کشمیر میں تشدد کی لہر اور سمارٹ فونز

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے تشدد کی لہر کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ تنازع تو سنہ 1947 سے چلا آرہا ہے بہت آسان سی بات لگتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ایک نئی چیز کو بھی نظر انداز کیا جائے گا جو خطے میں ہونے والے احتجاج کی نوعیت ہی بدل رہی ہے۔ جمعے کو ایک نوجوان شدت پسند رہنما برہان ونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس تنازعے نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں حکام نے علاقے کی موبائل سروسز بند کر دیں۔ موبائل فونز کی سروسز بند کر دینے کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ پوری دنیا میں سمارٹ فونز چھا گئے ہیں۔بھارت میں آپ ایک عام سمارٹ فون 30 ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔ ملک میں سنہ 2011 میں 11 ملین سمارٹ فونز فروخت کیے گئے تھے، گذشتہ سال ان کی فروخت 100 ملین سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس دہائی کے اختتام پر توقع ہے کہ 500 ملین بھارتی شہریوں کے پاس موبائل فونز ہونگے جو ملک کی کل آبادی کی نصف تعداد ہے۔ لیکن کشمیر میں ٹیکنالوجی کا استعمال اس شرح سے بہت زیادہ تیز ہے۔ بھارتی اخبار ’دا ٹیلیگراف‘ نے اپنے صفہ اول پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں ریاست کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کیا گیا ہے جو کشمیر میں ہونے والی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ ملک کی وزارت داخلہ میں پیش ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی زیادہ بڑھانی چاہیے۔ سنہ 2010 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی میں صرف ایک چوتھائی کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ لیکن سنہ 2014 میں آبادی کا ایک تہائی حصہ سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ اور پھر اس میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا۔رپورٹ لکھنے والے پولیس افسر کا کہنا ہے کہ 2015 کے اختتام پر کشمیر میں 70 فیصد لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ برہان ونی کو کشمیر کی وادیوں میں اپنے پیغامات سننے والے کئی تیار ناظرین ملے تھے جو اب یہاں پر ہونے والی بدامنی کی اہم وجہ ہے۔ بہت سے کشمیری شدت پسندوں کی طرح برہان ونی بھی ٹیکنالوجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کے بارے میں شائع کیے جانے والے تقریباً ہر مضمون میں اس بات کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے تھے

۔ یہ خوبصورت نوجوان ایک بالی وڈ کے سٹار کی طرح اپنی تصاویر پوسٹ کیا کرتے تھے جن میں وہ اکثر کشمیر کی وادیوں کے سامنے ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہوئے دکھائے دیتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن اور چےگویرا کی تصاویر بھی اسی طرح استعمال کی گئی ہیں۔ کشمیر میں شدت پسندوں نے موبائل فون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اپنے فونز کے ذریعے کھینچی گئی ویڈیو فٹیج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کشمیر میں ایک بات بدلی ہے اور وہ یہ ہے کہ اب لوگوں کو فٹیج اور پیغامات بہت آسانی سے ملتے ہیں۔ شاید یہ بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ میں نے ایم ایم انصاری سے بات کی جو بھارت میں کشمیر کی پالیسی دیکھنے والی کابینہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار مرنے والوں کی تعداد تو کم ہے لیکن یہ تنازع زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس بار عسکریت پسندی اپنی ہی زمین میں پیدا ہوئی ہے۔ ان شدت پسندوں میں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بیشتر لوگ یہاں سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے شدت پسندی پاکستان کی جانب سے سپانسر ہوتی تھی۔‘ جہاں تک سکیورٹی اہلکاروں کا سوال ہے یہ رجحان ان کے لیے بہت ہی سنگین صورتِ حال اختیار کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ عرب سپرنگ یعنی عرب دنیا میں جمہوریت کی لہر کی طرح کشمیر تنازعے میں بھی سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

Labels:



Leave A Comment:

Powered by Blogger.