انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سی مہنگی قمیضوں میں سے ایک سونے کی قمیض پہننے والے انڈین شہری کو مبینہ طور پر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ دتّہ پھوگے نامی یہ شخص سنہ 2003 میں اس وقت مشہور ہوئے جب انھوں نے سونے سے بنی تین کلو گرام وزنی قمیض پہنی تھی جس کی قیمت ڈھائی لاکھ ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ ملک کے مغربی شہر پونے سے وابستہ دتّہ پھوگے کو ’سونے کا آدمی‘ کہا جاتا تھا۔ چار افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ دتّہ پھوگے کو کسی جھگڑے کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو 12 افراد نے 48 سالہ دتّہ پھوگے پر حملہ کر کہ انھیں قتل کر دیا۔


 ملزمان میں سے ایک نے دتّہ پھوگے اور ان کے 22 سالہ بیٹے کو دِغی کے علاقے میں واقع ایک کھلی جگہ پر کسی کی سالگرہ میں شرکت کرنے کے لیے دعوت دی تھی جہاں پر پھر ان پر پتھروں اور ایک تیز ہتھیار سے وار کیے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دتّہ پھوگے کے بیٹے نے اپنے والد کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا لیکن مبینہ قاتلوں نے انھیں چھوڑ دیا۔ دتّہ پھوگے اکثر سونے کی انگوٹھیاں، ہار اور کڑے پہنتے تھے۔ انھوں نے سنہ 2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنا سونا کیوں پہنتا ہوں لیکن یہ میری خواہش تھی۔ کچھ امیر لوگ بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں، میں نے سونا چنا۔‘
فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رات 11 بجے ہونے والے حملے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ فرانس کے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والے ٹرک کا ڈرائیور ایک مقامی شخص محمد لحوائج بوہلال تھا۔ ٹرک ڈرائیور ہجوم کے اندر دو کلومیٹر تک لوگوں کو کچلتا ہوا چلا گیا اور اطلاعات کے مطابق اس نے فائرنگ بھی کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے ٹرک ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے اور ٹرک سے انھیں دستی بم اور اسلحہ ملا ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے اس واقعے پر سنیچر سے تین روزہ قومی سوگ منانے کا اعلان کیا ہےفرانس کے پراسیکیورٹر جنرل نے نیس میں حملہ کرنے والے ٹرک ڈرائیور محمد لحوائج بوہلال کے بارے میں مزید تفصیلات بتائی ہیں۔ محمد لحوائج بوہلال تین جنوری 1975 کو تیونس میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس نیس کا ڈومیسائل ہے۔ وہ ڈرائیور ہیں اور سامان کی منتقلی کا کام کرتے تھے۔ محمد لحوائج بوہلال کی شادی ہوئی تھی اور بچے بھی ہیں۔ محمد لحوائج بوہلال کی سابقہ بیوی کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ پولیس محمد لحوائج بوہلال کو 2010 اور 2016 کے درمیان خطرات، تشدد، چوری کے معمولی واقعات پر پہلے سے جانتی تھی۔ انھیں اسلحے کے ذریعے تشدد کے الزام میں 24 مارچ 2016 کو عدالت نے چھ ماہ کی رضاکارانہ سزا سنائی تھی۔ خفیہ سروس نہیں جانتی تھی کہ وہ شدت پسندی کی جانب مائل ہو چکے ہیں۔ تحقیقات کے دوران ان کے موبائل فون اور ٹرک سے ڈیجیٹل مواد برآمد ہوا ہے۔اس فلیٹ سے شواہد لے کر جا رہے ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ نیس میں حملہ کرنے والے ٹرک ڈرائیور کا ہے۔فلیٹ کی ایک کھڑکی کی تصویر جہاں اطلاعات کے مطابق نیس میں حملہ کرنے والا ٹرک ڈرائیور رہائش پذیر تھا۔نیس حملے کے ایک عینی شاہد اے کے نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرک ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور تقریباً 10 میٹر دور ہی تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ دوسری جانب کود گئے۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہاں ہر طرف خونریزی تھی، مکمل خونریزی تھی اور میں نے گولیاں چلنے کی آواز بھی سنی۔‘حملہ آور کے بارے میں مزید تفصیلات‘ نیس میں درجنوں افراد کو روندنے والا ٹرک ڈرائیور مقامی میڈیا کے مطابق 31 سالہ محمد لحوائج بوہلال تھا۔تیونس کے سکیورٹی ذرائع نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ محمد لحوائجکی کا تعلق جس خاندان سے ہے وہ تیونس کے سیاحتی شہر سوسہ کے نزدیک واقع شہر ماسکن میں رہائش پذیر ہے۔ محمد لحوائجکی کے والدین کی طلاق ہو گئی تھی اور وہ فرانس میں رہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محمد لحوائجکی متعدد بار تیونس جا چکے ہیں اور آخری بار آٹھ ماہ پہلے گئے تھے۔


محمد لحوائجکی شادی شدہ تھے اور ان کے تین بچے ہیں۔ تیونس کے حکام یہ نہیں جانتے کہ محمد لحوائجکی تیونس میں پہلے کبھی شدت پسند سرگرمی میں ملوث رہے ہیں کہ نہیں تاہم حکام انھیں منشیات اور شراب سے متعلق جرائم کے حوالے سے جانتے تھے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف نے نیس حملے پر ماسکو میں فرانسیسی سفارت خانے جا کر تعزیت کی ہے۔ جان کیری اور سرگئی لاوروف نے ماسکو میں فرانس کے سفارت خانے کی عمارت کے سامنے پھول رکھے اور سفارت خانے میں رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنا پیغام لکھا۔اس سے پہلے شام کے مسئلے پر بات چیت شروع ہونے سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ فرانس کے اخبار لا فگارو کے مطابق نیس جس جگہ حملہ کیا گیا وہاں اس وقت 30 ہزار افراد موجود تھے۔ شہر کی انتظامیہ کے مطابق اگلے نوٹس تک علاقہ شہریوں کے لیے بند رہے گا۔ نیس میں ایک ہسپتال کے عملے کے مطابق 50 کے قریب زخمی بچوں اور نوجوانوں کو طبی امداد فراہم کی گئی جبکہ دو نوجوان سرجری کے دوران دم توڑ گئے۔ہسپتال کے ایک ترجمان کے مطابق ہسپتال کے متعدد ارکان حملے میں زخمی ہونے والے افراد کو جانتے ہیں اور اس وقت ہسپتال میں ماحول کافی جذباتی ہے۔
جب ایک مسلح ڈاکو نیوزی لینڈ میں سید احمد کا ریستوران لوٹنے کے لیے گھس آیا تو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ مالک اسے بالکل نظر انداز کرے گا۔ کرائسٹ چرچ کے علاقے میں’ایجپشن کباب ہاؤس‘ نامی ریستوران کے مالک سید احمد اس وقت بالکل پر سکون رہے جب مسلح شخص نے اس سے رقم طلب کی۔ ریستوران کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے سے کھینچی گئی ویڈیو فوٹیج میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکو مالک سے پیسے مانگنے کی کوشش رہا ہے لیکن مالک اسے بڑے آرام سے نظر انداز کر کے ایک گاہک کا آرڈر اسے تھیلے میں ڈال کر دے رہا ہے۔ احمد نے کہا: ’وہ میری

دکان میں بندوق لے کر آیا اور کہا کہ پیسے دو۔ میں ہیرو نہیں ہوں، بس میں پر سکون رہا اور اسے اس کی توقع نہیں تھی۔ میں ایک تاجر ہوں اور میری ترجیح اپنا آرڈر پورا کرنا تھی۔انھوں نے مزید کہا: ’جب گاہک گیا تو میں نے باورچی خانے میں جا کر پولیس کو فون کیا۔ میں نے انھیں بھی بتایا اور انھیں یقین ہی نہیں آیا۔‘ کینٹربری پولیس نے مئی میں اپنے فیس بک صفحے پر واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج شائع کی جسے اب تک ایک لاکھ 70 ہزار بار دیکھا اور 750 مرتبہ شیئر کیا گیا ہے۔ سید احمد کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج نے انھیں مقامی سیلیبرٹی بنا دیا ہے جبکہ پولیس کے مطابق ڈاکو کی تلاش ابھی جاری ہے۔
اکیلے چھٹیاں منانے کی اپنی پیچیدگیاں ہیں اور یہ مزید پیچیدہ اس وقت ہو جاتی ہیں جب آپ نے انھیں اصل میں کسی کے ساتھ منانے کا منصوبہ بنایا ہو۔ اور کیا ہو اگر یہ سفر آپ کا ہنی مون ہو، اور کسی مسئلے کی وجہ سے آپ کے شوہر آپ کے ساتھ نہ جا سکتے ہوں، تو نئی شادی شدہ دلھن کیا کرے؟ تو کیوں نہ ہر اس جگہ کی جہاں دلھن نے اپنے شوہر کے ساتھ جانا تھا، ایک تصویر لی جائے اور وہ بھی ایسے جیسے اس نے اپنے شوہر کو بانھوں میں لے رکھا ہو، لیکن ساتھ ساتھ اس کی جدائی میں چہرہ افسردہ بنایا جائے؟ہما مبین اور ارسلان سیور کی شادی اس سال کے آغاز میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے ہنی منی مون پر یونان جانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن یونان کی باڈر ایجنسی کا کچھ اور ہی منصوبہ تھا۔ انھوں نے ارسلان کو ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس سے پہلے انھوں سیر کے پیکج کے لیے پیسے جمع کرا دیے تھے۔ تو پھر ہما اپنے شوہر کے والدین کے ساتھ ارسلان کے بغیر ہی چلی گئی۔ دراصل ان غیر روایتی تصاویر کا خیال ایک سال پہلے ارسلان کو اس وقت آیا تھا جب ان کی منگنی کے فوراً بعد ارسلان کو کام کے سلسلے میں بوداپیسٹ جانا پڑا تھا۔ انھوں نے وہاں سے ناک چڑھا کر اور بانھیں پھیلا کر اپنی ایک تصویر بھیجی تھی جس میں یہ دکھایا تھا کہ وہ ہما کو کتنا یاد کر رہے ہیں۔ ہما نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام آؤٹ سائیڈ سورس کو بتایا کہ ’جب بھی ہم میں سے کوئی اکیلا سفر کرتا ہے، ہم یہ کرتے ہیں۔ ہم دکھا سکتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو مِس کر رہے ہیں۔

‘ یہ تصاویر ارسلان کے والدین نے کھینچیں۔ ہما کا کہنا ہے کہ اس کی اپنی ساس سے اچھی دوستی ہے، اتنی اچھی کہ دونوں رات کے وقت سینٹورینی کے بارز میں اکٹھی جایا کرتی تھیں۔لیکن ہما کہتی ہیں کہ اس کے باوجود انھوں نے اپنے شوہر کو بہت مس کیا۔ ’وہ پارٹی کی جان ہیں، اور میرے قریبی دوست۔ میں ان کے بغیر نہ جاتی لیکن انھوں نے مجھے جانے پر مجبور کیا۔‘ ان کا کہنا ہے: ’پہلی رات میں اپنی ساس کے کاندھے پر سر رکھ کے بہت روئی۔ انھوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا اور کہا کہ میں جتنا ہو سکے اس سفر سے لطف اندوز ہوں۔ لاہور میں ارسلان کا خیال اس کے دوستوں نے رکھا۔‘ چھٹیاں گزارنے کے لیے آئے ہوئے دوسرے لوگوں کا ان کے متعلق کیا خیال تھا جب وہ کسی تصوراتی شخصیت کے گرد بانھیں ڈال کر تصویر کھنچواتی تھیں؟ ’لوگ اپنی اپنی سلفیوں میں اس قدر مشغول ہوتے تھے کہ میں بڑے آرام سے یہ کر لیتی تھی۔‘ ہما کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ اب وہ لاہور میں ارسلان کے ساتھ ہیں اور امید کرتی ہیں کہ اپنی شادی کی پہلی سالگرہ پر وہ دونوں اکٹھے کہیں جا سکیں گے۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی تاریخی عمارت جنتر منتر پر سارا سال مظاہروں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ یہ دہلی کا ہائیڈ پارک ہے۔ جسے حکومت سے کوئی شکایت ہو، اور شنوائی نہ ہو رہی ہو، تو وہ جنتر منتر کا ہی رخ کرتا ہے۔ شاید اس امید میں کہ قریب ہی واقع پارلیمان تک اس اس کی آواز پہنچ جائے گی۔ ٭ ہلاکتوں میں مزید اضافہ، یومِ شہدا پر احتجاج کی کال ٭ ’سیاح کشمیر میں رہنے اور آنے سے ڈرتے ہیں‘ بدھ کی دوپہر وہاں کشمیر کی موجودہ صورت حال کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ کشمیرمیں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وہاں 35 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور وادی کے زیادہ تر علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ مظاہرے کی اپیل انسانی اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کی تھی اور خاموش مارچ میں شرکت کے لیے پہنچنے والے زیادہ تر چہرے جانے پہچانے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور اکثر جنتر منتر پہنچ کر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ بہرحال، کچھ تقاریر ہوئیں اور کچھ مشورے دیے گئے۔دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالب علم رہنما شہلا رشید نے کہا کہ برہان وانی کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا، پھر ان پر مقدمہ چلتا اور عدالت جو مناسب سمجھتی، انھیں وہ سزا دیتی۔ قریب ہی کھڑے ایک صحافی نے کہا کہ ’میڈم وہاں مسلح تحریک چل رہی ہے۔۔۔‘ شہری حقوق کی علم بردار کویتا کرشنن نے کہا کہ حکومت کشمیر میں باقی ملک سے مختلف پالیسیاں اختیار کرتی ہے۔ ’جب ہریانہ میں پر تشدد مظاہرے ہو رہے تھے تو پولیس کی گولیوں سے کتنے لوگ مارے گئے تھے؟‘ مظاہرے میں بنیادی طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر سے وہ قانون ہٹایا جائے جس کے تحت وہاں مسلح افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں


، اور حکومت مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کرے۔ لیکن یہ بات چیت پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکی ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ مظاہرے میں صرف دو تین کشمیری نوجوان ہی شریک تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ’ہم انڈیا سے نہیں حکومت کی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘ایک اور کشمیری نوجوان نے کہا کہ امن کی اپیلوں سے کچھ نہیں ہوتا، وزیر اعظم کو خاموشی توڑنی چاہیے اور کشمیر کے مسئلے کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر لایا جانا چاہیے۔ کسی نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ برہان وانی جزب المجاہدین کے کمانڈر تھے، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ لوگ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکتے، یا ان کے گھر والوں کے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتے۔ مظاہرے کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے بھی وہاں کچھ نوجوان موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ فوج اور حکومت کی حمایت میں وہاں آئے تھے۔ انھوں نے ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’اس دیش میں آزادی نہ ہوتی تو یہ لوگ یہاں آ کر دیش کے خلاف باتیں کرنے کی ہمت نہ کرتے۔‘ کشمیر پر کوئی بحث ہو تو وہ کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فریقین اپنے موقف میں ذرا بھی نرمی دکھانے کو تیار نہیں۔ یہی شاید اس مسئلے کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کراچی میں جمعے کی شب انتقال کر جانے والے فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کو کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے، جہاں ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے ان کے جسدِ خاکی کو لحد میں اتارا۔ فیصل ایدھی نے جمعے کو بتایا تھا کہ عبدالستار ایدھی نے 25 سال قبل ایدھی ویلج میں اپنی قبر تیار کی تھی۔ اس سے قبل عبدالستار ایدھی کی نمازِ جنازہ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں اعلیٰ شخصیات کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد جمعے کی شب 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ٭ ایدھی کا انتقال: ایک روزہ سوگ، جنازہ سرکاری سطح پر ٭ ’دو فقیر مل گئے تو خدا نے بادشاہ بنا دیا‘ ٭ ایدھی نے بڑی مشکل میں ڈال دیا ٭ عبدالستار ایدھی کی زندگی تصاویر میںان کی وفات پر سنیچر کو ملک بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے اور انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا۔ عبدالستار ایدھی کے جسد خاکی کو سنیچر کی صبح سرد خانے سے میٹھا در میں واقع اُن کی رہائش گاہ منتقل کیا گیا جہاں غسل کے بعد قومی پرچم میں لپٹی ان کی میّت توپ گاڑی پر رکھ کر نیشنل سٹیڈیم لے جائی گئی۔ نمازِ جنازہ کے بعد پاکستانی فوج کے دستے نے ایدھی کو گارڈ آف آنر پیش کیا جبکہ ان کی میت کو 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے صدرِ پاکستان ممنون حسین، مسلح افواج کے سربراہان، اعلیٰ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے رہنما نیشنل سٹیڈیم پہنچے جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے

۔نامہ نگار کا کہنا ہے کہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی جنازے میں شریک ہوئی اور نماز سے قبل شہریوں کے لیے مخصوص دروازوں پر طویل قطاریں دیکھی جا سکتی تھیں۔ پاکستانی بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایدھی کا جنازہ بحریہ کے خصوصی دستے نے نیشنل سٹیڈیم سے ایدھی ولیج منتقل کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق نمازِ جنازہ سے قبل علاقے کی سکیورٹی فوج اور رینجرز نے سنبھال رکھی تھی جنھیں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ نامہ نگار کے مطابق رینجرز اور سکیورٹی حکام سٹیڈیم میں داخل ہونے والے ہر فرد کی جامہ تلاشی لیتے رہے جبکہ کمانڈوز بھی تعینات کیے گئے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے صاحب زادے فیصل ایدھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی تھی کہ عبدالستار ایدھی کے جنازے کے لیے سڑکیں بند نہ کی جائیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حال ہی میں ہونے والے تشدد کی لہر کے متعلق یہ کہہ دینا کہ یہ تنازع تو سنہ 1947 سے چلا آرہا ہے بہت آسان سی بات لگتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ایک نئی چیز کو بھی نظر انداز کیا جائے گا جو خطے میں ہونے والے احتجاج کی نوعیت ہی بدل رہی ہے۔ جمعے کو ایک نوجوان شدت پسند رہنما برہان ونی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس تنازعے نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھا لیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی گھنٹوں میں حکام نے علاقے کی موبائل سروسز بند کر دیں۔ موبائل فونز کی سروسز بند کر دینے کی وجہ سمجھنا آسان ہے۔ پوری دنیا میں سمارٹ فونز چھا گئے ہیں۔بھارت میں آپ ایک عام سمارٹ فون 30 ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔ ملک میں سنہ 2011 میں 11 ملین سمارٹ فونز فروخت کیے گئے تھے، گذشتہ سال ان کی فروخت 100 ملین سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس دہائی کے اختتام پر توقع ہے کہ 500 ملین بھارتی شہریوں کے پاس موبائل فونز ہونگے جو ملک کی کل آبادی کی نصف تعداد ہے۔ لیکن کشمیر میں ٹیکنالوجی کا استعمال اس شرح سے بہت زیادہ تیز ہے۔ بھارتی اخبار ’دا ٹیلیگراف‘ نے اپنے صفہ اول پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں ریاست کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کیا گیا ہے جو کشمیر میں ہونے والی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ ملک کی وزارت داخلہ میں پیش ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں عسکریت پسندی میں اضافے کی وجہ سمجھنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی زیادہ بڑھانی چاہیے۔ سنہ 2010 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی میں صرف ایک چوتھائی کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ لیکن سنہ 2014 میں آبادی کا ایک تہائی حصہ سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے۔ اور پھر اس میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیا۔رپورٹ لکھنے والے پولیس افسر کا کہنا ہے کہ 2015 کے اختتام پر کشمیر میں 70 فیصد لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔ برہان ونی کو کشمیر کی وادیوں میں اپنے پیغامات سننے والے کئی تیار ناظرین ملے تھے جو اب یہاں پر ہونے والی بدامنی کی اہم وجہ ہے۔ بہت سے کشمیری شدت پسندوں کی طرح برہان ونی بھی ٹیکنالوجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کے بارے میں شائع کیے جانے والے تقریباً ہر مضمون میں اس بات کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے تھے

۔ یہ خوبصورت نوجوان ایک بالی وڈ کے سٹار کی طرح اپنی تصاویر پوسٹ کیا کرتے تھے جن میں وہ اکثر کشمیر کی وادیوں کے سامنے ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہوئے دکھائے دیتے تھے۔ لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن اور چےگویرا کی تصاویر بھی اسی طرح استعمال کی گئی ہیں۔ کشمیر میں شدت پسندوں نے موبائل فون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ اپنے فونز کے ذریعے کھینچی گئی ویڈیو فٹیج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ کشمیر میں ایک بات بدلی ہے اور وہ یہ ہے کہ اب لوگوں کو فٹیج اور پیغامات بہت آسانی سے ملتے ہیں۔ شاید یہ بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ میں نے ایم ایم انصاری سے بات کی جو بھارت میں کشمیر کی پالیسی دیکھنے والی کابینہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار مرنے والوں کی تعداد تو کم ہے لیکن یہ تنازع زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس بار عسکریت پسندی اپنی ہی زمین میں پیدا ہوئی ہے۔ ان شدت پسندوں میں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بیشتر لوگ یہاں سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے شدت پسندی پاکستان کی جانب سے سپانسر ہوتی تھی۔‘ جہاں تک سکیورٹی اہلکاروں کا سوال ہے یہ رجحان ان کے لیے بہت ہی سنگین صورتِ حال اختیار کر سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ عرب سپرنگ یعنی عرب دنیا میں جمہوریت کی لہر کی طرح کشمیر تنازعے میں بھی سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
Powered by Blogger.