انڈیا کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میںپاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان میں یومِ سیاہ ٭ ’ٹی وی چینل کشمیر کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتے‘ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو لوک سبھا میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے بار بار پاکستان کا نام لیا اور کہا کہ ’آج کشمیر کی صورت حال کو بگاڑنے میں اگر کسی کا اہم کردار ہے تو وہ ہمارے پڑوسی کا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پڑوسی انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر انڈیا میں کوئی بھی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ اپنے حالات بہتر کرنے کے بجائے وہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘انھوں نے کشمیر کے تعلق سے پاکستان کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو پاکستان میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ ’ہمارا پڑوسی ناپاک حرکتیں کر رہا ہے۔‘ پارلیمان میں کشمیر کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور حکومت اسے بہتر کرنے کی کوشش کرےگی۔

راج ناتھ سنگھ نے کہا: ’ہمیں کشمیر میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کشمیری شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کا دفاع کیا اور کہا کہ ’انھوں نے صبر سے کام لیا ہے اور وہ خود بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ کشمیر میں چھرّے والی بندوقوں کا استعمال پہلی بار ہوا ہو اور اس کی شروعات تو 2010 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا: ’ہم ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں کے استعمال کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے اور وہ دو ماہ کے اندر ہی اس بارے میں اپنی رپورٹ دے گي۔‘ ان کے بقول اس کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئي فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتے قبل نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں اب تک 42 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔زخمیوں میں سے بڑی تعداد لوہے کے تیز دھار اور نوکیلے چھرّے لگنے سے زخمی ہوئی ہے اور ان کی وجہ سے درجنوں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ احتجاجی لہر کے آغاز کے بعد سے وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور مواصلات کی دیگر سہولیات بھی بند کر دی گئی ہیں۔ کشمیر میں چند دن قبل اخبارات کی اشاعت اور نیوز چینلز پر بھی عارضی طور پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اب اٹھا لیا گیا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پیمرا کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی فوج کو کبھی کوئی ریڈیو لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔ اسلام آباد میں جمعرات کو پاکستانی میڈیا ریگولیشن سے متعلق ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے پیمرا کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ پاکستان فوج کا تعلقات عامہ کا شعبہ آئی ایس پی آر ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایف ایم چینلز چلا رہا ہے۔ ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ’ریڈیو پاکستان سمیت تمام سرکاری میڈیا پیمرا کے دائر اختیار میں نہیں آتا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان کی سروسز بڑھا رہے ہیں۔‘ بدھ کو ہی سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیرِانتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی اس درخواست میں عاصمہ جہانگیر نے ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر اخراجات اور آمدن کے ذرائع بھی مانگے ہیں۔ پیمرا اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں تمام مذہبی ٹی وی چینلز لائسنس کے بغیر چل رہے ہیں۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ ابھی تک مذہبی چینلز سے متعلق کوئی پالیسی مرتب نہیں کی گئی ہے۔ ’کیو ٹی وی جیسے کئی چینل بغیر لائسنس کے عدالتوں کے حکم امتناعی کی بنیاد پر نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت پیمرا سے لائسنس یافتہ 203 ایف ایم ریڈیو چینل چل رہے ہیں جن میں سے 160 کمرشل ہیں۔ انھوں نے پاکستانی میڈیا سے متعلق ادارے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں کہا کہ ’پاکستانی میڈیا بےلگام آزادی چاہتا ہے اور چینل ریٹنگ کی دوڑ میں جعلی خبریں چلاتے ہیں۔‘ عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمیٰ سے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ پیمرا کے حکام امتیازی رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ برطانوی میڈیا ریگولیٹری ادارے ’آف کام‘ کی ماریہ ڈونڈ نے اس موقع پر بتایا کہ ان کا ادارہ 800 عملے کے ساتھ برطانیہ کے تمام میڈیا کی نگرانی کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پیمرا کے اہلکار کے مطابق ان کے عملے کی تعداد چھ سو ہے۔ ڈاکٹر مختار کا عملے کی تعداد کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں پیمرا کا دفتر نہ ہو تو لوگ قانون اور ضابطے کو نہیں مانتے۔
ملتان میں اپنے بھائی کے ہاتھوں ’غیرت کے نام پر‘ قتل ہونے والی سوشل میڈیا کی مقبول پاکستانی شخصیت قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بی بی سی اردو کی صبا اعتزاز سے خصوصی بات چیت میں محمد عظیم اور انور بی بی کا کہنا تھا کہ قندیل کے قتل پر ان کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور اسے بےقصور مارا گیا۔ ٭ قندیل بلوچ کا قتل: کب کیا ہوا؟ ٭ ’کہتی تھی میرا ٹائم آ گیا ہے۔۔۔‘ ٭قندیل کے مقدمۂ قتل میں غیرت کے قتل کی دفعہ شامل قندیل بلوچ کو 15 جون کی شب ان کے بھائی وسیم نے قتل کر دیا تھا اور پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد انھوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔ قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ وسیم نے قندیل کو قتل کر کے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ محمد عظیم، والد قندیل بلوچ ’سزا ملنی چاہیے، اس کی غلطی ہے، اس نے ناجائز قتل کیا۔ایسا کیوں کیا اس نے؟ میں نہیں معاف کروں گی بیٹے کو۔ میری لائق بچی، مردوں کی طرح بہادر لڑکی تھی، کیا قصور کیا تھا اس نے؟‘ قندیل کی والدہ نے واردات کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم وسیم نے جمعے کی شام ان کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا لیکن اس نے اپنے رویے سے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ ’بھائی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا ہے۔ اس نے ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ قندیل کا برا چاہ رہا ہے۔ میرے دل میں کوئی شک نہیں پڑا کہ میرا بیٹا میری بیٹی کے ساتھ یہ کرے گا۔‘ انور بی بی نے کہا کہ وسیم نے انھیں اور ان کے شوہر کو دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے کہ قندیل کے قتل کے وقت کیا ہوا۔ ’میرا شوہر اور میں سو گئے۔ دودھ ہم پی چکے تھے جس میں نشہ ملا کے دیا ہمیں۔ صبح قندیل کو آواز دی کہ بیٹا ناشتہ کر لو ۔ پہلے وقت پر اٹھ جاتی تھی پر وہ نہیں اٹھی۔ میں نے سوچا جا کر دیکھوں ، یہ کس طرح کی نیند آئی ہوئی ہے اس کو، سفید چادر اوڑھ کر پڑی ہوئی ہے۔‘ انور بی بی نے بتایا کہ جب انھوں نے قندیل کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ان کے سارے چہرے پر نشان تھے جبکہ زبان اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ وسیم نے اپنے دوستوں میں قندیل کو جانی نقصان پہچانے کی بات بھی کی اور جب قندیل کو معلوم ہوا تو اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔ ’جیسے آج کل حالات چل رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ وسیم قندیل کو مارنے لگا ہے۔ جب قندیل کو پتہ لگا اس نے کہا بڑا آیا مجھے مارنے والا! پھر میں نے اور اس کے باپ نے اسے (وسیم کو) ملامت کی کہ اس لیے بڑے ہوئے ہو کہ بہن کی جان لے لو۔‘ اس سوال پر کہ قندیل بلوچ تو ایک عرصے سے شوبزنس میں تھیں تو ان کے بھائیوں کو اب اس پر اعتراض کیوں ہوا، انور بی بی نے بتایا کہ قندیل کے بھائیوں کو ان کے شوبزنس میں جانا شروع سے ہی پسند نہیں تھا تاہم حالیہ واقعات کے بعد ان کا ’ذہن خراب ہوا۔‘ ’پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔‘ قندیل کی والدہ کے مطابق وہ صرف ان کی بیٹی ہی نہیں دوست بھی تھیں اور اپنے کریئر کے بارے میں بھی ان سے بات کرتی رہتی تھیں۔ ’ماں بیٹیاں دکھ سکھ بانٹتی ہیں ، دل کے راز بتاتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی تھی کہ تیری بیٹی نے بہت محنت کی ہے اور بہت اوپر چلی گئی ہے۔ اس دفعہ آئی تو کہہ رہی تھی تیری بیٹی کے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔ کہہ رہی تھی میرا ٹائم آ گیا ہےترقی کا۔‘ان کا کہنا تھا کہ بیٹوں کے برعکس قندیل ہی ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ ’ہم پیچھے سے بہت غریب ہیں ،

ہمیں بیٹی سہارا دیتی تھی۔ بیٹے شادی شدہ ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہیں وہ ہمارا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمیں پیار کرتی تھی۔گاؤں سے یہاں لے کر آئی تھی کہ آپ کا خرچہ اٹھا سکتی ہوں۔‘ انور بی بی کا کہنا تھا کہ انھیں قندیل کے کام پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کی ترقی پر خوش تھے۔ ’ہم تو خوش تھے، اس کے ماں باپ تو خوش تھے باقی جو جل رہے تھے انھوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ محنت کر کے آگے چلی گئی، ہم تو خوش تھے اس کے ساتھ۔‘ قندیل کے والد محمد عظیم کا بھی کہنا ہے قندیل ان کے لیے کسی بھی اچھے بیٹے سے بڑھ کر تھی۔ ’بیٹی بھی تھی، دوست بھی تھی جگری، بیٹا بھی، ایک اچھے سے اچھے بیٹے سے اچھی، میں کیا بتاؤں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ بیٹی کے قتل پر بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔ انور بی بی ’سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔‘ اس سوال پر کہ انھوں نے اپنے دوسرے بیٹے جو فوج میں ملازم ہے،کا نام ایف آئی آر میں کیوں درج کرایا، محمد عظیم نے کہا ’ایک جنونی بیٹا تھا، فوج میں ہے، کہتا تھا کہ شادی کر لو نہیں تو میری بہن نہیں ہو۔ میں نشے میں تھا۔ ان کی ناراضگی کی وجہ سے میں نے ناجائز اس غریب کا نام لے لیا ، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، وہ ملوث نہیں تھا۔‘ جب قندیل کے والد سے پوچھا گیا کہ آیا بیٹی کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو انھوں نے کہا کہ ’جب سے عبدالقوی والی بات ہوئی، تب سے لوگ شکایتیں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’انھوں نے بھڑکایا کہ اس کا پہلے شوہر ہے ، وہ تو خود ہی مان گئی تھی کہ طلاق یافتہ ہے لیکن وہ اسے کو میڈیا پر لے کر آئے اور اسے کہا کہ گلے کرے ، شکایتیں کرے۔‘ ’مفتی عبدالقوی کے نام پر یہ جھگڑا اٹھا پاکستان میں۔ اس جھگڑے میں سارا کچھ ہو گیا۔ وہ ڈری ہوئی تھی، کئی بار کہتی تھی کہ اگر کوئی گھر کے باہر میرا پوچھتا ہے تو اسے پوچھو کون ہے؟‘
ترکی میں گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ہزاروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں فوجیوں، ججوں اور اساتذہ کو برخاست کیا جا چکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی میں نو ہزار افراد زیر حراست ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک معاشرے سے تطہیر کے عمل میں 58 ہزار افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ترک شہریوں کو خوف لاحق ہے کہ آنے والے دن بری خبریں لانے والے ہیں۔ کس کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہےجوں ہی یہ واضح ہوگیا کہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے تو ترکی میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا۔ پہلے اس کا نشانہ سکیورٹی ادارے بنے پھر ’صفائی‘ کا یہ عمل ترکی کے تمام سویلین ڈھانچے تک پھیل گیا۔ ایک ترک کالم نگار کے بقول ترکی میں ’جوابی بغاوت‘ جاری ہے اور بغاوت کے انداز میں ہی اداروں کی ’صفائی‘ کا عمل جاری ہے۔ بظاہر طیب اردوغان ریاستی اداروں میں قائم متوازی نظام کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو امریکہ میں مقیم ان کے سابق حلیف اور موجودہ دشمن فتح اللہ گولن نے قائم کر رکھا ہے۔ ترک صدر کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ فتح اللہ گولن کی تحریک کتنی وسیع ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ گولن کو ماننے والے صدر اردوغان کے قریبی پوسٹوں تک پہنچ چکے تھے اور ایسے افراد میں صدر اردوغان کے فوجی مشیر علی یازیچی اور ایئرفورس کے مشیر ارکان کیورک بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ فتح اللہ گولن کا گروہ اس بغاوت کے پیچھے تھا اور وہ صدر تک پہنچنے میں صرف دس سے 15 منٹ دور رہ گئے تھے۔کہاں کہاں صفائی ہو رہی ہے؟ سرکاری اداروں کی صفائی اتنی وسیع ہے کہ بہت کم لوگ اس پر یقین کرتے ہیں کہ اس ’صفائی‘ کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ کس کس محکمے کےکتنے لوگ زیر حراست ہیں یا ملازمتیں کھو چکے ہیں: ٭ 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجی زیر حراست ہیں ٭ آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭1481 ججوں سمیت عدلیہ سے تین ہزار عہدیداروں کو ہٹایا جا چکا ہے ٭ محکمہ تعلیم سے 15 ہزار دو سو ٹیچروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ پرائیوٹ سکولوں سے تعلق رکھنے والے 21 ہزاروں کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں ٭ 1577 یونیورسٹی ڈینز کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں ٭ وزارت خزانہ سے 1500 لوگوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جا چکا ہے ٭ 492 کلرک، مبلغ اور مذہبی استادوں کو بھی ملازمتوں سے نکالا جا چکا ہے ٭سوشل پالیسی منسٹری 393 افراد کے عملے کو برخاست کر دیا گیا ہے ٭ وزیر اعظم کے دفتر سے257 افراد کو نکال دیا گیا ہے ٭ خفیہ اداروں کے ایک سو اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے تعلیمی نشانے پر کیوں؟ صدر رجب طیب اردوغان نے سنہ 2002 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ رجب طیب اردوغان کے دور حکومت میں مذہبی سکولوں جنھیں ترک زبان میں ’امام ہطپ‘ کہا جاتا ہے میں رجسٹریشن میں 90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

طیب اردوغان ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ ایک نیک نسل کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ طیب اردوغان نے سنہ 1997 میں آنے والے فوجی انقلاب کے بعد بند کیے جانے والے سکولوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ ان سکولوں کو بند کر کے ترکی کے قلب کی شریان کو بند کر دیا گیا تھا۔ طیب اردوغان نے مبلغ فتح اللہ گولن کو ماننے والوں کے زیر انتظام ملک سے باہر چلنے والے تعلیمی اداروں کو بھی بند کرانے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کی حکومت نے رومانیہ میں 11گولینسٹ تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ وہ ان اداروں کو بند کردیں۔ گولینسٹ اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ وہ رومانیہ کے قانون کے تحت چلتے ہیں نہ کہ ترکی کے۔ جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے ڈینز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے ک جن کو مستعفیٰ ہونے کا کہا گیا ہے وہ شاید فتح اللہ گولن کے ماننے والے’گولینسٹ‘ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی کی تین سو یونیورسٹیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے نے ماہرین تعلیم کی بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے اور ایسے ماہرین تعلیم جو پہلے ملک سے باہر ہیں انھیں کہا گیا ہے کہ وہ وطن واپس پہنچ جائیں۔ اتنے زیادہ سرکاری اہلکار نشانے پر کیوں؟سنہ 2010 میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 3227 افراد نے نقل کے ذریعے سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ حکومت کا خدشہ تھا کہ سارے لوگ فتح اللہ گولن کے ماننےوالے ہیں۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد شاید اردوغان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ سول سروس کو فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کر دیں۔ ایک اور خدشہ یہ ہے کہ ترکی کی حکومت علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو حکومت سے نکال رہی ہے۔ ترکی میں علوی لوگوں کی تعداد 15 ملین ہے۔ ترکی کی اے کے حامیوں کی تعداد زیادہ سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ علوی شیعہ اور سنی اسلام کی ایک مشترکہ شکل سمجھی جاتی ہے۔ اردوغان اب کیا کریں گے؟ امید کی جا رہی ہے کہ صدر اردوغان بدھ کے روز ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ صدر اردوغان جو کچھ کر رہے ہیں اس کا موازنہ 12 ستمبر 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کا بہت کم امکان ہے کہ ترکی میں مارشل لاء لگا دیا جائے کیونکہ ناکام بغاوت کی بعد فوج کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہنگامی اقدامات کیےجانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، جن میں بغیر کسی الزام کے لوگوں کو حراست میں رکھنا اور پارلیمانی منظوری کے بغیر ہی سرکاری اہلکاروں کو برخاست کرنے کے اختیارات میں توسیع ہو سکتی ہے۔ ترکی میں 12 برس پہلے پھانسی کی سزا ختم کر دی گئی تھی۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ وہ عوامی مطالبے پر پھانسی کی سزا کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔صدر اردوغان ملک کو مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں سے پاک کرنے کا عہد دہراتے رہتے ہیں۔ فتح اللہ گولن جو ماضی میں صدر طیب اردوغان کے سیاسی حلیف تھےسنہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے بہت لوگوں کو اپنا دشمن بنایا ہے لیکن ان کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ فتح اللہ گولن کے ماننے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدن کا 20 فیصد عبداللہ گولن کی تنظیم کو دیتے ہیں اور وہ ترکی کے ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان میں بعض نے بغاوت میں شریک ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ فتح اللہ گولن کے ایک ماننے والے کے مطابق بغاوت کا حکم ایک نجی تعلیمی ادارے کے استاد جسے بگ برادر بھی کہا جاتا ہے، سے آیا تھا۔ ترکی میں گولینسٹ کون ہے اس کے بارے میں واضح طور اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن جب سنہ 2013 میں صدر اردوغان کے بیٹے اور ان کے کئی وزیروں پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے اس وقت بھی ترک صدر نے اس کا الزام فتح اللہ گولن کی دہلیز پر دھرا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدھ کو لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کے سربراہ نجم سیٹھی نے کہا کہ پی ایس ایل کے آئندہ ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں دعوت دی گئی ہے۔ ٭ سپر لیگ: بورڈ کو منافع، فرنچائزز کو نقصان ٭ پی ایس ایل کتنی کامیاب؟ نجم سیٹھی نے کہا کہ ’پاکستان آ کر کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو اضافی پیسے دیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ان کی اس حوالے سے بات ہو گئی ہے اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانا چاہتے ہیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کے دورہ کراچی کے دوران ان کی ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر سے ملاقات ہوئی جس میں انھیں پی ایس ایل کراچی میں کروانے کے صورت میں سکیورٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔‘

’میں نے شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ تیار نہیں ہیں تو ہم کراچی میں کروا لیتے ہیں جس پر انھوں نے کہا کہ پی سی بی کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے تو یہیں ہونا چاہیے۔‘ انھوں نے کہا کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے الگ پیکیج تیار کیاگیا ہے جس کے تحت ان سے کہا جا رہا ہے کہ آخری میچ لاہور میں کھیلنے کی صورت میں انھیں اضافی پیسے دیے جائیں گے۔ نجم سیٹھی نے بتایا کہ لاہور میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں 14 کمرے تیار کروائے جا رہے ہیں۔ ’اگر لاہور میں فائنل کروانے کی بات بن جاتی ہے تو کھلاڑیوں کو این سی اے میں ہی ٹھہرایا جائے گا کیونکہ ہوٹل سے آنے جانے میں مسئلہ ہوتا ہے۔‘ اس کے علاوہ پی ایس ایل کے آئندہ سیزن میں نئی ٹیم کو شامل کرنے کے حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ’ٹیمیں پانچ ہی رہیں گی کیونکہ دیگر پانچوں فرنچائزز اس پر نہیں مانیں ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان سپر لیگ کا آغاز رواں سال کے آغاز میں متحدہ عرب امارات میں ہوا تھا جس کا فائنل اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم نے جیتا تھا۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 42 افراد کی ہلاکت کے خلاف پاکستان بھر میں سرکاری سطح پر’یوم سیاہ ‘منایا جا رہا ہے۔ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ ’عالمی برادری کو پاکستان کے حوالے سے یہ بات بطور خاص پیشِ نظر رکھنی ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو فریق مانا ہے۔ اب اگر کشمیر میں انسانوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے تو پاکستان ان واقعات سے غیر متعلق نہیں رہ سکتا۔‘ ٭ کشمیر میں اخبارات اور ٹی وی پر بھی قدغن ٭برہان کے بعد کشمیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر سفارتی، سیاسی اورانسانی حقوق کے محاذ پر ان کا مقدمہ لڑا جائے گا۔‘انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران مظاہرین پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔تیرہ روز سے جاری ان واقعات میں اب تک 42 کشمیری شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد میں’کشمیر ریلی‘ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ’ہندوستان جو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،

اُس جمہوریت میں بھی کشمیر کی آواز کو کُچلا جا رہا ہے۔ کشمیر کی آواز کو بند کرنے کے لیے کے لوگوں کو زندگیوں سے محروم کیا جارہا ہے۔‘ پرویز رشید نے کہا کہ’ہم یومِ سیاہ منا کر دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں۔انھیں انصاف دلانا چاہتے ہیں اور دنیا کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔‘ واضح رہے کہ بدھ کو یوم سیاہ کے موقع پر کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیےتمام سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ اسلام پریس کلب پر سیاہ پرچم لہرایا گیا ہے جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سےمختلف مقامات پر خصوصی تقریبات، مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب مذہبی تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہحافظ سیعد کی سربراہی میں لاہور سے اسلام آباد تک ’کمشیر کاروان‘ نکالا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان شریک ہیں۔ کاروان میں شریک افراد کا مؤقف تھا کہ ’کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہو رہا ہے جسے پاکستانی میڈیا میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’آج وہ کشمیری مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سخت گرمی میں بھی سڑکوں پر نکلے ہیں تاکہ حکومت پہ دباؤ ڈال سکیں کہ وہ کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پہ اٹھائے۔‘
سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی ایک متفرق درخواست پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیمرا کے حکام سے جواب طلب کیا ہے۔ ٭ فوج ہر سطح پر احتساب کی حمایت کرے گی‘ ٭ شیر کا احتساب کون کرے گا؟ اس متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت اور پیمرا کو حکم دے کہ وہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور اس پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرے۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا آئی ایس پی آر کو ریگولیٹ کرنے سے قاصر ہے۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس پی آر کے حکام سے میڈیا مہم پر عوامی پیسہ خرچ ہونے کے بارے میں پوچھا جائے، جس پر بینچ میں موجود جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پیمرا کے حکام سے جواب طلب کر لیتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر جتنے بھی اخراجات ہوتے ہیں اُن کی آمدن کے ذرائع بھی بتائے جائیں۔ درخواست گزار عاصمہ جہانگیر نے الزام عائد کیا ہے کہ آئی ایس پی آر نے متعدد سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں جو مختلف افراد کو بدنام کرنے کے لیے اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔

اس متفرق درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا سیل اور سوشل میڈیا پر چلنے والے اداروں پر خرچ ہونے والے اخراجات کی تفصیلات معلوم کر سکے۔اُنھوں نے کہا کہ پیمرا کے حکام اس بارے میں امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے تین مراکز ہیں جو میڈیا اور دوسری معلومات کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حکومت کے زیر انتظام میڈیا ہے جس میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جبکہ دوسرا مرکز پیمرا کا ادارہ ہے جو تمام نجی میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں مراکز کے برعکس فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو سٹیشنز تمام پابندیوں سے آزاد ہیں۔ ان کے مطابق ایف ایم چینل 96:00 اور ایف ایم 89:04 پچپن سے زیادہ شہروں میں سنا جاتا ہے جو کہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیمرا ان ایف ایم سٹیشنز کی نگرانی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر عوامی پیغامات نشر کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ اُنھوں نے کہا کہ تمام چینلز سے کہا ہے کہ وہ اپنی 24گھنٹے کی نشریات میں سے دس فیصد عوامی پیغامات کے لیے مختص کریں۔ ان درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
Powered by Blogger.