ترک حکام نے گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔
دوسری جانب ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
جرنیوں پر فردِ جرم کا فیصلہ صدر رجب طیب اردوغان کے ان فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا جو بغاوت کے دوران ان کے وفادار رہے تھے۔
٭ترکی میں ہزاروں برطرف، دانشوروں کے ملک چھوڑنے پر پابندی
٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان
٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی
امید ہے کہ وہ جلد ہی اہم اعلانات کریں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔
انقرہ میں بی بی سی کے نک تھارپ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ناکام بغاوت کے بعد صدر کے لیے پہلا موقع ہوگا کہ وہ اپنی حکومت اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے بیٹھ کر بات کر سکیں۔
جرنیلوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری عملے کی چھانٹی کے بعد سامنے آیا ہے۔
ترکی میں گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمۂتعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد، دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً نو ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔
زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد ہیں۔
ان افراد پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔