انڈیا کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میںپاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔
٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر
٭ کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان میں یومِ سیاہ
٭ ’ٹی وی چینل کشمیر کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتے‘
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو لوک سبھا میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے بار بار پاکستان کا نام لیا اور کہا کہ ’آج کشمیر کی صورت حال کو بگاڑنے میں اگر کسی کا اہم کردار ہے تو وہ ہمارے پڑوسی کا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پڑوسی انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر انڈیا میں کوئی بھی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ اپنے حالات بہتر کرنے کے بجائے وہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘انھوں نے کشمیر کے تعلق سے پاکستان کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو پاکستان میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ ’ہمارا پڑوسی ناپاک حرکتیں کر رہا ہے۔‘
پارلیمان میں کشمیر کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور حکومت اسے بہتر کرنے کی کوشش کرےگی۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا: ’ہمیں کشمیر میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کشمیری شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کا دفاع کیا اور کہا کہ ’انھوں نے صبر سے کام لیا ہے اور وہ خود بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ کشمیر میں چھرّے والی بندوقوں کا استعمال پہلی بار ہوا ہو اور اس کی شروعات تو 2010 میں ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا: ’ہم ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں کے استعمال کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے اور وہ دو ماہ کے اندر ہی اس بارے میں اپنی رپورٹ دے گي۔‘
ان کے بقول اس کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئي فیصلہ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتے قبل نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں اب تک 42 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔زخمیوں میں سے بڑی تعداد لوہے کے تیز دھار اور نوکیلے چھرّے لگنے سے زخمی ہوئی ہے اور ان کی وجہ سے درجنوں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
احتجاجی لہر کے آغاز کے بعد سے وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور مواصلات کی دیگر سہولیات بھی بند کر دی گئی ہیں۔
کشمیر میں چند دن قبل اخبارات کی اشاعت اور نیوز چینلز پر بھی عارضی طور پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اب اٹھا لیا گیا ہے۔