بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے تشدد کی لہر کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ تنازع تو سنہ 1947 سے چلا آرہا ہے بہت آسان سی بات لگتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ایک نئی چیز کو بھی نظر انداز کیا جائے گا جو خطے میں ہونے والے احتجاج کی نوعیت ہی بدل رہی ہے۔ جمعے کو ایک نوجوان شدت پسند رہنما برہان ونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس تنازعے نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں حکام نے علاقے کی موبائل سروسز بند کر دیں۔ موبائل فونز کی سروسز بند کر دینے کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ پوری دنیا میں سمارٹ فونز چھا گئے ہیں۔بھارت میں آپ ایک عام سمارٹ فون 30 ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔ ملک میں سنہ 2011 میں 11 ملین سمارٹ فونز فروخت کیے گئے تھے، گذشتہ سال ان کی فروخت 100 ملین سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس دہائی کے اختتام پر توقع ہے کہ 500 ملین بھارتی شہریوں کے پاس موبائل فونز ہونگے جو ملک کی کل آبادی کی نصف تعداد ہے۔ لیکن کشمیر میں ٹیکنالوجی کا استعمال اس شرح سے بہت زیادہ تیز ہے۔ بھارتی اخبار ’دا ٹیلیگراف‘ نے اپنے صفہ اول پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں ریاست کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کیا گیا ہے جو کشمیر میں ہونے والی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ ملک کی وزارت داخلہ میں پیش ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی زیادہ بڑھانی چاہیے۔ سنہ 2010 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی میں صرف ایک چوتھائی کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ لیکن سنہ 2014 میں آبادی کا ایک تہائی حصہ سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ اور پھر اس میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا۔رپورٹ لکھنے والے پولیس افسر کا کہنا ہے کہ 2015 کے اختتام پر کشمیر میں 70 فیصد لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ برہان ونی کو کشمیر کی وادیوں میں اپنے پیغامات سننے والے کئی تیار ناظرین ملے تھے جو اب یہاں پر ہونے والی بدامنی کی اہم وجہ ہے۔ بہت سے کشمیری شدت پسندوں کی طرح برہان ونی بھی ٹیکنالوجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کے بارے میں شائع کیے جانے والے تقریباً ہر مضمون میں اس بات کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے تھے

۔ یہ خوبصورت نوجوان ایک بالی وڈ کے سٹار کی طرح اپنی تصاویر پوسٹ کیا کرتے تھے جن میں وہ اکثر کشمیر کی وادیوں کے سامنے ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہوئے دکھائے دیتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن اور چےگویرا کی تصاویر بھی اسی طرح استعمال کی گئی ہیں۔ کشمیر میں شدت پسندوں نے موبائل فون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اپنے فونز کے ذریعے کھینچی گئی ویڈیو فٹیج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کشمیر میں ایک بات بدلی ہے اور وہ یہ ہے کہ اب لوگوں کو فٹیج اور پیغامات بہت آسانی سے ملتے ہیں۔ شاید یہ بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ میں نے ایم ایم انصاری سے بات کی جو بھارت میں کشمیر کی پالیسی دیکھنے والی کابینہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار مرنے والوں کی تعداد تو کم ہے لیکن یہ تنازع زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس بار عسکریت پسندی اپنی ہی زمین میں پیدا ہوئی ہے۔ ان شدت پسندوں میں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بیشتر لوگ یہاں سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے شدت پسندی پاکستان کی جانب سے سپانسر ہوتی تھی۔‘ جہاں تک سکیورٹی اہلکاروں کا سوال ہے یہ رجحان ان کے لیے بہت ہی سنگین صورتِ حال اختیار کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ عرب سپرنگ یعنی عرب دنیا میں جمہوریت کی لہر کی طرح کشمیر تنازعے میں بھی سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی ملک کے 13 بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر بینرز لگے نظر آئے جن میں پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ’خدا کے لیے اب آ جاؤ ‘ کی درخواست کی جا رہی ہے۔ ان بینروں پر لکھا ہے ’جانے کی باتیں پرانی ہوگئی ہیں، خدا کے لیے، اب آ جاؤ۔‘ یہ بینر ایک نئی اور غیر معروف سیاسی جماعت ’موو آن پاکستان‘ نے چار سے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے چھپوا کر لگائے ہیں۔ * ’جنرل راحیل شریف کے بینرز لگانا حکومت کی ایک چال ہے‘ * جنرل راحیل کو توسیع دیں: پیپلز پارٹی کی قرارداد اس جماعت کے صدر فیصل آباد کی ایک کاروباری شخصیت میاں محمد کامران ہیں۔ ان کی کمپنی ایس پرائیویٹ لمیٹڈ ہے جو تعمیراتی کام کرنے کے علاوہ سکول، کالج اور اخبار چلاتی ہے۔ میں مارشل لا کے حق میں نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت بننے اور انھی کی نگرانی میں جمہوری عمل چلے۔ موو آن پاکستان کے صدر میاں محمد کامران اس سے پہلے موو آن پاکستان نے، جس کا مطلب ’آگے بڑھو پاکستان‘ ہے، فروری میں بینروں کے ذریعے ایک اور مہم چلائی تھی۔ اس وقت ان کا مطالبہ تھا کہ جنرل راحیل شریف مدتِ ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ واپس لیں۔ لیکن اس بار موو آن پاکستان کا مطالبہ کچھ آگے بڑھ گیا ہے۔ میاں محمد کامران نے بی بی سی اردو کو بتایا: ’میں مارشل لا کے حق میں نہیں ہوں، میں چاہتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت بنے اور انھی کی نگرانی میں جمہوری عمل چلے۔‘ میاں کامران کے پاس بینروں اور پوسٹروں کے علاوہ کوئی واضح لائحۂ عمل نہیں ہے۔ صحافی طلعت حسین کو تو ’موو آن پاکستان‘ کی مہم کے پیچھے صاف صاف اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے۔ ’ایسی غیر معروف تنظیم کے پیچھے کون لوگ ہوں گے، ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہوں گے، یہ عوام کی جانب سے نہیں لگوائے گئے۔‘ اس کے بر عکس کالم نگار ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس مہم کے پیچھے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرانا محض قیاس آرائی ہے۔’ہم سب قیاس کر رہے ہیں لیکن حتمی بات ہمیں نہیں پتہ کہ فوج کے ذہن میں کیا ہے۔ فوج کی پالیسیاں چل رہی ہیں، وہ اپنی باتیں منوا رہے ہیں، تو ان کو دباؤ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ صحافی طلعت حسین کہتے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم پر دباؤ نہیں ڈالا جا رہا تو جنرل راحیل شریف پر تو ڈالا جا رہا ہے۔ ’فوج کے اندر ڈائنیمکس بھی تو دیکھیں۔ جنرل راحیل شریف کے پیچھے جو چار پانچ لوگ آرمی چیف بننے کے لیے قطار میں ہیں، وہ بھی یہ سب دیکھ رہے ہوں گے، پوسٹروں کے ذریعے ایسا کام کروانا اتنا آسان نہیں ہے۔‘ موو آن پاکستان کی مہم میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے

۔ ایسی غیر معروف تنظیم کے پیچھے کون لوگ ہوں گے، ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہوں گے، یہ عوام کی جانب سے نہیں لگوائے گئے ہیں۔ صحافی طلعت حسین ’موو آن پاکستان‘ کی یہ نئی مہم ایک ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب ملک کی اپوزیشن جماعتیں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مقاصد الگ ہیں، عمران خان وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں اور پیپلز پارٹی علامتی طور پر اپنی جماعت کو بحال کرنے کے لیےاس تحریک میں شرکت کرے گی۔ طلعت حسین کے بقول ’پی ٹی آئی احتجاج کرے گی اور پی پی پی اعتراض۔‘ کالم نگار ایاز امیر کہتے ہیں کہ دھرنا وزیرِ اعظم کو اقتدار سے ہٹا نہیں سکتا کیونکہ اس کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ’فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے، نہ ہی طاہر القادری نے، انھیں تو صرف سماں باندھنا ہے۔ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے، ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر وہ چاہتے تو سنہ 2014 میں اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے، انھیں ٹرکوں کی ضرورت نہیں تھی۔‘ فوج کے ذہن میں کیا ہے، یہ ہمیں معلوم نہیں۔ فوج کی پالیسیاں چل رہی ہیں، وہ اپنی باتیں منوا رہے ہیں، تو ان کو دباؤ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ کالم نگار ایاز امیر کیا حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ کے پاس آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی ہے؟ صحافی طلعت حسین کا خیال ہے کہ حکومت بدنظمی کا شکار ہے۔ ’اس کا تعلق اپوزیشن کے لائحۂ عمل سے نہیں ہے، اس کا تعلق نواز شریف کا اندازِ حکمرانی ہے جس میں وہ اس امید پر اہم مواقع پر خاموش ہو جاتے ہیں کہ طوفان گزر جائے گا۔ شاید وہ طوفان گزر جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘ یہ طوفان کتنا تباہ کن ثابت ہو گا، مون سون کی بارشوں کی طرح فی الحال اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہو گا۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں
پاکستان کرکٹ ٹيم کے سابق کپتان شاہد آفريدي کہتے ہيں کہ محمد عامر کے بارے ميں برطانوي ميڈيا کي ’منفي‘ کہانیاں عامر کي کارکردگي متاثر نہيں کريں گي۔ لندن میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بی بی سی کے نامہ نگار عادل شاہ زيب نے ان سے پہلا سوال محمد عامر کے بارے ميں ہي کيا۔
انڈیا کی حزبِ مخالف جماعت کانگریس کے رہنما اور اداکار راج ببر کو ریاست اتر پردیش میں کانگریس کا صدر بنائے جانے کا اعلان ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اداکار راج ببر پر جو تبصرہ کیے گئے ان میں زیادہ تر میں ان پر اور کانگریس پر طنز کیا گیا ہے۔ یوگیش نے ٹویٹ کیا: ’راج ببر ریاست اتر پردیش میں کانگریس کے صدر۔ ہا ہا ہا ہا ہا۔‘صحافی شیکھر گپتا نے ٹویٹ کیا: ’راج ببر کو ریاست اتر پردیش میں کانگریس کا سربراہ بنایا گیا ہے، اب گووندا کو ریاست مہاراشٹر میں کانگریس کا سربراہ بنا دینا چاہیے۔ بس اتر پردیش کے لیے کانگریس کا مسئلہ ختم۔‘ یو پی اے کے دور حکومت میں راج ببر نے ایک دفعہ تبصرہ کیا تھا کہ 12 روپے میں آسانی سے بھر پیٹ کھانا مل جاتا ہے۔ اسی پر طنز کستے ہوئے شہباز نے لکھا: ’اب یوپی میں جلد ہی 12 روپے میں بھر پیٹ کھانا ملے گا۔

‘کونٹی ہولک نے لکھا: ’راج ببر کو یوپی کانگریس چیف بنا کر کانگریس نے پہلے ہی ہار مان لی ہے، پارٹی کو پتہ ہے کہ ببر ہو یا گبر، انھیں ہارنا ہی ہے۔‘ واستالیٹک نے لکھا: ’راج ببر اتر پردیش میں کانگریس کی ہار کی ذمہ داری لے کر راہل اور پرینکا گاندھی کو بچائیں گے۔‘ لیکن کچھ لوگ راج ببر کے حق میں بھی ٹویٹ کر رہے ہیں۔ نوین خاتن نے لکھا: ’کئی سالوں کے بعد کانگریس نے کوئی اچھا فیصلہ کیا ہے۔ راج ببر اترپردیش میں کانگریس کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘ تو وہیں صحافی شیکھر گپتا کے راج ببر پر کیے گئے تبصرہ کا جواب دیتے ہوئے گورو پانڈی نے لکھا: ’راج ببر کئی بار رکن پارلیمان رہے ہیں، کسانوں کے رہنما ہیں، 30 سال سے سیاست میں ہیں، ان پر آپ کو اس طرح تبصرہ کرتے دیکھ کر دکھ ہوا شیکھر جی۔‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر وہاب ریاض نے کہا ہے کہ برطانوی میڈیا ’محمد عامر سے ڈرا ہوا ہے اس لیے اس پر سب بات کر رہا ہے۔‘ وہاب ریاض نے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں پریکٹس سیشن کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بی بی سی کے عادل شاہ زیب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہاب ریاض نے کہا کہ ’سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ عامر سے ڈرے ہوئے ہیں یا عامر پر باتیں کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا ڈر ضرور ہے۔ کیونکہ وہ کوالٹی بولر تو ہے تو اُس کا انھیں ڈر تو ضرور ہے۔‘ پاکستانی ٹیم یا عامر کے مورال پر اس کے اثر کے حوالے سے وہاب ریاض نے کہا کہ ’اگر یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس چیز سے ہم ڈی موریلائز ہو جائیں گے تو ہم لوگ اس بارے میں ذہن بنا کر آئے ہیں کہ ہم نے باتیں سننی ہیں اور ہمیں سننی پڑیں گی تو ہم سن لیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا کیا جاتا ہے ایک کان سے سنیں گے دوسرے سے نکال دیں گے۔‘ یاد رہے کہ برطانوی پریس میں محمد عامر کی ٹیم میں واپسی اور لارڈز میں کھیلنے کے حوالے سے لکھا جا رہا ہے۔

 انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان الیسٹر کُک نےایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ذاتی طور پر وہ میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی کے حامی ہیں لیکن انھیں میدان میں پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر کا سامنا کرنے پر کوئی تحفظات نہیں۔ محمد عامر نے میچ فکسر پر تاحیات پابندی کی حمایت کی تھی۔ وہاب ریاض کی مکمل پریس کانفرنس آپ اس لنک پر کلک کر کے بی بی سی اردو کے فیس بُک پیج پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہاب ریاض نے کہا کہ انگلینڈ میں مخصوص حالات ہوتے ہیں اور ان حالات میں انگلینڈ سے بہتر کوئی ٹیم نہیں ہے۔’یہاں انھوں نے دنیا کی ہر ٹیم کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ اور زیادہ تر سیریز جیتے ہیں۔۔۔جس طرح کی ہم لوگ تیاری کر کے آئے ہیں ان کا جیتنا آسان نہیں ہو گا۔‘ وہاب ریاض نے کہا کہ پاکستان کی ٹیم سری لنکا سے زیادہ تجربہ کار ہے۔ وہاب ریاض نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عالمی کپ کے دوران آسٹریلیا کے خلاف میچ جیسی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ اس کا انحصار حالات اور ٹیم کی ضرورت پر ہے۔ ’اس وقت ہمیں وکٹیں چاہیے تھیں تو میں اٹیک کر رہا تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے کرکٹ بہت مختلف ہے، کوشش ضرور ہوگی اور اگر یہاں باؤنس ہوا تو انشا اللہ ضرور ایسا ہوگا۔‘
ارت کے زیر انتظام کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے تشدد کی لہر کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ تنازع تو سنہ 1947 سے چلا آرہا ہے بہت آسان سی بات لگتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ایک نئی چیز کو بھی نظر انداز کیا جائے گا جو خطے میں ہونے والے احتجاج کی نوعیت ہی بدل رہی ہے۔ جمعے کو ایک نوجوان شدت پسند رہنما برہان ونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس تنازعے نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں حکام نے علاقے کی موبائل سروسز بند کر دیں۔ موبائل فونز کی سروسز بند کر دینے کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ پوری دنیا میں سمارٹ فونز چھا گئے ہیں۔ ملک میں سنہ 2011 میں 11 ملین سمارٹ فونز فروخت کیے گئے تھے، گذشتہ سال ان کی فروخت 100 ملین سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس دہائی کے اختتام پر توقع ہے کہ 500 ملین بھارتی شہریوں کے پاس موبائل فونز ہونگے جو ملک کی کل آبادی کی نصف تعداد ہے۔ لیکن کشمیر میں ٹیکنالوجی کا استعمال اس شرح سے بہت زیادہ تیز ہے۔ بھارتی اخبار ’دا ٹیلیگراف‘ نے اپنے صفہ اول پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں ریاست کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کیا گیا ہے جو کشمیر میں ہونے والی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ ملک کی وزارت داخلہ میں پیش ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی زیادہ بڑھانی چاہیے۔ سنہ 2010 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی میں صرف ایک چوتھائی کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ لیکن سنہ 2014 میں آبادی کا ایک تہائی حصہ سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ اور پھر اس میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا۔تک رسائی حاصل تھی۔ برہان ونی کو کشمیر کی وادیوں میں اپنے پیغامات سننے والے کئی تیار ناظرین ملے تھے جو اب یہاں پر ہونے والی بدامنی کی اہم وجہ ہے


۔ بہت سے کشمیری شدت پسندوں کی طرح برہان ونی بھی ٹیکنالوجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کے بارے میں شائع کیے جانے والے تقریباً ہر مضمون میں اس بات کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے تھے۔ یہ خوبصورت نوجوان ایک بالی وڈ کے سٹار کی طرح اپنی تصاویر پوسٹ کیا کرتے تھے جن میں وہ اکثر کشمیر کی وادیوں کے سامنے ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہوئے دکھائے دیتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن اور چےگویرا کی تصاویر بھی اسی طرح استعمال کی گئی ہیں۔ کشمیر میں شدت پسندوں نے موبائل فون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اپنے فونز کے ذریعے کھینچی گئی ویڈیو فٹیج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کشمیر میں ایک بات بدلی ہے اور وہ یہ ہے کہ اب لوگوں کو فٹیج اور پیغامات بہت آسانی سے ملتے ہیں۔ شاید یہ بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ میں نے ایم ایم انصاری سے بات کی جو بھارت میں کشمیر کی پالیسی دیکھنے والی کابینہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار مرنے والوں کی تعداد تو کم ہے لیکن یہ تنازع زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس بار عسکریت پسندی اپنی ہی زمین میں پیدا ہوئی ہے۔ ان شدت پسندوں میں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بیشتر لوگ یہاں سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے شدت پسندی پاکستان کی جانب سے سپانسر ہوتی تھی۔‘ جہاں تک سکیورٹی اہلکاروں کا سوال ہے یہ رجحان ان کے لیے بہت ہی سنگین صورتِ حال اختیار کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ عرب سپرنگ یعنی عرب دنیا میں جمہوریت کی لہر کی طرح کشمیر تنازعے میں بھی سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
Ling ko Bada Karne ke Gharelu Nuskha in Urdu 2016
2016 Desi Nuskha Ling ko Bada Karne ke.New Ling ko Bada Karne ke Gharelu Nuskha Urdu Mein.Zarur Ye Video Dekhien Ling ko Bada Karne ke Gharelu Desi.New Elaaj Desi Ling ko Bada Karne ke.Ling ko Bada Karne ke 2016 Desi Nuskha.Hd Desi Nuskha Ling ko Bada Karne ke.Ling ko Bada Karne ke Latest Video Ling ko Bada Karne ke.Ling ko Bada Karne ke Play.Ling ko Bada Karne ke Faide Maind Nuskha
Ling ko Bada Karne ke Gharelu Nuskha in Urdu 2016
Powered by Blogger.