ترک حکام نے گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جرنیوں پر فردِ جرم کا فیصلہ صدر رجب طیب اردوغان کے ان فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا جو بغاوت کے دوران ان کے وفادار رہے تھے۔ ٭ترکی میں ہزاروں برطرف، دانشوروں کے ملک چھوڑنے پر پابندی ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی امید ہے کہ وہ جلد ہی اہم اعلانات کریں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔

انقرہ میں بی بی سی کے نک تھارپ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ناکام بغاوت کے بعد صدر کے لیے پہلا موقع ہوگا کہ وہ اپنی حکومت اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے بیٹھ کر بات کر سکیں۔ جرنیلوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری عملے کی چھانٹی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکی میں گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمۂتعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد، دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً نو ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد ہیں۔ ان افراد پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
Image copyrightAFP حکومت سندھ اور رینجرز میں ایک بار پھر اختیارات میں توسیع کا معاملہ کشیدگی کا باعث بن گیا ہے۔ رینجرز کو پولیس اختیارات اور صوبے میں موجودگی کی مدت کی معیاد پوری ہو چکی ہے، تاہم ان کی خواہش ہے کہ انھیں پورے صوبے میں کارروائی کے اختیارات دیے جائیں جبکہ صوبائی حکومت نے ان اختیارات کو کراچی تک محدود رکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ رینجرز کو سنگین نوعیت کے چار جرائم دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کے لیے جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف کراچی تک محدود ہیں باقی سندھ کے لیے نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق یہ اختیارات 120 روز کے لیے ہوتے ہیں جن میں توسیع کی جاتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ رینجرز کے قیام کی مدت میں بھی سالانہ توسیع ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اہم معاملات میں پارٹی قیادت سے مشورہ کیا جاتا ہے، اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ بقول ان کے ’پولیس ہو یا رینجرز، کسی کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، قانون اور آئین کے دائرے کے اندر سب کو کام کرنا ہے، ہر کسی کو اپنے فرائض کا پتہ ہونا چاہیے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔‘ سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی اور رینجرز میں کشیدگی کا سبب بنی تھی، منگل کو اس مقدمے میں ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کے رہنما کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ سویلین لباس میں کارروائی کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔ اسد کھرل کی گرفتاری کے لیے رینجرز نے لاڑکانہ میں کئی مقامات پرچھاپے مار کر ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور اس کے دوران سہیل انور سیال کے گھر کا بھی محاصرہ کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسد کھرل صوبائی وزیر داخلہ کے بھائی طارق سیال کے دوست ہیں۔ اس کارروائی کے بعد رینجرز کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل سمیت اپوزیشن جماعتیں اس کا مطالبہ کرتی رہی تھیں۔

وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے لاڑکانہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسد کھرل کے معاملے پر حکومت سندھ اور رینجرز میں کوئی اختلافات نہیں ہیں، پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اس سے صوبائی وزیر داخلہ یا ان کے بھائی کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان میں بھی رابطہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جب حکومت سندھ نے رینجرز کے پولیس اختیارات صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کیے تھے تو وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت دو ماہ کے لیے یہ اختیارات دے دیے، تاہم بعد میں سندھ حکومت نے ان کو جاری رکھا۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحد کے قریب واقع وادی اورسون چند دن پہلے تک قدرتی حسن کا شاہکار تھی لیکن رواں ماہ جولائی میں آنے والے تباہ کن سیلاب نےاس گاؤں کا سارا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جہاں اب لوگوں کے لیے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ چترال شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی اورسون کے لیے دو جولائی کی رات موت کا پیغام لے کر آئی۔گاؤں کے بیشتر مرد عشا کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں تھے کہ اچانک سیلاب نے سارے علاقے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا جس سے درجنوں مکانات، مسجد، دینی مدرسہ اور واحد سکیورٹی چیک پوسٹ پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے باعث علاقے کے کئی سرسبز باغات اور کھیت بھی کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ پانی اتنی تیزی سے اوپر چڑھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ ’یقینًا وہ قیامت کے منظر جیسا تھا جس میں بڑے بڑے پتھروں کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں تھیں۔‘ سیلاب کی وجہ سے علاقے کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے گاؤں کے تمام راستے اور گزرگاہوں کے نام و نشان مٹ گئے ہیں جہاں اب گاڑیوں کی آمد و رفت ناممکن ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کی زمین کی سطح بھی ناہموار ہو کر بلند ہو گئی ہے اور مقامی آبادی نیچے رہ گئی ہے جس سے مقامی باشندوں کے مطابق مزید سیلاب کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔وادی کے وسط میں ایک دیوہیکل چٹان بھی نظر آئی جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ پانی اتنا بڑا پتھر بھی بہہ کر لا سکتا ہے۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم کے مطابق ’یہ علاقہ اب ہمارے لیے غیر محفوظ ہو گیا ہے کیونکہ آبادی نیچے رہ گئی ہے اور اب یہاں معمولی سی بارش سے بھی سیلاب کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔‘ ان کے مطابق سیلاب اپنے ساتھ جو ملبہ لے کر آیا ہے اس کو ہٹانا کسی کی بس کی بات نہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اب فوری طور پر اس آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے ورنہ مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہے لیکن اب تک اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
انڈیا میں کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کے سامنے ایک لمحۂ فکریہ ہے: یا تو وہ یہ ثابت کریں کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا ہاتھ تھا یا پھر آر ایس ایس سے معافی مانگیں۔ مہاتاما گاندھی کو آزادی کے صرف پانچ مہینے بعد 30 جنوری 1948 کو قتل کیا گیا تھا اور ان کے قتل کے جرم میں ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی تھی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سے تھا اور مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر عارضی پابندی بھی عائد کی تھی۔ ٭ گاندھی کی زندگی کے آخری دس برس راہل گاندھی نے دو برس قبل پارلیمانی انتخابات کے دوران کہا تھا کہ ’آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کو مارا تھا۔۔۔ اور اب وہ سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو کی بات کرتے ہیں۔‘ آر ایس ایس نے اس بیان کے بعد راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔ مقدمہ خارج کرانے کے لیے راہل گاندھی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن عدالت نے کہا کہ یا تو اپنا الزام ثابت کیجیے یا معافی مانگیے، ورنہ مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ ’آپ پوری تنظیم کو ایک ہی رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔‘

مقدمے کی سماعت کے دوران گوڈسے نے بنیادی طور پر یہ کہا تھا کہ گاندھی قیام پاکستان کے لیے ذمہ دار تھے اور مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ گوڈسے نے عدالت میں دعوی کیا کہ ’میں نے اس شخص پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے لاکھوں ہندوؤں کو بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔‘ اس مقدمے میں سخت گیر ہندو مہاسبھا کے سابق صدر ونایک ساورکر کو بھی ملزم بنایا گیا تھا لیکن ان پر جرم ثابت نہیں ہو سکا حالانکہ مورخ اے جی نورانی کے مطابق سردار پٹیل نے وزیر اعظم نہرو کو لکھا تھا کہ قتل کی سازش جن لوگوں نے تیار کی تھی ان کی براہ راست سربراہی ساورکر ہی نے کی تھی۔ انڈیا میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا سے تھا۔لیکن سپریم کورٹ کے اس حکم سے ایک نئی سیاسی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ راہل گاندھی اپنا بیان واپس لیں گے، یا معافی مانگیں گے۔ ان کے وکیل نے جرح کے دوران کہا کہ جو کچھ راہل گاندھی نے کہا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے، اور حکومت کے ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ لیکن اس دلیل سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی۔ اگر راہل گاندھی پر یہ مقدمہ چلتا ہے تو آزاد ہندوستان کے پہلے سیاسی قتل کی تمام پرتیں اور باریکیاں دوبارہ سے قانون کی کسوٹی پر پرکھی جا سکتی ہیں۔
بیجنگ پہنچنے کے پہلے ہی دن میں اور میرا کیمرا مین ہوٹل کے آس پاس کے علاقے کی سیر کے لیے نکلے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے ہوٹل سے قریب ریان نامی پارک ہے، جس میں 16ویں صدی میں تعمیر کردہ سورج معبد ہے۔ یہاں منگ خاندان کے شہنشاہ سورج دیوتا کو بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ نیلی چھت اور سنگی مجسموں سے مزین یہ عمارت چینی طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس میں جنگلی جانوروں کی ان گنت تصاویر بھی ہیں جن کا مقصد اس جگہ کو بدروحوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ ٭ چین میں کتوں کا گوشت کھلانے کے میلے کا آغاز شہر کے دوسری طرح چاند معبد ہے، جہاں چاند اور ستاروں کے نام پر نذرانے گزارے جاتے تھے۔ پارک کے باہر خوانچہ فروش آئس کریم، کھلونے اور غبارے بیچ رہے تھے۔ سورج ڈھلنے کو تھا اور پارک میں خاصی بھیڑ تھی۔ ایک کونے سے آپیرا کی موسیقی کی آواز آ رہی رہی تھی۔ چین میں آپیرا دو ہزار سال قدیم صنف ہے اور یہ آج بھی خاصی مقبول ہے۔ آپ کو چین کے ہر پارک کے کسی کونے کھدرے میں کوئی گلوکار مائیک تھامے آپیرا گاتا مل جائے گا۔ پارک کا ایک چکر لگانے کے بعد بھوک چمک اٹھی اور ہمیں رات کا کھانا کھانے کی سوجھی۔ معبد کے سامنے کئی ریستوران کھلے تھے جن میں ایک کے باہر کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم وہیں جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ چینی کھانے بہت عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ میں لندن میں کئی بار چینی کھانے کھا چکا تھا لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ چین میں ملنے والا کھانا مختلف ہوتا ہے۔اس ریستوران میں ایک ڈش کا نام ہاٹ پاٹ تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ چین میں خاصی مقبول ہے۔ اس میں ایک خاص قسم کی سوس ڈالی جاتی ہے اور پھر مختلف قسموں کے گوشت اور سبزیاں شامل کی جاتی ہیں۔ میز کے بیچوں بیچ ایک شعلہ روشن تھا، جہاں ہاٹ پاٹ لا کر رکھا جانا تھا۔

جب وہ ابلنا شروع کرے تو آپ اس میں حسبِ منشا گوشت اور سبزیاں ڈال سکتے ہیں۔ گوشت کی کئی اقسام دستیاب تھیں، جن میں پورک کے کان سے لے کر بھیڑ کا معدہ، دنبہ، مچھلی، جھینگا اور مرغی کا گوشت شامل تھا۔ میرے ساتھی اینڈریو نے پورک کا آرڈر دیا اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بھیڑ کا معدہ کھانا پسند کروں گا؟ میں گوشت زیادہ رغبت سے نہیں کھاتا لیکن اس موقعے پر میں نے ہاں کر دی۔ سوس میں اس قدر مرچیں تھیں کہ اس نے میرے ہونٹ اور زبان کو مکمل طور پر سُن کر کے رکھ دیا۔ ہم نے اس میں گوشت اور سبزیاں ڈالیں اور کھانا شروع کر دیا۔ میں نے اب تک وہ عجیب و غریب خوراک نہیں دیکھی تھی جس کے بارے میں مجھے چین آنے سے پہلے خبردار کیا گیا تھا۔ بھیڑ کا گوشت کھانا بطور ایرانی میرے لیے کچھ زیادہ نرالی بات نہیں تھی۔ کھانا خاصا لذیذ تھا۔ ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ بل دیکھ کر میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ اس قدر عمدہ کھانا اور ڈرنکس اور صرف دس ڈالر میں؟ لندن میں تو اتنے پیسوں کا مشکل سے ایک برگر آتا ہے۔ اگلے کئی دنوں میں مجھے مزید چینی کھانے کا موقع ملتا رہا۔ یورپ میں جو چینی خوراک ملتی ہے اس کے مقابلے پر اصل چینی کھانے کہیں سادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں سادہ سے اجزا استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کے بنانے کا طریقہ بھی انڈین یا ایرانی کھانوں کی طرح کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا۔ چینی کھانوں کا بنیادی جزو انڈا ہے۔ میری پسندیدہ ڈش سویا سوس میں ابلا ہوا انڈا بن گئی۔ اس طرح انڈے کی جلد گہری بھوری ہو جاتی ہے اور چائے کے ساتھ سویا کی نمکینی کچھ اور ہی لطف دیتی ہے۔ ایک دن ہم لوگ بیجنگ کے باہر شوٹنگ کے بعد واپس آ رہے تھے کہ ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے۔ ایک جگہ تو حالات یہاں تک پہنچے کہ پورا ایک گھنٹہ گاڑی اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک نہیں ہوئی۔ رات کے دس بج چکے تھے اور ہماری تھکاوٹ اور بھوک آخری حدوں کو چھو رہی تھیں۔ اتنے میں ایک سروس سٹیشن آ گیا۔ وہاں کھانے کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے تھے۔ ہماری گائیڈ ڈیزی نے بڑے جوش سے بتایا کہ وہاں گدھے کے گوشت کے برگر بکتے ہیں! ہمارے طویل قامت چینی ڈرائیور نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر بھوک کا اظہار کیا لیکن میں سیدھا انڈوں والے کھوکھے کی طرف چلا گیا اور اپنے پسندیدہ انڈے خرید لیے۔ البتہ میرے کیمرا مین اور ڈرائیور نے گدھے کے برگر کھائے اور بظاہر یہ انھیں خاصے پسند بھی آئے۔ چین بڑا ملک ہے۔ اس کے وسیع رقبے کی وجہ سے وہاں کے کھانوں میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ بڑی آبادی، غربت، اور ماضی میں چینی بخار کی وبا جیسے عناصر چینی خوراک پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ڈیزی نے مجھے بتایا کہ ان کا خاندان ایک زمانے میں گوشت خریدنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کے لیے پروٹین کا بڑا ذریعہ کیڑے مکوڑے تھے۔ ڈیزی کی عمر 34 برس ہے اور اس کا تعلق جنوبی چین سے ہے۔ میں چین میں 11 دن رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت نے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں پر مختصر وقت میں ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔ متوسط طبقے تیزی سے ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے چینی کھانوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔ تاہم اب چینی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے، جس کا اثر اس کے معاشرے پر بھی پڑے گا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے چین کا سیاسی نظام بھی بدل جائے گا، اور ممکن ہے کہ چینی سیاست دان اپنے یک جماعتی نظام پر بھی نظرِ ثانی کریں۔ سست رو معیشت سے افراطِ زر اور بےروزگاری پھیلنا لازمی امر ہے اور وہی متوسط طبقہ جو آسائشوں کا عادی ہوتا جا رہا ہے، اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا اور نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا شروع کر دے گا۔ نپولین نے چین کو ایشیا کا اژدہا کہا تھا، اور کہا تھا کہ اگر یہ جاگ گیا تو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ یہ اژدہا آہستہ آہستہ بیدار ہو رہا ہے اور نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ساتھ ساری دنیا کو بدل رہا ہے۔
انڈیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اُٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں ایودھیا میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انھیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گيا تھا۔ ان کے بیٹے اقبال انصاری نے بتایا کہ ’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔‘ ان کے بیٹے نے یہ بھی بتایا کہ آج بدھ کے روز ہی بعد نماز مغرب ان کی تدفین تاریخی قبرستان میں کی جائے گی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبر شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔ 60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔

وہ اس مقدمے کو سیاسی رنگ دیے جانے کے خلاف تھے اور ان کے مطابق اسی سبب سخت گیر ہندوؤں نے چھ دسمبر سنہ 1992 میں اس 16ویں صدی کی تاریخی مسجد کو منہدم کردیا۔ سنہ 2014 میں ہمارے نمائندے شکیل اختر نے ایودھیا میں ہاشم انصاری سے ملاقات کی تھی جب انھوں نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ ’جمہوریت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔‘ ان کے خیال میں اس کا حل نہیں ہے اور ایک بار تو انھوں نے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے مقدمے سے دست بردار ہونے کی بات کہی تھی۔ انھوں کہا کہ ’آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجیے۔ مجھے بابری مسجد نہیں چاہیے۔‘پچھلے دنوں جب ہاشم انصاری نے یہ بیان دیا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکیولر، ایماندار اور شکستہ دل کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا جہاں کبھی انھوں نے نماز پڑھی تھی۔ سنہ 2010 میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے ہاشم انصاری نے کہا تھا: ’میں سنہ 1949 سے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن آج تک کسی ہندو نے ہم کو ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ہمارا ان سے بھائی چارہ ہے۔ وہ ہم کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں مع اہل و عیال دعوت پر جاتے ہیں۔‘ متنازع مقام کے دوسرے اہم دعویداروں میں نرموہی اکھاڑے کے رام کیول داس اور دگمبر اکھاڑہ کے رام چندر پرمہنس سے ہاشم کی آخر تک گہری دوستی رہی۔ پرمہنس اور ہاشم تو اکثر ایک ہی رکشے یا گاڑی میں بیٹھ کر مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت جاتے تھے اور ساتھ ہی چائے ناشتہ کرتے تھے۔
پاکستان میں قانون نافد کرنے والے اداروں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حق میں مختلف شہروں میں بینرز لگانے کے الزام میں ایک غیر معروف سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان‘ کے سربراہ میاں کامران کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم کے خلاف موجودہ حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت پراکسانے کا مقدمہ درج ہے جس کی قانون میں سزا عمر قید ہے۔ ٭ فوج کے حق میں بینرز لگانے والوں کے خلاف مقدمہ درج ٭ ’شاید نواز شریف طوفان گزر جانے کا انتظار کر رہے ہیں‘ اس جماعت کی جانب سے مختلف شہروں میں لگائے گئے ان بینرز پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا تھا کہ ’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کے لیے اب تو آجاؤ۔‘ موو آن پاکستان کے سربراہ میاں کامران کو اسلام آباد کے علاقے آبپارہ سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں پر وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔

ملزم کامران اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور فیصل آباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔ اسلام آباد میں یہ مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جبکہ دیگر شہروں میں ملزمان کے خلاف مقدمات ریاست اور عام شہریوں کی طرف سے درج کروائے گئے ہیں۔ تھانہ سیکرٹریٹ کے انچارج حاکم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کامران کو لاہور سے آئی ہوئی پولیس کی ٹیم نے گرفتار کیا ہے جبکہ اسلام آباد میں درج ہونے والے مقدمے میں ملزم نے 22 جولائی تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی۔ اس مقدمے میں میاں کامران کے علاوہ دیگر نو افراد کو نامزد کیا گیا ہے اور ملزمان کا تعلق پنجاب کے وسطی شہر فیصل آباد سے ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے آرمی چیف کے حق میں بینز لگانے کا الزام حکومت پر عائد کیا تھا کہ جو اُن کے بقول پاناما لیکس اور دیگر معاملات سے سیاسی جماعتوں اور عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت اور پاکستانی فوج نے ایسے بینرز لگانے سے لا تعلقی کیا ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ فوج یا اس کے کسی بھی ادارے کا ایسے بینرز لگانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد مختلف شہروں میں لگائے گئے بینرز اتار دیے گئے ہیں۔
Powered by Blogger.