آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور رگبی کے کھلاڑی مائیکل کیوئن کو امریکی عدالت نے بچے کے ساتھ جنسی تعلقات کے مقدمے میں مجرم قرار دیا ہے۔ امریکی شہر لاس انجلس کی عدالت نے کہا کہ 33 سالہ مائیکل کیوئن نے رواں سال مئی میں امریکہ میں اپنے قیام کے دوران ایسے شخص سے رابطہ کیا جو جنسی تعلقات کے لیے بچے فراہم کرتا تھا۔ انھیں 21 مئی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب انھوں نے ایک چھ سالہ بچے کے حصول کے لیے ایک خفیہ ایجنٹ کو 250 ڈالر ادا کیے۔ اس مقدمے میں آسٹریلوی کھلاڑی کو 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ کیوئن نے عدالت کو بتایا کہ وہ اجنبی شخص سے آن لائن بات کر رہے تھے اور وہ پانچ سے دس سال کی عمر کے لڑکوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ لاس اینجلس کے مقامی ہوٹل میں انھوں نے اپنے ’ہم خیال‘ افراد کو پارٹی میں مدعو کیا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا وہ پارٹی اُن کے بارے میں تحقیقات کے لیے ایک خفیہ آپریشن کا حصہ تھی۔

امریکہ کی اٹارنی ایلین ڈیکر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حکام نے اس ’بات کو یقینی بنایا کہ اس کارروائی کے دوران کسی بچے کو نقصان نہ پہنچے اور اپنی غلطی کے لیے مسٹر کیوئن کو سنگین تنائج کا سامنا کرنا ہوگا۔‘ عدالت میں انھوں نے تسلیم کیا کہ اُن کے پاس اس کے سوا اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں ہے کہ انھوں نے خوفناک طریقے سے بچوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک قابلِ مذمت اقدام کیا ہے۔ مائیکل کیوئن رگبی کے کھلاڑی ہیں لیکن وہ میلبرن کی کلینک میں جنیٹک کے ماہر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی رگبی کی ٹیم کو مائیکل کیوئن کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اُن کی سزا رواں سال اکتوبر سے شروع ہو گی۔
کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت نے مبینہ طور پر روسی حکومت کی سربراہی میں کھلاڑیوں کو ڈوپنگ کی ادویات فراہم کیے جانے پر روسی ایتھلیٹس کی اولمپکس میں شرکت پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ روس کی ایتھلیٹک فیڈریشن کو عالمی ایتھیلیٹکس فیڈریشن آئی اے اے ایف نے اس معاملے پر ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد معطل کر دیا تھا۔ ٭ ’روس نے سوچی اولمپکس میں ڈوپنگ کی‘ ٭ ’روسی ایتھلیٹس پر پابندی کا فیصلہ غیر منصفانہ ہے‘ روسی اولمپک کمیٹی اور 68 روسی ایتھلیٹس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی تاہم فریقین کے بیانات سننے کے بعد عدالت نے پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔ دریں اثنا عالمی اولمپک کمیٹی بھی ان مطالبات پر غور کر رہی ہے کہ روس پر پانچ اگست سے شروع ہونے والے اولمپکس کے تمام مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی جائے۔ثالثی عدالت کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ ’عدالتی پینل نے تصدیق کر دی ہے کہ روسی اولمپک کمیٹی ریو اولمپکس کے لیے اپنے ٹریک اینڈ فیلڈ کے ایتھلیٹس کو نامزد

کرنے کی حقدار نہیں کیونکہ وہ آئی اے اے ایف کے مقابلوں کے قوانین کے تحت اولمپکس میں شرکت نہیں کر سکتے۔‘ عالمی ایتھیلیٹکس فیڈریشن نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت نے اس کے موقف کی حمایت کی اور اس فیصلے کے نتیجے میں سب کھلاڑیوں کو برابر موقع ملے گا۔ خیال رہے کہ حال ہی میں عالمی انسداد ڈوپنگ ایجنسی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 2011 سے 2015 کے عرصے میں موسم سرما اور موسم گرما کی اولمپکس کے دوران روسی کھیلوں کی کمیٹی نے اپنے کھلاڑیوں کے پیشاب کے نمونوں میں ہیرا پھیری ’کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی کی۔‘ رپورٹ کے مطابق روس نے سوچی میں منعقد ہونے والے سنہ 2014 کی موسم سرما کے اولمپکس کھیلوں میں کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لیے ڈوپنگ پروگرام جاری کیا تھا۔
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر بین سٹوکس کا کہنا ہے کہ یاسر شاہ ’شین وارن کے بعد سب سے بہترین لیگ سپنر ہیں۔‘ 30 سالہ یاسر شاہ نے لارڈز ٹیسٹ میں مجموعی طور پر 141 رنز کے عوض دس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور اس میچ میں پاکستان نے 75 رنز سے کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ خیال رہے کہ لارڈز ٹیسٹ میں بین سٹوکس اور جیمز اینڈرسن شرکت نہیں کر سکے تھے اور جمعے کو اولڈ ٹریفورڈ میں شروع ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے دونوں کو سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ بین سٹوکس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان بہت اچھی ٹیم ہے لیکن ہم یہ ٹیسٹ یہ جانتے ہوئے کھیلیں گے کہ وہ کیسے بولنگ کرواتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا توڑ ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ یاسر شاہ 13 ٹیسٹ میچوں میں 86 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور ٹیسٹ بولنگ رینکنگ میں 11 سال بعد شین وارن کے بعد کسی لیگ سپنر نے اول پوزیشن حاصل کی ہے۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے شین وارن سنہ 2007 میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے تھے اور انھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 145 میچ کھیل کر 708 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 25 سالہ بین سٹوکس مئی میں سری لنکا کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں گھٹنے کی انجری کا شکار ہوگئے تھے۔ گذشتہ دنوں اپنی کاؤنٹی ڈرہم کی طرف سے کھیلتے ہوئے انھوں نے لنکاشائر کے خلاف ایک میچ کی دوسری اننگز میں 19 اووز کروائے اور تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نیٹس میں بولنگ کرواتا رہا تھا لیکن میچ کے دوران بولنگ کروانے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔اس سے میرے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ‘ جب ان سے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایک شکست ہوئی ہے۔ ہم اس کو تین میچوں کی سیریز کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہم یہ جیت سکتے ہیں۔‘
راولپنڈی کی ایک مقامی عدالت نے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی ملزم ایان علی کے کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کے مقدمے میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ مقتول کی بیوہ عاصمہ چوہدری کی طرف اپنے خاوند کے قتل کے مقدمے میں عدالت اور متعقلہ پولیس کو دیے گئے بیان میں ملزمہ ایان علی کو نامزد کیا گیا ہے۔ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کا نام ملزمہ ایان علی سے غیر ملکی کرنسی برآمد ہونے کے مقدمے میں گواہ کی حثیت سے شامل ہے اور ملزمہ سے کرنسی برآمد ہونے کے دوماہ کے بعد اُنھیں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ مقامی پولیس نے پہلے یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا تاہم مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کے بیان کے بعد ایان علی کو اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی۔ راولپنڈی کی پولیس نے اس مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے متعدد بار نوٹس بھیجے لیکن ایان علی تفیش کے سلسلے میں پولیس میں پیش نہیں ہوئیں۔

اس پر متعلقہ تھانے کی پولیس نے مقامی عدالت میں ملزمہ کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست دی جسے سول جج گلفام لطیف بٹ نے ایان علی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق ملزمہ ان دنوں کراچی میں مقیم ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے اگلے ایک دو روز میں پولیس کی ٹیم کراچی روانہ کردی جائے گی۔ مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ کی درخواست پر پنجاب حکومت نے آیان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی جسے منظور کرلیا گیا جبکہ اس سے پہلے وزارت داخلہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکال چکی تھی۔ ایان علی کو گذشتہ برس پانچ لاکھ امریکی ڈالر دوبئی لےکر جانے کی کوشش میں بےنظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے قانون میں دس ہزار امریکی ڈالر بیرون ملک لے کر جانے کی اجازت ہے۔ ملزمہ ایان علی کی غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے کی پیروی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب ججز کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی تو ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھ کر کیسے تبصرے کیے جاسکتے ہیں؟ اگر کسی کو ججز پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا آئینی راستہ موجود ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں بدامنی کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا میں کوتاہی کے بارے میں سماعت کے موقعے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین ابصار عالم پیش ہوئے۔ ٭ پاکستانی فوج کے زیر انتظام ریڈیو پر پیمرا سے جواب طلب ٭ ’پیمرا کو مثال قائم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ہوں گی‘ ابصار عالم نے بتایا کہ تین ٹیلیویژن چینلز پر پروگرام کیے گئے تھے جن کا پیمرا نے نوٹس لیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس سے کیا ججوں کی عزت وہ وقار بحال ہو جائےگا؟ ان چینلز کا لائسنس کیوں نہیں منسوخ کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق آپ یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ابصار عالم نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک دم انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں تو عدالتیں ناراض ہوتی ہیں اس وجہ سے مرحلے وار کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے پیمرا کی کارروائی اور نوٹس کا جائزہ لیا اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی عدم حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی، جسٹس مشیر عالم، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 28 جولائی کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ

وہ آ کر عدالت کو بتائیں کہ سوشل میڈیا پر جـجز کے خلاف مہم کی روک تھام کے لیے انھوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ سماعت کے دوران رینجرز کی موجودگی اور اس کو حاصل پولیس کے اختیارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت پوری ہوگئی ہے، عدالت کو اس پر ہدایت کرنی چاہیے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے واضح کیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو انتظامی طور پر ہی حل کیا جائے عدالت اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو نادرا ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسگ کی جدید سہولت دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اویس شاہ سمیت دیگر مقدمات میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے پاس ٹو جی مانیٹرینگ نظام ہے اس لیے اس کو تھری جی ڈیٹا نہیں مل سکتا۔ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کی کئی ڈیوائسز دستیاب ہیں اور کئی شہروں میں تھری جی اور فور جی کی سہولیات موجود ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزمان اس کا فائدہ اٹھا کر واٹس اپ اور دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے انٹرنیٹ کالز کرتے ہیں جن تک رسائی کی ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں، پولیس کو اس کی اجازت دی جائے۔‘ جسٹس خلجی عارف حسین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف احمد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی اور سندھ میں امن کا قیام چاہتی ہیں اور انھیں یہ یقین ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر انداز میں کارروائی کرسکیں۔ انھوں نے وفاقی سیکریٹری اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ پولیس کے شکایتی مرکز 15 کا ریکارڈر دو ہفتوں میں بحال کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی حکومت بتائے کہ اویس شاہ کے اغوا میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے انڈیا کی عدالت میں درخواست دینا انڈیا کی طرف سے پوائنٹ سکورنگ ہے۔ جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کبھی بھی انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں رہا اور اس بارے میں پاکستانی موقف واضح ہے اور پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھےگا۔ ٭ پاکستانی وزیرِاعظم کے خلاف انڈیا میں درخواست دائر ٭ ’پاکستان انڈیا کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ سرتاج عزیز نے کہا کہ ’تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن انڈیا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ اس لیے مذاکرات کی میز پر نہیں آ رہا۔‘ واضح رہے کہ انڈیا کے شہر انبالہ کی ایک عدالت میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کے خلاف اینٹی ٹیررسٹ فرنٹ انڈیا نامی تنظیم کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں ’انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے حزب المجاہدین کے شدت پسند برہان وانی کو شہید قرار دینا اور پاکستان میں اس سلسلے میں یومِ سیاہ منانا انڈیا کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے۔‘ مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا کے زیر انتظام کمشیر میں نہتے کشمریوں پر انڈین افواج کے مظالم کا معاملہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سامنے لے کر جائےگا۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ انڈیا کی افواج کو چھرے والی گن کے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے انڈیا کی حکومت پر دباؤ ڈالے جس کے استعمال سے ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف اور انڈین وزیر اعظم کے درمیان تعلقات پر تنقید کے بارے میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں وزراء اعظم کے درمیان تعلقات ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ ریاستی سطح کے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نریندر مودی دن میں کتنی مرتبہ میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کرتے ہیں پاکستان کو تو اس بات سے مطلب ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کتنی سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اُنھوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں پاکستان سے مذاکرات کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان خلاف ورزیوں پر انڈیا کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی انڈین افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور حکومت نے علاقے میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔
پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم کو خود پر زیادہ دباؤ لینے کی ضرورت ہے۔ مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ گرؤنڈ میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ’بطور ٹیم ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم تھوڑا دباؤ لیں، کیونکہ دباؤ لیں گے تو اگلا میچ زیادہ توجہ کے ساتھ کھیلیں گے۔‘ ٭ لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح ٭ 20 سال بعد لارڈز میں پاکستان کی شاندار جیت مصباح الحق نے کہا کہ تمام کھلاڑیوں کے درمیان یہی بات ہوئی ہے کہ انگلینڈ اب زیادہ جارحانہ کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ ’ان کی ٹیم میں لیگ سپنر، آل راؤنڈر اور ایک فاسٹ بولر کی واپسی ہوئی ہے جس کے بعد وہ مزید مضبوط ٹیم بن گئی ہے اس لیے ہمیں اور زیادہ محنت کرنا ہوگی۔‘ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ جمعے سے اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا جائے گا۔ ایک صحافی نے مصباح سے سوال کیا کہ کیا پاکستان اسی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے گا جس کے ساتھ اس نے لارڈز میں فتح حاصل کی تھی؟ اس پر مصباح الحق نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’آپ مجھے انگلینڈ ٹیم کی طرف سے لگ رہے ہیں۔

ٹیم کے بارے میں آپ کو کل ہی پتہ لگے گا۔‘ پاکستانی ٹیم لارڈز کرکٹ گراؤنڈ جیسے جشن کا سلسلہ آئندہ میچوں میں بھی جاری رکھی گی یا نہیں؟ اس پر مصباح الحق نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف ٹرینرز کی محنت پر انھیں داد دینے کے لیے تھا اور یہ پیغام ہم نے دے دیا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ ہر میچ میں ایسا جشن منایا جائے۔‘ وہاں موجود صحافی نے سوال کیا کہ دو سال قبل انڈیا کی ٹیم نے بھی لارڈز ہی کے میدان پر انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی تھی اور کچھ ایسا ہی جشن منایا تھا، لیکن بعد میں وہ تین ایک سے سیریز ہار گئے۔ تو آپ کیسے اس طرح کی سوچ سے لڑکوں کو دور رکھیں گے؟ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ مخالف ٹیم کو آسان نہیں لے سکتے اور ہم مخالف ٹیم کی قوت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمارے جشن کا انڈیا کی ٹیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہمیں آئندہ تینوں میچوں میں سخت محنت کرنا ہوگی۔‘ اولڈ ٹریفرڈ کی پچ کے بارے میں قومی ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا: ’پچ اچھی اور سخت لگ رہی ہے اس پر سپن اور باؤنس بھی ہوگا اس لیے میرے خیال میں فاسٹ بولرز کو مدد ملے گی۔‘ یاسر شاہ کے حوالے سے مصباح الحق نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔’انھیں معمولی سے چوٹ آئی تھی جس کے بعد وہ اب ٹھیک ہیں۔‘ یاد رہے کہ لارڈز کے تاریخی میدان پر کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو 75 رنز سے شکست دی تھی۔
Powered by Blogger.