’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘

مصر سے تعلق رکھنے والے نادر الشافعی نیس میں حملے کے مقام پر موجود تھے اور حملہ آور کا ٹرک ان کے انتہائی قریب آ کر رک گیا تھا۔ اس وقت کا منظر نادر کی زبانی۔ ’آتش بازی کا مظاہرہ ختم ہوا ہی تھا اور سب ہی لوگ ساحل کے قریب جمع تھے۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا جو فرانس کے قومی دن کے جشن سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ٭ فرانس ایک مرتبہ پھر نشانہ: لائیو اپ ڈیٹس ٭ نیس میں ٹرک سے ہجوم پر حملہ: تصاویر پانچ منٹ بعد جب لوگ ساحل سے متصل سڑک پر جمع ہوئے تو اچانک ہم نے زوردار چیخیں سنیں۔ مجھے ایک ٹرک اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔ میں سڑک پر ٹرک کے بالکل سامنے تھا اور میں نے بہت سے لوگوں کو ٹرک کے نیچے کچلی ہوئی حالت میں دیکھا۔ ٹرک مجھ سے تقریباً ایک میٹر کی دوری پر رک گیا۔ میں اسے(حملہ آور) کو شیشے میں سے دیکھ سکتا تھا۔ آغاز میں میں سمجھا کہ یہ کوئی حادثہ ہے اور ٹرک بے قابو ہو کر لوگوں پر چڑھ گیا ہے اس لیے میں اس پر چیختا رہا کہ وہ رک جائے کیونکہ لوگ اس کی گاڑی کے نیچے ہیں۔ لیکن وہ کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ بس ٹرک کے اندر متحرک تھا اور کچھ پریشان مگر جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو

۔ اس کے ہاتھ سٹیرنگ وہیل پر تھے۔ مجھے لگا کہ وہ ٹرک کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس نے کچھ اٹھایا، مجھے وہ موبائل فون جیسا لگا اور میں سمجھا شاید وہ ایمبولنس کو فون کر رہا ہے۔ اچانک میرے پیچھے سے پولیس والے آئے اور میں نے ڈرائیور کو پستول نکالتے اور شیشے کے پار گولیاں چلاتے دیکھا۔ اس وقت پولیس نے مجھے دھکا دیا اور بھاگ جانے کو کہا۔ وہ بار بار کہتے رہے، یہاں سے نکل جاؤ اور میں وہاں سے قریباً چار میٹر پیچھے آ گیا۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور فائرنگ کی ویڈیو بنانے لگا۔ میں بھاگ نہیں سکا جیسے میں منجمد ہو گیا تھا۔ میں نے اس شخص کی ہلاکت تک کے سارے واقعے کی فلم بندی کی۔ پولیس افسر نے مجھے فلم بناتے دیکھا اور چیختا ہوا میرے پاس آیا اور بولا یہاں سے دور چلے جاؤ۔ میں نیچے لیٹ گیا کیونکہ وہاں نیچے لیٹ جاؤ، نیچے لیٹ جاؤ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ میں لیٹ تو گیا لیکن ویڈیو بناتا رہا۔ چنانچہ جب وہ دوبارہ آیا تو سیدھا میری جانب ہی آیا اور مجھ سمیت ساحل پر موجود تمام افراد کو بھاگ جانے کو کہا۔ میرے خیال میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ٹرک میں بم ہو سکتا ہے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ صورتحال خاصی تشویش ناک ہے اور میں دیگر افراد کے ہمراہ ساحل پر دوڑنے لگا۔‘

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.