ترکی میں گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ہزاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں فوجیوں، ججوں اور اساتذہ کو برخاست کیا جا چکا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی میں نو ہزار افراد زیر حراست ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک معاشرے سے تطہیر کے عمل میں 58 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ترک شہریوں کو خوف لاحق ہے کہ آنے والے دن بری خبریں لانے والے ہیں۔
کس کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہےجوں ہی یہ واضح ہوگیا کہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے تو ترکی میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔
پہلے اس کا نشانہ سکیورٹی ادارے بنے پھر ’صفائی‘ کا یہ عمل ترکی کے تمام سویلین ڈھانچے تک پھیل گیا۔
ایک ترک کالم نگار کے بقول ترکی میں ’جوابی بغاوت‘ جاری ہے اور بغاوت کے انداز میں ہی اداروں کی ’صفائی‘ کا عمل جاری ہے۔
بظاہر طیب اردوغان ریاستی اداروں میں قائم متوازی نظام کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو امریکہ میں مقیم ان کے سابق حلیف اور موجودہ دشمن فتح اللہ گولن نے قائم کر رکھا ہے۔
ترک صدر کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔
کوئی نہیں جانتا کہ فتح اللہ گولن کی تحریک کتنی وسیع ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ گولن کو ماننے والے صدر اردوغان کے قریبی پوسٹوں تک پہنچ چکے تھے اور ایسے افراد میں صدر اردوغان کے فوجی مشیر علی یازیچی اور ایئرفورس کے مشیر ارکان کیورک بھی شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ فتح اللہ گولن کا گروہ اس بغاوت کے پیچھے تھا اور وہ صدر تک پہنچنے میں صرف دس سے 15 منٹ دور رہ گئے تھے۔کہاں کہاں صفائی ہو رہی ہے؟
سرکاری اداروں کی صفائی اتنی وسیع ہے کہ بہت کم لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ اس ’صفائی‘ کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔
کس کس محکمے کےکتنے لوگ زیر حراست ہیں یا ملازمتیں کھو چکے ہیں:
٭ 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجی زیر حراست ہیں
٭ آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے
٭1481 ججوں سمیت عدلیہ سے تین ہزار عہدیداروں کو ہٹایا جا چکا ہے
٭ محکمہ تعلیم سے 15 ہزار دو سو ٹیچروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں
٭ پرائیوٹ سکولوں سے تعلق رکھنے والے 21 ہزاروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں
٭ 1577 یونیورسٹی ڈینز کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں
٭ وزارت خزانہ سے 1500 لوگوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے
٭ 492 کلرک، مبلغ اور مذہبی استادوں کو بھی ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے
٭سوشل پالیسی منسٹری 393 افراد کے عملے کو برخاست کر دیا گیا ہے
٭ وزیر اعظم کے دفتر سے257 افراد کو نکال دیا گیا ہے
٭ خفیہ اداروں کے ایک سو اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے
تعلیمی نشانے پر کیوں؟
صدر رجب طیب اردوغان نے سنہ 2002 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔
رجب طیب اردوغان کے دور حکومت میں مذہبی سکولوں جنھیں ترک زبان میں ’امام ہطپ‘ کہا جاتا ہے میں رجسٹریشن میں 90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
طیب اردوغان ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نیک نسل کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
طیب اردوغان نے سنہ 1997 میں آنے والے فوجی انقلاب کے بعد بند کیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔
وہ کہا کرتے ہیں کہ ان سکولوں کو بند کر کے ترکی کے قلب کی شریان کو بند کر دیا گیا تھا۔
طیب اردوغان نے مبلغ فتح اللہ گولن کو ماننے والوں کے زیر انتظام ملک سے باہر چلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی بند کرانے کی کوشش کی ہے۔
ترکی کی حکومت نے رومانیہ میں 11گولینسٹ تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ان اداروں کو بند کردیں۔
گولینسٹ اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ وہ رومانیہ کے قانون کے تحت چلتے ہیں نہ کہ ترکی کے۔
جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے ڈینز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے ک جن کو مستعفیٰ ہونے کا کہا گیا ہے وہ شاید فتح اللہ گولن کے ماننے والے’گولینسٹ‘ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی کی تین سو یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
بدھ کے روز ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے ماہرین تعلیم کی بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے اور ایسے ماہرین تعلیم جو پہلے ملک سے باہر ہیں انھیں کہا گیا ہے کہ وہ وطن واپس پہنچ جائیں۔
اتنے زیادہ سرکاری اہلکار نشانے پر کیوں؟سنہ 2010 میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 3227 افراد نے نقل کے ذریعے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔
حکومت کا خدشہ تھا کہ سارے لوگ فتح اللہ گولن کے ماننےوالے ہیں۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد شاید اردوغان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ سول سروس کو فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کر دیں۔
ایک اور خدشہ یہ ہے کہ ترکی کی حکومت علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حکومت سے نکال رہی ہے۔ ترکی میں علوی لوگوں کی تعداد 15 ملین ہے۔
ترکی کی اے کے حامیوں کی تعداد زیادہ سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ علوی شیعہ اور سنی اسلام کی ایک مشترکہ شکل سمجھی جاتی ہے۔
اردوغان اب کیا کریں گے؟
امید کی جا رہی ہے کہ صدر اردوغان بدھ کے روز ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ صدر اردوغان جو کچھ کر رہے ہیں اس کا موازنہ 12 ستمبر 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
اس بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔
اس کا بہت کم امکان ہے کہ ترکی میں مارشل لاء لگا دیا جائے کیونکہ ناکام بغاوت کی بعد فوج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہنگامی اقدامات کیےجانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، جن میں بغیر کسی الزام کے لوگوں کو حراست میں رکھنا اور پارلیمانی منظوری کے بغیر ہی سرکاری اہلکاروں کو برخاست کرنے کے اختیارات میں توسیع ہو سکتی ہے۔
ترکی میں 12 برس پہلے پھانسی کی سزا ختم کر دی گئی تھی۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ عوامی مطالبے پر پھانسی کی سزا کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔صدر اردوغان ملک کو مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کرنے کا عہد دہراتے رہتے ہیں۔ فتح اللہ گولن جو ماضی میں صدر طیب اردوغان کے سیاسی حلیف تھےسنہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
فتح اللہ گولن نے بہت لوگوں کو اپنا دشمن بنایا ہے لیکن ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے۔
فتح اللہ گولن کے ماننے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدن کا 20 فیصد عبداللہ گولن کی تنظیم کو دیتے ہیں اور وہ ترکی کے ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق ان میں بعض نے بغاوت میں شریک ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
فتح اللہ گولن کے ایک ماننے والے کے مطابق بغاوت کا حکم ایک نجی تعلیمی ادارے کے استاد جسے بگ برادر بھی کہا جاتا ہے، سے آیا تھا۔
ترکی میں گولینسٹ کون ہے اس کے بارے میں واضح طور اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جب سنہ 2013 میں صدر اردوغان کے بیٹے اور ان کے کئی وزیروں پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے اس وقت بھی ترک صدر نے اس کا الزام فتح اللہ گولن کی دہلیز پر دھرا تھا۔