فرانس میں پولیس نے جنوبی شہر نیس میں قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک کے ذریعے سینکڑوں افراد کو کچلنے والے ڈرائیور کی شناخت کی تصدیق کر دی ہے۔
حکام کے مطابق یہ ایک 31 سالہ شخص تھا جس کے بارے میں پولیس جانتی تو تھی لیکن وہ کسی جہادی گروہ کے ساتھ منسلک نہیں تھا۔ اس کا نام محمد لحوايج بوہلال تھا۔
٭ فرانس میں ہجوم پر حملہ: لائیو اپ ڈیٹس
٭ نیس سوگوار، حملے کے بعد نیا دن طلوع
٭ ’حملہ آور پریشان مگر انداز جارحانہ تھا‘
تیونس میں سکیورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی کو بتایا ہے کہ محمد لحوايج بوہلال کا تعلق تیونس کے شمالی قصبے مساکن سے تھا اور وہ اکثر تیونس آتا رہتا تھا۔
سکیورٹی ذرائع محمد لحوايج بوہلال شادی شدہ تھا اور اس کے تین بچے تھے تاہم وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ رہا تھا۔
ادھر فرانسیسی پولیس نے ٹرک کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس میں سے انھیں کچھ کاغذات ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے تیونسی شہری تھا جو نیس میں قیام پذیر تھا۔
ماضی میں وہ معمولی جرائم میں ملوث رہا تھا تاہم وہ شدت پسندی کی جانب مائل نوجوانوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔
فرانس میں ’فشے ایس‘ کی فہرست میں شامل افراد کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ جنوری 2015 سے فرانس میں ہونے والے بیشتر حملوں میں ملوث افراد ’فشے ایس‘ میں شامل تھے، اور ان کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے تھا۔اگرچہ عینی شاہدین کا شروع میں خیال تھا کہ حملہ آور ٹرک کو قابو رکھنے میں ناکام رہا ہے لیکن جلد ہی یہ واضح ہوگیا کہ وہ ایسا جان بوجھ کر رہا تھا۔
ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اتنا وقت تھا کہ میں ڈرائیور کا چہرہ دیکھ سکوں۔ وہ باریش تھا اور بظاہر لطف اندوز ہورہا تھا۔‘
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹرک سے ملنے کاغذات میں گاڑی کرائے پر لیے جانے والے کاغذات بھی شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے دو دن قبل نیس کے مغرب میں واقع قصبے سینٹ لوراں ڈو وار سے ایک کمپنی سے ٹرک کرائے پر لیا تھا۔
فرانسیسی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق حملہ آور کا ڈرائیونگ لائسنس، کریڈٹ کارڈ اور موبائل فون ٹرک سے تحویل میں لے لیا گیا ہے اور جمعے کی صبح پولیس نے نیس کے ریلوے سٹیشن کے قریب واقع ابٹوئرس کے علاقے میں اس کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔
اگرچہ حملہ آور کے پاس پستول تھی لیکن ٹرک سے ملنے والے دیگر ہتھیار جعلی نکلے، جس سے اس کو جہادی گروہوں سے ملنے والے مدد کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ایک ماہ قبل پیرس کے مغرب میں ایک پولیس جوڑے کو ان کے گھر پر چاقو کے وار سے قتل کیا تھا۔ ان پر حملہ کرنے والے لاروسی ابالا کو پولیس پاکستان میں لڑنے کے لیے جہادیوں کو تیار کرنے کے حوالے سے اچھی طرح جانتی تھی۔
بہت سارے افراد حالیہ حملے کو دولت اسلامیہ کے ترجمان محمد العدنانی کے 2014 کے اس آڈیو بیان سے منسلک کر رہے ہیں جس میں انھوں نے چھوٹے پیمانے پر حملوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ ’اگر آپ بم نہیں پھاڑ سکتے یا فائر نہیں کر سکتے تو خود ہی کچھ کیجیے۔۔۔ ان پر کار دوڑا دیں۔‘
خیال رہے کہ فرانس میں بہت سارے جہادی حملہ آور نے شدت پسندی کی جانب اپنے سفر کا آغاز معمولی جرائم سے کیا تھا، جس کا آغاز سنہ 2012 میں ٹولوز میں حملہ کرنے والے محمد میراح سے ہوتا ہے۔
نیس میں حملہ کرنے والے نے بھی شاید یہی راستہ اختیار کیا ہو۔