فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری تاحال کسی فرد یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ شدت پسند دولت اسلامیہ نے اپنے روزانہ نشر کیے جانے والے ریڈیو بلیٹن میں فرانس کے شہر نیس میں حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ ماضی میں شدت پسند تنظیم کے البیان ریڈیو کے ذریعے عام طور پر مغربی ممالک میں کیے جانے والے کچھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی تھی تاہم اسی شدت پسند تنظیم سے منسلک ’خبر رساں ادارے‘ عماق کے ذریعے عموما حملوں کی ذمہ داری سب سے پہلے قبول کی جاتی رہی ہے۔ بی بی سی مانیٹرنگ ٹیم کا کہنا ہے البیان ریڈیو کی جانب سے نیس حملے کا ذکر نہ کرنے سے یہ نہیں سمجھا جا سکتا


ہے کہ اس حملے میں دولت اسلامیہ ملوث نہیں ہے۔ دوسری جانب اس حملے سے قبل عماق نے جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق رات آٹھ بج کر 52 منٹ کے بعد کوئی بیان شائع نہیں کیا۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رات 11 بجے ہونے والے حملے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ فرانس کے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والے ٹرک کا ڈرائیور ایک مقامی شخص محمد لحوائج بوہلال تھا۔ گذشتہ سال ستمبر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے حملوں میں130 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی تھی اور ان حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سنہ 1975 سے قائم پارلیمانی نظام میں شروع سے ہی خواتین کی نمائندگی رہی ہے لیکن براہ راست انتخابات میں حصہ لینے سے نہ صرف خواتین خود کتراتی تھیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی انھیں ٹکٹ دینے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے والی خواتین کی تعداد اب بھی بہت کم ہے تاہم خواتین میں یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ سیاسی طور پر باشعور ہو کر ہی وہ اپنے حقوق کے لیے قانون سازی کروا سکتی ہیں۔ اب ان خواتین نے مخصوص نشستوں سے اسمبلی تک پہنچنے کا راستہ ترک کر کے براہِ راست انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں جا کر بھی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پارٹی اسے ٹکٹ دیتی ہے کہ جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ چونکہ اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ یہ کام مردوں کا ہے وہی کرتے ہیں تو ایسا تاثر ہے۔ لیکن اب ہم خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں تو دوسروں کے لیے راہ بنے گی۔ فرزانہ یعقوب انھی میں سے ایک پیپلز پارٹی کی رہنما فرزانہ یعقوب ہیں جو کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے پہلے بھی ضمنی انتخاب میں اپنے والد کی نشت پر کامیابی حاصل کر چکی ہیں لیکن اس علاقے میں وہ عام انتخابات میں براہِ راست حصہ لینے والی پہلی خاتون ہیں۔ فرزانہ کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے خاندان میں سیاست میں پہلے قدم رکھنے والی میری والدہ تھیں جنھوں نے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کے بعد والد آئے اور اب میں بھی اس کا حصہ ہوں۔‘ فرزانہ یعقوب کے بقول کشمیر میں خواتین پر انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی تو نہیں لیکن یہ کام وہ فردِ واحد کے طور پر نہیں کر سکتیں۔’کشمیر میں خواتین کے کسی بھی شعبے میں حتیٰ کہ سیاست میں حصہ لینے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ اتنا مشکل کام ہے کہ خاندان اور کسی مضبوط سہارے کے بغیر آپ یہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔‘ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی نورین عارف کا تعلق بھی ایک سیاسی خاندان سے ہی ہے۔ان کا 30 برس سے زیادہ کا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی انتخابات سے شروع ہوا اور 1985 میں وہ مسلم کانفرنس کی جانب سے مخصوص نشست پر پہلی بار اسمبلی کی رکن بنیں۔ چار مرتبہ مخصوص نشست پر اسمبلی میں آنے کے بعد سنہ 2006 میں پارٹی اختلافات نے ان کے راستے الگ کر دیے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’پارٹی نے جب ٹکٹ نہیں دیا تو میں نے اپنے والد کے آبائی علاقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی۔‘ نورین عارف ان چند رہنماؤں میں شامل تھیں جنھوں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس میں اخِتلافات کے باعث الگ دھڑا بنایا اور بعد ازاں یہاں مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی۔ نورین کا کہنا ہے کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ سیاسی پس منظر سے کہیں اہم عوام کے کام کرنا ہے۔ ’اگر آپ اپنے حلقے میں جا کر کام کریں گے تو آپ کو سیاسی پس منظر کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ وہ ان کی خدمت کرےگا۔‘سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ہچکچاہٹ اب بھی قائم ہے۔ اس بارے میں فرزانہ یعقوب کا موقف تھا سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح حکومت بنانا ہوتا ہے اور ’پارٹی اسے ٹکٹ دیتی ہے کہ جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ چونکہ اب تک یہی تصور کیا جاتا رہا ہے کہ یہ کام مردوں کا ہے، وہی کرتے ہیں تو ایسا تاثر ہے۔ لیکن اب ہم خواتین انتخاب لڑ رہی ہیں تو دوسروں کے لیے راہ بنے گی۔‘ تو کیا خواتین کے لیے مخصوص نشستیں نسبتاً آسان راستہ نہیں؟ اس پر فرازنہ کا کہنا تھا درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ براہ راست انتخاب میں محض اپنے حلقے کی ذمہ داری ہوتی ہیں جبکہ مخصوص نشست کے لیے پورے خطے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ نسبتاً زیادہ محنت طلب اور مشکل کام ہے۔ نورین عارف کے لیے براہ راست انتخاب کا مطلب ووٹرز سے قربت ہے۔ برسوں مخصوص نشستوں پر اسمبلی کا حصہ رہنے کے بعد اب انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو خوشی اور لوگوں کا پیار انھیں براہِ راست انتخاب میں حصہ لے کر ملا ہے وہ مخصوص نشستوں پر نہیں ملتا۔ اس سے وہ لوگوں کے مسائل زیادہ حل کر پاتی ہیں۔ پہلی مرتبہ عملی سیاست میں قدم رکھنے والی سمیعہ ساجد کو اگرچہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے باعث انتخابات سے عین پہلے اپنی نشست چھوڑنا پڑی لیکن وہ بھی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ’براہِ راست انتخابات کا معیار ہی الگ ہوتا ہے۔ہار جیت کی پروا کرنے والوں کو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے۔‘


 کشمیر کے شہری علاقوں میں تو خواتین نسبتاً سماجی سرگرمیوں کا حصہ دکھائی دیتی ہیں لیکن دیہاتوں اور دور دراز پہاڑی علاقوں میں ایسا نہیں۔ فرزانہ کا حلقہ ایسے ہی دیہات پر مشتمل ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ’میں بمشکل دو چار خواتین کو ساتھ لے کر مہم پر نکل پاتی ہوں۔‘ اگر آپ اپنے حلقے میں جا کر کام کریں گے تو آپ کو سیاسی پس منظر کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں جس کے بارے میں انھیں یقین ہو کہ وہ ان کی خدمت کرےگا۔ نورین عارف کیا کشمیر میں کسی خاتون کو وزیراعظم یا صدر جیسا بڑا عہدہ مل سکے گا؟ اس سوال پر نورین عارف کہتی ہیں کہ ابھی وقت لگے گا۔ ’میں نے پوری عمر سیاسی جدوجہد میں گزاری ہے لیکن اگر آج بھی میں کسی بڑے عہدے کی امیدوار بنوں تو ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ انتخاب لڑ کر میں نے ایک راستہ پیدا کیا ہے تو کل کسی کی قسمت میں ہوا تو وہ صدر یا وزیرِ اعظم بھی بن جائے گا۔‘ سمیعہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں حاکمیت کے تصور میں تبدیلی ہی عورت کے لیے بڑے عہدے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ ’جس دن یہ جنگ ختم ہو گئی کہ مرد عورت کو آگے آنے نہیں دیتا اس دن یہاں بھی عورت وزیرِ اعظم بن جائے گئی۔‘ تاہم فرزانہ یعقوب اس سلسلے میں پرامید ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ’چونکہ خواتین ابھی اس عمل میں نئی ہیں اور وزیرِ اعظم بننے کے لیے براہ راست انتخاب جیتنا ضروری ہے۔ ہمیں بھی تھوڑا وقت لگے گا۔ پاکستان میں بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کوئی خاتون وزیرِ اعظم ہوگی لیکن جب بنیں تو لوگوں نے انھیں قبول کیا۔ تو جب یہاں بھی خاتون وزیرِ اعظم ہوں گی تو لوگ انھیں بھی اپنائیں گے۔‘ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین میں تعلیم اور سیاسی آگہی نے جہاں ان خواتین میں یہ حوصلہ پیدا کیا ہے کہ وہ عملی سیاست جیسا مشکل تصور کیا جانے والا کام کریں وہیں خواتین ووٹرز کو بھی امید دلائی ہے کہ اب نہ صرف ان کے حقوق کے تحفط کے لیے قانون سازی ہوگی بلکہ ان کی آواز انھی کی صنف کے باعث باآسانی ایوانوں میں بھی گونجے گی۔
پاکستان اور انگلینڈ کے مابین لارڈز کے میدان پر جاری پہلے ٹیسٹ کےدوسرے روز کھیل کے اختتام پر انگلینڈ نے253 بنائے ہیں اور اس کے سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہیں۔ انگلینڈ ابھی پاکستان کے سکور سے 86 رنز پیچھے ہے اور اس کی تین وکٹیں باقی ہیں۔ کرس ووکس31 رنز اور سٹیو براڈ رنز بنا کر کریز پر موجود ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کی پوری ٹیم 339 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ ٭دوسرے روز کھیل کی تصویری جھلکیاں ٭ تفصیلی سکور کارڈ کے لیے کلک کریں پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ سب سے کامیاب بولر رہے۔ یاسر شاہ نے 25 اووروں میں صرف 64 رنز دے پانچ وکٹیں حاصل کی ہے۔ یاسر شاہ نے کی عمدہ بولنگ نے پاکستان کو مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ اس موقع پر انگلینڈ 118 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا لیکن یاسر شاہ نے مسلسل بولنگ کرتے ہوئے نہ صرف رنز روکے بلکہ وقفے وقفے سے وکٹیں لیتے رہے۔یاسر شاہ پہلے لیگ سپنر ہیں جنھوں نےگذشتہ بیس برسوں میں لارڈز کے میدان میں پہلی بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ پچھلی بار پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد نے لارڈز میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ جب انگلینڈ نے اپنی اننگز کا آغاز کیا تو کپتان مصباح الحق نے پہلے اوور کےلیےگیند محمد عامر کی طرف اچھال دی۔ محمد عامر کے پہلے اوور میں ایلکس ہیلز نے ایک چوکا لگایا لیکن وہ زیادہ دیر تک کریز پر نہ ٹہر سکے اور راحت علی کے پہلے اوور میں سلپ میں اظہر علی کو کیچ تمھا گئے۔محتاط اندازمیں بیٹنگ کی شہرت رکھنے والے ایلسٹر کک کے چند عمدہ سٹروک کھیلے۔ جب کک کا انفرادی سکور صرف 22 رنز تھا تو محمد حفیظ نے ان کا ایک آسان کیچ ڈراپ کر دیا۔ ایلسٹر کک کو اس وقت دوسری زندگی ملی جب وکٹ کیپر سرفراحمد نے ایک آسان کیچ ڈراپ کردیا۔ دنوں بار بدقسمت بولر محمد عامر تھے۔ محمد عامر بالاخر ایلسٹر کک کو بولڈ کر میچ میں پہلی وکٹ حاصل کی۔ پاکستان جو صرف چار ریگولر بولروں کے ساتھ میدان میں اترا ہے اسے انیسویں اووروں میں ہی لیگ سپنر یاسر شاہ کو بولنگ کے لیے لانا پڑا لیکن یاسر شاہ نے نہ صرف ایک طرف سے رنز روکے بلکہ اوپر تلے پانچ وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کا میچ میں پلہ بھاری کر دیا۔ یاسر شاہ نے


انگلینڈ کے سب سے قابل اعتماد نوجوان بیٹسمین جو روٹ، جیمز ونس، گیری بیلنس، جانی بیرسٹو اور معین علی کو آؤٹ ک۔ سرفراز احمد نے جارحانہ انداز میں اننگز کا آغاز کیا محمد عامر جب بیٹنگ کے لیے میدان میں اترے تو تماشیائیوں نے گرم جوشی سے ان کا اسی میدان میں استقبال کیا جہاں وہ پچھلی بار سپاٹ فکسنگ کے جرم میں انھیں جیل جانا پڑا۔ اس سے قبل جب پاکستان نےاپنی دوسرے روز 292 چھ کھلاڑی آؤٹ سے اپنی اننگز دوبارہ شروع کی تو وکٹ کیپر سرفراز نے جارجانہ انداز اپنایا۔ پاکستان نے مزید کسی نقصان 300 مکمل کر لیے۔ اس مرحلے پر سرفراز احمد جو انگلش فاسٹ بولروں کو آگے بڑھ کر چوکے لگا رہے تھے، کرس ووکس کی گیند پرکیچ آؤٹ ہو گئے۔ سرفراز احمد کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کی اننگز بھکر کر رہ گئی۔ اگلےآنے والے بیٹسمین وہاب ریاض دوسرے گیند پر سٹیو براڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ وہاب ریاض کے بعد مصباح الحق بھی اپنے سکور میں صرف چار رنز کا اضافہ کرنے کے بعد سٹیو براڈ کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ محمد عامراور یاسر شاہ نے آخری وکٹ کی شراکت میں 23 رنز بنائے۔ آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی محمد عامر تھے جنھوں نے 12 رنز بنائے۔
سوشلستان پر گذشتہ ایک ہفتہ ایدھی کا انتقال اور ان کا سوگ رہا اور جمعہ کی صبح سے ہی فرانس کے شہر نیس میں دہشت گردی کا واقعہ چھایا رہا جس میں آخری خبریں آنے تک 84 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ مگر سوشلستان میں اس ہفتے ہم بات کریں گے کہ کیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کا محاورہ اب پرانا ہو گیا ہے۔ نیکی کا پرچار جھوٹ کی بنیاد پربرطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی وہ تصویریں جن میں وہ اپنی سرکاری رہائش گاہ نمبر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے اپنا سامان ڈھوتے دکھائی دیے ہیں کئی لوگوں نے جذبے اور جوش کے ساتھ شیئر کی ہوں گی جن کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کی شان میں بھی دو دو لائنیں لازمی بنتی تھی ورنہ حق ادا نہ ہوتا۔ مگر اکثریت کو یہ نہیں پتا تھا کہ جو تصاویر شیئر کی گئیں وہ 2007 کی ہیں جب ڈیوڈ کیمرون جنوبی لندن میں ایک نئے گھر میں منتقل ہو رہے تھے۔ مگر تاریخ کون دیکھتا ہے جب مدعا یہی ہو کہ ایک تصویر کی بنیاد پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے؟ افشاں مصعب نے لکھا کہ یہ سب ’گمراہ کُن ہونے کے علاوہ اخلاقی جرم بھی ہے۔ جس بات کی بنیاد ہی جھوٹ ہو اور ملاوٹ سے ہو اس کے خالص اور جائز ہونے پر کیسے یقین کیا جائے؟‘ مان لیا کہ مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ دیکھو ایک رکنِ پارلیمان اپنا سامان ڈھو رہا ہے مگر تصویر اصل کیوں نہیں دکھائی جاتی اور جو دکھائی جاتی ہے وہ مکمل کیوں نہیں دکھائی جاتی؟اور مکمل تصویر میں مزدور سامان اٹھا رہے ہیں جن کی مدد کو رکنِ پارلیمان ڈیوڈ کیمرون موجود ہیں اور ایک کیمرہ مین بھی ٹہلتا ٹہلتا یہ تصویر لے لیتا اور اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔


ایسی پبلسٹی کس سیاستدان کو نہیں چاہیے؟ اور اگر سینئر صحافی بھی بغیر تصدیق کے ایسی چیزیں آگے چلائیں گے تو باقی عام سوشل میڈیا کے صارفین پر کوئی کیا تبصرہ کرے؟ کیا دکھ کا اظہار کافی ہے؟دہشت گردی کا واقعہ، بریکنگ نیوز، مزید تفصیلات، بچ جانے والوں کی تلاش، دہشت گرد مل گیا یا نہیں ملا، سرچ آپریشن جاری، سوشل میڈیا کھنگالنے کا عمل، ہیش ٹیگز، ٹرینڈز، اس دوران مذمت، شدید مذمت۔ جگہ کی مناسبت سے فیس بُک کی خصوصی سہولیات اور اگلے واقعے تک سب نارمل اور پھر یہی سب دوبارہ دہرائے جانے کا عمل۔فرانس میں ہونے والے واقعے کے بعد نیوز روم میں اور سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے یہ بات کی کہ یہ گھناؤنا چکر کب ختم ہو گا؟ مصنف پاؤلو کوئلو نے ہم سب کے مشترکہ پریشانی پر ہی ٹویٹ کی کہ ’کیا دعا کافی ہے؟ مجھے نہیں پتا مگر میرے پاس کرنے کے لیے اس کے علاوہ کیا ہے؟ خدایا تو ہمیں ہمت دے۔‘ ریاض منٹی نے لکھا کہ دنیا کے موجودہ سٹیٹس (فیس بُک کا سٹیٹس) کی حالت کچھ یوں ہے۔ #_____________#دعاکریں_____ کسے فالو کریں اس ہفتے ٹوئٹر کی دنیا کے ایک نوجوان عبداللہ سعد سے آپ کا تعارف کرواتے ہیں جو کرسڈ کے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں۔ عبداللہ دفاعی امور خصوصاً اس کی تکنیکی سائیڈ کے حوالے سے نہ صرف معلومات رکھتے ہیں بلکہ انھیں سب کے ساتھ گاہے بگاہے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور ایئروسپیس کے حوالے سے اُن کی ٹویٹس بہت معلوماتی اور دلچسپی سے بھرپور ہوتی ہیں۔
مصر سے تعلق رکھنے والے نادر الشافعی نیس میں حملے کے مقام پر موجود تھے اور حملہ آور کا ٹرک ان کے انتہائی قریب آ کر رک گیا تھا۔ اس وقت کا منظر نادر کی زبانی۔ ’آتش بازی کا مظاہرہ ختم ہوا ہی تھا اور سب ہی لوگ ساحل کے قریب جمع تھے۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا جو فرانس کے قومی دن کے جشن سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ٭ فرانس ایک مرتبہ پھر نشانہ: لائیو اپ ڈیٹس ٭ نیس میں ٹرک سے ہجوم پر حملہ: تصاویر پانچ منٹ بعد جب لوگ ساحل سے متصل سڑک پر جمع ہوئے تو اچانک ہم نے زوردار چیخیں سنیں۔ مجھے ایک ٹرک اپنی جانب آتا دکھائی دیا۔ میں سڑک پر ٹرک کے بالکل سامنے تھا اور میں نے بہت سے لوگوں کو ٹرک کے نیچے کچلی ہوئی حالت میں دیکھا۔ ٹرک مجھ سے تقریباً ایک میٹر کی دوری پر رک گیا۔ میں اسے(حملہ آور) کو شیشے میں سے دیکھ سکتا تھا۔ آغاز میں میں سمجھا کہ یہ کوئی حادثہ ہے اور ٹرک بے قابو ہو کر لوگوں پر چڑھ گیا ہے اس لیے میں اس پر چیختا رہا کہ وہ رک جائے کیونکہ لوگ اس کی گاڑی کے نیچے ہیں۔ لیکن وہ کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ بس ٹرک کے اندر متحرک تھا اور کچھ پریشان مگر جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو

۔ اس کے ہاتھ سٹیرنگ وہیل پر تھے۔ مجھے لگا کہ وہ ٹرک کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس نے کچھ اٹھایا، مجھے وہ موبائل فون جیسا لگا اور میں سمجھا شاید وہ ایمبولنس کو فون کر رہا ہے۔ اچانک میرے پیچھے سے پولیس والے آئے اور میں نے ڈرائیور کو پستول نکالتے اور شیشے کے پار گولیاں چلاتے دیکھا۔ اس وقت پولیس نے مجھے دھکا دیا اور بھاگ جانے کو کہا۔ وہ بار بار کہتے رہے، یہاں سے نکل جاؤ اور میں وہاں سے قریباً چار میٹر پیچھے آ گیا۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور فائرنگ کی ویڈیو بنانے لگا۔ میں بھاگ نہیں سکا جیسے میں منجمد ہو گیا تھا۔ میں نے اس شخص کی ہلاکت تک کے سارے واقعے کی فلم بندی کی۔ پولیس افسر نے مجھے فلم بناتے دیکھا اور چیختا ہوا میرے پاس آیا اور بولا یہاں سے دور چلے جاؤ۔ میں نیچے لیٹ گیا کیونکہ وہاں نیچے لیٹ جاؤ، نیچے لیٹ جاؤ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ میں لیٹ تو گیا لیکن ویڈیو بناتا رہا۔ چنانچہ جب وہ دوبارہ آیا تو سیدھا میری جانب ہی آیا اور مجھ سمیت ساحل پر موجود تمام افراد کو بھاگ جانے کو کہا۔ میرے خیال میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ٹرک میں بم ہو سکتا ہے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ صورتحال خاصی تشویش ناک ہے اور میں دیگر افراد کے ہمراہ ساحل پر دوڑنے لگا۔‘
انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سی مہنگی قمیضوں میں سے ایک سونے کی قمیض پہننے والے انڈین شہری کو مبینہ طور پر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ دتّہ پھوگے نامی یہ شخص سنہ 2003 میں اس وقت مشہور ہوئے جب انھوں نے سونے سے بنی تین کلو گرام وزنی قمیض پہنی تھی جس کی قیمت ڈھائی لاکھ ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ ملک کے مغربی شہر پونے سے وابستہ دتّہ پھوگے کو ’سونے کا آدمی‘ کہا جاتا تھا۔ چار افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ دتّہ پھوگے کو کسی جھگڑے کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو 12 افراد نے 48 سالہ دتّہ پھوگے پر حملہ کر کہ انھیں قتل کر دیا۔


 ملزمان میں سے ایک نے دتّہ پھوگے اور ان کے 22 سالہ بیٹے کو دِغی کے علاقے میں واقع ایک کھلی جگہ پر کسی کی سالگرہ میں شرکت کرنے کے لیے دعوت دی تھی جہاں پر پھر ان پر پتھروں اور ایک تیز ہتھیار سے وار کیے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دتّہ پھوگے کے بیٹے نے اپنے والد کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا لیکن مبینہ قاتلوں نے انھیں چھوڑ دیا۔ دتّہ پھوگے اکثر سونے کی انگوٹھیاں، ہار اور کڑے پہنتے تھے۔ انھوں نے سنہ 2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنا سونا کیوں پہنتا ہوں لیکن یہ میری خواہش تھی۔ کچھ امیر لوگ بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں، میں نے سونا چنا۔‘
فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رات 11 بجے ہونے والے حملے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ فرانس کے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والے ٹرک کا ڈرائیور ایک مقامی شخص محمد لحوائج بوہلال تھا۔ ٹرک ڈرائیور ہجوم کے اندر دو کلومیٹر تک لوگوں کو کچلتا ہوا چلا گیا اور اطلاعات کے مطابق اس نے فائرنگ بھی کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے ٹرک ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے اور ٹرک سے انھیں دستی بم اور اسلحہ ملا ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے اس واقعے پر سنیچر سے تین روزہ قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ہےفرانس کے پراسیکیورٹر جنرل نے نیس میں حملہ کرنے والے ٹرک ڈرائیور محمد لحوائج بوہلال کے بارے میں مزید تفصیلات بتائی ہیں۔ محمد لحوائج بوہلال تین جنوری 1975 کو تیونس میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس نیس کا ڈومیسائل ہے۔ وہ ڈرائیور ہیں اور سامان کی منتقلی کا کام کرتے تھے۔ محمد لحوائج بوہلال کی شادی ہوئی تھی اور بچے بھی ہیں۔ محمد لحوائج بوہلال کی سابقہ بیوی کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ پولیس محمد لحوائج بوہلال کو 2010 اور 2016 کے درمیان خطرات، تشدد، چوری کے معمولی واقعات پر پہلے سے جانتی تھی۔ انھیں اسلحے کے ذریعے تشدد کے الزام میں 24 مارچ 2016 کو عدالت نے چھ ماہ کی رضاکارانہ سزا سنائی تھی۔ خفیہ سروس نہیں جانتی تھی کہ وہ شدت پسندی کی جانب مائل ہو چکے ہیں۔ تحقیقات کے دوران ان کے موبائل فون اور ٹرک سے ڈیجیٹل مواد برآمد ہوا ہے۔اس فلیٹ سے شواہد لے کر جا رہے ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ نیس میں حملہ کرنے والے ٹرک ڈرائیور کا ہے۔فلیٹ کی ایک کھڑکی کی تصویر جہاں اطلاعات کے مطابق نیس میں حملہ کرنے والا ٹرک ڈرائیور رہائش پذیر تھا۔نیس حملے کے ایک عینی شاہد اے کے نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرک ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور تقریباً 10 میٹر دور ہی تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسری جانب کود گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہاں ہر طرف خونریزی تھی، مکمل خونریزی تھی اور میں نے گولیاں چلنے کی آواز بھی سنی۔‘حملہ آور کے بارے میں مزید تفصیلات‘ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والا ٹرک ڈرائیور مقامی میڈیا کے مطابق 31 سالہ محمد لحوائج بوہلال تھا۔تیونس کے سکیورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ محمد لحوائجکی کا تعلق جس خاندان سے ہے وہ تیونس کے سیاحتی شہر سوسہ کے نزدیک واقع شہر ماسکن میں رہائش پذیر ہے۔ محمد لحوائجکی کے والدین کی طلاق ہو گئی تھی اور وہ فرانس میں رہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محمد لحوائجکی متعدد بار تیونس جا چکے ہیں اور آخری بار آٹھ ماہ پہلے گئے تھے۔


محمد لحوائجکی شادی شدہ تھے اور ان کے تین بچے ہیں۔ تیونس کے حکام یہ نہیں جانتے کہ محمد لحوائجکی تیونس میں پہلے کبھی شدت پسند سرگرمی میں ملوث رہے ہیں کہ نہیں تاہم حکام انھیں منشیات اور شراب سے متعلق جرائم کے حوالے سے جانتے تھے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے نیس حملے پر ماسکو میں فرانسیسی سفارت خانے جا کر تعزیت کی ہے۔ جان کیری اور سرگئی لاوروف نے ماسکو میں فرانس کے سفارت خانے کی عمارت کے سامنے پھول رکھے اور سفارت خانے میں رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنا پیغام لکھا۔اس سے پہلے شام کے مسئلے پر بات چیت شروع ہونے سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ فرانس کے اخبار لا فگارو کے مطابق نیس جس جگہ حملہ کیا گیا وہاں اس وقت 30 ہزار افراد موجود تھے۔ شہر کی انتظامیہ کے مطابق اگلے نوٹس تک علاقہ شہریوں کے لیے بند رہے گا۔ نیس میں ایک ہسپتال کے عملے کے مطابق 50 کے قریب زخمی بچوں اور نوجوانوں کو طبی امداد فراہم کی گئی جبکہ دو نوجوان سرجری کے دوران دم توڑ گئے۔ہسپتال کے ایک ترجمان کے مطابق ہسپتال کے متعدد ارکان حملے میں زخمی ہونے والے افراد کو جانتے ہیں اور اس وقت ہسپتال میں ماحول کافی جذباتی ہے۔
Powered by Blogger.