Koi To Dard Ki Had Ho Jahan Ye Dil Thehre Kahin To Chaaon Ho Aisi K Dum Lia Jaye Bikhar Bikhar Si Gai Hai Tamam Hasti Hi Rafu Karen Bhi To Kya Aur Kya Siya Jaye...
Bachon Ki Tarha Chahe Mujhe Dant Le Koi Lekin Ye Shart Hai Mere Gham Bant Le Koi...
Apna Lehja Sambhaliye Sahib Har Koi Be-Zaban Nahi Hota...
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا دوسرا کرکٹ میچ جمعے سے مانچسٹر میں شروع ہو گیا ہے۔ اولڈ ٹریفرڈ کے میدان میں کھیلے جانے والے میچ میں انگلینڈ نے اب سے کچھ دیر قبل تک بغیر کسی نقصان کے آٹھ رنز بنا لیے تھے۔ * میچ کا تفصیلی سکور کارڈ ٭ پاکستان چھ برس بعد انگلینڈ میں: خصوصی ضمیمہ انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور الیسٹر کک اور ایلکس ہیلز نے اننگز شروع کی ہے۔ ٹاس جیتنے کے بعد الیسٹر کک کا کہنا تھا کہ ’پچ پر تھوڑی بہت گھاس ہے لیکن زیادہ نہیں۔گراؤنڈز مین نے ایک اچھی پچ تیار ہے۔ ہمارے پاس کچھ غلطیوں کو سدھارنے اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کا موقع ہے۔‘ اس موقع پر مصباح الحق کا کہنا تھا کہ چاہے آپ پہلے بلے باز کریں یا بولنگ۔بات منظم انداز میں کھیلنے کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی بولر پہلے سیشن میں وکٹ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

پاکستانی ٹیم اس میچ کے لیے کسی تبدیلی کے بغیر میدان میں اتری ہے جبکہ انگلینڈ نے اپنی ٹیم میں دو تبدیلیاں کی ہیں۔انگلش فاسٹ بولر جیمز اینڈرسن اور آل راؤنڈر بین سٹوکس یہ میچ کھیل رہے ہیں اور انھوں نے سٹیون فن اور جیک بال کی جگہ لی ہے۔ جیمز اینڈرسن اور سٹوکس کے بارے میں ٹاس جیتنے کے بعد انگش کپتان نے کہا کہ ’جمی ایک بہترین بولر ہے۔ بین سٹوکس ایک ایسا کھلاڑی ہے جسے بہت سارے اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہیں گے۔‘ چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستان کو ایک صفر کی برتری حاصل ہے جو اسے لارڈز میں کھیلے گئے میچ میں 75 رنز سے فتح کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان کی جیت میں یاسر شاہ کی دس وکٹوں اور کپتان مصباح الحق کی سنچری نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اولڈ ٹریفرڈ انگلینڈ کی ٹیم کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ سنہ 2001 میں پاکستان سے ٹیسٹ ہارنے کے بعد میزبان ٹیم اس میدان پر نو میں سے سات ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے اور دو ڈرا ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اولڈ ٹریفرڈ میں سات ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں سے ایک جیتا ہے ایک میں اسے شکست ہوئی ہے، جبکہ پانچ ڈرا ہوئے ہیں۔
امریکہ میں رپبلکن پارٹی کی طرف سے بطور صدارتی امیدوار نامزدگی قبول کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو لاحق خطرات دور کر دیں گے۔ اوہایو میں پارٹی کے کنونشن کے آخری مرحلے میں انھوں نے اپنے خطاب میں کہا: ’جن جرائم اور تشدد نے ہمارے ملک کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے وہ جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔‘ ٭ ڈونلڈ ٹرمپ سے بے روزگار امریکیوں کی توقعات ٭ ٹرمپ کی حمایت نہ کرنے پر ٹیڈ کروز کی تضحیک ٹرمپ نے موجودہ امریکہ کی سیاہ تصویر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی صدارت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جس میں امریکہ اور عام آدمی کو اولیت حاصل ہوگی۔ پارٹی نے انھیں گذشتہ روز ہی صدارتی امیدوار کے لیے نامزد کیا تھا جسے انھوں نے قبول کیا اور پھر کنونشن سے خطاب کیا۔اس موقع پر امریکہ کے سابق صدور اور پارٹی کی سرکردہ شخصیات بش سینیئر اور جونیئر موجود نہیں تھے جنھوں نے ٹرمپ کی نامزدگی کی سخت مخالفت کی تھی۔ نیو یارک کے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی کہ اس خطاب سے ریپبلکن پارٹی کے اندر اختلافات رفع ہو جائیں گے اور پارٹی متحد ہوگی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی جو تصویر پیش کی اس کے مطابق امریکہ نہ صرف بکھر رہا ہے بلکہ تنزلی کی راہ پر ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ’بھولے جا چکے‘ امریکیوں کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آپ کی آواز ہوں۔‘ ’ہم اپنے ملک کو پھر سے محفوظ، خوشحال اور پر امن بنائیں گے۔

یہ ایک فیاض اور پرجوش ملک ہو گا۔ لیکن ہم ایسا ملک ہوں گے جہاں امن و امان ہو۔‘ انھوں نے کہا: ’ہمارا عقیدہ امریکن ازم ہوگا بین الاقوامیت نہیں۔‘ اپنے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف ہلیری کلنٹن پر بار بار شدید نکتہ چینی کی اور ان کے لیے موت، تباہی اور کمزوری جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ نومبر کے انتخابات میں ہلیری کلنٹن کو شکست دیں گے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے ہم جنس پرستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایل جی بی ٹی کے حقوق کی پاسبانی کرنے کی بات کہی اور کہا کہ وہ اس برادری کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ دوسری جانب ہلیری کلنٹن کی مہم کے چیئرمین جان پوڈیستا نے ٹرمپ کی تقریر کو منقسم کرنے والی قرار دے کر ان پر نکتہ چینی کی۔انھوں نے کہا: ’ڈونلڈ ٹرمپ نے زوال پذیر امریکہ کی سیاہ ترین شبیہ پیش کی ہے اور اس سے مزید خوف، مزید تقسیم، زیادہ غصّہ اور نفرتوں کا جواب ملتا ہے، یہ ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی تھی کہ ان کا مزاج عہدہ صدارت کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔‘ گذشتہ روز رپبلکن پارٹی کے ایک سینیئر رہنما ٹیڈ کروز نے بھی اسی کنونشن سے خطاب کیا تھا لیکن انھوں نے بھی ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تھی جس کے سبب ان کی تضحیک کی گئی تھی۔ ریاست ٹیکسس سے سینیٹر ٹیڈ کروز بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہی صدارتی امیدوار کی ریس میں شامل تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس مقابلے میں دونوں ایک دوسرے کے سخت ترین حریف تھے۔
انڈیا کی فضائیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی شہر چنّئی سے پورٹ بلیئر کے لیے روانہ ہونے والا ایک فوجی طیارہ خلیج بنگال کے اوپر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا ہے۔ فضائیہ کے حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ طیارہ اے این -32 قسم کا کارگو طیارہ تھا اور اس کی تلاش جاری ہے۔ انڈین فضائیہ کے مطابق اس طیارے پر 20 سے زائد افراد سوار ہیں۔

فضائیہ کے پی آر او انوپم بینرجی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس طیارے نے جمعے کی صبح ساڑھے آٹھ بجے پرواز کی تھی اور اس نے 11:30 بجے لینڈنگ کرنا تھی۔ فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ہوائی جہاز سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے اور اس کی تلاش کا کام جاری ہے۔ بعض انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اس جہاز میں 29 افراد سوار تھے۔ انڈین فوج اور فضائیہ میں اے این -32 جہازوں کا وسیع استعمال ہوتا ہے کیونکہ ان میں سامان لانے لے جانے کی صلاحیت کافی اچھی ہوتی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے الیکشن کمیشن نے تمام 41 نشستوں پر ہونے والے دسویں عام انتخابات میں اب تک کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 41 میں سے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوگئی ہے، جس کے ساتھ ہی اس نے دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لی ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت بنانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ خیال رہے کہ سنہ 1991 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی جماعت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اتنی بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔ صحافی اورنگزیب جرال کے مطابق اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کو 31، پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے صرف دو نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کر پائی جبکہ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار ایک، ایک نشست حاصل کر پائے۔ان عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی، جمعیت علما اسلام کے علاوہ 19 جماعتوں نے حصہ لیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے 219 جبکہ 204 آزاد امیدواروں نے بھی حصہ لے لیا ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن میاں نعیم اللہ کے مطابق اس مرتبہ انتخابات میں ووٹوں کا تناسب 65 فیصد سے زائد رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا: ’اگرچہ روایتی طور پر اسلام آباد میں برسرِ اقتدار جماعت ہی اے جے کے میں انتخابات جیتتی ہے، لیکن میں پھر بھی پی ایم ایل این کو جیت پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔‘ اس کے برخلاف اس خطے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سردار جاوید ایوب نے صحافی اورنگزیب جرال سے بات کرتے ہوئے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے یہ نتائج بھاری رقوم کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔ نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت مسلم لیگ ن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والے تحریک انصاف کے سربراہ اور اس خطے میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سطان محمود نے بھی اپنے مخالفین پر الیکشن کے دوران پیسوں کی تقسیم کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کےسربراہ راجہ فاروق حیدر نے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے الزامات کی سختی تردید کی ہے۔

اس خطے میں شکست سے دوچار ہونے والی جماعتوں کی عمومی روایت رہی ہے کہ انھوں نے پہلے مرحلے میں کبھی بھی نتائج تسلیم نہیں کیے۔اس خطے میں خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (سردار صغیر) نے پہلے ہی سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس خطے کے آئین اور قانون کی رو سے ایسی تنظیموں یا افراد پر انتخابی عملی میں شرکت کی ممانعت ہے جو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر یقین نہیں رکھتیں۔ یہاں رائج انتخابی عمل پر جہاں الحاق پاکستان کی سیا سی و مذہبی جماعتیں سوال اٹھاتی رہی ہیں، وہیں خود مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ پابندی کا اطلاق انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کشمیر کے اس علاقے کے انتخابی قانون کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت امیدوار کے لیے ایک ایسے حلف نامے پر دستخط کرنا ضروری ہیں جس میں اقرار کیا جاتا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، متنازع کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہو۔ اسی طرح رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی یہ ضروری ہے کہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف اٹھایا جائے۔ اس خطے میں عمومی وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔
Powered by Blogger.