ترکی میں گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ہزاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں فوجیوں، ججوں اور اساتذہ کو برخاست کیا جا چکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی میں نو ہزار افراد زیر حراست ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک معاشرے سے تطہیر کے عمل میں 58 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ترک شہریوں کو خوف لاحق ہے کہ آنے والے دن بری خبریں لانے والے ہیں۔ کس کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہےجوں ہی یہ واضح ہوگیا کہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے تو ترکی میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ پہلے اس کا نشانہ سکیورٹی ادارے بنے پھر ’صفائی‘ کا یہ عمل ترکی کے تمام سویلین ڈھانچے تک پھیل گیا۔ ایک ترک کالم نگار کے بقول ترکی میں ’جوابی بغاوت‘ جاری ہے اور بغاوت کے انداز میں ہی اداروں کی ’صفائی‘ کا عمل جاری ہے۔ بظاہر طیب اردوغان ریاستی اداروں میں قائم متوازی نظام کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو امریکہ میں مقیم ان کے سابق حلیف اور موجودہ دشمن فتح اللہ گولن نے قائم کر رکھا ہے۔ ترک صدر کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ فتح اللہ گولن کی تحریک کتنی وسیع ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ گولن کو ماننے والے صدر اردوغان کے قریبی پوسٹوں تک پہنچ چکے تھے اور ایسے افراد میں صدر اردوغان کے فوجی مشیر علی یازیچی اور ایئرفورس کے مشیر ارکان کیورک بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ فتح اللہ گولن کا گروہ اس بغاوت کے پیچھے تھا اور وہ صدر تک پہنچنے میں صرف دس سے 15 منٹ دور رہ گئے تھے۔کہاں کہاں صفائی ہو رہی ہے؟ سرکاری اداروں کی صفائی اتنی وسیع ہے کہ بہت کم لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ اس ’صفائی‘ کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ کس کس محکمے کےکتنے لوگ زیر حراست ہیں یا ملازمتیں کھو چکے ہیں: ٭ 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجی زیر حراست ہیں ٭ آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭1481 ججوں سمیت عدلیہ سے تین ہزار عہدیداروں کو ہٹایا جا چکا ہے ٭ محکمہ تعلیم سے 15 ہزار دو سو ٹیچروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ پرائیوٹ سکولوں سے تعلق رکھنے والے 21 ہزاروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ 1577 یونیورسٹی ڈینز کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں ٭ وزارت خزانہ سے 1500 لوگوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭ 492 کلرک، مبلغ اور مذہبی استادوں کو بھی ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے ٭سوشل پالیسی منسٹری 393 افراد کے عملے کو برخاست کر دیا گیا ہے ٭ وزیر اعظم کے دفتر سے257 افراد کو نکال دیا گیا ہے ٭ خفیہ اداروں کے ایک سو اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے تعلیمی نشانے پر کیوں؟ صدر رجب طیب اردوغان نے سنہ 2002 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ رجب طیب اردوغان کے دور حکومت میں مذہبی سکولوں جنھیں ترک زبان میں ’امام ہطپ‘ کہا جاتا ہے میں رجسٹریشن میں 90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

طیب اردوغان ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نیک نسل کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ طیب اردوغان نے سنہ 1997 میں آنے والے فوجی انقلاب کے بعد بند کیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ان سکولوں کو بند کر کے ترکی کے قلب کی شریان کو بند کر دیا گیا تھا۔ طیب اردوغان نے مبلغ فتح اللہ گولن کو ماننے والوں کے زیر انتظام ملک سے باہر چلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی بند کرانے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کی حکومت نے رومانیہ میں 11گولینسٹ تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ان اداروں کو بند کردیں۔ گولینسٹ اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ وہ رومانیہ کے قانون کے تحت چلتے ہیں نہ کہ ترکی کے۔ جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے ڈینز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے ک جن کو مستعفیٰ ہونے کا کہا گیا ہے وہ شاید فتح اللہ گولن کے ماننے والے’گولینسٹ‘ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی کی تین سو یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے ماہرین تعلیم کی بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے اور ایسے ماہرین تعلیم جو پہلے ملک سے باہر ہیں انھیں کہا گیا ہے کہ وہ وطن واپس پہنچ جائیں۔ اتنے زیادہ سرکاری اہلکار نشانے پر کیوں؟سنہ 2010 میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 3227 افراد نے نقل کے ذریعے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکومت کا خدشہ تھا کہ سارے لوگ فتح اللہ گولن کے ماننےوالے ہیں۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد شاید اردوغان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ سول سروس کو فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کر دیں۔ ایک اور خدشہ یہ ہے کہ ترکی کی حکومت علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حکومت سے نکال رہی ہے۔ ترکی میں علوی لوگوں کی تعداد 15 ملین ہے۔ ترکی کی اے کے حامیوں کی تعداد زیادہ سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ علوی شیعہ اور سنی اسلام کی ایک مشترکہ شکل سمجھی جاتی ہے۔ اردوغان اب کیا کریں گے؟ امید کی جا رہی ہے کہ صدر اردوغان بدھ کے روز ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ صدر اردوغان جو کچھ کر رہے ہیں اس کا موازنہ 12 ستمبر 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کا بہت کم امکان ہے کہ ترکی میں مارشل لاء لگا دیا جائے کیونکہ ناکام بغاوت کی بعد فوج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہنگامی اقدامات کیےجانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، جن میں بغیر کسی الزام کے لوگوں کو حراست میں رکھنا اور پارلیمانی منظوری کے بغیر ہی سرکاری اہلکاروں کو برخاست کرنے کے اختیارات میں توسیع ہو سکتی ہے۔ ترکی میں 12 برس پہلے پھانسی کی سزا ختم کر دی گئی تھی۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ عوامی مطالبے پر پھانسی کی سزا کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔صدر اردوغان ملک کو مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کرنے کا عہد دہراتے رہتے ہیں۔ فتح اللہ گولن جو ماضی میں صدر طیب اردوغان کے سیاسی حلیف تھےسنہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے بہت لوگوں کو اپنا دشمن بنایا ہے لیکن ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ فتح اللہ گولن کے ماننے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدن کا 20 فیصد عبداللہ گولن کی تنظیم کو دیتے ہیں اور وہ ترکی کے ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان میں بعض نے بغاوت میں شریک ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ فتح اللہ گولن کے ایک ماننے والے کے مطابق بغاوت کا حکم ایک نجی تعلیمی ادارے کے استاد جسے بگ برادر بھی کہا جاتا ہے، سے آیا تھا۔ ترکی میں گولینسٹ کون ہے اس کے بارے میں واضح طور اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جب سنہ 2013 میں صدر اردوغان کے بیٹے اور ان کے کئی وزیروں پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے اس وقت بھی ترک صدر نے اس کا الزام فتح اللہ گولن کی دہلیز پر دھرا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدھ کو لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا کہ پی ایس ایل کے آئندہ ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں دعوت دی گئی ہے۔ ٭ سپر لیگ: بورڈ کو منافع، فرنچائزز کو نقصان ٭ پی ایس ایل کتنی کامیاب؟ نجم سیٹھی نے کہا کہ ’پاکستان آ کر کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو اضافی پیسے دیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ان کی اس حوالے سے بات ہو گئی ہے اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کے دورہ کراچی کے دوران ان کی ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر سے ملاقات ہوئی جس میں انھیں پی ایس ایل کراچی میں کروانے کے صورت میں سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔‘

’میں نے شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ تیار نہیں ہیں تو ہم کراچی میں کروا لیتے ہیں جس پر انھوں نے کہا کہ پی سی بی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے تو یہیں ہونا چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے الگ پیکیج تیار کیاگیا ہے جس کے تحت ان سے کہا جا رہا ہے کہ آخری میچ لاہور میں کھیلنے کی صورت میں انھیں اضافی پیسے دیے جائیں گے۔ نجم سیٹھی نے بتایا کہ لاہور میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں 14 کمرے تیار کروائے جا رہے ہیں۔ ’اگر لاہور میں فائنل کروانے کی بات بن جاتی ہے تو کھلاڑیوں کو این سی اے میں ہی ٹھہرایا جائے گا کیونکہ ہوٹل سے آنے جانے میں مسئلہ ہوتا ہے۔‘ اس کے علاوہ پی ایس ایل کے آئندہ سیزن میں نئی ٹیم کو شامل کرنے کے حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ٹیمیں پانچ ہی رہیں گی کیونکہ دیگر پانچوں فرنچائزز اس پر نہیں مانیں ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان سپر لیگ کا آغاز رواں سال کے آغاز میں متحدہ عرب امارات میں ہوا تھا جس کا فائنل اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم نے جیتا تھا۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 42 افراد کی ہلاکت کے خلاف پاکستان بھر میں سرکاری سطح پر’یوم سیاہ ‘منایا جا رہا ہے۔ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ ’عالمی برادری کو پاکستان کے حوالے سے یہ بات بطور خاص پیشِ نظر رکھنی ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو فریق مانا ہے۔ اب اگر کشمیر میں انسانوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے تو پاکستان ان واقعات سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔‘ ٭ کشمیر میں اخبارات اور ٹی وی پر بھی قدغن ٭برہان کے بعد کشمیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر سفارتی، سیاسی اورانسانی حقوق کے محاذ پر ان کا مقدمہ لڑا جائے گا۔‘انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔تیرہ روز سے جاری ان واقعات میں اب تک 42 کشمیری شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد میں’کشمیر ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ’ہندوستان جو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،

اُس جمہوریت میں بھی کشمیر کی آواز کو کُچلا جا رہا ہے۔ کشمیر کی آواز کو بند کرنے کے لیے کے لوگوں کو زندگیوں سے محروم کیا جارہا ہے۔‘ پرویز رشید نے کہا کہ’ہم یومِ سیاہ منا کر دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں۔انھیں انصاف دلانا چاہتے ہیں اور دنیا کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔‘ واضح رہے کہ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیےتمام سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ اسلام پریس کلب پر سیاہ پرچم لہرایا گیا ہے جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سےمختلف مقامات پر خصوصی تقریبات، مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب مذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہحافظ سیعد کی سربراہی میں لاہور سے اسلام آباد تک ’کمشیر کاروان‘ نکالا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان شریک ہیں۔ کاروان میں شریک افراد کا مؤقف تھا کہ ’کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہو رہا ہے جسے پاکستانی میڈیا میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’آج وہ کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سخت گرمی میں بھی سڑکوں پر نکلے ہیں تاکہ حکومت پہ دباؤ ڈال سکیں کہ وہ کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پہ اٹھائے۔‘
سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی ایک متفرق درخواست پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیمرا کے حکام سے جواب طلب کیا ہے۔ ٭ فوج ہر سطح پر احتساب کی حمایت کرے گی‘ ٭ شیر کا احتساب کون کرے گا؟ اس متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت اور پیمرا کو حکم دے کہ وہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور اس پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرے۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا آئی ایس پی آر کو ریگولیٹ کرنے سے قاصر ہے۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس پی آر کے حکام سے میڈیا مہم پر عوامی پیسہ خرچ ہونے کے بارے میں پوچھا جائے، جس پر بینچ میں موجود جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پیمرا کے حکام سے جواب طلب کر لیتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر جتنے بھی اخراجات ہوتے ہیں اُن کی آمدن کے ذرائع بھی بتائے جائیں۔ درخواست گزار عاصمہ جہانگیر نے الزام عائد کیا ہے کہ آئی ایس پی آر نے متعدد سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں جو مختلف افراد کو بدنام کرنے کے لیے اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔

اس متفرق درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا سیل اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اداروں پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات معلوم کر سکے۔اُنھوں نے کہا کہ پیمرا کے حکام اس بارے میں امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے تین مراکز ہیں جو میڈیا اور دوسری معلومات کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حکومت کے زیر انتظام میڈیا ہے جس میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جبکہ دوسرا مرکز پیمرا کا ادارہ ہے جو تمام نجی میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں مراکز کے برعکس فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو سٹیشنز تمام پابندیوں سے آزاد ہیں۔ ان کے مطابق ایف ایم چینل 96:00 اور ایف ایم 89:04 پچپن سے زیادہ شہروں میں سنا جاتا ہے جو کہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیمرا ان ایف ایم سٹیشنز کی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر عوامی پیغامات نشر کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام چینلز سے کہا ہے کہ وہ اپنی 24گھنٹے کی نشریات میں سے دس فیصد عوامی پیغامات کے لیے مختص کریں۔ ان درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
ترک حکام نے گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جرنیوں پر فردِ جرم کا فیصلہ صدر رجب طیب اردوغان کے ان فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا جو بغاوت کے دوران ان کے وفادار رہے تھے۔ ٭ترکی میں ہزاروں برطرف، دانشوروں کے ملک چھوڑنے پر پابندی ٭ بغاوت کے وائرس کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا: اردوغان ٭ ترکی میں ناکام بغاوت کی لمحہ بہ لمحہ کہانی امید ہے کہ وہ جلد ہی اہم اعلانات کریں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بدھ کو قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کر رہے ہیں۔

انقرہ میں بی بی سی کے نک تھارپ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ناکام بغاوت کے بعد صدر کے لیے پہلا موقع ہوگا کہ وہ اپنی حکومت اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے بیٹھ کر بات کر سکیں۔ جرنیلوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری عملے کی چھانٹی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکی میں گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمۂتعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد، دو ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً نو ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد ہیں۔ ان افراد پر امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے نظریات کا حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ ترک حکومت نے فتح اللہ گولن پر الزام لگایا کہ بغاوت کی کوشش ان کے ایما پر ہوئی تاہم وہ اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
Image copyrightAFP حکومت سندھ اور رینجرز میں ایک بار پھر اختیارات میں توسیع کا معاملہ کشیدگی کا باعث بن گیا ہے۔ رینجرز کو پولیس اختیارات اور صوبے میں موجودگی کی مدت کی معیاد پوری ہو چکی ہے، تاہم ان کی خواہش ہے کہ انھیں پورے صوبے میں کارروائی کے اختیارات دیے جائیں جبکہ صوبائی حکومت نے ان اختیارات کو کراچی تک محدود رکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ رینجرز کو سنگین نوعیت کے چار جرائم دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی روک تھام کے لیے جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ صرف کراچی تک محدود ہیں باقی سندھ کے لیے نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق یہ اختیارات 120 روز کے لیے ہوتے ہیں جن میں توسیع کی جاتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ رینجرز کے قیام کی مدت میں بھی سالانہ توسیع ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اہم معاملات میں پارٹی قیادت سے مشورہ کیا جاتا ہے، اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ بقول ان کے ’پولیس ہو یا رینجرز، کسی کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، قانون اور آئین کے دائرے کے اندر سب کو کام کرنا ہے، ہر کسی کو اپنے فرائض کا پتہ ہونا چاہیے اور حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔‘ سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی اور رینجرز میں کشیدگی کا سبب بنی تھی، منگل کو اس مقدمے میں ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کے رہنما کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ سویلین لباس میں کارروائی کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔ اسد کھرل کی گرفتاری کے لیے رینجرز نے لاڑکانہ میں کئی مقامات پرچھاپے مار کر ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور اس کے دوران سہیل انور سیال کے گھر کا بھی محاصرہ کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اسد کھرل صوبائی وزیر داخلہ کے بھائی طارق سیال کے دوست ہیں۔ اس کارروائی کے بعد رینجرز کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل سمیت اپوزیشن جماعتیں اس کا مطالبہ کرتی رہی تھیں۔

وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے لاڑکانہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسد کھرل کے معاملے پر حکومت سندھ اور رینجرز میں کوئی اختلافات نہیں ہیں، پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے اس سے صوبائی وزیر داخلہ یا ان کے بھائی کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان میں بھی رابطہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جب حکومت سندھ نے رینجرز کے پولیس اختیارات صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کیے تھے تو وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت دو ماہ کے لیے یہ اختیارات دے دیے، تاہم بعد میں سندھ حکومت نے ان کو جاری رکھا۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں پاک افغان سرحد کے قریب واقع وادی اورسون چند دن پہلے تک قدرتی حسن کا شاہکار تھی لیکن رواں ماہ جولائی میں آنے والے تباہ کن سیلاب نےاس گاؤں کا سارا نقشہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جہاں اب لوگوں کے لیے رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ چترال شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی اورسون کے لیے دو جولائی کی رات موت کا پیغام لے کر آئی۔گاؤں کے بیشتر مرد عشا کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں تھے کہ اچانک سیلاب نے سارے علاقے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا جس سے درجنوں مکانات، مسجد، دینی مدرسہ اور واحد سکیورٹی چیک پوسٹ پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب کے باعث علاقے کے کئی سرسبز باغات اور کھیت بھی کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ پانی اتنی تیزی سے اوپر چڑھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ انھوں نے کہا کہ ’یقینًا وہ قیامت کے منظر جیسا تھا جس میں بڑے بڑے پتھروں کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں تھیں۔‘ سیلاب کی وجہ سے علاقے کا پورا نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔

پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے گاؤں کے تمام راستے اور گزرگاہوں کے نام و نشان مٹ گئے ہیں جہاں اب گاڑیوں کی آمد و رفت ناممکن ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کی زمین کی سطح بھی ناہموار ہو کر بلند ہو گئی ہے اور مقامی آبادی نیچے رہ گئی ہے جس سے مقامی باشندوں کے مطابق مزید سیلاب کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔وادی کے وسط میں ایک دیوہیکل چٹان بھی نظر آئی جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ پانی اتنا بڑا پتھر بھی بہہ کر لا سکتا ہے۔ ولیج کونسل اورسون کے ناظم کے مطابق ’یہ علاقہ اب ہمارے لیے غیر محفوظ ہو گیا ہے کیونکہ آبادی نیچے رہ گئی ہے اور اب یہاں معمولی سی بارش سے بھی سیلاب کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔‘ ان کے مطابق سیلاب اپنے ساتھ جو ملبہ لے کر آیا ہے اس کو ہٹانا کسی کی بس کی بات نہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اب فوری طور پر اس آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہیے ورنہ مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا ہے لیکن اب تک اس ضمن میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
Powered by Blogger.