راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی ملزم ایان علی کے کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کے مقدمے میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ مقتول کی بیوہ عاصمہ چوہدری کی طرف اپنے خاوند کے قتل کے مقدمے میں عدالت اور متعقلہ پولیس کو دیے گئے بیان میں ملزمہ ایان علی کو نامزد کیا گیا ہے۔ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کا نام ملزمہ ایان علی سے غیر ملکی کرنسی برآمد ہونے کے مقدمے میں گواہ کی حثیت سے شامل ہے اور ملزمہ سے کرنسی برآمد ہونے کے دوماہ کے بعد اُنھیں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ مقامی پولیس نے پہلے یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا تاہم مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کے بیان کے بعد ایان علی کو اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی۔ راولپنڈی کی پولیس نے اس مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے متعدد بار نوٹس بھیجے لیکن ایان علی تفیش کے سلسلے میں پولیس میں پیش نہیں ہوئیں۔

اس پر متعلقہ تھانے کی پولیس نے مقامی عدالت میں ملزمہ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست دی جسے سول جج گلفام لطیف بٹ نے ایان علی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق ملزمہ ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے اگلے ایک دو روز میں پولیس کی ٹیم کراچی روانہ کردی جائے گی۔ مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کی درخواست پر پنجاب حکومت نے آیان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جسے منظور کرلیا گیا جبکہ اس سے پہلے وزارت داخلہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکال چکی تھی۔ ایان علی کو گذشتہ برس پانچ لاکھ امریکی ڈالر دوبئی لےکر جانے کی کوشش میں بےنظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے قانون میں دس ہزار امریکی ڈالر بیرون ملک لے کر جانے کی اجازت ہے۔ ملزمہ ایان علی کی غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی پیروی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب ججز کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی تو ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھ کر کیسے تبصرے کیے جاسکتے ہیں؟ اگر کسی کو ججز پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا آئینی راستہ موجود ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں بدامنی کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا میں کوتاہی کے بارے میں سماعت کے موقعے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم پیش ہوئے۔ ٭ پاکستانی فوج کے زیر انتظام ریڈیو پر پیمرا سے جواب طلب ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ابصار عالم نے بتایا کہ تین ٹیلیویژن چینلز پر پروگرام کیے گئے تھے جن کا پیمرا نے نوٹس لیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس سے کیا ججوں کی عزت وہ وقار بحال ہو جائےگا؟ ان چینلز کا لائسنس کیوں نہیں منسوخ کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق آپ یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ابصار عالم نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک دم انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں تو عدالتیں ناراض ہوتی ہیں اس وجہ سے مرحلے وار کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے پیمرا کی کارروائی اور نوٹس کا جائزہ لیا اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی عدم حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی، جسٹس مشیر عالم، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 28 جولائی کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ

وہ آ کر عدالت کو بتائیں کہ سوشل میڈیا پر جـجز کے خلاف مہم کی روک تھام کے لیے انھوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ سماعت کے دوران رینجرز کی موجودگی اور اس کو حاصل پولیس کے اختیارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت پوری ہوگئی ہے، عدالت کو اس پر ہدایت کرنی چاہیے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے واضح کیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو انتظامی طور پر ہی حل کیا جائے عدالت اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو نادرا ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسگ کی جدید سہولت دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اویس شاہ سمیت دیگر مقدمات میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے پاس ٹو جی مانیٹرینگ نظام ہے اس لیے اس کو تھری جی ڈیٹا نہیں مل سکتا۔ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کی کئی ڈیوائسز دستیاب ہیں اور کئی شہروں میں تھری جی اور فور جی کی سہولیات موجود ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان اس کا فائدہ اٹھا کر واٹس اپ اور دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے انٹرنیٹ کالز کرتے ہیں جن تک رسائی کی ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں، پولیس کو اس کی اجازت دی جائے۔‘ جسٹس خلجی عارف حسین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی اور سندھ میں امن کا قیام چاہتی ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر انداز میں کارروائی کرسکیں۔ انھوں نے وفاقی سیکریٹری اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ پولیس کے شکایتی مرکز 15 کا ریکارڈر دو ہفتوں میں بحال کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی حکومت بتائے کہ اویس شاہ کے اغوا میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے انڈیا کی عدالت میں درخواست دینا انڈیا کی طرف سے پوائنٹ سکورنگ ہے۔ جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میں پاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ ’پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ سرتاج عزیز نے کہا کہ ’تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن انڈیا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ اس لیے مذاکرات کی میز پر نہیں آ رہا۔‘ واضح رہے کہ انڈیا کے شہر انبالہ کی ایک عدالت میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف اینٹی ٹیررسٹ فرنٹ انڈیا نامی تنظیم کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں ’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے حزب المجاہدین کے شدت پسند برہان وانی کو شہید قرار دینا اور پاکستان میں اس سلسلے میں یومِ سیاہ منانا انڈیا کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے۔‘ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا کے زیر انتظام کمشیر میں نہتے کشمریوں پر انڈین افواج کے مظالم کا معاملہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے لے کر جائےگا۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ انڈیا کی افواج کو چھرے والی گن کے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے انڈیا کی حکومت پر دباؤ ڈالے جس کے استعمال سے ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف اور انڈین وزیر اعظم کے درمیان تعلقات پر تنقید کے بارے میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں وزراء اعظم کے درمیان تعلقات ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ ریاستی سطح کے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نریندر مودی دن میں کتنی مرتبہ میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کرتے ہیں پاکستان کو تو اس بات سے مطلب ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کتنی سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں پاکستان سے مذاکرات کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان خلاف ورزیوں پر انڈیا کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔
پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم کو خود پر زیادہ دباؤ لینے کی ضرورت ہے۔ مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گرؤنڈ میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ’بطور ٹیم ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم تھوڑا دباؤ لیں، کیونکہ دباؤ لیں گے تو اگلا میچ زیادہ توجہ کے ساتھ کھیلیں گے۔‘ ٭ لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح ٭ 20 سال بعد لارڈز میں پاکستان کی شاندار جیت مصباح الحق نے کہا کہ تمام کھلاڑیوں کے درمیان یہی بات ہوئی ہے کہ انگلینڈ اب زیادہ جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ ’ان کی ٹیم میں لیگ سپنر، آل راؤنڈر اور ایک فاسٹ بولر کی واپسی ہوئی ہے جس کے بعد وہ مزید مضبوط ٹیم بن گئی ہے اس لیے ہمیں اور زیادہ محنت کرنا ہوگی۔‘ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ جمعے سے اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا جائے گا۔ ایک صحافی نے مصباح سے سوال کیا کہ کیا پاکستان اسی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے گا جس کے ساتھ اس نے لارڈز میں فتح حاصل کی تھی؟ اس پر مصباح الحق نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ مجھے انگلینڈ ٹیم کی طرف سے لگ رہے ہیں۔

ٹیم کے بارے میں آپ کو کل ہی پتہ لگے گا۔‘ پاکستانی ٹیم لارڈز کرکٹ گراؤنڈ جیسے جشن کا سلسلہ آئندہ میچوں میں بھی جاری رکھی گی یا نہیں؟ اس پر مصباح الحق نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف ٹرینرز کی محنت پر انھیں داد دینے کے لیے تھا اور یہ پیغام ہم نے دے دیا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ ہر میچ میں ایسا جشن منایا جائے۔‘ وہاں موجود صحافی نے سوال کیا کہ دو سال قبل انڈیا کی ٹیم نے بھی لارڈز ہی کے میدان پر انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی تھی اور کچھ ایسا ہی جشن منایا تھا، لیکن بعد میں وہ تین ایک سے سیریز ہار گئے۔ تو آپ کیسے اس طرح کی سوچ سے لڑکوں کو دور رکھیں گے؟ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ مخالف ٹیم کو آسان نہیں لے سکتے اور ہم مخالف ٹیم کی قوت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارے جشن کا انڈیا کی ٹیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہمیں آئندہ تینوں میچوں میں سخت محنت کرنا ہوگی۔‘ اولڈ ٹریفرڈ کی پچ کے بارے میں قومی ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا: ’پچ اچھی اور سخت لگ رہی ہے اس پر سپن اور باؤنس بھی ہوگا اس لیے میرے خیال میں فاسٹ بولرز کو مدد ملے گی۔‘ یاسر شاہ کے حوالے سے مصباح الحق نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔’انھیں معمولی سے چوٹ آئی تھی جس کے بعد وہ اب ٹھیک ہیں۔‘ یاد رہے کہ لارڈز کے تاریخی میدان پر کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو 75 رنز سے شکست دی تھی۔
انڈیا کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر ملک میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میںپاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف پاکستان میں یومِ سیاہ ٭ ’ٹی وی چینل کشمیر کے زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتے‘ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو لوک سبھا میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے بار بار پاکستان کا نام لیا اور کہا کہ ’آج کشمیر کی صورت حال کو بگاڑنے میں اگر کسی کا اہم کردار ہے تو وہ ہمارے پڑوسی کا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پڑوسی انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر انڈیا میں کوئی بھی دہشت گردی ہے تو وہ پاکستان کی حمایت یافتہ ہے۔ اپنے حالات بہتر کرنے کے بجائے وہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘انھوں نے کشمیر کے تعلق سے پاکستان کی پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو پاکستان میں یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ ’ہمارا پڑوسی ناپاک حرکتیں کر رہا ہے۔‘ پارلیمان میں کشمیر کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور حکومت اسے بہتر کرنے کی کوشش کرےگی۔

راج ناتھ سنگھ نے کہا: ’ہمیں کشمیر میں حالات کو بہتر کرنے کے لیے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے کشمیری شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کا دفاع کیا اور کہا کہ ’انھوں نے صبر سے کام لیا ہے اور وہ خود بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ کشمیر میں چھرّے والی بندوقوں کا استعمال پہلی بار ہوا ہو اور اس کی شروعات تو 2010 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا: ’ہم ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے چھرّے والی بندوقوں کے استعمال کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے اور وہ دو ماہ کے اندر ہی اس بارے میں اپنی رپورٹ دے گي۔‘ ان کے بقول اس کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئي فیصلہ کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتے قبل نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں اب تک 42 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔زخمیوں میں سے بڑی تعداد لوہے کے تیز دھار اور نوکیلے چھرّے لگنے سے زخمی ہوئی ہے اور ان کی وجہ سے درجنوں افراد کے بینائی سے محروم ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ احتجاجی لہر کے آغاز کے بعد سے وادی میں کرفیو نافذ ہے جبکہ انٹرنیٹ اور مواصلات کی دیگر سہولیات بھی بند کر دی گئی ہیں۔ کشمیر میں چند دن قبل اخبارات کی اشاعت اور نیوز چینلز پر بھی عارضی طور پر پابندی لگائی گئی تھی جسے اب اٹھا لیا گیا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کے ادارے پیمرا کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی فوج کو کبھی کوئی ریڈیو لائسنس جاری نہیں کیا ہے۔ اسلام آباد میں جمعرات کو پاکستانی میڈیا ریگولیشن سے متعلق ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے پیمرا کے سینیئر اہلکار ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ پاکستان فوج کا تعلقات عامہ کا شعبہ آئی ایس پی آر ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایف ایم چینلز چلا رہا ہے۔ ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ’ریڈیو پاکستان سمیت تمام سرکاری میڈیا پیمرا کے دائر اختیار میں نہیں آتا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان کی سروسز بڑھا رہے ہیں۔‘ بدھ کو ہی سپریم کورٹ نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام چلنے والے ایف ایم ریڈیو سٹیشن اور سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے جواب طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی طرف سے فوج کے زیرِانتظام چلنے والے ریڈیو کے بارے میں دائر کی گئی اس درخواست میں عاصمہ جہانگیر نے ان ایف ایم ریڈیو چینلز پر اخراجات اور آمدن کے ذرائع بھی مانگے ہیں۔ پیمرا اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں تمام مذہبی ٹی وی چینلز لائسنس کے بغیر چل رہے ہیں۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ ابھی تک مذہبی چینلز سے متعلق کوئی پالیسی مرتب نہیں کی گئی ہے۔ ’کیو ٹی وی جیسے کئی چینل بغیر لائسنس کے عدالتوں کے حکم امتناعی کی بنیاد پر نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت پیمرا سے لائسنس یافتہ 203 ایف ایم ریڈیو چینل چل رہے ہیں جن میں سے 160 کمرشل ہیں۔ انھوں نے پاکستانی میڈیا سے متعلق ادارے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں کہا کہ ’پاکستانی میڈیا بےلگام آزادی چاہتا ہے اور چینل ریٹنگ کی دوڑ میں جعلی خبریں چلاتے ہیں۔‘ عاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمیٰ سے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ پیمرا کے حکام امتیازی رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور وہ آئی ایس پی آر کے زیر انتظام چلنے والے ریڈیو چینلز کی نگرانی کرنے سے انکار کر رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس پیمرا مختلف میڈیا پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ برطانوی میڈیا ریگولیٹری ادارے ’آف کام‘ کی ماریہ ڈونڈ نے اس موقع پر بتایا کہ ان کا ادارہ 800 عملے کے ساتھ برطانیہ کے تمام میڈیا کی نگرانی کرتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پیمرا کے اہلکار کے مطابق ان کے عملے کی تعداد چھ سو ہے۔ ڈاکٹر مختار کا عملے کی تعداد کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی علاقے میں پیمرا کا دفتر نہ ہو تو لوگ قانون اور ضابطے کو نہیں مانتے۔
ملتان میں اپنے بھائی کے ہاتھوں ’غیرت کے نام پر‘ قتل ہونے والی سوشل میڈیا کی مقبول پاکستانی شخصیت قندیل بلوچ کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بی بی سی اردو کی صبا اعتزاز سے خصوصی بات چیت میں محمد عظیم اور انور بی بی کا کہنا تھا کہ قندیل کے قتل پر ان کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اور اسے بےقصور مارا گیا۔ ٭ قندیل بلوچ کا قتل: کب کیا ہوا؟ ٭ ’کہتی تھی میرا ٹائم آ گیا ہے۔۔۔‘ ٭قندیل کے مقدمۂ قتل میں غیرت کے قتل کی دفعہ شامل قندیل بلوچ کو 15 جون کی شب ان کے بھائی وسیم نے قتل کر دیا تھا اور پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد انھوں نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔ قندیل کی والدہ کا کہنا تھا کہ وسیم نے قندیل کو قتل کر کے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔ محمد عظیم، والد قندیل بلوچ ’سزا ملنی چاہیے، اس کی غلطی ہے، اس نے ناجائز قتل کیا۔ایسا کیوں کیا اس نے؟ میں نہیں معاف کروں گی بیٹے کو۔ میری لائق بچی، مردوں کی طرح بہادر لڑکی تھی، کیا قصور کیا تھا اس نے؟‘ قندیل کی والدہ نے واردات کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم وسیم نے جمعے کی شام ان کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا لیکن اس نے اپنے رویے سے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ ’بھائی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا ہے۔ اس نے ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ قندیل کا برا چاہ رہا ہے۔ میرے دل میں کوئی شک نہیں پڑا کہ میرا بیٹا میری بیٹی کے ساتھ یہ کرے گا۔‘ انور بی بی نے کہا کہ وسیم نے انھیں اور ان کے شوہر کو دودھ میں نشہ آور دوا ملا کر دی تھی جس کی وجہ سے وہ نہیں جانتے کہ قندیل کے قتل کے وقت کیا ہوا۔ ’میرا شوہر اور میں سو گئے۔ دودھ ہم پی چکے تھے جس میں نشہ ملا کے دیا ہمیں۔ صبح قندیل کو آواز دی کہ بیٹا ناشتہ کر لو ۔ پہلے وقت پر اٹھ جاتی تھی پر وہ نہیں اٹھی۔ میں نے سوچا جا کر دیکھوں ، یہ کس طرح کی نیند آئی ہوئی ہے اس کو، سفید چادر اوڑھ کر پڑی ہوئی ہے۔‘ انور بی بی نے بتایا کہ جب انھوں نے قندیل کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ان کے سارے چہرے پر نشان تھے جبکہ زبان اور ہونٹ کالے پڑ چکے تھے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ وسیم نے اپنے دوستوں میں قندیل کو جانی نقصان پہچانے کی بات بھی کی اور جب قندیل کو معلوم ہوا تو اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔ ’جیسے آج کل حالات چل رہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ وسیم قندیل کو مارنے لگا ہے۔ جب قندیل کو پتہ لگا اس نے کہا بڑا آیا مجھے مارنے والا! پھر میں نے اور اس کے باپ نے اسے (وسیم کو) ملامت کی کہ اس لیے بڑے ہوئے ہو کہ بہن کی جان لے لو۔‘ اس سوال پر کہ قندیل بلوچ تو ایک عرصے سے شوبزنس میں تھیں تو ان کے بھائیوں کو اب اس پر اعتراض کیوں ہوا، انور بی بی نے بتایا کہ قندیل کے بھائیوں کو ان کے شوبزنس میں جانا شروع سے ہی پسند نہیں تھا تاہم حالیہ واقعات کے بعد ان کا ’ذہن خراب ہوا۔‘ ’پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔‘ قندیل کی والدہ کے مطابق وہ صرف ان کی بیٹی ہی نہیں دوست بھی تھیں اور اپنے کریئر کے بارے میں بھی ان سے بات کرتی رہتی تھیں۔ ’ماں بیٹیاں دکھ سکھ بانٹتی ہیں ، دل کے راز بتاتی ہیں۔ وہ مجھے بتاتی تھی کہ تیری بیٹی نے بہت محنت کی ہے اور بہت اوپر چلی گئی ہے۔ اس دفعہ آئی تو کہہ رہی تھی تیری بیٹی کے دکھ ختم ہو گئے ہیں۔ کہہ رہی تھی میرا ٹائم آ گیا ہےترقی کا۔‘ان کا کہنا تھا کہ بیٹوں کے برعکس قندیل ہی ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ ’ہم پیچھے سے بہت غریب ہیں ،

ہمیں بیٹی سہارا دیتی تھی۔ بیٹے شادی شدہ ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہیں وہ ہمارا خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہ ہمیں پیار کرتی تھی۔گاؤں سے یہاں لے کر آئی تھی کہ آپ کا خرچہ اٹھا سکتی ہوں۔‘ انور بی بی کا کہنا تھا کہ انھیں قندیل کے کام پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ اس کی ترقی پر خوش تھے۔ ’ہم تو خوش تھے، اس کے ماں باپ تو خوش تھے باقی جو جل رہے تھے انھوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ محنت کر کے آگے چلی گئی، ہم تو خوش تھے اس کے ساتھ۔‘ قندیل کے والد محمد عظیم کا بھی کہنا ہے قندیل ان کے لیے کسی بھی اچھے بیٹے سے بڑھ کر تھی۔ ’بیٹی بھی تھی، دوست بھی تھی جگری، بیٹا بھی، ایک اچھے سے اچھے بیٹے سے اچھی، میں کیا بتاؤں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ بیٹی کے قتل پر بیٹے کو معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ پہلے تو سکون تھا۔ یہ جو مہینہ ہے نہ رمضان والا ، اسی میں شور شرابہ مچا ، غلط تصویریں ، غلط باتیں پھیلیں، اسی وجہ سے ہوا۔ بھائی پاگل ہوگیا۔ اس کے دوست سارے طعنے دیتے تھے ’یہ تیری بہن ہے، یہ تیری بہن ہے۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ قندیل اب یہ کام نہ کرے ، اس کو اب روک دو۔ ہم بلوچ خاندان سے ہیں، لوگ ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔ انور بی بی ’سزا ہوتی ہے ہو جائے! میں تو کہتا ہوں اسے جہاں نظر آئے گولی مار دو۔ میری مسکین کو دبا دیا۔ ابا اماں اوپر بےہوش۔۔۔اس نے شور بھی مچایا ہوگا، اماں کو بلاتی ہوگی، ابا کو بلایا ہوگا۔۔۔ ہمیں درد نہیں ہے کیا؟ ہم بہت تکلیف میں ہیں۔‘ اس سوال پر کہ انھوں نے اپنے دوسرے بیٹے جو فوج میں ملازم ہے،کا نام ایف آئی آر میں کیوں درج کرایا، محمد عظیم نے کہا ’ایک جنونی بیٹا تھا، فوج میں ہے، کہتا تھا کہ شادی کر لو نہیں تو میری بہن نہیں ہو۔ میں نشے میں تھا۔ ان کی ناراضگی کی وجہ سے میں نے ناجائز اس غریب کا نام لے لیا ، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، وہ ملوث نہیں تھا۔‘ جب قندیل کے والد سے پوچھا گیا کہ آیا بیٹی کی وجہ سے انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو انھوں نے کہا کہ ’جب سے عبدالقوی والی بات ہوئی، تب سے لوگ شکایتیں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’انھوں نے بھڑکایا کہ اس کا پہلے شوہر ہے ، وہ تو خود ہی مان گئی تھی کہ طلاق یافتہ ہے لیکن وہ اسے کو میڈیا پر لے کر آئے اور اسے کہا کہ گلے کرے ، شکایتیں کرے۔‘ ’مفتی عبدالقوی کے نام پر یہ جھگڑا اٹھا پاکستان میں۔ اس جھگڑے میں سارا کچھ ہو گیا۔ وہ ڈری ہوئی تھی، کئی بار کہتی تھی کہ اگر کوئی گھر کے باہر میرا پوچھتا ہے تو اسے پوچھو کون ہے؟‘
Powered by Blogger.