انڈیا میں کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کے سامنے ایک لمحۂ فکریہ ہے: یا تو وہ یہ ثابت کریں کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا یا پھر آر ایس ایس سے معافی مانگیں۔ مہاتاما گاندھی کو آزادی کے صرف پانچ مہینے بعد 30 جنوری 1948 کو قتل کیا گیا تھا اور ان کے قتل کے جرم میں ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی تھی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے تھا اور مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر عارضی پابندی بھی عائد کی تھی۔ ٭ گاندھی کی زندگی کے آخری دس برس راہل گاندھی نے دو برس قبل پارلیمانی انتخابات کے دوران کہا تھا کہ ’آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کو مارا تھا۔۔۔ اور اب وہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو کی بات کرتے ہیں۔‘ آر ایس ایس نے اس بیان کے بعد راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ مقدمہ خارج کرانے کے لیے راہل گاندھی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن عدالت نے کہا کہ یا تو اپنا الزام ثابت کیجیے یا معافی مانگیے، ورنہ مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ ’آپ پوری تنظیم کو ایک ہی رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔‘

مقدمے کی سماعت کے دوران گوڈسے نے بنیادی طور پر یہ کہا تھا کہ گاندھی قیام پاکستان کے لیے ذمہ دار تھے اور مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ گوڈسے نے عدالت میں دعوی کیا کہ ’میں نے اس شخص پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے لاکھوں ہندوؤں کو بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔‘ اس مقدمے میں سخت گیر ہندو مہاسبھا کے سابق صدر ونایک ساورکر کو بھی ملزم بنایا گیا تھا لیکن ان پر جرم ثابت نہیں ہو سکا حالانکہ مورخ اے جی نورانی کے مطابق سردار پٹیل نے وزیر اعظم نہرو کو لکھا تھا کہ قتل کی سازش جن لوگوں نے تیار کی تھی ان کی براہ راست سربراہی ساورکر ہی نے کی تھی۔ انڈیا میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا سے تھا۔لیکن سپریم کورٹ کے اس حکم سے ایک نئی سیاسی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ راہل گاندھی اپنا بیان واپس لیں گے، یا معافی مانگیں گے۔ ان کے وکیل نے جرح کے دوران کہا کہ جو کچھ راہل گاندھی نے کہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے، اور حکومت کے ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ لیکن اس دلیل سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی۔ اگر راہل گاندھی پر یہ مقدمہ چلتا ہے تو آزاد ہندوستان کے پہلے سیاسی قتل کی تمام پرتیں اور باریکیاں دوبارہ سے قانون کی کسوٹی پر پرکھی جا سکتی ہیں۔
بیجنگ پہنچنے کے پہلے ہی دن میں اور میرا کیمرا مین ہوٹل کے آس پاس کے علاقے کی سیر کے لیے نکلے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے ہوٹل سے قریب ریان نامی پارک ہے، جس میں 16ویں صدی میں تعمیر کردہ سورج معبد ہے۔ یہاں منگ خاندان کے شہنشاہ سورج دیوتا کو بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ نیلی چھت اور سنگی مجسموں سے مزین یہ عمارت چینی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس میں جنگلی جانوروں کی ان گنت تصاویر بھی ہیں جن کا مقصد اس جگہ کو بدروحوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ ٭ چین میں کتوں کا گوشت کھلانے کے میلے کا آغاز شہر کے دوسری طرح چاند معبد ہے، جہاں چاند اور ستاروں کے نام پر نذرانے گزارے جاتے تھے۔ پارک کے باہر خوانچہ فروش آئس کریم، کھلونے اور غبارے بیچ رہے تھے۔ سورج ڈھلنے کو تھا اور پارک میں خاصی بھیڑ تھی۔ ایک کونے سے آپیرا کی موسیقی کی آواز آ رہی رہی تھی۔ چین میں آپیرا دو ہزار سال قدیم صنف ہے اور یہ آج بھی خاصی مقبول ہے۔ آپ کو چین کے ہر پارک کے کسی کونے کھدرے میں کوئی گلوکار مائیک تھامے آپیرا گاتا مل جائے گا۔ پارک کا ایک چکر لگانے کے بعد بھوک چمک اٹھی اور ہمیں رات کا کھانا کھانے کی سوجھی۔ معبد کے سامنے کئی ریستوران کھلے تھے جن میں ایک کے باہر کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم وہیں جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ چینی کھانے بہت عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ میں لندن میں کئی بار چینی کھانے کھا چکا تھا لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ چین میں ملنے والا کھانا مختلف ہوتا ہے۔اس ریستوران میں ایک ڈش کا نام ہاٹ پاٹ تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ چین میں خاصی مقبول ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی سوس ڈالی جاتی ہے اور پھر مختلف قسموں کے گوشت اور سبزیاں شامل کی جاتی ہیں۔ میز کے بیچوں بیچ ایک شعلہ روشن تھا، جہاں ہاٹ پاٹ لا کر رکھا جانا تھا۔

جب وہ ابلنا شروع کرے تو آپ اس میں حسبِ منشا گوشت اور سبزیاں ڈال سکتے ہیں۔ گوشت کی کئی اقسام دستیاب تھیں، جن میں پورک کے کان سے لے کر بھیڑ کا معدہ، دنبہ، مچھلی، جھینگا اور مرغی کا گوشت شامل تھا۔ میرے ساتھی اینڈریو نے پورک کا آرڈر دیا اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھیڑ کا معدہ کھانا پسند کروں گا؟ میں گوشت زیادہ رغبت سے نہیں کھاتا لیکن اس موقعے پر میں نے ہاں کر دی۔ سوس میں اس قدر مرچیں تھیں کہ اس نے میرے ہونٹ اور زبان کو مکمل طور پر سُن کر کے رکھ دیا۔ ہم نے اس میں گوشت اور سبزیاں ڈالیں اور کھانا شروع کر دیا۔ میں نے اب تک وہ عجیب و غریب خوراک نہیں دیکھی تھی جس کے بارے میں مجھے چین آنے سے پہلے خبردار کیا گیا تھا۔ بھیڑ کا گوشت کھانا بطور ایرانی میرے لیے کچھ زیادہ نرالی بات نہیں تھی۔ کھانا خاصا لذیذ تھا۔ ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ بل دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ اس قدر عمدہ کھانا اور ڈرنکس اور صرف دس ڈالر میں؟ لندن میں تو اتنے پیسوں کا مشکل سے ایک برگر آتا ہے۔ اگلے کئی دنوں میں مجھے مزید چینی کھانے کا موقع ملتا رہا۔ یورپ میں جو چینی خوراک ملتی ہے اس کے مقابلے پر اصل چینی کھانے کہیں سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں سادہ سے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کے بنانے کا طریقہ بھی انڈین یا ایرانی کھانوں کی طرح کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا۔ چینی کھانوں کا بنیادی جزو انڈا ہے۔ میری پسندیدہ ڈش سویا سوس میں ابلا ہوا انڈا بن گئی۔ اس طرح انڈے کی جلد گہری بھوری ہو جاتی ہے اور چائے کے ساتھ سویا کی نمکینی کچھ اور ہی لطف دیتی ہے۔ ایک دن ہم لوگ بیجنگ کے باہر شوٹنگ کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے۔ ایک جگہ تو حالات یہاں تک پہنچے کہ پورا ایک گھنٹہ گاڑی اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہیں ہوئی۔ رات کے دس بج چکے تھے اور ہماری تھکاوٹ اور بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اتنے میں ایک سروس سٹیشن آ گیا۔ وہاں کھانے کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے تھے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے بڑے جوش سے بتایا کہ وہاں گدھے کے گوشت کے برگر بکتے ہیں! ہمارے طویل قامت چینی ڈرائیور نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بھوک کا اظہار کیا لیکن میں سیدھا انڈوں والے کھوکھے کی طرف چلا گیا اور اپنے پسندیدہ انڈے خرید لیے۔ البتہ میرے کیمرا مین اور ڈرائیور نے گدھے کے برگر کھائے اور بظاہر یہ انھیں خاصے پسند بھی آئے۔ چین بڑا ملک ہے۔ اس کے وسیع رقبے کی وجہ سے وہاں کے کھانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ بڑی آبادی، غربت، اور ماضی میں چینی بخار کی وبا جیسے عناصر چینی خوراک پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ڈیزی نے مجھے بتایا کہ ان کا خاندان ایک زمانے میں گوشت خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے لیے پروٹین کا بڑا ذریعہ کیڑے مکوڑے تھے۔ ڈیزی کی عمر 34 برس ہے اور اس کا تعلق جنوبی چین سے ہے۔ میں چین میں 11 دن رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت نے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں پر مختصر وقت میں ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔ متوسط طبقے تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے چینی کھانوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔ تاہم اب چینی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے، جس کا اثر اس کے معاشرے پر بھی پڑے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے چین کا سیاسی نظام بھی بدل جائے گا، اور ممکن ہے کہ چینی سیاست دان اپنے یک جماعتی نظام پر بھی نظرِ ثانی کریں۔ سست رو معیشت سے افراطِ زر اور بےروزگاری پھیلنا لازمی امر ہے اور وہی متوسط طبقہ جو آسائشوں کا عادی ہوتا جا رہا ہے، اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا اور نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا شروع کر دے گا۔ نپولین نے چین کو ایشیا کا اژدہا کہا تھا، اور کہا تھا کہ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ یہ اژدہا آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا ہے اور نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھ ساری دنیا کو بدل رہا ہے۔
انڈیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اُٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں ایودھیا میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انھیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گيا تھا۔ ان کے بیٹے اقبال انصاری نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔‘ ان کے بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ آج بدھ کے روز ہی بعد نماز مغرب ان کی تدفین تاریخی قبرستان میں کی جائے گی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبر شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔ 60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔

وہ اس مقدمے کو سیاسی رنگ دیے جانے کے خلاف تھے اور ان کے مطابق اسی سبب سخت گیر ہندوؤں نے چھ دسمبر سنہ 1992 میں اس 16ویں صدی کی تاریخی مسجد کو منہدم کردیا۔ سنہ 2014 میں ہمارے نمائندے شکیل اختر نے ایودھیا میں ہاشم انصاری سے ملاقات کی تھی جب انھوں نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ ’جمہوریت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔‘ ان کے خیال میں اس کا حل نہیں ہے اور ایک بار تو انھوں نے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے مقدمے سے دست بردار ہونے کی بات کہی تھی۔ انھوں کہا کہ ’آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجیے۔ مجھے بابری مسجد نہیں چاہیے۔‘پچھلے دنوں جب ہاشم انصاری نے یہ بیان دیا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکیولر، ایماندار اور شکستہ دل کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا جہاں کبھی انھوں نے نماز پڑھی تھی۔ سنہ 2010 میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ہاشم انصاری نے کہا تھا: ’میں سنہ 1949 سے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن آج تک کسی ہندو نے ہم کو ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ہمارا ان سے بھائی چارہ ہے۔ وہ ہم کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں مع اہل و عیال دعوت پر جاتے ہیں۔‘ متنازع مقام کے دوسرے اہم دعویداروں میں نرموہی اکھاڑے کے رام کیول داس اور دگمبر اکھاڑہ کے رام چندر پرمہنس سے ہاشم کی آخر تک گہری دوستی رہی۔ پرمہنس اور ہاشم تو اکثر ایک ہی رکشے یا گاڑی میں بیٹھ کر مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت جاتے تھے اور ساتھ ہی چائے ناشتہ کرتے تھے۔
پاکستان میں قانون نافد کرنے والے اداروں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حق میں مختلف شہروں میں بینرز لگانے کے الزام میں ایک غیر معروف سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان‘ کے سربراہ میاں کامران کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم کے خلاف موجودہ حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت پراکسانے کا مقدمہ درج ہے جس کی قانون میں سزا عمر قید ہے۔ ٭ فوج کے حق میں بینرز لگانے والوں کے خلاف مقدمہ درج ٭ ’شاید نواز شریف طوفان گزر جانے کا انتظار کر رہے ہیں‘ اس جماعت کی جانب سے مختلف شہروں میں لگائے گئے ان بینرز پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ ’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کے لیے اب تو آجاؤ۔‘ موو آن پاکستان کے سربراہ میاں کامران کو اسلام آباد کے علاقے آبپارہ سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں پر وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔

ملزم کامران اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔ اسلام آباد میں یہ مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جبکہ دیگر شہروں میں ملزمان کے خلاف مقدمات ریاست اور عام شہریوں کی طرف سے درج کروائے گئے ہیں۔ تھانہ سیکرٹریٹ کے انچارج حاکم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کامران کو لاہور سے آئی ہوئی پولیس کی ٹیم نے گرفتار کیا ہے جبکہ اسلام آباد میں درج ہونے والے مقدمے میں ملزم نے 22 جولائی تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی۔ اس مقدمے میں میاں کامران کے علاوہ دیگر نو افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ملزمان کا تعلق پنجاب کے وسطی شہر فیصل آباد سے ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے آرمی چیف کے حق میں بینز لگانے کا الزام حکومت پر عائد کیا تھا کہ جو اُن کے بقول پاناما لیکس اور دیگر معاملات سے سیاسی جماعتوں اور عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت اور پاکستانی فوج نے ایسے بینرز لگانے سے لا تعلقی کیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ فوج یا اس کے کسی بھی ادارے کا ایسے بینرز لگانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد مختلف شہروں میں لگائے گئے بینرز اتار دیے گئے ہیں۔
امریکہ کے ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپبلکن پارٹی نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے باضابطہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں جاری رپبلکن کنونشن میں ووٹنگ کے دوران ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ریاست نیویارک کی جانب سے اپنے والد کی حمایت کا اعلان کیا، جس کے بعد انھیں صدارتی نامزدگی کے لیے درکار 1237 سے زیادہ مندوبین کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد ایوانِ نمائندگان کے سپیکر پال رائن نے رپبلکن پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کے حامی کل مندوبین کی تعداد 1725 رہی، جب کہ ان کے قریب ترین حریف ٹیڈ کروز صرف 475 مندوبین کی حمایت ہی حاصل کر پائے۔ سابق امریکہ صدر بش کے بھائی جیب بش صرف تین مندوبین کی حمایت بٹور سکے۔ٹرمپ نے ٹویٹ کی: ’یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں سخت محنت کروں گا اور آپ کو مایوس نہیں ہونے دوں گا۔ سب سے پہلے امریکہ!!!‘ ٹرمپ جونیئر نے کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’یہ میری زندگی کا عجیب ترین دن ہے۔ یہ حقیقی لمحہ ہے۔ وہ حقیقی شخصیت ہیں جنھوں نے کام کر کے دکھایا ہے، وہ اس ملک کے لیے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘

 ٹرمپ کا مقابلہ ڈیموکریٹ پارٹی کی ہلیری کلنٹن سے ہو گا، جنھوں نے اس خبر پر فوری ردِعمل دکھاتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’ڈونلڈ ٹرمپ ابھی ابھی رپبلکن امیدوار بن گئے ہیں۔ ابھی ہمارے ساتھ شامل ہو کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کبھی بھی (وائٹ ہاؤس کے) اوول آفس میں قدم نہ رکھ پائیں۔‘ رپبلکن کنونشن کے موقعے پر ٹرمپ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے والے نائب صدر کے امیدوار مائیک پینس کی بھی باقاعدہ نامزدگی کا اعلان کر دیا گیا۔ لیکن خود رپبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے مخالفوں کی کمی نہیں۔ گذشتہ روز ان کے مخالفین نے ان کی نامزدگی کا راستہ روکنے کے لیے رائے شماری کروانے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ اس کے علاوہ ان کی اہلیہ میلانیا کی تقریر پر سرقے کا الزام عائد کیا گیا، جب کہ کئی اہم رپبلکن رہنماؤں نے اس اہم کنونشن میں شرکت کرنے پر گھر بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ ان میں بش سینیئر، بش جونیئر اور مٹ رامنی جیسے اہم رپبلکن شامل ہیں۔ کنونشن سے کئی لوگوں نے خطاب کیا جنھوں نے ہلیری کلنٹن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا الزام تھا کہ سابق خاتونِ اول عام امریکیوں کے مسائل سے نابلد ہیں اور صدر اوباما کی ’جابرانہ‘ روایت کا تسلسل ہیں۔ توقع ہے کہ 68 سالہ ہلیری کلنٹن کی باضابطہ صدارتی نامزدگی کا اعلان اگلے ہفتے فلیڈیلفیا میں ہونے والے ڈیموکریٹک کنونشن میں کیا جائے گا۔
ترکی میں گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔ ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی حکومت کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے افراد میں ترکی کی سکیورٹی سروسز سے لے کر سول سروسز اور محکمۂ تعلیم سے لے کر میڈیا تک تمام اہم شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا ہے کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ترکی کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔پارلیمان سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن ایک دہشت گرد تنظیم کے قائد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔‘ ترکی امریکہ سے فتح گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترک صدر اردوغان نے منگل کو امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان سے فون پر بات کر کے انھیں گذشتہ ہفتے کی ناکام فوجی بغاوت کی تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی ترکی حوالگی کے معاملے پر بات کی۔ ترکی کا الزام ہے کہ گولن نے گذشتہ ہفتے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی سازش تیار کی تھی، جب کہ گولن نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا: ’صدر اوباما نے پرتشدد مداخلت کے خلاف ترک عوام کی جرات اور جمہوریت کے لیے ان کے عزم کو سراہا۔ ’صدر اوباما نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ بغاوت کی تحقیقات کے سلسلے میں ترک حکام کی مناسب مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ اس سے قبل ترکی نے کہا تھا کہ اس نے گولن کے بارے میں کچھ ’مواد‘ امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ترکی کی جانب سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی کسی بھی درخواست پر دوطرفہ معاہدے کے تحت غور کیا جائے گا۔ صدر اردوغان بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترک حکام نے بغاوت فرو کیے جانے کے بعد سے فتح اللہ گولن سے مبینہ تعلق پر محکمۂ تعلیم کے 15 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ترکی کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے یونیورسٹیوں کے 1577 سو سے زیادہ ڈینز کو بھی مستعفی ہونے کا حکم دیا ہے۔ ان سے پہلے منگل کو حکام نے وزارتِ داخلہ کے 8777 جبکہ وزارتِ خزانہ کے 1500 ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔ ترک وزیرِ اعظم کے دفتر میں کام کرنے والے 257 افراد کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد سے ملک میں فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور قریباً نو ہزار پولیس اہلکار برطرف کیے جا چکے ہیں۔زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ صدر طیب اردوغان نے سازش کا ذمہ دار ملک میں پائے جانے والے ایک ’متوازی نظام‘ کو قرار دیا تھا، جو کہ امریکی شہر میامی میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کی جانب واضح اشارہ تھا۔ صدر اردوغان کا الزام ہے کہ فتح اللہ ترکی میں بے چینی پیدا کرنے ذمہ دار ہیں۔ پیر کو صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 290 ہے جن میں سے 100 سے زیادہ بغاوت کرنے والے افراد ہیں۔
گذشتہ ہفتے فرانس کے ساحلی شہر نیس میں ایک حملے میں 84 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاسی الزام تراشیاں ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہ پریشان کن سوال دُہرایا جا رہا ہے کہ آخر فرانس میں لوگوں کو جہاد کی جانب راغب ہونے سے کیسے روکا جائے۔ فرانس کے قومی دن پر جب محمد لحوايج بوہلال نے ٹرک ایک ہجوم پر چڑ ھا دیا، تو ہو سکتا ہے کہ وہاں پر موجود عام لوگوں کو اس حملے پر شدید حیرت ہوئی ہو، لیکن جہاں تک شہر کے سرکاری افسران کا تعلق ہے تو آپ انھیں یہ الزام نہیں دے سکتے کہ دہشتگردی کے خطرے سے بےخبر تھے اور اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ اس حملے سے بہت پہلے جب جنوری سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں نے پوری فرانسیسی قوم کو جگا دیا تھا تو سرکاری حکام نے ملک میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔ جہاں تک نیس کا تعلق ہے تو یہاں بھی سنہ 2000 کے پہلے عشرے میں ہی دیگر فکرمند حلقوں کے علاوہ مقامی ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اس بات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی تھی کہ شہر کے ان علاقوں میں جہاں تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے وہاں لوگ فرانس کی تہذیب اور اس کی اقدار کو رد کر رہے ہیں۔ ٭ نیس میں حملہ کرنے والا کون تھا؟ ٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘ شہر کی ایک کونسلر اور اس کے پسماندہ علاقے میں 35 سال سے سکول میں پڑھانے والی کیتھرین لکوننی کہتی ہیں کہ ایک عرصے سے ان کا مشاہدہ یہی ہے کہ لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ زیادہ کٹر خیالات کو اپنا رہے ہیں۔ ان کے بقول ’ پرانے وقتوں میں میرے سکول میں پڑھنے والے بچوں کی مائیں ماڈرن ہوتی تھیں۔ یہ خواتین کبھی بھی حجاب نہیں لیتی تھیں، لیکن اب بچیاں بھی حجاب لیتی ہیں اور ان کی مائیں بھی۔ بچوں کی مائیں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے انھیں کہتے ہیں کہ وہ پردہ کیا کریں۔‘ احساسِ محرومی ماہرین کے مقامی گروپ سے منسلک برجٹ اربیبو کا کہنا ہے کہ گذشتہ عرصے میں لوگوں میں اپنی الگ شناخت کا احساس بہت عام ہو گیا اور اس کی بنیاد ان لوگوں کی شکایات ہیں۔ ’سنہ 2012 سے ان لوگ کو شکوہ ہے کہ ان کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔ ان لوگوں کو یقین ہے کہ امریکیوں اور یہودیوں کا اتحاد ان کے خلاف ہے۔ یہ لوگ کھلے عام یہودیوں اور مغرب کے خلاف باتیں کرنا شروع ہوگئے تھے۔ اور پھر آنے والے دو برسوں میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ نیس اور اس کے نواح کا علاقہ فرانس میں سب سے زیادہ جہادی فراہم کرنے والا علاقے بن گیا ہے۔ مثلاً وہ لوگ جو فرانس سے جہاد کے لیے شام گئے ان میں سے دس فیصد کا تعلق یہاں سے تھا۔ نیس شہر اور ایپلس میریٹائم کے صوبائی حکام اس نئے رجحان کا جائزہ لے رہے تھے، اور پھر جنوری 2015 میں پیرس حملوں میں 17 افراد کی ہلاکت کے بعد ان حکام نے مقامی حالات پر زیادہ کڑی نظر رکھنا شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے علاقائی سطح پر ’انسدادِ انتہاد پسندی‘ کا ایک یونٹ بھی قائم کیا گیا جس میں اساتذہ، سوشل ورکروں اور سکیورٹی کے ماہرین کو جمع کیا گیا۔ یہ ماہرین ہر ہفتے ملتے ہیں اور اگر کسی خطرے کی علامات نظر آئیں تو اس کی تفتیش بھی کرتے ہیں۔نیس کے میئر نے ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جہاں کسی بھی وقت کال کی جا سکتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن ان گھرانوں کے لیے قائم کی گئی ہے جن کو خطرہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ افراد اور گھرانوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد فرام کرنے کے لیے شہر کے کونسلروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ اِس سال کے شروع میں جب حکام کو بتایا گیا کہ نیس کے کچھ فٹبال کلبوں میں باجماعت نماز کا انتظام کیا جاتا ہے تو میئر نے خبردار کیا کہ وہ کلب جو یہاں کے ’سیکولر دستور‘ کا احترام نہیں کرتے ان کی مالی مدد بند کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں استادوں، ماہرین تعلیم اور مقامی تنظیموں کے اہلکاروں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ’

بڑا بھائی‘ فرانس کے اِس علاقے میں شدت پسندی کے خلاف کام کرنے والوں میں سب سے بڑے مقرر عبداللہ مراہ ہیں ۔ عبداللہ مراہ دراصل محمد مراہ کے بڑے بھائی ہیں۔ تلوز کا رہائشی محمد مراہ وہ شخص تھا جس نے مارچ سنہ 2012 میں فوجیوں اور یہودی سکول کے بچوں پر حملہ کر کے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ محمد مراہ فرانس کا وہ پہلا مقامی جہادی تھا جس نے فرانس کی سرزمین پر دہشتگردی کی تھی اور اسے اب بھی ملک کے انتہاپسند حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ محمد کے برعکس اس کے 39 سالہ بڑے بھائی عبدالغنی کا کہنا ہے کہ انسدادِ انتہاپسندی کے ماہرین کے ساتھ کام کر کے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر لگے اس داغ کو دھونا چاہتے ہیں جو ان کے بھائی نے لگایا تھا، بلکہ دیگر نوجوانوں کو انتہاپسندانہ نظریات کے خطرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔عبدالغنی مراہ کے بقول ’میں کچھ نوجوانوں میں مشہور محمد مراہ کی اس شبیہہ کو توڑ دینا چاہتا ہوں کہ محمد ایک بہت بڑا ہیرو اور اسلام کا سپاہی تھا۔ عبدالغنی کا پیغام یہ ہے کہ فرانس ایسا ملک نہیں جہاں مقامی لوگ مسلمانوں کو دبانے پر تلے بیٹھے ہیں، بلکہ اس کے برعکس ’فرانس ایک خوبصورت اقدار کی سرزمین ہے۔‘ ’مذہبی کنوارا پن‘ نیس اور اس کے گر د ونواح میں انتہاپسندی کے خلاف سرگرم لوگوں میں مذہبی رہنما بھی بہت اہم کراد ر ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک ابوبکر بکری ہیں جو سرکاری فلیٹوں سے منسلک ایک مسجد کے امام ہیں اور مسلم کونسل کے علاقائی نائب صدر بھی۔ سنہ 2012 میں جب محمد مراہ والا معاملہ چل رہا تھا تو ابوبکر بکری نے بھی شہر کے اس پسماندہ علاقے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو محسوس کیا۔ اس وقت سے وہ مسلسل اس رجحان کو روکنے کی کوشش میں رہے ہیں، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کوششیں پوری طرح بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ دو ایسے نوجوانوں سے بات کر رہے تھے جن کی والدہ انھیں ان کے ہاں لائی تھیں۔ ’میں نے انھیں بتایا کہ انتہاپسندی اسلام کے خلاف ہے، لیکن بدقسمتی سے میری اس حکمت عملی نے کام نہیں کیا، کیونکہ دو ماہ بعد وہ دونوں لڑکے شام جانے کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ پولیس نے انھیں فرانس سے نکلنے سے پہلے پکڑ لیا تھا۔‘ابوبکر بکری کہتے ہیں کہ پریشانی میں مبتلا ان نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ یہ نوجوان ’مذہبی طور پر کنوراے‘ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کو بڑی آسانی سے قائل کر لیا جاتا ہے اگر وہ کافروں سے کوئی چیز چرایں گے تو وہ دراصل خدائی کام کر رہے ہوں گے۔ اور کسی بھی نوجوان کے لیے انتہا پسند بننا اس لیے بھی پرکشش ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے خیالات سے لڑکیوں میں بھی زیادہ مقبول ہو جاتا ہے۔ یعنی آپ پرنس چارمنگ بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کو انتہاپسندی کے جانب جو چیز راغب کرتی ہے وہ اس کا عسکری یا جنگجوئی پہلو ہے، جبکہ لڑکیاں اس جانب رومانوی خیالات اور امدادی کام کے جذبے کی وجہ سے آتی ہیں۔ برین واشنگ مندرجہ بالا باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ فرانس میں صرف تارکین وطن گھرانوں کے نوجوان ہی انتہاپسندی اور شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ مِس اربیو کہتی ہیں کہ ’انتہاپسندوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ یہ نوجون مختلف سماجی پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔‘ مثلاً نیس کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والی ایک ماڈرن خاتون کی 13 سالہ بیٹی کیرل کی کہانی کو ہی لے لیجیے جو ایک دن اچانک بدل گئی۔کیرل کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’میری بیٹی ایک خاموش اور فرض شناس لڑکی ہوا کرتی تھی اور بہترین طالبہ بھی۔ پھر اس نے سکول میں ان بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا جن کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جو یہاں خوش نہیں تھے۔‘ کیرل نے اپنے والدین سے کہنا شروع کر دیا کہ اگر وہ خنزیر کھائیں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کیرل نے انھیں ایک پروپیگنڈا وڈیو دکھائی جس میں دکھایا گیا تھا کہ جنت کیسی ہوگی اور جہنم کا منظر کیا ہوگا۔ کیرل کی والدین کے بقول ’یہ ایسا ہی تھا جیسے کوئی آپ کا بچہ چرا کر لے جائے اور پھر برین واشنگ کر کے اس کا ذہن ہی بدل دے۔ کیرل کی باتیں سن کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہمارے ساتھ یہ ہوگا۔‘ ماہرین نفسیات کی مدد سے کیرل کو انتہاس پسندی سے بال بال بچا لیاگیا۔ اب وہ سولہ سال کی ہو گئی ہے اور اس نے اس اسلام کو قبول کر لیا ہے جس پر فرانس کے زیادہ تر مسلمان عمل کرتے ہیں۔ لیکن کیرل کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی بیٹی خطرے سے مکمل باہر نہیں آئی۔ ’اسی لیے ہم پوری طرح چوکس رہتے ہیں کہ کہیں ہماری بیٹی پھر سے انتہا پسند نہ بن جائے۔
Powered by Blogger.