عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ملک کے 13 بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر بینرز لگے نظر آئے جن میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ’خدا کے لیے اب آ جاؤ ‘ کی درخواست کی جا رہی ہے۔
ان بینروں پر لکھا ہے ’جانے کی باتیں پرانی ہوگئی ہیں، خدا کے لیے، اب آ جاؤ۔‘
یہ بینر ایک نئی اور غیر معروف سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان‘ نے چار سے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے چھپوا کر لگائے ہیں۔
* ’جنرل راحیل شریف کے بینرز لگانا حکومت کی ایک چال ہے‘
* جنرل راحیل کو توسیع دیں: پیپلز پارٹی کی قرارداد
اس جماعت کے صدر فیصل آباد کی ایک کاروباری شخصیت میاں محمد کامران ہیں۔ ان کی کمپنی ایس پرائیویٹ لمیٹڈ ہے جو تعمیراتی کام کرنے کے علاوہ سکول، کالج اور اخبار چلاتی ہے۔
میں مارشل لا کے حق میں نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت بننے اور انھی کی نگرانی میں جمہوری عمل چلے۔
موو آن پاکستان کے صدر میاں محمد کامران
اس سے پہلے موو آن پاکستان نے، جس کا مطلب ’آگے بڑھو پاکستان‘ ہے، فروری میں بینروں کے ذریعے ایک اور مہم چلائی تھی۔ اس وقت ان کا مطالبہ تھا کہ جنرل راحیل شریف مدتِ ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ واپس لیں۔
لیکن اس بار موو آن پاکستان کا مطالبہ کچھ آگے بڑھ گیا ہے۔ میاں محمد کامران نے بی بی سی اردو کو بتایا: ’میں مارشل لا کے حق میں نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت بنے اور انھی کی نگرانی میں جمہوری عمل چلے۔‘
میاں کامران کے پاس بینروں اور پوسٹروں کے علاوہ کوئی واضح لائحۂ عمل نہیں ہے۔
صحافی طلعت حسین کو تو ’موو آن پاکستان‘ کی مہم کے پیچھے صاف صاف اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ ’ایسی غیر معروف تنظیم کے پیچھے کون لوگ ہوں گے، ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہوں گے، یہ عوام کی جانب سے نہیں لگوائے گئے۔‘
اس کے بر عکس کالم نگار ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس مہم کے پیچھے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرانا محض قیاس آرائی ہے۔’ہم سب قیاس کر رہے ہیں لیکن حتمی بات ہمیں نہیں پتہ کہ فوج کے ذہن میں کیا ہے۔ فوج کی پالیسیاں چل رہی ہیں، وہ اپنی باتیں منوا رہے ہیں، تو ان کو دباؤ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟
صحافی طلعت حسین کہتے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم پر دباؤ نہیں ڈالا جا رہا تو جنرل راحیل شریف پر تو ڈالا جا رہا ہے۔
’فوج کے اندر ڈائنیمکس بھی تو دیکھیں۔ جنرل راحیل شریف کے پیچھے جو چار پانچ لوگ آرمی چیف بننے کے لیے قطار میں ہیں، وہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوں گے، پوسٹروں کے ذریعے ایسا کام کروانا اتنا آسان نہیں ہے۔‘
موو آن پاکستان کی مہم میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے
۔ ایسی غیر معروف تنظیم کے پیچھے کون لوگ ہوں گے، ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہوں گے، یہ عوام کی جانب سے نہیں لگوائے گئے ہیں۔
صحافی طلعت حسین
’موو آن پاکستان‘ کی یہ نئی مہم ایک ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب ملک کی اپوزیشن جماعتیں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مقاصد الگ ہیں، عمران خان وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں اور پیپلز پارٹی علامتی طور پر اپنی جماعت کو بحال کرنے کے لیےاس تحریک میں شرکت کرے گی۔ طلعت حسین کے بقول ’پی ٹی آئی احتجاج کرے گی اور پی پی پی اعتراض۔‘
کالم نگار ایاز امیر کہتے ہیں کہ دھرنا وزیرِ اعظم کو اقتدار سے ہٹا نہیں سکتا کیونکہ اس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
’فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے، نہ ہی طاہر القادری نے، انھیں تو صرف سماں باندھنا ہے۔ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے، ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر وہ چاہتے تو سنہ 2014 میں اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے، انھیں ٹرکوں کی ضرورت نہیں تھی۔‘
فوج کے ذہن میں کیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں۔ فوج کی پالیسیاں چل رہی ہیں، وہ اپنی باتیں منوا رہے ہیں، تو ان کو دباؤ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟
کالم نگار ایاز امیر
کیا حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کے پاس آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی ہے؟
صحافی طلعت حسین کا خیال ہے کہ حکومت بدنظمی کا شکار ہے۔ ’اس کا تعلق اپوزیشن کے لائحۂ عمل سے نہیں ہے، اس کا تعلق نواز شریف کا اندازِ حکمرانی ہے جس میں وہ اس امید پر اہم مواقع پر خاموش ہو جاتے ہیں کہ طوفان گزر جائے گا۔ شاید وہ طوفان گزر جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
یہ طوفان کتنا تباہ کن ثابت ہو گا، مون سون کی بارشوں کی طرح فی الحال اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہو گا۔
کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں