بیجنگ پہنچنے کے پہلے ہی دن میں اور میرا کیمرا مین ہوٹل کے آس پاس کے علاقے کی سیر کے لیے نکلے۔
ہماری گائیڈ ڈیزی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے ہوٹل سے قریب ریان نامی پارک ہے، جس میں 16ویں صدی میں تعمیر کردہ سورج معبد ہے۔ یہاں منگ خاندان کے شہنشاہ سورج دیوتا کو بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔
نیلی چھت اور سنگی مجسموں سے مزین یہ عمارت چینی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس میں جنگلی جانوروں کی ان گنت تصاویر بھی ہیں جن کا مقصد اس جگہ کو بدروحوں سے محفوظ رکھنا تھا۔
٭ چین میں کتوں کا گوشت کھلانے کے میلے کا آغاز
شہر کے دوسری طرح چاند معبد ہے، جہاں چاند اور ستاروں کے نام پر نذرانے گزارے جاتے تھے۔
پارک کے باہر خوانچہ فروش آئس کریم، کھلونے اور غبارے بیچ رہے تھے۔ سورج ڈھلنے کو تھا اور پارک میں خاصی بھیڑ تھی۔ ایک کونے سے آپیرا کی موسیقی کی آواز آ رہی رہی تھی۔
چین میں آپیرا دو ہزار سال قدیم صنف ہے اور یہ آج بھی خاصی مقبول ہے۔ آپ کو چین کے ہر پارک کے کسی کونے کھدرے میں کوئی گلوکار مائیک تھامے آپیرا گاتا مل جائے گا۔
پارک کا ایک چکر لگانے کے بعد بھوک چمک اٹھی اور ہمیں رات کا کھانا کھانے کی سوجھی۔ معبد کے سامنے کئی ریستوران کھلے تھے جن میں ایک کے باہر کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم وہیں جا کر بیٹھ گئے۔
میں نے سن رکھا تھا کہ چینی کھانے بہت عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ میں لندن میں کئی بار چینی کھانے کھا چکا تھا لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ چین میں ملنے والا کھانا مختلف ہوتا ہے۔اس ریستوران میں ایک ڈش کا نام ہاٹ پاٹ تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ چین میں خاصی مقبول ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی سوس ڈالی جاتی ہے اور پھر مختلف قسموں کے گوشت اور سبزیاں شامل کی جاتی ہیں۔
میز کے بیچوں بیچ ایک شعلہ روشن تھا، جہاں ہاٹ پاٹ لا کر رکھا جانا تھا۔
جب وہ ابلنا شروع کرے تو آپ اس میں حسبِ منشا گوشت اور سبزیاں ڈال سکتے ہیں۔
گوشت کی کئی اقسام دستیاب تھیں، جن میں پورک کے کان سے لے کر بھیڑ کا معدہ، دنبہ، مچھلی، جھینگا اور مرغی کا گوشت شامل تھا۔ میرے ساتھی اینڈریو نے پورک کا آرڈر دیا اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھیڑ کا معدہ کھانا پسند کروں گا؟ میں گوشت زیادہ رغبت سے نہیں کھاتا لیکن اس موقعے پر میں نے ہاں کر دی۔
سوس میں اس قدر مرچیں تھیں کہ اس نے میرے ہونٹ اور زبان کو مکمل طور پر سُن کر کے رکھ دیا۔
ہم نے اس میں گوشت اور سبزیاں ڈالیں اور کھانا شروع کر دیا۔
میں نے اب تک وہ عجیب و غریب خوراک نہیں دیکھی تھی جس کے بارے میں مجھے چین آنے سے پہلے خبردار کیا گیا تھا۔ بھیڑ کا گوشت کھانا بطور ایرانی میرے لیے کچھ زیادہ نرالی بات نہیں تھی۔ کھانا خاصا لذیذ تھا۔ ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ بل دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ اس قدر عمدہ کھانا اور ڈرنکس اور صرف دس ڈالر میں؟ لندن میں تو اتنے پیسوں کا مشکل سے ایک برگر آتا ہے۔
اگلے کئی دنوں میں مجھے مزید چینی کھانے کا موقع ملتا رہا۔ یورپ میں جو چینی خوراک ملتی ہے اس کے مقابلے پر اصل چینی کھانے کہیں سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں سادہ سے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کے بنانے کا طریقہ بھی انڈین یا ایرانی کھانوں کی طرح کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا۔
چینی کھانوں کا بنیادی جزو انڈا ہے۔ میری پسندیدہ ڈش سویا سوس میں ابلا ہوا انڈا بن گئی۔ اس طرح انڈے کی جلد گہری بھوری ہو جاتی ہے اور چائے کے ساتھ سویا کی نمکینی کچھ اور ہی لطف دیتی ہے۔
ایک دن ہم لوگ بیجنگ کے باہر شوٹنگ کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے۔ ایک جگہ تو حالات یہاں تک پہنچے کہ پورا ایک گھنٹہ گاڑی اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہیں ہوئی۔ رات کے دس بج چکے تھے اور ہماری تھکاوٹ اور بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اتنے میں ایک سروس سٹیشن آ گیا۔
وہاں کھانے کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے تھے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے بڑے جوش سے بتایا کہ وہاں گدھے کے گوشت کے برگر بکتے ہیں! ہمارے طویل قامت چینی ڈرائیور نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بھوک کا اظہار کیا لیکن میں سیدھا انڈوں والے کھوکھے کی طرف چلا گیا اور اپنے پسندیدہ انڈے خرید لیے۔ البتہ میرے کیمرا مین اور ڈرائیور نے گدھے کے برگر کھائے اور بظاہر یہ انھیں خاصے پسند بھی آئے۔
چین بڑا ملک ہے۔ اس کے وسیع رقبے کی وجہ سے وہاں کے کھانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ بڑی آبادی، غربت، اور ماضی میں چینی بخار کی وبا جیسے عناصر چینی خوراک پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ڈیزی نے مجھے بتایا کہ ان کا خاندان ایک زمانے میں گوشت خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے لیے پروٹین کا بڑا ذریعہ کیڑے مکوڑے تھے۔ ڈیزی کی عمر 34 برس ہے اور اس کا تعلق جنوبی چین سے ہے۔
میں چین میں 11 دن رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت نے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں پر مختصر وقت میں ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔ متوسط طبقے تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے چینی کھانوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔
تاہم اب چینی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے، جس کا اثر اس کے معاشرے پر بھی پڑے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے چین کا سیاسی نظام بھی بدل جائے گا، اور ممکن ہے کہ چینی سیاست دان اپنے یک جماعتی نظام پر بھی نظرِ ثانی کریں۔
سست رو معیشت سے افراطِ زر اور بےروزگاری پھیلنا لازمی امر ہے اور وہی متوسط طبقہ جو آسائشوں کا عادی ہوتا جا رہا ہے، اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا اور نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا شروع کر دے گا۔
نپولین نے چین کو ایشیا کا اژدہا کہا تھا، اور کہا تھا کہ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔
یہ اژدہا آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا ہے اور نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھ ساری دنیا کو بدل رہا ہے۔