو پھر مسلم لیگ ن کو 2014 کا دھرنا بھُلا دیا جائےگا۔‘ بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’نریندر مودی کس طرح اٹل بہاری واجپائی، راجیو گاندھی یا کسی اور انڈین وزیرِ اعظم کی طرح ہو سکتے ہیں۔ ہر کوئی امن چاہتا ہے لیکن آپ کس طرح اِس بربریت کو دیکھ سکتے ہیں، سارے معاملے سے علیحدہ رہ کر لوگوں کو مرتے دیکھ سکتے ہیں۔؟‘ اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان یہ ثابت کرے گی کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تشدد کے معاملے پر درست موقف کا ساتھ دے رہے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چاہے پیپلز پارٹی کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات میں فتح حاصل ہو یا نہ ہو وہ کبھی ظالم کا ساتھ نہیں دے گی۔‘

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ’میں اِس بات پر عمران خان سے اتفاق کرتا ہوں کہ فی الحال جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ میاں محمد نواز شریف کے طرزِ حکومت سے ہے، لیکن میں عمران خان کی اِس بات سے اختلاف کرتا ہوں جو اُنھوں نے کسی غیر آئینی قدم کے جواب میں عوامی ردِ عمل کے بارے میں کہی ہے۔‘ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت جانتی ہے کہ اُس نے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا کیسے مقابلہ کیا تھا اور اب بھی وہ متحد ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے خاندان پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ سرمایہ دار نہیں بلکہ اجارہ دار ہیں کیونکہ ’اگر مُرغی کا کاروبار ہے تو انڈے بھی خود ہی بیچتے ہیں اگر سٹیل کا کاروبار ہے تو سٹیل ملیں بھی اپنی، اور پھر ملک کا وزیرِ خزانہ اُس کی تشہیر کرتا ہے کہ اگر دالیں مہنگی ہیں تو مُرغی کھاؤ۔‘
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ خاندان افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔ اب انھیں واپس پاکستان لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک ماہ میں صرف اڑھائی ہزار خاندانوں نے ہی آمادگی ظاہر کی ہے۔ افغانستان نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں کو اب دوسری مرتبہ یکم اگست تک کی حتمی تاریخ دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رجسٹریشن فارم مکمل کر کے غلام خان میں قائم رجسٹریشن مرکز میں جمع کروا دیں۔ شمالی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جو متاثرین رجسٹریشن نہیں کرا سکے ان کے بارے میں اعلی سطح پر منعقد ہونے والے آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جا ئےگا۔ اس سے پہلے یکم جولائی کی تاریخ دی گئی تھی لیکن اس وقت تک کم ہی لوگ رجسٹریشن فارم جمع کرا پائے تھے۔ افغانستان کے صوبے خوست اور دیگر علاقوں میں ساڑھے سات ہزار پاکستانی خاندان متاثرین کے کیمپوں، رشتہ داروں اور کرائے کے مکانوں میں مقیم ہیں۔کامران آفریدی نے بتایا کہ یہ قبائلی رہنماؤں کا مطالبہ تھا اور اس کے لیے انھوں نے افغانستان ایک نمائندہ وفد بھیجا تھا تاکہ وہاں مقیم متاثرین کو اطلاع دے دیں کہ وہ واپس اپنے وطن آنے کے لیے اپنی رجسٹریشن کرا لیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد ایک تو ان لوگوں کا ریکارڈ رکھنا ہے اور دوسرا انھیں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے دستیاب وسائل کا جائزہ لینا ہے۔ افغانستان میں مقیم پاکستانی متاثرین کی واپسی کے عمل کے لیے پہلے غلام خان چیک پوسٹ پر ان کی رجسٹریشن ہوگی اور پھر انھیں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں کے قریب قائم بکاخیل کیمپ لایا جائےگا۔ بکا خیل کیمپ میں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن مکمل

ہوگی جہاں انھیں تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی اور پھر دیگر متاثرین کے ہمراہ ان کی اپنے وطن کو واپسی کی جائے گی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر متاثرین رجسٹریشن نہیں کراتے تو پھر ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ چند روز میں ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوگا جس میں ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کیا جائےگا۔‘یہاں ایسی اطلاعات ہیں کہ ان فیصلوں میں ایک یہ فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان متاثرین کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی جائے گی۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے متاثرین کو جس طرف جانے کا موقع ملا وہ اسی جانب روانہ ہوگئے تھے ان میں وہ لوگ جو افغانستان کی سرحد کے قریب رہائش پذیر تھے وہ افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔ کامران آفریدی کے مطابق افغانستان جانے والے متاثرین میں چند ایک کرم ایجنسی کے راستے واپس پاکستان آگئے تھے۔ ادھر خیبر پختونحوا کے مختلف علاقوں میں مقیم شمالی وزیرستان ایجنسی کے متاثرین کی واپسی میں کچھ عرصے سے تیزی آئی ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ ان متاثرین کی واپسی کا یہ عمل اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں قریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ افراد ان دنوں ضلع بنوں میں مقیم ہیں۔
ترک حکام نے امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ایک دن پہلے پیر کو حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پرگذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا تھا۔ ترکی کی حکومت نے امریکہ میں مقتم فتح اللہ گولن پر الزام عائد کیا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا جبکہ گولن ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی ٭باغی فوجی اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکام، تصاویرمحکمۂ تعلیم کے پندرہ ہزار دو سو ملازمین کو معطل کرنے کے فیصلے سے قبل ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ وہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ وزارتِ تعلیم نے ملازمین کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معطل کیے جانے والے ملازمین میں کون کون شامل ہیں۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹوں کے 1500 سو سے زیادہ ڈینز کو مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔

یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی ریاست میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔
Powered by Blogger.